کیا چائلڈ لیبر جرم ہے
ایک دن میں ایک سپر مارکیٹ سے نکلی تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک کم عمر بچہ کھڑا تھا
دس سالہ زینب ایک گھر میں کام کرتی ہے، اس کا گیارہ سالہ بڑا بھائی ایک گیراج میں کام کرتا ہے۔ یعنی وہ چھوٹا کہلاتا ہے جو پلاس اور پانے اٹھا کر استاد کو دیتا ہے۔ حمید ایک دس سالہ بچہ ہے جو مارکیٹوں میں شاپرز فروخت کرتا ہے۔
ایک دن میں ایک سپر مارکیٹ سے نکلی تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک کم عمر بچہ کھڑا تھا، جھٹ سے میرے پاس آگیا اور بولا '' باجی ! سامان اٹھا لوں؟'' سامان کچھ زیادہ نہیں تھا، دو تین شاپرز تھے، لیکن اس بچے کے چہرے کی مایوسی اور معصومیت دیکھ کر میں نے شاپر اس کے حوالے کر دیے۔
ایک دفعہ کوئی پندرہ دن قبل جب میں مارکیٹ میں تھی تو ایک چھوٹا بچہ قریب آیا اور وہی جملہ دہرایا '' باجی! سامان اٹھا لوں ؟ '' میں نے کہا '' نہیں بیٹا! میرا گھر قریب ہی ہے۔'' وہ میرا جواب سن کر جانے ہی والا تھا کہ میں نے اسے آواز دی اور شاپرز اس کے حوالے کر دیے۔
وہ میرے ساتھ اپارٹمنٹ تک آیا تو پتا چلا کہ لائٹ نہیں ہے، لفٹ بند ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ '' اوپر تک چلو گے؟'' اس نے اثبات میں سر ہلایا اور میرے ساتھ اوپر چڑھنے لگا۔
میں نے اسے اندر بلا لیا، پانی پلایا اور پیسے دیے تو مٹھی میں سو روپے کا نوٹ دبا کر اتنا خوش لگ رہا تھا کہ مجھے رحم آگیا، میں نے فریج سے کیلے نکال کر اسے دیے، اس نے فوراً کھا لیے، شاید بھوکا تھا۔ ''تمہارے گھر میں اور کون کون ہے؟'' میں نے پوچھا تو وہ بولا۔ ''ابا ہے، اماں ہے، میری بڑی بہن اور ایک بڑا بھائی ہے۔ ابا بیمار رہتا ہے، اس لیے ہم تینوں بہن بھائی کام کرتے ہیں۔''
'' کیا کام کرتے ہیں تمہارے بہن بھائی؟'' میں نے پوچھا تو وہ بولا۔ ''بہن گھروں میں کام کرتی ہے اور بھائی ایک چائے کے ہوٹل پر کام کرتا ہے۔''
'' تم بہن بھائیوں میں سے کبھی کوئی اسکول گیا ہے؟ '' میں نے پوچھا، تو وہ بولا۔ '' نہیں ، باجی ! ہم کبھی اسکول نہیں گئے۔''
''تم سارا دن یہی کام کرتے ہو، سامان اٹھانے کا؟ ''
''جی!'' اس نے مختصر سا جواب دیا۔ '' تم رہتے کہاں ہو؟ '' میں نے پوچھا۔ '' جمالی پل، سہراب گوٹھ سے آگے۔'' وہ بولا۔ '' اتنی دور سے تم اکیلے آتے ہو؟''
'' نہیں، صبح جب بھائی کام پر جاتا ہے تو مجھے ویگن سے یہاں چھوڑ دیتا ہے اور رات کو دس بجے وہ مجھے مارکیٹ سے لے لیتا ہے، پھر ہم دونوں گھر چلے جاتے ہیں۔'' اس نے بتایا۔ '' تمہارا بھائی تم سے کتنا بڑا ہے؟'' میں نے پوچھا۔ ''دو سال بڑا ہے۔'' اس نے بتایا اور جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔
اتنی دیر میں لائٹ آگئی تھی ، میں نے فریج سے ڈبل روٹی نکال کر اسے دی اور کچھ اور پیسے بھی دیے، اس کا لباس بہت میلا تھا لیکن میرے پاس اس کے ناپ کا کوئی جوڑا نہیں تھا ، میں نے اسے اگلے دن آنے کو کہا، وہ دوسرے دن دوپہر میں میرے پاس آیا تو میں اسے مارکیٹ لے گئی۔ اسے کپڑے اور چپل دلائی، وہ خوش خوش کام پر چلا گیا۔
اور میں سوچنے لگی کہ تعلیم اور روزگار انسان کا بنیادی حق ہے، یہ کام حکومت کا ہے کہ لوگوں کو روزگار مہیا کرے اور مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔
آپ نے جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر لگے دیکھے ہوں گے جن میں جلی حروف میں یہ عبارت لکھی نظر آئے گی ''چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے'' ان عقل کے اندھوں کو ہر بات کے لیے صرف پوسٹر لگانے کا خیال آتا ہے۔ پہلے آپ وہ ذرائع پیدا کیجیے کہ کوئی بچہ اسکول جائے بغیر نہ رہ سکے۔ پھر لوگوں کو روزگار مہیا کیجیے تاکہ وہ کام کریں اور بچے اسکول جاسکیں۔
ابتدا میں زینب کا جو ذکر کیا ہے اس کے گھر میں پانچ بہن بھائی اور ماں باپ ملا کر سات لوگ ہیں، سب سے چھوٹی بہن چار سال کی ہے ، اس لیے ماں کام پر نہیں آسکتی۔ چار بچے کام کرتے ہیں، زینب کا نمبر چوتھا ہے، بڑی دو بہنیں بھی گھروں میں کام کرتی ہیں اور بھائی کسی دکان پر ملازم ہے، زینب کو اسکول جانے کا بہت شوق ہے، لیکن حالات ایسے نہیں کہ وہ پڑھائی کرسکے، یہ وہ غنچے ہیں جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ، ٹیچرز کیا پڑھاتے ہیں اور اپنے شاگردوں سے کس حد تک سنجیدہ ہیں، اندرون سندھ اور بلوچستان میں تو سرکاری اسکول بھینسوں کے باڑے اور اوطاق بنے ہوئے ہیں، ان سیاسی وڈیروں اور جاگیرداروں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں، انھیں صرف الیکشن لڑنا اور لڑانا آتا ہے، ہر طرف سے ان کی پانچوں گھی میں رہتی ہیں، ننھے ننھے بچے سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جو ایک الگ مافیا ہے۔
پورا خاندان پلوں کے نیچے رہائش پذیر ہے، پولیس کو بھتہ دے کر پلوں کے نیچے قبضہ جماتے ہیں، پورے پورے خاندان جو اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے ہیں وہ صبح سے رات تک بس بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے ہی یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ ایک سروے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہے، چوراہوں اور سگنلز کے آس پاس کھڑے پولیس اہل کار کسی بھی گاڑی والے کو یا موٹر سائیکل والوں کو پکڑنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، جس کے پاس کاغذات پورے ہوتے ہیں اس سے بھی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں، رہے رکشے والے اور بسوں، ویگنوں والے تو ان سے باقاعدہ بھتہ لیا جاتا ہے۔
یہ پلوں کے نیچے ڈیرہ جمانے والے لوگ کچھ غیر اخلاقی حرکات بھی سرعام کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن پولیس انھیں کچھ نہیں کہتی، البتہ موٹر بائیک والوں کو کبھی نہیں چھوڑتی۔ ایک بار میں اپنی دوست کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں فیڈرل بی ایریا میں واقع کارڈیو اسپتال کے قریب پہنچے تو دو پولیس اہل کاروں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی رک گئی۔
انھوں نے ڈرائیور کو اتارا اور کاغذات طلب کیے، اس نے پورے کاغذات دکھا دیے تو کہا ''ایسے نہیں جا سکتے، کچھ پیسے نکالو۔'' اس نے ہم سے کہا، میں نے پولیس اہلکار کو قریب بلا کر پوچھا کہ '' جب پورے کاغذات ہیں تو آپ کیوں پیسے مانگ رہے ہیں؟ '' تو وہ ڈھٹائی سے بولا ''میڈم شکر کیجیے کہ تین سو مانگے ہیں ورنہ اگر چالان کردیں اور تیز رفتاری کا پرچہ کاٹ دیں تو آپ کہاں بھٹکیں گی؟'' مجبوراً پیسے دینے پڑے ، لیکن یہی پولیس اہل کار جب کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی گاڑی گزرتی ہے یا ان کی اولادیں سگنلز توڑتی ہیں، ون وہیلنگ کرتی ہیں تو یہ ہاتھ اٹھا کر سلیوٹ کرتے ہیں، ایسے ماحول میں کرپشن کیونکر ختم ہو سکتی ہے۔
جہاں تک چائلڈ لیبر کا تعلق ہے تو سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ بچوں کو اسکول جانا چاہیے نہ کہ دکانوں اور مارکیٹوں میں کام کرنے چاہئیں لیکن یہاں پر کام کے لیے صرف بینر لگے نظر آتے ہیں۔
کیا بینر لگا کر ذمے داری ختم ہو جاتی ہے؟ پھر یہ کہ اگر یہ معصوم بچے محنت نہ کریں تو گھر کا چولہا کیسے جلے؟ بینر لگانے والے کیا ان بچوں کے گھر راشن ڈلوا دیں گے؟ یا انھیں کپڑے دلوا دیں گے؟ ہمارے گھر جو لڑکی کام کرتی ہے وہ اور اس کی تین چھوٹی بہنیں کام کرتی ہیں، کہ باپ بیمار ہے اور چھوٹے بھائی کو ماں سنبھالتی ہے۔
وہ لڑکی ہمیشہ مجھ سے کہتی ہے کہ اس کا دل اسکول جانے کو چاہتا تھا لیکن چھوٹی عمر سے ماں نے کام پر لگا دیا۔ اب وہ حسرت سے کتابوں کو دیکھتی ہے اور روتی ہے۔ ماں باپ بھی آخر کیا کریں؟ غربت کی چکی میں پسنے والوں کو کیا پتا کہ چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے۔
ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ غریب طبقے کو برتھ کنٹرول کے بارے میں بھی آگاہی دینی ضروری ہے۔ غریب طبقے میں بچے زیادہ ہوتے ہیں، انھیں فیملی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ پتا نہیں، ان کی سوچ بڑی عجیب ہوتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دو ہاتھ لے کر آتا ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر بچہ پیٹ ساتھ لے کر آتا ہے، پیدا ہوتے ہی اسے دودھ چاہیے ہوتا ہے۔
جب تک کمانے کے قابل ہوں تب تک ان کا پیٹ روٹی مانگتا رہے گا اور پھر بچے نہ اسکول جاسکتے ہیں نہ مدرسے، بس کوئی ورکشاپ میں چھوٹا بن جاتا ہے اور کوئی مارکیٹ میں لوگوں کے سامان اٹھاتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
ایک دن میں ایک سپر مارکیٹ سے نکلی تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک کم عمر بچہ کھڑا تھا، جھٹ سے میرے پاس آگیا اور بولا '' باجی ! سامان اٹھا لوں؟'' سامان کچھ زیادہ نہیں تھا، دو تین شاپرز تھے، لیکن اس بچے کے چہرے کی مایوسی اور معصومیت دیکھ کر میں نے شاپر اس کے حوالے کر دیے۔
ایک دفعہ کوئی پندرہ دن قبل جب میں مارکیٹ میں تھی تو ایک چھوٹا بچہ قریب آیا اور وہی جملہ دہرایا '' باجی! سامان اٹھا لوں ؟ '' میں نے کہا '' نہیں بیٹا! میرا گھر قریب ہی ہے۔'' وہ میرا جواب سن کر جانے ہی والا تھا کہ میں نے اسے آواز دی اور شاپرز اس کے حوالے کر دیے۔
وہ میرے ساتھ اپارٹمنٹ تک آیا تو پتا چلا کہ لائٹ نہیں ہے، لفٹ بند ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ '' اوپر تک چلو گے؟'' اس نے اثبات میں سر ہلایا اور میرے ساتھ اوپر چڑھنے لگا۔
میں نے اسے اندر بلا لیا، پانی پلایا اور پیسے دیے تو مٹھی میں سو روپے کا نوٹ دبا کر اتنا خوش لگ رہا تھا کہ مجھے رحم آگیا، میں نے فریج سے کیلے نکال کر اسے دیے، اس نے فوراً کھا لیے، شاید بھوکا تھا۔ ''تمہارے گھر میں اور کون کون ہے؟'' میں نے پوچھا تو وہ بولا۔ ''ابا ہے، اماں ہے، میری بڑی بہن اور ایک بڑا بھائی ہے۔ ابا بیمار رہتا ہے، اس لیے ہم تینوں بہن بھائی کام کرتے ہیں۔''
'' کیا کام کرتے ہیں تمہارے بہن بھائی؟'' میں نے پوچھا تو وہ بولا۔ ''بہن گھروں میں کام کرتی ہے اور بھائی ایک چائے کے ہوٹل پر کام کرتا ہے۔''
'' تم بہن بھائیوں میں سے کبھی کوئی اسکول گیا ہے؟ '' میں نے پوچھا، تو وہ بولا۔ '' نہیں ، باجی ! ہم کبھی اسکول نہیں گئے۔''
''تم سارا دن یہی کام کرتے ہو، سامان اٹھانے کا؟ ''
''جی!'' اس نے مختصر سا جواب دیا۔ '' تم رہتے کہاں ہو؟ '' میں نے پوچھا۔ '' جمالی پل، سہراب گوٹھ سے آگے۔'' وہ بولا۔ '' اتنی دور سے تم اکیلے آتے ہو؟''
'' نہیں، صبح جب بھائی کام پر جاتا ہے تو مجھے ویگن سے یہاں چھوڑ دیتا ہے اور رات کو دس بجے وہ مجھے مارکیٹ سے لے لیتا ہے، پھر ہم دونوں گھر چلے جاتے ہیں۔'' اس نے بتایا۔ '' تمہارا بھائی تم سے کتنا بڑا ہے؟'' میں نے پوچھا۔ ''دو سال بڑا ہے۔'' اس نے بتایا اور جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔
اتنی دیر میں لائٹ آگئی تھی ، میں نے فریج سے ڈبل روٹی نکال کر اسے دی اور کچھ اور پیسے بھی دیے، اس کا لباس بہت میلا تھا لیکن میرے پاس اس کے ناپ کا کوئی جوڑا نہیں تھا ، میں نے اسے اگلے دن آنے کو کہا، وہ دوسرے دن دوپہر میں میرے پاس آیا تو میں اسے مارکیٹ لے گئی۔ اسے کپڑے اور چپل دلائی، وہ خوش خوش کام پر چلا گیا۔
اور میں سوچنے لگی کہ تعلیم اور روزگار انسان کا بنیادی حق ہے، یہ کام حکومت کا ہے کہ لوگوں کو روزگار مہیا کرے اور مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔
آپ نے جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر لگے دیکھے ہوں گے جن میں جلی حروف میں یہ عبارت لکھی نظر آئے گی ''چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے'' ان عقل کے اندھوں کو ہر بات کے لیے صرف پوسٹر لگانے کا خیال آتا ہے۔ پہلے آپ وہ ذرائع پیدا کیجیے کہ کوئی بچہ اسکول جائے بغیر نہ رہ سکے۔ پھر لوگوں کو روزگار مہیا کیجیے تاکہ وہ کام کریں اور بچے اسکول جاسکیں۔
ابتدا میں زینب کا جو ذکر کیا ہے اس کے گھر میں پانچ بہن بھائی اور ماں باپ ملا کر سات لوگ ہیں، سب سے چھوٹی بہن چار سال کی ہے ، اس لیے ماں کام پر نہیں آسکتی۔ چار بچے کام کرتے ہیں، زینب کا نمبر چوتھا ہے، بڑی دو بہنیں بھی گھروں میں کام کرتی ہیں اور بھائی کسی دکان پر ملازم ہے، زینب کو اسکول جانے کا بہت شوق ہے، لیکن حالات ایسے نہیں کہ وہ پڑھائی کرسکے، یہ وہ غنچے ہیں جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ، ٹیچرز کیا پڑھاتے ہیں اور اپنے شاگردوں سے کس حد تک سنجیدہ ہیں، اندرون سندھ اور بلوچستان میں تو سرکاری اسکول بھینسوں کے باڑے اور اوطاق بنے ہوئے ہیں، ان سیاسی وڈیروں اور جاگیرداروں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں، انھیں صرف الیکشن لڑنا اور لڑانا آتا ہے، ہر طرف سے ان کی پانچوں گھی میں رہتی ہیں، ننھے ننھے بچے سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جو ایک الگ مافیا ہے۔
پورا خاندان پلوں کے نیچے رہائش پذیر ہے، پولیس کو بھتہ دے کر پلوں کے نیچے قبضہ جماتے ہیں، پورے پورے خاندان جو اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے ہیں وہ صبح سے رات تک بس بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے ہی یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ ایک سروے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہے، چوراہوں اور سگنلز کے آس پاس کھڑے پولیس اہل کار کسی بھی گاڑی والے کو یا موٹر سائیکل والوں کو پکڑنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، جس کے پاس کاغذات پورے ہوتے ہیں اس سے بھی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں، رہے رکشے والے اور بسوں، ویگنوں والے تو ان سے باقاعدہ بھتہ لیا جاتا ہے۔
یہ پلوں کے نیچے ڈیرہ جمانے والے لوگ کچھ غیر اخلاقی حرکات بھی سرعام کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن پولیس انھیں کچھ نہیں کہتی، البتہ موٹر بائیک والوں کو کبھی نہیں چھوڑتی۔ ایک بار میں اپنی دوست کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں فیڈرل بی ایریا میں واقع کارڈیو اسپتال کے قریب پہنچے تو دو پولیس اہل کاروں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی رک گئی۔
انھوں نے ڈرائیور کو اتارا اور کاغذات طلب کیے، اس نے پورے کاغذات دکھا دیے تو کہا ''ایسے نہیں جا سکتے، کچھ پیسے نکالو۔'' اس نے ہم سے کہا، میں نے پولیس اہلکار کو قریب بلا کر پوچھا کہ '' جب پورے کاغذات ہیں تو آپ کیوں پیسے مانگ رہے ہیں؟ '' تو وہ ڈھٹائی سے بولا ''میڈم شکر کیجیے کہ تین سو مانگے ہیں ورنہ اگر چالان کردیں اور تیز رفتاری کا پرچہ کاٹ دیں تو آپ کہاں بھٹکیں گی؟'' مجبوراً پیسے دینے پڑے ، لیکن یہی پولیس اہل کار جب کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی گاڑی گزرتی ہے یا ان کی اولادیں سگنلز توڑتی ہیں، ون وہیلنگ کرتی ہیں تو یہ ہاتھ اٹھا کر سلیوٹ کرتے ہیں، ایسے ماحول میں کرپشن کیونکر ختم ہو سکتی ہے۔
جہاں تک چائلڈ لیبر کا تعلق ہے تو سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ بچوں کو اسکول جانا چاہیے نہ کہ دکانوں اور مارکیٹوں میں کام کرنے چاہئیں لیکن یہاں پر کام کے لیے صرف بینر لگے نظر آتے ہیں۔
کیا بینر لگا کر ذمے داری ختم ہو جاتی ہے؟ پھر یہ کہ اگر یہ معصوم بچے محنت نہ کریں تو گھر کا چولہا کیسے جلے؟ بینر لگانے والے کیا ان بچوں کے گھر راشن ڈلوا دیں گے؟ یا انھیں کپڑے دلوا دیں گے؟ ہمارے گھر جو لڑکی کام کرتی ہے وہ اور اس کی تین چھوٹی بہنیں کام کرتی ہیں، کہ باپ بیمار ہے اور چھوٹے بھائی کو ماں سنبھالتی ہے۔
وہ لڑکی ہمیشہ مجھ سے کہتی ہے کہ اس کا دل اسکول جانے کو چاہتا تھا لیکن چھوٹی عمر سے ماں نے کام پر لگا دیا۔ اب وہ حسرت سے کتابوں کو دیکھتی ہے اور روتی ہے۔ ماں باپ بھی آخر کیا کریں؟ غربت کی چکی میں پسنے والوں کو کیا پتا کہ چائلڈ لیبر قانوناً جرم ہے۔
ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ غریب طبقے کو برتھ کنٹرول کے بارے میں بھی آگاہی دینی ضروری ہے۔ غریب طبقے میں بچے زیادہ ہوتے ہیں، انھیں فیملی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ پتا نہیں، ان کی سوچ بڑی عجیب ہوتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دو ہاتھ لے کر آتا ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر بچہ پیٹ ساتھ لے کر آتا ہے، پیدا ہوتے ہی اسے دودھ چاہیے ہوتا ہے۔
جب تک کمانے کے قابل ہوں تب تک ان کا پیٹ روٹی مانگتا رہے گا اور پھر بچے نہ اسکول جاسکتے ہیں نہ مدرسے، بس کوئی ورکشاپ میں چھوٹا بن جاتا ہے اور کوئی مارکیٹ میں لوگوں کے سامان اٹھاتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔