محترمہ مریم نواز کی واپسی انقلابِ نَو کی نوید
نواز شریف کو بھی واپس پاکستان آنا تھا لیکن اِس کے امکانات نظر نہیں آ رہے
پنجاب کے نوجوان، دلیر اور نگران وزیر اعلیٰ ، جناب محسن رضا نقوی ، کی سخت مخالفت کرتی پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کو جو چند حرفی مسکت جواب محترمہ مریم نواز شریف نے دیا ہے، اِس کا شائد کوئی جواب نہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر، فواد چوہدری، کو جس طرح اور جس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور ڈالر جس طرح قابو سے باہر ہو کر قیامتیں ڈھا رہا ہے۔ ان حالات میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف لندن سے کل مورخہ 28جنوری کو پاکستان واپس آ رہی ہیں۔ خوش آمدید۔
کوئی چار ماہ قبل محترمہ مریم نواز کو جونہی عدالت سے ضبط شدہ پاسپورٹ ملا، وہ فوراً لندن چلی گئی تھیں جہاں اُنہیں خاصے عرسے بعد اپنے والدِ گرامی سے بھی ملنا تھا اور اپنی صحت کے کچھ معاملات بھی درست کرنا تھے۔ جب وہ لندن روانہ ہُوئی تھیں، پاکستان میں نون لیگ کو اُن کی اشد ضرورت تھی کہ کئی جگہوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے تھے۔ محترمہ مریم نواز مگر اِن ضروری سیاسی و انتخابی معاملات کی پروا نہ کرتے ہُوئے لندن چلی گئی تھیں۔ پنجاب میں اُن کی غیر حاضری کا نتیجہ یہ نکلا کہ نون لیگ سبھی حلقوں سے ہار گئی اور عمران خان، ہر جگہ سے کامیاب رہے۔
نواز شریف کو بھی واپس پاکستان آنا تھا لیکن اِس کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ بس نون لیگ کی طرف سے دل کو بہلانے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ نواز شریف ''سنگین'' بیماری کی اساس پر چند دنوں کے وعدے پر قانون اور حکومت سے اجازت لے کر لندن گئے تھے۔ یہ چند دن چار برسوں پر پھیل گئے ہیں، مگر نواز شریف لندن سے واپس نہیں آئے۔ پاکستان میں جیل اُن کی منتظر ہے کہ وہ عدالت سے باقاعدہ سزا یافتہ ہیں۔ ابھی اُنہیں بقیہ سزا کاٹنی ہے۔
نواز شریف صاحب شاید اِسی لیے، فی الحال، اپنی جگہ اپنی بیٹی کو پاکستان واپس بھجوا رہے ہیں ۔ مبینہ طور پر بڑے میاں صاحب نے اپنے معتمد، سینئر پارٹی احباب سے کہا ہے کہ وہ سب مریم نواز کے ہاتھ مضبوط کریں۔
محترمہ مریم نواز شریف چار ماہ قبل لاہور سے لندن روانہ ہُوئی تھیں تو صرف نون لیگ کی نائب صدر تھیں، مگر اب وہ سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بن چکی ہیں۔ اُن کے کندھوں پر پارٹی کی بھاری ذمے داریاں ڈالی جا چکی ہیں۔ وطن واپس آتے ہی اُنہیں پارٹی میں '' انقلابِ نَو'' کی رُوح پھونکنی ہے۔ دو صوبوں میں جو انتخابات ہونے والے ہیں، اِس کے لیے مریم نواز شریف کو نہایت سمجھداری سے توانا نون لیگی گھوڑے میدان میں اُتارنے ہیں۔
یہ کوئی معمولی امتحان نہیں ہے ۔ نواز شریف کو اُمیدِ واثق ہے کہ مریم نواز نون لیگ کو دونوں صوبائی انتخابات میں کامیابیوں سے ہمکنار کریں گی ۔ مگر ان کے سامنے متنوع امتحانات کے کئی کوہِ گراں کھڑے ہیں ۔ نون لیگ کے اندر جو مرکزِ گریز آوازیں اُٹھ رہی ہیں، انھیں خاموش کرانا اور اپنے ڈھب پر لانا مریم نواز کا فوری امتحان ہے ۔
مریم نواز کی پاکستان آمد سے چند دن قبل ہی پنجاب میں نون لیگ کو ایک بڑا دھچکا پہنچا ہے، سرگودھا سے نون لیگ کے ایک مرکزی اور دیرینہ رہنما،پیر امین الحسنات صاحب، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ قبلہ حسنات صاحب گزشتہ نون لیگی حکومت میں وفاقی وزیر رہے ہیں۔
وہ ایک بڑے گدی نشین بھی ہیں اور لاکھوں شاگردوں کے استاد اور لاکھوں مریدین کے پیر بھی۔ اُن کا پی ٹی آئی میں شامل ہو جانا نون لیگ کے لیے ایک بڑے نقصان سے کم نہیں ہے ۔
اس کے ساتھ ہی نون لیگ کے اندر جو مرکز گریز آوازیں سر اٹھا رہی ہیں، وہ بھی مریم نواز صاحبہ کے لیے امتحان ہیں۔ مثال کے طور پر شاہد خاقان عباسی،مفتاح اسماعیل اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ۔شاہد خاقان عباسی کا نون لیگ بارے ناراض لہجہ اگرچہ بین السطور ہے، مگر ہے۔
مفتاح اسماعیل تو کھل کر نون لیگی قیادت بارے اپنے تحفظات کا زبانی اور قلمی اظہار کر رہے ہیں۔انھوں نے ایک انگریزی معاصر میں جو پہ در پہ مضامین لکھے ہیں،وہ سرا سر نون لیگ کی پالیسیوں، اقدامات اور فیصلوں پر براہِ راست تنقید ہیں۔ان کی بازگشت مریم نواز تک بھی یقیناً پہنچی ہوگی۔
مفتاح اسماعیل کو جس طرح وزارت سے نکالا،یہ رویہ توہین آمیز تھا۔ اور اب تو وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے،سلمان شہباز، نے نام لیے بغیرتین سابق وزرائے خزانہ کو '' جوکر'' قرار دیا ہے تو اس پر شاہد خاقان عباسی ایسے سنجیدہ شخص کو بھی کہنا پڑا ہے کہ '' یہ الفاظ نامناسب تھے۔''
سلمان شہباز کے بیان نے مفتاح اسماعیل کے جذبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ان اثرات نے بیک وقت شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کو بھی متاثر کیا ہے کہ مفتاح دراصل شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی چوائس تھے۔
اب تو مفتاح غیر مبہم الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ '' بے شک مجھے نون لیگ سے نکال دیا جائے۔''اگر مفتاح کو وزارت سے نکالے جانے کے بعد اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ عوام سے کیا گیااپنا کوئی وعدہ پورا کیا ہوتا تو شاید مفتاح کے ناراض بیا نیے پر کوئی کان نہ دھرتا۔مگر اسحاق ڈار کی متنوع ناکامیوں کے بعد مفتاح اسماعیل کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔
مفتاح کا یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ '' مجھے ہٹا نے اور اسحاق ڈار کو لانے سے کیا اچھا ہوا ہے؟'' اور نون لیگ کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، بھی کہہ چکے ہیں کہ میں نون لیگ سے نکلوں گا تو سیدھا گھر جاؤں گا۔اور اب تو شاہد خاقان عباسی نون لیگ سے الگ تھلگ ایک فورم بھی بنا رہے ہیں،اس دعوے کے ساتھ کہ ملک میں کوئی ایسا فورم نہیں ہے جو ملک کی بگڑی بنا سکے۔
شاہد خاقان عباسی اِس فورم کے اولین اور اساسی اجلاس سے ،کوئٹہ میں، خطاب بھی کر چکے ہیں۔یہ منظر مریم نواز کے لیے خوش کن اور حوصلہ افزا نہیں ہے۔
نون لیگ کے دبنگ وفاقی وزیر، خواجہ سعد رفیق، نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مایوس کن لہجے میں یہ کہا ہے کہ'' مَیں موروثی سیاست سے بددل ہو چکا ہُوں،اب کوئی عہدہ لینے کو جی نہیں چاہتا۔'' خواجہ سعد رفیق کایہ اشارہ کس جانب ہے ؟یہ آوازیں نون لیگ کے اندر مرکز گریز قوتیں نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ یہ آوازیں مریم نواز کے لیے لاریب چیلنج بننے والی ہیں۔ان سے موصوفہ کیسے نمٹیں گی،یہ انھیں دیکھنا اور فیصلہ کرنا ہے۔
اُنہیں مگر آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ نون لیگی وابستگان نے اُن سے بلند توقعات لگا رکھی ہیں۔نواز شریف کے لندن میں براجمان ہونے اور ملک سے مسلسل چار سالہ غیر حاضری نے نون لیگ میں لاتعداد کمزوریاں اور کجیاں پیدا ہو چکی ہیں۔
شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد عوام نون لیگ سے بوجوہ نالاں اور ناراض ہیں۔ محترمہ مریم نواز کو ان جملہ ناراضیوں کو دُور کرنے اور پارٹی میں اُبھرتی مرکزِ گریز آوازوں کو راضی کرنے کے لیے بے حد محنت کرنا ہوگی۔
کوئی چار ماہ قبل محترمہ مریم نواز کو جونہی عدالت سے ضبط شدہ پاسپورٹ ملا، وہ فوراً لندن چلی گئی تھیں جہاں اُنہیں خاصے عرسے بعد اپنے والدِ گرامی سے بھی ملنا تھا اور اپنی صحت کے کچھ معاملات بھی درست کرنا تھے۔ جب وہ لندن روانہ ہُوئی تھیں، پاکستان میں نون لیگ کو اُن کی اشد ضرورت تھی کہ کئی جگہوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے تھے۔ محترمہ مریم نواز مگر اِن ضروری سیاسی و انتخابی معاملات کی پروا نہ کرتے ہُوئے لندن چلی گئی تھیں۔ پنجاب میں اُن کی غیر حاضری کا نتیجہ یہ نکلا کہ نون لیگ سبھی حلقوں سے ہار گئی اور عمران خان، ہر جگہ سے کامیاب رہے۔
نواز شریف کو بھی واپس پاکستان آنا تھا لیکن اِس کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ بس نون لیگ کی طرف سے دل کو بہلانے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ نواز شریف ''سنگین'' بیماری کی اساس پر چند دنوں کے وعدے پر قانون اور حکومت سے اجازت لے کر لندن گئے تھے۔ یہ چند دن چار برسوں پر پھیل گئے ہیں، مگر نواز شریف لندن سے واپس نہیں آئے۔ پاکستان میں جیل اُن کی منتظر ہے کہ وہ عدالت سے باقاعدہ سزا یافتہ ہیں۔ ابھی اُنہیں بقیہ سزا کاٹنی ہے۔
نواز شریف صاحب شاید اِسی لیے، فی الحال، اپنی جگہ اپنی بیٹی کو پاکستان واپس بھجوا رہے ہیں ۔ مبینہ طور پر بڑے میاں صاحب نے اپنے معتمد، سینئر پارٹی احباب سے کہا ہے کہ وہ سب مریم نواز کے ہاتھ مضبوط کریں۔
محترمہ مریم نواز شریف چار ماہ قبل لاہور سے لندن روانہ ہُوئی تھیں تو صرف نون لیگ کی نائب صدر تھیں، مگر اب وہ سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بن چکی ہیں۔ اُن کے کندھوں پر پارٹی کی بھاری ذمے داریاں ڈالی جا چکی ہیں۔ وطن واپس آتے ہی اُنہیں پارٹی میں '' انقلابِ نَو'' کی رُوح پھونکنی ہے۔ دو صوبوں میں جو انتخابات ہونے والے ہیں، اِس کے لیے مریم نواز شریف کو نہایت سمجھداری سے توانا نون لیگی گھوڑے میدان میں اُتارنے ہیں۔
یہ کوئی معمولی امتحان نہیں ہے ۔ نواز شریف کو اُمیدِ واثق ہے کہ مریم نواز نون لیگ کو دونوں صوبائی انتخابات میں کامیابیوں سے ہمکنار کریں گی ۔ مگر ان کے سامنے متنوع امتحانات کے کئی کوہِ گراں کھڑے ہیں ۔ نون لیگ کے اندر جو مرکزِ گریز آوازیں اُٹھ رہی ہیں، انھیں خاموش کرانا اور اپنے ڈھب پر لانا مریم نواز کا فوری امتحان ہے ۔
مریم نواز کی پاکستان آمد سے چند دن قبل ہی پنجاب میں نون لیگ کو ایک بڑا دھچکا پہنچا ہے، سرگودھا سے نون لیگ کے ایک مرکزی اور دیرینہ رہنما،پیر امین الحسنات صاحب، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ قبلہ حسنات صاحب گزشتہ نون لیگی حکومت میں وفاقی وزیر رہے ہیں۔
وہ ایک بڑے گدی نشین بھی ہیں اور لاکھوں شاگردوں کے استاد اور لاکھوں مریدین کے پیر بھی۔ اُن کا پی ٹی آئی میں شامل ہو جانا نون لیگ کے لیے ایک بڑے نقصان سے کم نہیں ہے ۔
اس کے ساتھ ہی نون لیگ کے اندر جو مرکز گریز آوازیں سر اٹھا رہی ہیں، وہ بھی مریم نواز صاحبہ کے لیے امتحان ہیں۔ مثال کے طور پر شاہد خاقان عباسی،مفتاح اسماعیل اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ۔شاہد خاقان عباسی کا نون لیگ بارے ناراض لہجہ اگرچہ بین السطور ہے، مگر ہے۔
مفتاح اسماعیل تو کھل کر نون لیگی قیادت بارے اپنے تحفظات کا زبانی اور قلمی اظہار کر رہے ہیں۔انھوں نے ایک انگریزی معاصر میں جو پہ در پہ مضامین لکھے ہیں،وہ سرا سر نون لیگ کی پالیسیوں، اقدامات اور فیصلوں پر براہِ راست تنقید ہیں۔ان کی بازگشت مریم نواز تک بھی یقیناً پہنچی ہوگی۔
مفتاح اسماعیل کو جس طرح وزارت سے نکالا،یہ رویہ توہین آمیز تھا۔ اور اب تو وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے،سلمان شہباز، نے نام لیے بغیرتین سابق وزرائے خزانہ کو '' جوکر'' قرار دیا ہے تو اس پر شاہد خاقان عباسی ایسے سنجیدہ شخص کو بھی کہنا پڑا ہے کہ '' یہ الفاظ نامناسب تھے۔''
سلمان شہباز کے بیان نے مفتاح اسماعیل کے جذبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ان اثرات نے بیک وقت شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کو بھی متاثر کیا ہے کہ مفتاح دراصل شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی چوائس تھے۔
اب تو مفتاح غیر مبہم الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ '' بے شک مجھے نون لیگ سے نکال دیا جائے۔''اگر مفتاح کو وزارت سے نکالے جانے کے بعد اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ عوام سے کیا گیااپنا کوئی وعدہ پورا کیا ہوتا تو شاید مفتاح کے ناراض بیا نیے پر کوئی کان نہ دھرتا۔مگر اسحاق ڈار کی متنوع ناکامیوں کے بعد مفتاح اسماعیل کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔
مفتاح کا یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ '' مجھے ہٹا نے اور اسحاق ڈار کو لانے سے کیا اچھا ہوا ہے؟'' اور نون لیگ کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، بھی کہہ چکے ہیں کہ میں نون لیگ سے نکلوں گا تو سیدھا گھر جاؤں گا۔اور اب تو شاہد خاقان عباسی نون لیگ سے الگ تھلگ ایک فورم بھی بنا رہے ہیں،اس دعوے کے ساتھ کہ ملک میں کوئی ایسا فورم نہیں ہے جو ملک کی بگڑی بنا سکے۔
شاہد خاقان عباسی اِس فورم کے اولین اور اساسی اجلاس سے ،کوئٹہ میں، خطاب بھی کر چکے ہیں۔یہ منظر مریم نواز کے لیے خوش کن اور حوصلہ افزا نہیں ہے۔
نون لیگ کے دبنگ وفاقی وزیر، خواجہ سعد رفیق، نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مایوس کن لہجے میں یہ کہا ہے کہ'' مَیں موروثی سیاست سے بددل ہو چکا ہُوں،اب کوئی عہدہ لینے کو جی نہیں چاہتا۔'' خواجہ سعد رفیق کایہ اشارہ کس جانب ہے ؟یہ آوازیں نون لیگ کے اندر مرکز گریز قوتیں نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ یہ آوازیں مریم نواز کے لیے لاریب چیلنج بننے والی ہیں۔ان سے موصوفہ کیسے نمٹیں گی،یہ انھیں دیکھنا اور فیصلہ کرنا ہے۔
اُنہیں مگر آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ نون لیگی وابستگان نے اُن سے بلند توقعات لگا رکھی ہیں۔نواز شریف کے لندن میں براجمان ہونے اور ملک سے مسلسل چار سالہ غیر حاضری نے نون لیگ میں لاتعداد کمزوریاں اور کجیاں پیدا ہو چکی ہیں۔
شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد عوام نون لیگ سے بوجوہ نالاں اور ناراض ہیں۔ محترمہ مریم نواز کو ان جملہ ناراضیوں کو دُور کرنے اور پارٹی میں اُبھرتی مرکزِ گریز آوازوں کو راضی کرنے کے لیے بے حد محنت کرنا ہوگی۔