سبز باغ
بدقسمتی سے پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے
ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ بعینہ سیاسی ماہرین بھی اس نکتے پرکلی طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے معاشی استحکام لازمی ہے جس ملک میں ہر دو طرح کے بحران سر اٹھا رہے ہوں وہاں تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال پر بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ صورت حال کی نزاکت کو نہ سمجھا گیا اور معاشی بحالی کے لیے بڑے، سخت اور فیصلہ کن اقدامات جلد نہ اٹھائے گئے تو پاکستان جلد سری لنکا جیسی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف اعلیٰ سطح پر یقین دہانیوں کے باوجود تاحال قرضے کی اگلی قسط دینے کے لیے مطمئن نظر نہیں آتا ، وہ اپنی کڑی شرائط پر ہر صورت اور متعین مدت میں عمل درآمد کا خواہاں ہے ، اسی صورت قرضے کی منظوری ممکن ہو سکتی ہے۔
ہمارے دیرینہ دوست ملک چین نے بھی آئی ایم ایف پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے حالات کو سمجھے اور اس کے ساتھ تعاون کرے۔ دو سال قبل آنے والے کووڈ وائرس اور گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث سیلابی پانیوں میں ملک کا ایک بڑا حصہ ڈوبا ہوا ہے۔
ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں، فصلوں کو نقصان پہنچا اور انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ، بحالی کے لیے اربوں روپے درکار ہیں۔ ان دو بڑے حوادث نے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی برادری جہاں ایک طرف سیلاب متاثرین کے لیے ہزاروں ڈالر کی امداد کا اعلان کر رہی ہے وہاں اسے آئی ایم ایف پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے نازک حالات کا ادراک و احساس کرے اور جلد قرضے کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی شرائط میں کچھ نرمی کرے۔
بدقسمتی یہ کہ دوست ممالک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری تک پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ نہیں جو یقینا ایک تکلیف دہ صورت حال ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی اکابرین ملک کو تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک سوچ و ایک فیصلے کے لیے ایک میز پر بیٹھ کر کوئی متفقہ ، ٹھوس ، جامع حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک معاشی بحران سے نظریں چرا کر سیاسی بحران کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کی کوشش اور خواہش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد قائم ہونے والی نگراں حکومتیں لمبے عرصے تک چلیں تاکہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرسکے پھر ملک میں انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔
پنجاب میں محسن نقوی کی بطور نگراں وزیر اعلیٰ تقرری (ن) لیگ کے لیے پنجاب میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے جب کہ پی ٹی آئی نے انھیں قبول نہیں کیا۔ خان صاحب الزام لگاتے ہیں کہ محسن نقوی نے میری حکومت گرانے کی کوشش کی، پی ٹی آئی ان کی تقرری کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔
عمران خان نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے بعد عوامی سطح پر شہباز حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جلسوں اور احتجاج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خان صاحب کی کوشش اور خواہش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کے بعد سندھ ، بلوچستان اور وفاقی حکومت بھی ختم ہو جائے اور اپریل تک پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لیے شہباز حکومت کو مجبور کردیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے ٹکراؤ کی اس سیاست نے ملک کو ایسے سیاسی بحران سے دوچارکر دیا ہے کہ جس کا سرا کسی کے پاس نہیں۔ دو انتہاؤں کے بیچ ملک پھنس کر رہ گیا ہے۔ ادھر عوام گرانی، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے سیلاب میں ڈوب رہے ہیں۔
آٹا ، چاول ، چینی ، دالیں ، سبزیاں ، گوشت ، دودھ غرض روز مرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
اس پر مستزاد بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کے منفی اثرات دیگر اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑتے ہیں لامحالہ ضرورت کی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور بے چارے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی آہ و فغاں کوئی نہیں سنتا ، صرف طفل تسلیاں ہی ان کا مقدر ہیں۔
پاکستان کے عوام کا دکھ یہ ہے کہ انھیں ہر حکمران نے صرف سبز باغ ہی دکھائے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک عوام حکمرانوں کی جھوٹی تسلیوں کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ ان کے ظلم و ستم اور ناروا سلوک سات دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں۔
پاکستان دولخت ہوگیا لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا کوئی حکمران نہ کرسکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا زخم ناسور بن کر آج بھی ماضی کی تلخیاں یاد دلاتا رہتا ہے۔
قوم نے گزشتہ ماہ ہی سانحہ بنگال کی برسی منائی ہے۔ تحریک محصورین مشرقی پاکستان کے روح رواں اور جنرل سیکریٹری حیدر علی حیدر نے آج بھی ہر سال 16 دسمبر کو اس سانحے کی یاد تازہ کرنے اور محصورین کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے تقریب کے اہتمام کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
مذکورہ تحریک کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ، وائس چیئرمین حفیظ طاہر اور جنرل سیکریٹری حیدر علی حیدر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں قائم محصور پاکستانیوں کے کیمپوں میں سخت سردی کے باعث دو درجن سے زائد محصور پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں اگر ان کی فوری مدد نہ کی گئی تو مزید اموات کا خدشہ ہے۔
سخت سردی کی وجہ سے محصورین کو گرم کپڑوں، کمبلوں اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بنگلہ دیشی اخبارات نے بھی محصور پاکستانیوں کو سخت سردی سے درپیش مسائل و پریشانیوں کی خبروں کو نمایاں طور پر شایع کیا ہے جس سے ان کی حالت زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا یہ محصورین پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مختلف اوقات میں ملک کے حکمرانوں نے ان مجبوروں کو وطن واپس لانے کے دعوے اور وعدے کیے لیکن زبانی جمع خرچ سے آگے بات نہ پڑھ سکی۔
ہمارے بے حس حکمرانوں کو عوام کی تکالیف کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔ یہ عوام کی سطح پر آ کر کبھی نہیں سوچتے تو عوامی مسائل سے کیسے آگاہ ہوں گے۔
محلات میں رہنے والوں کو غریب بستیوں میں رہنے والوں سے کیا سروکار ؟ انھیں صرف ووٹ لیتے وقت عوامی مسائل یاد آتے ہیں۔ پھر انھیں محصورین کے پاکستان میں رہنے والے رشتے دار بھی یاد آ جاتے ہیں۔
ان کے ووٹ لینے کے لیے یہ ان سے بھی وعدے کرتے ہیں کہ حکومت میں آ کر محصورین پاکستانیوں کو واپس لائیں گے لیکن بات سبز باغ سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسی باعث تحریک محصورین کے رہنماؤں حکومت اور ملک کے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں مقیم محصور پاکستانیوں کی حالت زار پر فوری توجہ دیں۔
قوم کو یقین ہے کہ ہماریحکومت اور ملک کے مخیر حضرات عوام کو کبھی سبز باغ نہیں دکھاتے بلکہ ہر مشکل میں کام آتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال پر بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ صورت حال کی نزاکت کو نہ سمجھا گیا اور معاشی بحالی کے لیے بڑے، سخت اور فیصلہ کن اقدامات جلد نہ اٹھائے گئے تو پاکستان جلد سری لنکا جیسی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف اعلیٰ سطح پر یقین دہانیوں کے باوجود تاحال قرضے کی اگلی قسط دینے کے لیے مطمئن نظر نہیں آتا ، وہ اپنی کڑی شرائط پر ہر صورت اور متعین مدت میں عمل درآمد کا خواہاں ہے ، اسی صورت قرضے کی منظوری ممکن ہو سکتی ہے۔
ہمارے دیرینہ دوست ملک چین نے بھی آئی ایم ایف پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے حالات کو سمجھے اور اس کے ساتھ تعاون کرے۔ دو سال قبل آنے والے کووڈ وائرس اور گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث سیلابی پانیوں میں ملک کا ایک بڑا حصہ ڈوبا ہوا ہے۔
ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں، فصلوں کو نقصان پہنچا اور انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ، بحالی کے لیے اربوں روپے درکار ہیں۔ ان دو بڑے حوادث نے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی برادری جہاں ایک طرف سیلاب متاثرین کے لیے ہزاروں ڈالر کی امداد کا اعلان کر رہی ہے وہاں اسے آئی ایم ایف پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے نازک حالات کا ادراک و احساس کرے اور جلد قرضے کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی شرائط میں کچھ نرمی کرے۔
بدقسمتی یہ کہ دوست ممالک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری تک پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ نہیں جو یقینا ایک تکلیف دہ صورت حال ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی اکابرین ملک کو تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک سوچ و ایک فیصلے کے لیے ایک میز پر بیٹھ کر کوئی متفقہ ، ٹھوس ، جامع حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک معاشی بحران سے نظریں چرا کر سیاسی بحران کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کی کوشش اور خواہش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد قائم ہونے والی نگراں حکومتیں لمبے عرصے تک چلیں تاکہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرسکے پھر ملک میں انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔
پنجاب میں محسن نقوی کی بطور نگراں وزیر اعلیٰ تقرری (ن) لیگ کے لیے پنجاب میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے جب کہ پی ٹی آئی نے انھیں قبول نہیں کیا۔ خان صاحب الزام لگاتے ہیں کہ محسن نقوی نے میری حکومت گرانے کی کوشش کی، پی ٹی آئی ان کی تقرری کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔
عمران خان نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے بعد عوامی سطح پر شہباز حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جلسوں اور احتجاج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خان صاحب کی کوشش اور خواہش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کے بعد سندھ ، بلوچستان اور وفاقی حکومت بھی ختم ہو جائے اور اپریل تک پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لیے شہباز حکومت کو مجبور کردیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے ٹکراؤ کی اس سیاست نے ملک کو ایسے سیاسی بحران سے دوچارکر دیا ہے کہ جس کا سرا کسی کے پاس نہیں۔ دو انتہاؤں کے بیچ ملک پھنس کر رہ گیا ہے۔ ادھر عوام گرانی، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے سیلاب میں ڈوب رہے ہیں۔
آٹا ، چاول ، چینی ، دالیں ، سبزیاں ، گوشت ، دودھ غرض روز مرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
اس پر مستزاد بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کے منفی اثرات دیگر اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑتے ہیں لامحالہ ضرورت کی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور بے چارے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی آہ و فغاں کوئی نہیں سنتا ، صرف طفل تسلیاں ہی ان کا مقدر ہیں۔
پاکستان کے عوام کا دکھ یہ ہے کہ انھیں ہر حکمران نے صرف سبز باغ ہی دکھائے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک عوام حکمرانوں کی جھوٹی تسلیوں کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ ان کے ظلم و ستم اور ناروا سلوک سات دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں۔
پاکستان دولخت ہوگیا لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا کوئی حکمران نہ کرسکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا زخم ناسور بن کر آج بھی ماضی کی تلخیاں یاد دلاتا رہتا ہے۔
قوم نے گزشتہ ماہ ہی سانحہ بنگال کی برسی منائی ہے۔ تحریک محصورین مشرقی پاکستان کے روح رواں اور جنرل سیکریٹری حیدر علی حیدر نے آج بھی ہر سال 16 دسمبر کو اس سانحے کی یاد تازہ کرنے اور محصورین کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے تقریب کے اہتمام کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
مذکورہ تحریک کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ، وائس چیئرمین حفیظ طاہر اور جنرل سیکریٹری حیدر علی حیدر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں قائم محصور پاکستانیوں کے کیمپوں میں سخت سردی کے باعث دو درجن سے زائد محصور پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں اگر ان کی فوری مدد نہ کی گئی تو مزید اموات کا خدشہ ہے۔
سخت سردی کی وجہ سے محصورین کو گرم کپڑوں، کمبلوں اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بنگلہ دیشی اخبارات نے بھی محصور پاکستانیوں کو سخت سردی سے درپیش مسائل و پریشانیوں کی خبروں کو نمایاں طور پر شایع کیا ہے جس سے ان کی حالت زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا یہ محصورین پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مختلف اوقات میں ملک کے حکمرانوں نے ان مجبوروں کو وطن واپس لانے کے دعوے اور وعدے کیے لیکن زبانی جمع خرچ سے آگے بات نہ پڑھ سکی۔
ہمارے بے حس حکمرانوں کو عوام کی تکالیف کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔ یہ عوام کی سطح پر آ کر کبھی نہیں سوچتے تو عوامی مسائل سے کیسے آگاہ ہوں گے۔
محلات میں رہنے والوں کو غریب بستیوں میں رہنے والوں سے کیا سروکار ؟ انھیں صرف ووٹ لیتے وقت عوامی مسائل یاد آتے ہیں۔ پھر انھیں محصورین کے پاکستان میں رہنے والے رشتے دار بھی یاد آ جاتے ہیں۔
ان کے ووٹ لینے کے لیے یہ ان سے بھی وعدے کرتے ہیں کہ حکومت میں آ کر محصورین پاکستانیوں کو واپس لائیں گے لیکن بات سبز باغ سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسی باعث تحریک محصورین کے رہنماؤں حکومت اور ملک کے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں مقیم محصور پاکستانیوں کی حالت زار پر فوری توجہ دیں۔
قوم کو یقین ہے کہ ہماریحکومت اور ملک کے مخیر حضرات عوام کو کبھی سبز باغ نہیں دکھاتے بلکہ ہر مشکل میں کام آتے ہیں۔