فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا

پولیس اور الیکشن کمیشن کے وکیل نے فواد چوہدری کے مزید ریمانڈ کی استدعا کی تھی، عدالت میں وکلا کے مابین تلخ کلامی

میں جو کہتا ہوں وہ پارٹی کا موقف ہوتا ہے، فواد چوہدری (فوٹو انٹرنیٹ)

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق فواد چوہدری کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو دھمکی دینے کے الزام میں گرفتاری کے بعد 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص راجا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت پولیس اور پراسیکیوٹر نے ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے بعد میں جاری کردیا، جس میں عدالت نے فواد چوہدری کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل روانہ کردیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجا نے محفوظ فیصلہ سنایا، جس میں پولیس اور وکیل الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا گیا۔

عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی نے فواد چوہدری کی ضمانت دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سلسلے میں وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم کچھ ہی دیر میں درخواست ضمانت دائر کردیں گے۔

قبل ازیں سماعت شروع ہوتے ہی پراسیکیوٹر نے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو ایف آئی آر پڑھتے ہوئے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر ، نگراں وزیر اعلیٰ کے خلاف یہ زبان استعمال کی گئی۔ رجیم چینج کے پیچھے یہ بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ ہم نے فواد چوہدری کی وائس میچ کرا لی ہے ۔ فوٹو گرائیمٹری ٹیسٹ کرانا ہے۔ ابھی ریکوریز بھی کرنی ہیں۔ پراسیکیوٹر نے شہباز گل کیس میں ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا۔

پولیس کی مزید ریمانڈ کی استدعا

اس موقع پر پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعاکی گئی۔ پولیس نے موقف اختیار کیا کہ رات 12 بجے 2 روز کا ریمانڈ ملا، تب تک ایک دن ختم ہو چکا تھا۔ عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے، اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔

وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے پیمرا سے حاصل کر لی ہے ، وائس میچنگ بھی کر لی ہے۔ ملزم نے گزشتہ سماعت پر عدالت کے سامنے تقریر کا اعتراف بھی کیا ہے اور تب میرے دلائل کے دوران ان شا اللہ ماشا اللہ کہہ رہے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ یہ منشی کا کام کرتے ہیں۔ ہمیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان کے گھروں تک جائیں گے۔ حکومت کے ساتھ ملا کر الیکشن کمیشن کے خلاف رجیم چینج کے بعد ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا اور پریشرائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ قانون تمام کے لیے برابر ہے، وکیل کا لائسنس کسی حکومتی عہدے کے ساتھ معطل ہو جاتا ہے۔ ان کے گھر کی تلاشی لینا، موبائل فون اور لیپ ٹاپ ریکور کرنا ہے۔ یہ بیانیہ فواد چوہدری کا نہیں بلکہ یہ گروپ کا ہے، ایک سیاسی پارٹی کا بیانیہ ہے۔

بابر اعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل میں تلخ کلامی

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل اور فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بابر اعوان نے کہا کہ سیاسی بیان بازی نہ کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کون سے میسج آئے؟ کس کی ہدایات تھیں؟ یہ سب پولیس نے دیکھنا ہے۔ اس کے پس پردہ لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، یہ ایک بچگانہ بات ہے۔

پولیس کی جانب سے درخواست کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی فواد چوہدری کا ریمانڈ دینے کی استدعا کردی۔ وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری سینئر سیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ فواد چوہدری کے گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے۔


وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فواد چوہدری کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں، جس پر بابر اعوان بولے کہ میں بھی فواد چوہدری کے بیان میں شامل ہوں۔ دونوں وکلا کے مابین دوبارہ تلخ کلامی ہوئی۔ بابر اعوان نے کہا کہ ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بنا دیا گیا ہے۔ ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیاگیا، ہم نے پرچہ نہیں کروایا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے، بابر اعوان

بابر اعوان نے کہا کہ فواد چوہدری کلبھوشن نہیں نہ ہی دہشت گرد ہے، اس کے منہ پر پردہ ڈالا گیا۔کلبھوشن کے چہرے پر فواد چوہدری کی طرح چادر نہیں ڈالی گئی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے۔کیس کا مدعی ایک سرکاری ملازم ہے۔ ٹیکس عوام دیتی ہے، موج سرکاری افسران لگاتے ہیں۔ پبلک سرونٹ کامطلب عوام کانوکر ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے مزید کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن تو یونین کونسل بھی نہیں ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اپنے لیے کوئی وائسرائے آف انڈیا قسم کا ٹائٹل رکھ لے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن ریاست نہیں ہے۔ مجھے اپنے منشی پر فخرہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت ہے۔ معلوم نہیں منشی سےپراسیکیوشن کو اتنی چڑ کیوں ہے۔ الیکشن کمیشن کوئی وفاقی حکومت نہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیا فئیر الیکشن کرائیں گے سارے فیصلے تو میرے خلاف آرہے ہیں۔ فواد چوہدری تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں۔ فوجداری کارروائی کرنے والا سیکرٹری الیکشن کمیشن کیا شفاف انتخابات کروائےگا؟۔ پاکستان میں بڑی جیل بناکرسب کو قیدیوں میں شمار کرلیں۔ الیکشن کمیشن ایک پارٹی کی ترجمانی کررہاہے۔ یہ کہتے ہیں بولتا ہے اس لیے پکڑا ہے۔ جو بولتا آیا تھا 100 روپے ڈالر پر ، اب 300 روپے کر دیا اسے پکڑیں ناں۔

بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر قوم کے کھربوں روپے لگتےہیں۔ پبلک سرونٹس نہ صوبائی حکومت ہیں اور نہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ عدالت دیکھے کہ پبلک سرونٹس کو بنا کیا دیا ہے۔ پراسیکیوشن کہتی ہے فواد چوہدری بولتاہے، پاکستان میں کون نہیں بولتا؟۔ ماضی میں ججز کے لیے جس نے جو بولا وہ سب آج حکومت میں شامل ہیں۔

دلائل دیں لیکن اختصار کے ساتھ،عدالت کی بابر اعوان کو ہدایت

عدالت نے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ آپ کا حق ہے پورا دن دلائل دیں، لیکن اختصار رکھیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ میں 2 دن دلائل دوں گا، انہوں نے 2 دن کا ریمانڈ لیا ہے۔ آج 27 جنوری میری برتھ ڈے بھی ہے، آج میرا دن ہے۔

بابر اعوان نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد ووٹ میں لوگوں کوخریداگیا۔ فواد چوہدری کے بیان کی وڈیو موجود ہے، تفتیش اور کرنی کیاہے؟۔ لوٹا اپوزیشن لیڈر بیٹھایا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن نے بطور حکومت خود کو بنا لیاہے۔ ان کا کام انتخابات کرواناہے۔ اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سے ایک رات قبل الیکشن کمیشن بھاگ گیا۔ الیکشن کمیشن آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کررہاہے۔

وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ایک افسر کی تصویر چل رہی ہے جس قدر جھکا ہوا ہے اس سے کمان بن جائے۔ 124 اے اور 505 اس کیس میں نہیں لگتے ۔ یہ میرے مقدمے میں مدعی ہیں یہ کیسے مجھے انصاف دے سکتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن پولیس کے پیچھے کیوں پناہ لیتا ہے۔انہوں نے فرخ حبیب کے خلاف مقدمہ درج کیا، یہ بنانا رپبلک تو نہیں ۔ فرخ حبیب کے خلاف مقدمہ میں کہتے ہیں ہم 80 تھے اور اس ایک نے ڈکیتی مار لی۔

ہم عہد کربلا میں ہیں، فواد چوہدری

فواد چوہدری نے عدالت میں کہا کہ ہم اس وقت عہد کربلا میں ہیں، کہا جا رہا ہے یزیدیت کی بیعت کریں۔ ہم نے حسینؓ کی سنت پر عمل کرنا ہے، جو غلط ہے وہ غلط ہے جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے۔ یہ پارٹی کے الفاظ ہیں، صرف میرے الفاظ نہیں۔ میں جو کہتا ہوں وہ پارٹی کا موقف ہوتا ہے۔عمران خان پاکستان کے لیے جدوجہد کررہےہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میری گرفتاری غیر قانونی ہے، گیارہ بجے اسلام آباد پولیس پہنچی۔ میں نے الیکشن کمیشن کے خلاف 50 کروڑ کا ہرجانہ دائر کیا ہے ۔ اس موقع پر فواد چودھری نے عدالت میں موبائل واپس کرنے کی درخواست دائر کردی۔

عدالت میں فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کا حکم

دوران سماعت عدالت نے فواد چوہدری کو کورٹ روم میں ہتھکڑی لگانے سے روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ باہر ہتھکڑی لگاتے ہیں تو ان کی مرضی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جس کے بعد فواد چوہدری کو سخت سکیورٹی میں بخشی خانے لے جایا گیا۔

بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
Load Next Story