کوچۂ سخن
غزل
خلوص و مہر کے اِس بار سے بچائے مجھے
یہ دھوپ سایہ ٔ دیوار سے بچائے مجھے
اُڑاتی رہتی ہے یہ میرے خدّوخال پہ خاک
کوئی تو وقت کی رفتار سے بچائے مجھے
کسی اُمید کا دل میں نشان تک نہیں ہے
جو نا اُمیدی کی یلغار سے بچائے مجھے
ڈراتے رہتے ہیں دن رات مجھ اکیلے کو
کوئی مرے در و دیوار سے بچائے مجھے
میں اپنا سب سے پرانا حریف اور یہاں
کوئی نہیں جو مرے وار سے بچائے مجھے
عقیل ؔ ہو تو کوئی بے پناہ قاتل ہو
نصیب یارِ کم آزار سے بچائے مجھے
(عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
چہرے پہ ترے پھیلی تب و تاب کی صورت
لگتی ہے ہر اک منظر ِ شاداب کی صورت
گہرا تو محبت کا سمندر بھی بہت ہے
پر ہم کو لگے موجۂ پایاب کی صورت
کچھ خواب حقیقت سے دکھائی دیے مجھ کو
اور گاہ حقیقت بھی لگی خواب کی صورت
مٹی میں ملا بیٹھے تو احساس ہوا ہے
آنسو تھے سبھی گوہر ِ نایاب کی صورت
گھیرے میں لیے رکھتی ہیں اب بعد تمہارے
یہ الجھنیں ہر سمت سے گرداب کی صورت
یوں آگہی خوش فہمیاں سب کھا گئیں میری
پہچانی نہیں جاتی ہے احباب کی صورت
ہر حادثہ بن جاتاہے لوگوں کا تماشا
یہ شہر امڈآتا ہے سیلاب کی صورت
کیا دن تھے کبھی ہم بھی رہا کرتے تھے جاذبؔ
اس چشم ِ فسوں ساز میں اک خواب کی صورت
(اکرم جاذب۔ منڈی بنائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
یہ درد بھری شام کا منظر ہے کہ میں ہوں
اک موجِ بلا خیز برابر ہے کہ میں ہوں
لو دیتی ہوئی شمس کی کرنیں ہیں کہ تم ہو
آسیب زدہ رات کا پیکر ہے کہ میں ہوں
تو ہے بڑی اونچائی پہ اڑتا ہوا شاہین
پابندِ قفس طائرِ بے پر ہے کہ میں ہوں
ہر دل کا علاقہ ہے ترے زیرِ تسلط
میدان سے بھاگا ہوا لشکر ہے کہ میں ہوں
شیشے میں سجائے ہوئے گوہر کی طرح تو
پیروں تلے روندا گیا پتھر ہے کہ میں ہوں
(نعیم الدین فاروقی۔ گجرات)
۔۔۔
غزل
اسیر ِ ہجر کی آب و ہوا بدلنے کو
کبھی خوشی بھی ملے ذائقہ بدلنے کو
میں تیرے شہر سی نکلی تو مڑ نہیں دیکھا
ہزاروں لوگ ملے بارہا بدلنے کو
میں جس کے نقش ِ قدم چومنے کو نکلی تھی
اُسی نے مجھ سے کہا راستہ بدلنے کو
ہزار زخم سہے اور پھر یہی سوچا
چلو اک اور سہی تجربہ بدلنے کو
گر اس کاساتھ ملے تو ستارے مل جائیں
وہ ناگزیر ہوا زائچہ بدلنے کو
ملے ہیں ہم کبھی پھر سے جدا نہ ہونے کو
چلو یہ فرض کریں مسئلہ بدلنے کو
یہاں پہ خود کو بدلنا ہے، گر بدلنا ہے
سو تم سے کس نے کہا ہے خدا بدلنے کو
وہ خود تو کھو چکا دنیا کی بھیڑ میں ایماںؔ
مجھے بھی کہہ گیا اپنا پتہ بدلنے کو
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
عین ممکن ہے گلِ تازہ میں خوشبو نہ رہے
نہیں ممکن، میں رہوں، مجھ میں مگر تُو نہ رہے
گو یہی اشک محبت کی کمائی ہیں مگر
اس قدر بھی نہ رُلا آنکھ میں آنسو نہ رہے
اب بھی حالات سدھر سکتے ہیں اک ٹیبل پر
یوں نہ ہو پھر کوئی اصلاح کا پہلو نہ رہے
چھوڑ کر جانے لگا ہے تو یہ احسان بھی کر
اس طرح دل سے نکل مجھ میں تری خو نہ رہے
پھر تجھے کون سمیٹے گا؟ بکھرتے ہوئے شخص!
کل اگر تجھ کو میسر مرے بازو نہ رہے
(بلقیس خان۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
ترا حسن کوئی طلسم ہے، تو قبول دل کا پیام کر
جسے چاہے اپنا عزیز رکھ، جسے چاہے اپنا غلام کر
مرے دل کشا، مرے دل نشیں ، مرے ہمنوا، مرے ہم نشیں
مرے دل میں پل کو ٹھہر کبھی، کسی شام اس میں قیام کر
کبھی نیند کی تو کتاب میں ، کسی روز آ مرے خواب میں
مری خامشی سے کلام کر، کوئی گفتگو مرے نام کر
بڑی پاک ہے مری عاشقی ، نہ ہوس کی ہے اسے تشنگی
نہ شرابِ حسن پلا مجھے، مرے نام دید کا جام کر
یہ لباسِ ہجر اتار کر تو لباسِ وصل پہن کبھی
نہ خسوف ہو، نہ اماس ہو، وہ وصالِ ماہِ تمام کر
( محمد کلیم شاداب، آکوٹ،ضلع آکولہ ،بھارت)
۔۔۔
غزل
جس طرح حسن ِمجسم میں صباحت شامل
زندگی میں ہے تری ایسے عنایت شامل
روبرو پھول ہوں بچے ہوں کہ سر سبز زمین
میری فطرت میں ہے فطرت سے محبت شامل
جزو یوں ہی تو نہیں کل پہ ہوا ہے غالب
دولت ِدرد میں ہے عشق کی دولت شامل
کوزہ گر مٹی میں احساس ملائے جیسے
ہم تخیل میں کریں اپنی ریاضت شامل
عین ممکن ہے سفر اپنا ہو جنت پہ تمام
روزِ اول سے مقدر میں ہے ہجرت شامل
کی ہے آئین کی تادیر ورق گردانی
نہیں نادار کے حصے کی بشارت شامل
عنبرینؔ اپنے خدا نے تو یقیناً نہیں کی
رزق ِشاہاں میں غریبوں کی مشقت شامل
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ہر زمانے میں نقشِ پا سائیں
آدمیت کا رہنما سائیں
گردشِ صبح و شام کا چکّر
جانے کس عہد سے چلا سائیں
اپنے دل پر ہی ظلم کرتے ہیں
کیا کریں عشق سے گلہ سائیں
دیپ کیسے وہ پھر سے روشن ہو
جو مرے اشک سے بجھا سائیں
گھر سے نکلا تلاش میں اس کی
جو مرے ساتھ ہی رہا سائیں
مسکراہٹ تھی اُس کے عارض پر
نور سے نور جو ملا سائیں
راز کے پیرہن میں چھید ہوا
تیرا ہمراز جو بِکا سائیں
روز بڑھتی ہے دل کی بے چینی
روز ملتے ہیں ہم نوا سائیں
ڈور رشتوں کی جوڑتا ہوں ولیؔ
روز دیتا ہوں میں صدا سائیں
(شاہ روم خان۔ ولی)
۔۔۔
غزل
ہر اک نے دیا آپ کو الزام ہمارا
بھولے سے جو لے بیٹھے کبھی نام ہمارا
اب آپ کی ہمراہی میسر نہیں ہم کو
پھر بہلے گا کیسے دلِ ناکام ہمارا
اک یاد سکوں چھیننے آتی ہے کہیں سے
دل ڈوبنے لگتا ہے سرِ شام ہمارا
دل دیتے ہوئے خوش تھے مگر ہائے جدائی
اب کہتے ہیں غارت ہوا آرام ہمارا
اکسیر سمجھتے ہیں محبت کی زباں کو
بن جاتا ہے بگڑا ہوا ہر کام ہمارا
اس دور میں چاہت کا صلہ کس کو ملا ہے
اخلاص بھی احمد ہوا بدنام ہمار
(احمد حجازی۔لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
زندگی کو سبق سکھا دوں گا
زندہ رہ کر اسے دکھا دوں گا
وہ مری چشم تر کو ترستے گا
ضبط کا سلسلہ بڑھا دوں گا
زیب دیتا ہے آسماں کو غرور
خاک زادہ؛ میں اس کو کیا دوں گا
اپنی یادیں تو سونپ دوں گا اسے
اس کی یادیں اسے تھما دوں گا
جب بھی تیرہ شبی ستائے گی
ایک تصویر میں جلا دوں گا
بات تازہ رہے مری انصرؔ
اس قدر بات کو ہوا دوں گا
(انصر رشید انصر فرام فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
وجودِ صبر پہ آوارگی بناؤں گا
میں بے بسی کی بھی اک زندگی بناؤں گا
عدو کے ہاتھ میں خنجر بناؤں گا پہلے
پھر اس کی آنکھوں میں شرمندگی بناؤں گا
لہو سے کھینچ کے نقشہ دیارِ مقتل کا
میں عاشقوں کے لیے آگہی بناؤں گا
سجا کے ریشمی کپڑے کو چاند تاروں سے
پھر اس پہ تیری سیہ چشمگی بناؤں گا
(فراز احمد۔ گڑھ مہاراجہ)
۔۔۔
غزل
اک منتظر شباب ہے جوبن کا منتظر
یعنی حسین خواب ہے جوبن کا منتظر
آنے لگی ہے عشق پہ میرے بہار جو
لگتا ہے اک سراب ہے جوبن کا منتظر
کھلنے کو بے قرار ہے گلشن میں تازہ گل
دیکھو عدو جناب ہے جوبن کا منتظر
دہکا ہوا سا رہتا ہے یادوں کی آنچ سے
سینے میں آفتاب ہے جوبن کا منتظر
آنکھوں میں پل رہا ہے جو اشکوں کے درمیاں
اک درد زیر آب ہے جوبن کا منتظر
توڑو نہ ڈال سے کبھی آدھی کھلی کلی
کھلتا ہوا گلاب ہے جوبن کا منتظر
لو جی معانؔ آپ نے پڑھ لی کتابِ عشق
آخر میں ہجر باب ہے جوبن کا منتظر
(عامرمعانؔ ۔کوئٹہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی