معاشی بحران طویل المدتی پالیسیوں کی ضرورت

یہ ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس یقینا مکمل رپورٹس اور ریکارڈ ہو گا

یہ ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس یقینا مکمل رپورٹس اور ریکارڈ ہو گا (فوٹو : فائل)

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو گرین لائن ٹرین سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف سے اسی ماہ معاہدہ ہوجائے گا،مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں، ملک کو موجودہ گرداب سے نکالیں گے۔

گزشتہ حکومت کی جانب سے اداروں پر بے بنیاد الزام تراشی اور چینی کمپنیوں پر کرپشن کے الزامات سے چینی حکام کو تکلیف پہنچی ، ان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے برف پگھل رہی ہے، ایم ایل ۔ون منصوبہ کی تکمیل ہماری اولین ترجیح ہے، ہم نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مد نظر رکھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے، خوراک اورادویات کی درآمد کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے،ایک ایک پائی بچانے کی کوشش کررہے ہیں، دن رات محنت کرکے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں گے۔

وزیراعظم پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے جو بات کی ہے' حکومت کے حالیہ اقدامات سے لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے ' ڈالر کی قدر طے کرنے کے لیے کیپ کا خاتمہ اس سلسلے کا اہم اقدام ہے۔

اگر یہی کام پہلے کر لیا جاتا تو اب تک ڈالر کی قدر میں جتنا اضافہ ہونا تھا وہ اضافہ ہو چکا ہوتا اور اب اس کی قیمت میں استحکام آ جاتا لیکن حکومت کی معاشی ٹیم نے اپنے طور پر کوشش کی کہ ڈالر کی قیمت کو ایک حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور بلاآخر پاکستان کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی۔

پاکستان جس قسم کے مالیاتی اور معاشی بحران میں مبتلا ہے ' اس سے نکلنے کے لیے روایتی مانیٹری اقدامات کارگر ثابت نہیں ہو سکتے' پاکستان پر عالمی قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے' اسی وجہ سے پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ بھی پاکستان کی سالانہ پیداوار اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔

پاکستان پر محض عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ ہی نہیں ہے بلکہ عالمی نجی مالیاتی اداروں اور ممالک کا بھی قرضہ ہے۔ ان میں چین سرفہرست ہے۔ یوں پاکستان قرضوں کے ایسے چنگل میں پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنا بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا۔آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے سے ملک کے اندر مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے ملک کے درمیانے اور نچلے طبقے کی مشکلات میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔

وزیراعظم میاں شہبازشریف کے علاوہ جمعے کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی گرین لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا ۔انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔پاکستان معاشی دلدل میں ہے۔ انشاء اللہ اس دلدل سے نکل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا میں رہنے کے لیے قائم کیا ہے، یہ واحد ملک ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنا تھا حتی کہ سعودی عرب بھی کلمہ شریف کے نام پر نہیں بنا۔ اگر اللہ نے پاکستان بنایا ہے تو اس کی حفاظت ، ترقی اور خوشحالی بھی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے تاہم بطور قوم ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی۔

وفاقی وزیر خزانہ کی یہ باتیں معاشی حقائق کے تناظر میں نہیں تھیں ' اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کے پاس معاشی اور مالیاتی مسائل کا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ محض ڈالر کو کنٹرول کرنے اور امپورٹ پر پابندی عائد کردینے سے ملک کا مالی بحران ختم نہیں ہو سکتا ' سری لنکا نے بھی ایسا تجربہ کیا تھا لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ پاکستان میں اچانک امپورٹ پر پابندی عائد کر دینا 'زیادہ مسائل کا باعث بنا ہے 'اس کے لیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔

پاکستان ابتدائی طور پر ایسی امپورٹ بند کرے جو طبقا امرا کی آسائشوں سے تعلق رکھتی ہے۔مثال کے طور پر کتوں اور بلیوں کی خوراک امپورٹ کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے تو اس سے عام آدمی یا درمیانے طبقے کے لوگوں پر اثر نہیں پڑے گا ' اسی طرح لگژری گاڑیوں کی امپورٹ پر بھی کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں جن اداروں نے اسمبلنگ پلانٹ لگا رکھے ہیں ' انھیں ایک مقررہ ٹائم فریم دے دیا جائے کہ وہ اس عرصے میں پرزہ جات خود تیار کریں اور ان کی امپورٹ بند کر دی جائے۔ اسی طرح دودھ اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں جن میں چاکلیٹس وغیرہ ہیں ان کی امپورٹ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

کنسٹرکشن کا شعبہ کیونکہ بہت بڑا ہے اور اس سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں کا روز گار وابستہ ہے ' اس لیے اس شعبے کے لیے درآمدات پر بھی فوری پابندی درست نتائج نہیں دے گی' اس کے لیے بھی طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے اور مقامی پروڈکٹس کی تیاری اور کوالٹی پر توجہ دی جائے ' اس کے بعد ایسی درآمدات پر کچھ مدت کے لیے پابندی عائد ہو سکتی ہے۔


معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستان کی معاشی صورتحال سنگین ہوگئی ہے ڈالر کی قدر بڑھنے اور آئی ایم ایف کی دیگر سخت شرائط سے ملک مہنگائی کا سیلاب امڈ آئے گا کاروباری و ٹرانسپورٹیشن لاگت سنگین حد تک بڑھ جائے گی اور مزید بیروزگاری بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 30جون 2023 تک پاکستان کو مجموعی طور پر 8ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں سے 3ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہونے کی توقع ہے۔یہ صورت حال یقینا حکومت کے علم میں ہے 'اب ملک کو مسائل کا سامنا ہے تو یقینی طور پراس کے حل کے لیے کام بھی کرنا ہو گا۔

میڈیا کی اطلاع کے مطابق ڈالر بحران پر قابو پانے کے لیے ایکس چینج کمپنیز آف پاکستان نے حکومت کو ماہانہ ایک ارب ڈالر لانے کی پیشکش کردی ہے۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چئیرمین نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقامی ایکس چینج کمپنیاں بیرونی ممالک سے ماہانہ ایک ارب ڈالر ملک میں لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو اوورسیز پاکستانیوں اور کمپنیوں سے دوسال کے ادھار پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایکس چینج کمپنیاں اس ضمن میں وفاقی حکومت کی اجازت کے طلبگار ہیں۔

ملک بوستان نے بتایا کہ مقامی ایکسچینج کمپنیوں نے1998کے ڈالر بحران کے دوران بھی بیرونی ممالک سے پاکستان کے لیے 10ارب ڈالر کا بندوبست کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈالر بحران کی بڑی وجہ بغیر ایل سی واجازت کے 4ارب ڈالر کی درآمدات ہیں، درآمدکنندگان کو مطلوبہ پیشگی اجازت کے بعد اپنے درآمدی کنسائمنٹس کی شپمنٹ منگوانی چاہیے تھی۔

انھوں نے کہا کہ کیپ ختم کرنے سے ڈالر اپنی حقیقی قیمت پر آگیا ہے لہٰذا برآمدی شعبوں کو چاہیے کہ وہ بیرونی ممالک روکے ہوئے 8 سے 10ارب ڈالر کی برآمدی آمدنی کی ترسیلات بیرونی ممالک میں ہیں جو اب ڈالر ریٹ بڑھنے سے پاکستان میں لاکر کیش کرائے جاسکتے ہیں۔

اگلے ماہ آئی ایم ایف جائزہ ٹیم کی پاکستان آمد سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اگلے ماہ کے دوران پاکستان کا قرض پروگرام بحال ہوجائے گا جو ذرمبادلہ کے بحران کی شدت میں قدرے کمی کا سبب بنے گا۔

اس حوالے سے حکومت کی پالیسی درست ہے کیونکہ ڈالر کو زبردستی کنٹرول نہیں کیا جا سکتا'آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو جائیں گے کیونکہ جون 2023 تک 2.8ارب ڈالر کے دوطرفہ اور سہ طرفہ قرضوں کی لازم ادائیگیوں کے دباؤکی وجہ سے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر گھٹ جائیں گے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے پاکستان اس بحران سے نکل آئے گا۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد پاکستان کے لیے سب سے اہم چیزملک کی مارکیٹ فورسز کو ریگولرکرنا ہے۔ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی بلاجواز مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔اس وقت خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہول سیل مارکیٹس میں دالوں کا اسٹاک بہت کم رہ گیا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کراچی پورٹ پر موجود دالوں کو فوری کلئیر نہ کیا گیا تو دالوں کی قلت بہت زیادہ ہوجائے گی۔

یہ ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس یقینا مکمل رپورٹس اور ریکارڈ ہو گا۔ملک میں ہول سیلرز اور ریٹیلرز نے پہلے سے امپورٹ کی ہوئی اشیا کی قیمتیں بھی ڈالر کی کل پرسوں کی قیمتوں کے تناظر میں بڑھا دی ہیں'یہ پاکستان میں باقاعدہ ایک کاروباری کلچر بن چکا ہے۔

اس حوالے سے ایک پالیسی ہونی چاہیے جس کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ جو اشیا ایک ماہ پہلے یا اس سے بھی پہلے امپورٹ ہو چکی ہیں ان کی ریٹیل پرائس کو آج کے ڈالر ریٹ کے تناظر میں نہ بڑھایا جا سکے ۔
Load Next Story