خواتین اور ملکی ترقی
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس عائشہ ملک کی بطور خاتون جج تقرری صنفی امتیاز کے خاتمے کی راہ میں پہلی بڑی کاوش ہے
کسی بھی معاشرے میں ترقی کے لیے صنفی تفریق کا خاتمہ بنیادی شرط ہے۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 5 واں بڑا ملک ہے۔ خواتین پاکستان کی آبادی کا 49 فیصد یعنی ورک فورس کا نصف بنتی ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں برسرروزگار مردوں کا تناسب 67 فیصد جب کہ خواتین کا صرف 21 فیصد ہے یعنی ہر 97 مردوں کے مقابلے میں صرف 21 خواتین ملازمت پیشہ ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق عالمی صنفی تفریق کے انڈیکس 2022 میں پاکستان 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر رہا، 10 کروڑ 70 لاکھ خواتین کی آبادی والے ملک میں صنفی فرق 56.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022' کے مطابق پاکستان بلاامتیاز اقتصادی شراکت اور معاشی مواقع فراہم کرنے میں 145ویں نمبر پر ہے، حصول تعلیم کے مواقع فراہم کرنے میں 135ویں، طبی سہولیات کی فراہمی میں 143ویں اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں 95ویں نمبر پر ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن کی 2020 میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ملازمت کی عمر کو پہنچ چکی خواتین کی تعداد 6 کروڑ 23 لاکھ ہے،یعنی ملکی آبادی کا قریبا 27 فیصد پیداواری عمل سے بالکل الگ تھلگ ہوچکا ہے۔کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں آبادی کا اہم کردار ہوتا ہے۔آپ ملکی آبادی کے قریبا نصف حصے کو ترقی اور پیداواری عمل سے دور رکھ کر کسی صورت ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔
پاکستان میڈیکل کونسل کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد خواتین ڈاکٹرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتیں اور یہ مسئلہ صرف میڈیکل کے شبعے تک ہی محدود نہیں بلکہ زیادہ تر خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری نہیں کرتیں یا پھر انھیں نوکری کرنے دی نہیں جاتی۔
محتاط اندازے کے مطابق ایک ڈاکٹر پر حکومت 30 سے 40 لاکھ روپیہ خرچ کرتی ہے جب کہ سرکاری جامعات میں انجینئرنگ اور آئی ٹی وغیرہ کی تعلیم پر بھی حکومت ٹھیک ٹھاک رقم خرچ کرتی ہے۔خواتین میں تعلیم کے بعد روزگار کی طرف نہ آنے کے رجحان میں اہم وجوہات ملازمتوں کے مواقعوں میں کمی،ٹرانسپورٹ کے مسائل،کام کی جگہ پر ہراسمنٹ اور گھرداری کے مسائل شامل ہیں۔
خواتین کی خودمختاری اور صنفی تفریق کی راہ میں صرف ناکافی حکومتی اقدامات ہی نہیں بلکہ سماجی رویوں کا بھی اہم کردار ہے۔آج بھی پاکستان میں یہ سوچ موجود ہے کہ خواتین کا اصل مقام گھرداری اور بچوں کی پرورش تک محدود ہے۔سماجی رویے اپنی جگہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ صنفی تفریق کے خاتمے اور خواتین کی خودمختاری کے لیے موثر اقدامات کرے۔
پاکستان میں خواتین کی 49 فیصد آبادی کے باوجود سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ صرف 15 فیصد ہے۔نجی شعبوں سے وابستہ ملازمتوں میں تو اس کوٹے پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔صنفی مساوات کے لیے منظور کیے گئے بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کم از کم ایک تہائی یعنی 33 فیصد کوٹہ ہونا ضروری ہے۔
شادی شدہ خواتین کے لیے ڈے کئیرسینٹرز کا قیام،ٹرانسپورٹ کی سہولیات، ملازمتوں کے کوٹے میں اضافے،نجی شعبوں میں کم از کم اجرت کے قوانین پر پابندی اور دوران زچگی چھٹیوں کے قوانین پر عمل درآمد سے بھی خواتین کی خود مختاری کی راہ میں حائل سماجی رویوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔
صنفی تفریق کے خاتمے اور خواتین کو قومی ترقی کے عمل میں شامل کرنے کے لیے ہمارے پاس برادر اسلامی ملک ترکی اور چین کی مثال موجود ہے۔ترکی جہاں لبرل سیکولر اور قدامت پرست طبقات کی باہم چپقلش کئی دہائیوں سے جاری ہے اس کے باوجود ترکی نے اسلامی اور سماجی اقدار کے اندر رہتے ہوئے اپنے ملک کی خواتین کو خودمختاری دیکر برابری کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ترکی وہ پہلا ملک ہے جس نے 1930 میں خواتین کو الیکشن لڑنے سمیت تمام سیاسی حقوق دیے۔
یہ پہلا ملک ہے جس نے اپنی آئینی عدالت کے صدر کے طور پر ایک خاتون کا انتخاب کیا۔پڑوسی ملک چین صنفی مساوات کی بہترین مثال ہے جس نے خواتین کو چیئرمین ماؤ کے مشہور نعرے''وقت بدل گیا ہے۔مرد اور خواتین ایک برابر ہیں۔جو کچھ مرد کر سکتے ہیں،وہ خواتین بھی کر سکتی ہیں'' کے تحت خواتین کو آئینی اور قانونی طور پر برابری کے حقوق دیے۔
آج چین میں ایک عام آدمی کے طور پر مرد اور خواتین کے درمیان فرق محسوس کرنا مشکل ہے۔چین میں خواتین سوائے بھاری مشقت کے چند کاموں کے ہر شعبے میں مردوں کے برابر حصہ لے رہی ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری کردہ 2020 'گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ' کے مطابق خواتین کی پیشہ ورانہ اور تکنیکی ملازمتوں کی شرح اور اعلیٰ تعلیم کے اندراج کی شرح کے لحاظ سے چین دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔
یہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنھوں نے خواتین کی خودمختاری اور حقوق کے لیے سب سے زیادہ کام کیے،چاہے وہ خواتین کے لیے ایک پولیس اسٹیشن ہوں یا خواتین کے آئینی و قانونی حقوق کا تحفظ لیکن اب بھی بہت کام باقی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس عائشہ ملک کی بطور خاتون جج تقرری صنفی امتیاز کے خاتمے کی راہ میں پہلی بڑی کاوش ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک خواتین کو برابری کی بنیاد پر خودمختاری اور ترقی کے مواقع نہیں ملتے تب تک معاشی خودمختاری اور ترقی ممکن نہیں۔