تعلیمی مافیا
اس کروڑوں روپے کی کمائی پر باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنا خود ان نام نہاد استادوں کی بھی اولین ذمے داری ہے
استاد کو ہر زمانے میں قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ استاد کی اہمیت اور ان کا مقام و مرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون مددگار ثابت ہوتا ہے۔
استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی سنوارتا ہے جیسے ایک سونار دھات کے ٹکڑے کو سنوارتا ہے۔ استاد علم کے حصول کا برائے راست ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے ان کی تکریم اور ان کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ استاد منبع علم ہونے کے ناتے ہمارے روحانی باپ ہوا کرتے ہیں۔
ہماری اخلاقی اور روحانی اصلاح و فلاح کے لیے اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیم میں استاد کی تکریم کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ ﷺ کا یہ کہنا'' انما بعثت معلما ''کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ استاد کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کی مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی، تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے، حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو۔ ہمیں ہمیشہ درس دیا گیا کہ استاد کے ادب و احترام کو اپنے اوپر لازم سمجھیں اور استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے ان کی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں۔ یہ تمام باتیں تو ان استادوں کی ہیں جو تعلیم دینا بھی ایک عبادت سمجھتے تھے اور طلبا کوکسی لالچ و حرص کے بغیر انتہائی محنت اور دیانتداری سے پڑھایا کرتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب اسکولزکالجز میں استاد اس طرح تعلیم دیا کرتے تھے کہ کسی طالب علم کو ٹیوشن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی اور عموما ٹیوشن پڑھنے والے کو نکما اورکام چور سمجھا جاتا تھا ، لیکن پھر دھیرے دھیرے تعلیم کو بھی '' کمرشلائزڈ '' کر دیا گیا۔ استاد جیسے مقدس اور عظیم رشتے کو بروکر اور '' بنیا'' بنا دیا گیا جو ہر وقت صرف اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ پیسہ کیسے بنایا جائے۔
میں ایسے لوگوں کو استاد نہیں بلکہ '' استاد نما '' لوگ سمجھتا ہوں جو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے پہلے ایسے استاد کسی اسکول میں نوکری تلاش کرتے ہیں ، جہاں تعلیم دینے کے دوران یہ لوگ اپنی چرب زبانی سے ایسے شاگردوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو دوسرے طلبا کی نسبت پڑھائی میں نسبتا کمزور ہوں اور ایسا طالبعلم ان استاد نما لوگوں کی قابلیت سے زیادہ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوتا ہے۔ پھر انھی طالبعلموں کے ذریعے یہ استاد نما لوگ اپنی '' لابنگ '' کرتے ہیں جس کے لیے موجودہ دور میں سوشل میڈیا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔
اس لابنگ کے دوران ایسے استاد نما لوگوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں شیئرکی جاتی ہیں کہ فلاں سر بہت قابل ہیں ، فلاں سرکا پڑھانے کا انداز بہت زبردست ہے ، ان سے پڑھنے والا بچہ کبھی فیل نہیں ہوتا ، وغیرہ وغیرہ جس کے ذریعے دیگر طالبعلموں کو بھی ٹیوشن لینے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے خصوصا پرائیویٹ اسکولزکی عمارتوں میں بھاری کرائے دے کر ٹیوشن سینٹرز کھولے گِئے ہیں، جہاں دن میں اسکول اور شام میں ٹیوشن سینٹرز چلائے جا رہے ہیں اور صرف ایک مضمون کے پڑھانے کے دس سے بیس ہزار روپے تک لے کر ٹیوشن پڑھائی جا رہی ہے۔
اس وقت سیکڑوں کی تعداد میں طالبعلم ان کاروباری استادوں سے ٹیوشن پڑھتے ہیں ، یہ ایک ایسا بھرپور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ جس میں صرف ایک بار تھوڑی سی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے اور کسی بھی استاد نما شخص کو دیوتا اور مسیحا کے طور پر مشہورکروایا جاتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے یہ استاد نما بنیے لاکھوں سے کروڑوں میں کھیلنے لگے ہیں ، وہ جن کے پاس کل تک سواری کے لیے موٹر سائیکل تک نہیں ہوتی تھی اور جو اس کاروبار سے پہلے شاید فرنچ فرائزکا ٹھیلا لگایا کرتے تھے اب ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی خریدتے ہیں جس میں صرف بھرم بازی کے لیے اپنے ساتھ ایک سیکیورٹی گارڈ رکھنا بھی ایک فیشن بن چکا ہے۔
لاکھوں روپے طلبا سے ماہانہ بٹورنے والے شخص کے لیے پچیس سے تیس ہزارکا سیکیورٹی گارڈ رکھنا کون سی بڑی بات ہے۔ یہ استاد نما حضرات ہر سال ایک بار اپنی فیملی کے ہمراہ غیر ملکی تفریحی دوروں پر بھی ضرور جاتے ہیں جس کی بھرپور مارکیٹنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ طلبا متاثر ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ جن دنوں یہ اپنے ذاتی تفریحی دوروں پر ہوتے ہیں ان ایام کی فیس ایڈوانس میں طالبعلم ادا کر چکے ہوتے ہیں۔
ان استاد نما بنیوں نے ان ٹیوشن سینٹرز میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے ، جہاں جب ان کی مرضی ہو یہ کوئی بھی مقرر کلاس کینسل کر دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی کلاس اگر شام پانچ بجے کی مقرر ہے اور جس کے لیے تمام طالبعلم مقررہ وقت سے پہلے سینٹر پہنچ چکے ہوتے ہیں تو پیغام ملتا ہے کہ '' آج سر نہیں آئیں گے یا آج سر چند گھنٹے بعد کلاس لیں گے '' گویا کہ اب ایک طرف تو والدین ان کو ان کی منہ مانگی بھاری فیسیں بھی ادا کریں اور دوسری جانب اپنے تمام کام چھوڑ کر اپنے بچے کے ہمراہ ان کے سینٹر پہنچنے کا انتظارکریں اور ان کے نخرے برداشت کریں۔
والدین سے بھاری فیسیں لینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ استاد نما اشخاص والدین اور طلبا پر احسان کر رہے ہیں اور اگرکبھی کوئی طالب علم کسی مجبوری کی وجہ سے ان کی کلاس میں دیر سے پہنچے تو اس کے ساتھ انتہائی تضحیک آمیز رویہ اختیارکیا جاتا ہے اور سزا کے طور پر انھیں کلاس میں داخل بھی نہیں ہونے دیتے جس سے کسی بھی طالبعلم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ، یہاں تو اسلامیات جیسے مضمون پڑھانے کے پانچ ہزار سے دس ہزار روپے فی شاگرد چارج کیے جاتے ہیں لیکن اسلامیات کا درس دینے والے خود اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ اسلام میں صلہ رحمی اور اخلاق حسنہ کے بارے میں کیا احکامات دیے گئے ہیں۔
مال بنانے کی ہوس یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ٹیوشن فیس کے علاوہ پاس پیپرز بنا کر اپنے شاگردوں کو خریدنے پر بھی مجبور کیا جاتاہے یوں اضافی مال بھی بٹور رہے ہیں۔ ان کی بدمعاشی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حال ہی میں تمام طالب علموں کو ماہ مئی کی فیس بھی رواں ماہ جنوری کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت کی ہے جب کہ مئی میں اسکول موسم گرما کی تعطیلات کے باعث بند ہو چکے ہوں گے اور بیشتر طلبا ٹیوشن نہیں لینا چاہیں گے ، لیکن چونکہ ان ٹیوشن سینٹرز پرکوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے اس لیے یہ اپنی من مانی کر رہے ہیں ،کیا ایسے لوگ استاد کہلانے کے لائق ہیں کہ جن کا دین ایمان صرف پیسہ بنانا ہو؟
عزت اور تکریم کے لائق وہ استاد تھے جنھوں نے کبھی بھی اپنے شاگردوں کو پیسہ لے کرٹیوشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ وہ اپنی کلاس کے قدرے کمزور طالب علموں کو ازخود اپنے گھر بلا کر بنا کسی لالچ اور نذرانوں کے اضافی سبق دیا کرتے تھے۔ نہ صرف گھر بلا کر پڑھاتے تھے بلکہ گھر میں موجود جو بھی روکھی سوکھی موجود ہوتی تھی طالب علموں کے سامنے رکھ دیا کرتے تھے۔
ان کی ڈانٹ بھی بری نہیں لگتی تھی کیونکہ ان کی ڈانٹ میں بھی ایک شفقت اور پیار ہوتا تھا ، یہ اگر کسی طالب علم کو انتظار بھی کرواتے تو وہ گراں نہیں گذرتا تھا کیونکہ اضافی کلاس لینے کے لیے ان کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی تھی۔ اسی لیے وہ استاد آج بھی کہیں نظر آجائیں تو انھیں ویسی ہی عزت دی جاتی ہے ، جب کہ ان بنیے نما استادوں کو ان کے یہی شاگرد ان کے پیچھے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔
ماضی میں استادوں کا کردار اور قابلیت شاگردوں کے لیے مشعل راہ کا کام کرتا تھا ، جب کہ آج کل کے یہ کاروباری استاد اپنے گھمنڈی رویے سے اپنے شاگردوں کو نمود و نمائش کا دلدادہ اور دوسروں کی تضحیک اڑانے کا سبق سکھا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیوشن سینٹرز حکومت کو کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتے ، لیکن جس طرح سے یہ پرائِیویٹ ٹیوشن سینٹرز طالب علموں اور ان کے والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں تو ان کو بھی باقاعدگی سے ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا حکومت کا فرض ہے۔
اس کروڑوں روپے کی کمائی پر باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنا خود ان نام نہاد استادوں کی بھی اولین ذمے داری ہے جو اپنی کلاسز میں طلبا کو اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے۔