زباں فہمی نمبر172 سرقہ توارُد چربہ اور استفادہ حصہ سِوُم آخری
غالبؔ خوش قسمت تھے کہ انھیں شیفتہ ؔ جیسا تنقیدی مزاج کا حامل دوست ملا
غالبؔ خوش قسمت تھے کہ انھیں شیفتہ ؔ جیسا تنقیدی مزاج کا حامل دوست اور علامہ فضل حق خیرآبادی جیسا جید عالم، ناقد اور سخنور بطور رہنما ملا جس نے ان کے دیوان کا اولین عکس مرتب کیا، مگر ذوقؔ سے اُن کے اپنے چہیتے شاگرد، آزادؔ نے عجیب معاملہ کیا،جہاں جہاں محسوس کیا کہ استاد کا کلام کچھ خفیف ہے، بدل ڈالا، یوں سرقہ نہ سہی، ایک اور طرح کی واردات یعنی تحریف وجعل سازی نے ہماری ادبی تاریخ میں جنم لیا۔
کلام نظم ونثر میں تحریف کا باب ایک الگ بحث کا مقتضی ہے۔ سرقے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی نے مختلف شعراء کا کلام جمع کرکے اپنا دیوان تیارکرلیا جیسے عاجزؔ تخلص کے ایک گمنام شاعر نے اپنا دیوان بنالیا جو آج بھی ہندو یونیورسٹی، بنارس میں محفوظ ہے۔ کسی نے دردؔ کا ایک دیوان تخلص بدل کراپنے نام کرلیا۔
یہاں اگر وہ فہرست دُہرائی جائے جس میں شامل اردو مشاہیر سخن کا فارسی سے ترجمہ، بالواسطہ یا براہ راست استفادہ اور چربہ ثابت ہے تو اس کالم کی ایک اور قسط تیار ہوجائے گی اور یہ بات بھی بہرحال عام قاری کے لیے تعجب خیز ہوگی کہ ابھی تک ناقدین فن اس نکتے پر متفق نہیں ہوئے کہ یہ سلسلہ تمام کا تمام ہی سرقہ وتوارُد کے زُمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔
ایک بات البتہ گزشتہ بحث سے منسلک یہ عرض کروں کہ میرزا غالبؔ کے کلام پر بیدلؔ کی چھاپ کا معاملہ تو مشہور ہے ہی، بقول محترم افتخار اِمام صدیقی، اُنھوں نے غنیؔ کاشمیری کے فارسی کلام سے بھی خوب"استفادہ" کیا۔
کلام غالبؔ سے سرقہ کرنے والوں کی فہرست بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔امیرؔ مینائی جیسے صاحب ِ علم کا یہ شعر دیکھیے:
کیوں نہ مرجائیے اَب اُن کی اداؤں پہ اَمیرؔ
قتل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں شمشیر نہیں!
یہ غالبؔ کے مشہور شعر کا پرتو ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
کلام غالبؔ سے شعوری وغیر شعوری طور پر سرقے یاسرقہ نما استفادے کے مرتکب شعراء میں جدید غزل کے بڑے نام حسرت ؔ موہانی، اصغرؔگونڈوی اور فانیؔ بدایونی بھی شامل ہیں۔
یہاں رک کر ذرا میرؔکا مشہور ِ زمانہ شعر یاد کیجئے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ہمارے عہد کے نامور شاعر صباؔ اکبر آبادی نے کہا:
ملتے کہاں ہیں ایسے محبت رسیدہ لوگ
کرتے رہو ہماری زیارت کبھی کبھی
اُن کے نزدیک استفادہ ہے، ناقدین اسے بھی سرقہ شمار کرتے ہیں۔
ایک سادہ لوح محقق نے تو غالبؔ وذوقؔ کے مابین شہزادے کے سہرے لکھنے کا معاملہ بھی سرقہ وتوارُد کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، مگر وہ محض جواب ِدعویٰ کے ضمن میں شمار ہوتا ہے۔اسی طرح اساتذہ نے ایک ہی زمین میں کئی مشہور اشعار یا پوری پوری غزلیں ایسی کہی ہیں کہ ایک سے دوسرے کی پہچان دشوار ہے، مگر اُن پر بھی سرقے کا الزام لگانا غلط ہے۔ایسی ہی ایک مشہور مثال پیش خدمت ہے:
زمین ِ چمن گُل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
(آتشؔ)
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
(آتشؔ)
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
(امیرؔ مینائی)
سرقے کی ایک شکل،غلط انتساب بھی ہے یعنی یہ کہ کسی نے کوئی شعر، اپنی من چاہی ترمیم کرکے کسی اور کے نام سے مشہور کردیا،جیسے داغؔ کا شعر ہے:
ہزار کام مزے کے ہیں داغؔ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
اسے ابتذال کے شوقین کسی شخص نے تبدیل کرکے، غالبؔ کے نام سے مشہورکردیا:
بٹھا کے یار کو پہلو میں ساری رات اَسدؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
میرزا رضابرقؔکا شعر ہے:
عقل آرائی وتدبیر سے کیا ہوتاہے
وہی ہوتا ہے جو منظور ِ خدا ہوتاہے
اسے آغاحشرؔ کاشمیری سے منسوب کرتے ہوئے اس کا حلیہ یوں بگاڑاگیا:
مدعی لاکھ بُراچاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتاہے
بسمل ؔ عظیم آبادی (تلمیذِ شادؔ عظیم آبادی) کا معرکہ آرا (ہمزہ کے بغیر) شعرہے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا،بازوئے قاتل میں ہے
اسے پنڈت رام پرشاد بسملؔ شاہجہاں پوری سے غلط منسوب کردیا گیا۔بسملؔ عظیم آبادی کا ایک کم مشہور شعر دیکھیے:
جو بات سارے فسانے کی جان تھی بسملؔ
یہ اتفاق کہ آئی وہ داستاں میں نہیں
اب فیض احمد فیض ؔ کا ضرب المثل شعر ملاحظہ فرمائیں اور ایمان داری سے کہیں کہ انھوں نے اپنے بزرگ معاصر سے کتنا 'استفادہ' کیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شادؔ کے ایک اور شاگر د سید خیرات حسین بسملؔ عظیم آبادی بھی ہوگزرے ہیں۔
سلمان ؔ عظیم آبادی، تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:
آگیا کام مِرا اشکِ ندامت آخر
ایک قطرے نے جہنم کو بجھا کر رکھا
کیا علامہ اقبالؔ کا "قطرے جو تھے مِرے عرق ِ انفعال کے" یاد نہیں آتا۔
ویسے علامہ اقبال کی مشہور 'دعا' "لب پہ آتی ہے دعا"، (1902)بھی انگریزی شاعرہ Matilda Barbara Betham Edwardsکی 1873ء میں لکھی گئی انگریزی نظم کا ترجمہ ہے۔
شائق ؔ عظیم آبادی،تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:
کچھ آج آئی ہے ہجر کی شب؟ ہمیشہ یوں ہی ہُواکیا ہے
کہ جب بلا آسماں سے اُتری، وہیں سے تاکا غریب خانہ
صاحبو! یہ انوریؔ کے اس کلام کا ترجمہ ہے:
ہر بلائی (بلائے) کز آسمان آید
گرچہ بر دیگران قضا باشد
بہ زمین نارسیدہ می گوید
خانہ ئ انوری کجا باشد
حمید ؔ عظیم آبادی، تلمیذِ شادؔ کا شعر دیکھیے:
تصدق ان بے نیازیوں کے، کسی سے مجھ کو گِلہ نہیں ہے
مجھے ستاکر ہے خوش زمانہ کہ جیسے میرا خدا نہیں ہے
(غزل محررہ 15دسمبر 1951ء)
اب ذرا اُنھی کے معاصر، استادقمر ؔ جلالوی کو یاد فرمائیں:
ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مِری، کیا تمھارا خدا ہے، ہمارا نہیں
بظاہر یہ سرقہ ہے نہ توارُد اور پھر قمر ؔ جیسے عوامی شاعر سے بعید ہے کہ انھوں نے کوئی کم مشہور کلام یوں 'اپنالیا' ہو، مگر پھر بھی خاکسار نے نقل اس لیے کردیا کہ کہیں ذکر آسکتاہے۔
منفرد شاعر جناب احمد نوید کی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں جو کسی رخسانہ نازی ؔ (مقیم راول پنڈی) نے پوری کی پوری سرقہ کرلی:
گھر کی ویران منڈیروں پہ دِیا رکھنے سے
کوئی آتا نہیں دروازہ کھلا رکھنے سے
جرمنی میں مقیم جناب حیدرقریشی کی ایک غزل کا شفیق آصف کے ہاتھوں سرقہ بھی مشہور ہے۔جرمنی ہی میں مقیم نعیمہ ضیاء الدین نے اپنے کلام کا مجموعہ تیار کرتے ہوئے،غالبؔ، فیضؔ اور ساحرؔ کا مربّہ بنایا ہے۔
دنیائے شعروسخن میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی استاد نے معاوضے یا کسی اور بِناء پر پوراپورا دیوان یا متفرق کلام کسی کو لکھ کر دے دیا۔ دور کیوں جائیے، علامہ سیماب ؔ اکبرآبادی جیسے بزرگ سخنور کے متعلق اُنھی کے پوتے محترم افتخار اِمام صدیقی یہ انکشاف کر گئے ہیں۔ جدید شعراء میں منور قریشی کا نوشی گیلانی کو ابتدائی دومجموعہ ہائے کلام لکھ کر دینا اور ایک مد ت بعد، نوشی کا اس سے مکرجانا بہت مشہور ہے، مگر تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ بزرگوار خود بھی کسی زمانے میں سید آل احمد سے غزلیں لکھوایا کرتے تھے۔ پاکستان کی سب سے مشہور متشاعرہ کے متعلق یہ خاکسار پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ وہ بقول ایک بزرگ شاعرہ، تیرہ شعراء سے لکھواچکی ہے۔
یہاں میں اپنے مشفق بزرگ معاصر، اردو،فارسی، سرائیکی اور انگریزی پر حاوی، پنجابی سے واقف، امدادؔ نظامی مرحوم کا بھی ذکر کرنا چاہتاہوں جن کی (کوئٹہ میں)وفات کے بعد گھر بند رہا تو کسی نے اُن کی غیر مطبوعہ متعدد نگارشات بشمول خودنوشتہ سوانح، ڈرامے، چُرالیے جو ہزاروں صفخات پرمشتمل خزانہ تھا۔ہوسکتا ہے کہ کسی مناسب وقت کا انتظار ہوجعل سازی کے لیے۔
شاعری میں نعت گوئی کا اپنا جداگانہ مقام بھی اس علّت سے محفوظ نہیں رہا۔نامور شاعر امید ؔ فاضلی کی کہی ہوئی مشہور نعت "کبھی یاسین ومبشر، کبھی طٰہٰ لکھوں" کو کسی راؤ یعقوب صاحب (مقیم مکہ معظمہ) نے اپنے نام سے روزنامہ اردو نیوز، جدّہ کے میگزین مؤرخہ21جولائی2000ء میں شایع کروادی۔ امدادؔ ہمدانی (مقیم جہلم) کی ایک نعت (مطبوعہ 'ماہِ نَو' (لاہور،بابت دسمبر 1984ء)،کاوش بٹ (مقیم لالہ موسیٰ) نے روزنامہ اِمروز، لاہور، مؤرخہ 21جولائی 1985ء میں اپنے نام سے شایع کروائی۔
ہمارے عہد کے معروف نعت گو جناب خالد محمود پر،(سینہ گزٹ کے مطابق) یہ الزام تھا کہ وہ ممتاز نعت گو محترم وقار صدیقی کے صحبت یافتہ ، شاید اُن سے اصلاح یافتہ تھے،اُنھوں نے انھی بزرگ کا اکثر کلام اپنے نام کرکے مشہور کردیا۔یہ الزام یقینا سنگین ہے، مگر کوئی شواہد میرے پاس نہیں۔خالد مرحوم کچھ عرصے میرے پڑوس میں بھی مقیم رہے، مگر محض دور سے سلام علیک تھی، ورنہ شاید بندہ اُن سے استفسار کی جسارت کرتا۔
اردو کی اولین افسانوی تصنیف 'سَب رَس'،درحقیقت فارسی سے لی گئی ہے،جبکہ قصہ چہار دَرویش بھی فارسی سے مستعار ہے اور مختلف ناموں سے ترجمہ اور طبع زاد ہوکر پیش ہوا، مگر بہرحال میر امنؔ کا کام بجائے خود، طبع زاد ہے۔طلسم ہوش رُبا اور طلسم کُن فَیکُون (عاشق حسین بزمؔ) کا معاملہ بھی چربے کے زُمرے میں آتاہے۔قصہ گل وصنوبر فارسی میں سید باصرعلی نے لکھا، پیم چند کھتری نے اردومیں ترجمہ کرتے ہوئے مصنف کو گمنام قراردیا اور اس داستان کو سید ولایت علی نے نقل کرتے ہوئے "عجیب وغریب" لکھ دی، مگر حوالہ نہ دیا۔
اردو کی دیگر قدیم داستانیں بھی فارسی سے ترجمہ ہیں، مگر انھیں طبع زاد سمجھاجاتاہے۔قاری سرفراز حسین عزمی ؔ کے ناول 'شاہد ِ رعنا' (1897ء) کو میرزاہادی رسواؔ نے اپنی کاری گری سے چربہ کرتے ہوئے 'اُمراؤ جان ادا' کا نام دیا، 1899ء میں شایع کرکے۔سجاد حیدریلدرم ترکی زبان سے بخوبی آشنا تھے۔انھوں نے ترکی کے رومانی افسانے ترجمہ کیے یا چربہ، دونوں ہی صورت میں طبع زاد کی شکل میں پیش کرکے شہرت پائی۔رومانیت کی تحریک میں نیاز فتح پوری کا نام شامل ہے جن کی کتب کی کثیرتعداد،دیگر فاضل اہل قلم کا ترجمہ وچربہ ہیں۔
عصمت چغتائی کا مشہور ناولِٹ 'ضدّی' (1942)درحقیقت ترکی ناول 'ہاجرہ' کا انگریزی سے ترجمہ وچربہ ہے جو 1899ء میں اردو میں ترجمہ ہوچکا تھا۔قدرت شہابؔ کا ناولِٹ "یاخدا" (1947)، کرشن چندر کے ایک سال پرانے ناولِٹ "اَن داتا" کا چربہ ہے۔انتصار حسین کا ناول 'پتھر'، تسنیم سلیم چھتاری کے افسانے 'بہ انداز دِگر'سے ماخوذ ہے۔عزیز احمد کے ناولٹ 'جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں' (1958)کو جلیل حشمی نے منظوم چربہ کرتے ہوئے نام دیا 'طلوع وغروب' (1959)۔مشہور ناول 'اداس نسلیں' بھی قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا چربہ ہے۔1964ء کی مشہور ترین ہندوستانی فلم 'وہ کون تھی' کا چربہ، افسانہ 'آوازیں' کے عنوان سے میرزا حامدبیگ نے پیش کردیا، 1999ء میں۔ہمارے بزرگ سید امتیاز علی تاج کے 'انارکلی' پر الزام ہے کہ کسی نامعلوم یورپی عیسائی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔
پی ایچ ڈی کے مقالہ جات میں سرقہ بہت عام ہوچکا ہے اور (یہ سلسلہ محض اردو زبان وادب وصحافت تک موقوف نہیں، بلکہ سائنسی مضامین میں بھی خاص طور پر وطن عزیز کا نام بہت بدنام کیا گیا ہے) اس طویل فہرست میں ڈاکٹر صفدرمحمود جیسا محترم نام بھی شامل ہے۔ ڈی لِٹ کے مقالے مؤلفہ سلیم احمد کا ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاتھوں منظر عام پر آنا بھی سینہ گزٹ ہے، مگر ثبوت میرے پاس نہیں۔خواجہ احمد فاروقی کا کتاب 'ارسطو سے ایلیٹ تک' لکھ کر جمیل جالبی کے نام کردینا، اردو زبان کی داستان مختلف بزرگوں سے لکھواکراپنے نام سے شایع کرنا وغیرہ یہ سارامواد، سردست میرے پاس نہیں جو سہ ماہی بادبان کے مدیر، ممتاز افسانہ نگار ناصر بغدادی نے شایع کیا، اسی طرح طارق سبزواری کا اپنے دادا کی بیاض سے کلام پڑھنا اور جمیل الدین عالیؔ کا اپنے ہم نام دادا کا کلام پیش کرنا، یہ سب ذہن میں ہے، مگر کتابی مواد سامنے نہیں۔
ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے بعنوان "ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرکی شخصیت اور فن" (سند: 2002ء، جامعہ پنجاب، لاہور; کتابی شکل میں اشاعت: 2005ء۔پاکستان اردواکیڈمی، لاہور)کے بہت سارے مندرجات کا سرقہ، اسی نام سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شایع ہونے والی کتاب میں محترمہ شبنم شکیل (دختر عابدعلی عابدؔ) نے کرنے کی جسارت کی۔
آخری بات: اس خاکسار کے شعری، نثری، صحافتی و نشریاتی مواد میں بھی سرقہ بہت ہوچکا ہے جس کا ذکر فی الحال چھوڑتا ہوں۔
کلام نظم ونثر میں تحریف کا باب ایک الگ بحث کا مقتضی ہے۔ سرقے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی نے مختلف شعراء کا کلام جمع کرکے اپنا دیوان تیارکرلیا جیسے عاجزؔ تخلص کے ایک گمنام شاعر نے اپنا دیوان بنالیا جو آج بھی ہندو یونیورسٹی، بنارس میں محفوظ ہے۔ کسی نے دردؔ کا ایک دیوان تخلص بدل کراپنے نام کرلیا۔
یہاں اگر وہ فہرست دُہرائی جائے جس میں شامل اردو مشاہیر سخن کا فارسی سے ترجمہ، بالواسطہ یا براہ راست استفادہ اور چربہ ثابت ہے تو اس کالم کی ایک اور قسط تیار ہوجائے گی اور یہ بات بھی بہرحال عام قاری کے لیے تعجب خیز ہوگی کہ ابھی تک ناقدین فن اس نکتے پر متفق نہیں ہوئے کہ یہ سلسلہ تمام کا تمام ہی سرقہ وتوارُد کے زُمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔
ایک بات البتہ گزشتہ بحث سے منسلک یہ عرض کروں کہ میرزا غالبؔ کے کلام پر بیدلؔ کی چھاپ کا معاملہ تو مشہور ہے ہی، بقول محترم افتخار اِمام صدیقی، اُنھوں نے غنیؔ کاشمیری کے فارسی کلام سے بھی خوب"استفادہ" کیا۔
کلام غالبؔ سے سرقہ کرنے والوں کی فہرست بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔امیرؔ مینائی جیسے صاحب ِ علم کا یہ شعر دیکھیے:
کیوں نہ مرجائیے اَب اُن کی اداؤں پہ اَمیرؔ
قتل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں شمشیر نہیں!
یہ غالبؔ کے مشہور شعر کا پرتو ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
کلام غالبؔ سے شعوری وغیر شعوری طور پر سرقے یاسرقہ نما استفادے کے مرتکب شعراء میں جدید غزل کے بڑے نام حسرت ؔ موہانی، اصغرؔگونڈوی اور فانیؔ بدایونی بھی شامل ہیں۔
یہاں رک کر ذرا میرؔکا مشہور ِ زمانہ شعر یاد کیجئے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ہمارے عہد کے نامور شاعر صباؔ اکبر آبادی نے کہا:
ملتے کہاں ہیں ایسے محبت رسیدہ لوگ
کرتے رہو ہماری زیارت کبھی کبھی
اُن کے نزدیک استفادہ ہے، ناقدین اسے بھی سرقہ شمار کرتے ہیں۔
ایک سادہ لوح محقق نے تو غالبؔ وذوقؔ کے مابین شہزادے کے سہرے لکھنے کا معاملہ بھی سرقہ وتوارُد کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، مگر وہ محض جواب ِدعویٰ کے ضمن میں شمار ہوتا ہے۔اسی طرح اساتذہ نے ایک ہی زمین میں کئی مشہور اشعار یا پوری پوری غزلیں ایسی کہی ہیں کہ ایک سے دوسرے کی پہچان دشوار ہے، مگر اُن پر بھی سرقے کا الزام لگانا غلط ہے۔ایسی ہی ایک مشہور مثال پیش خدمت ہے:
زمین ِ چمن گُل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
(آتشؔ)
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
(آتشؔ)
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
(امیرؔ مینائی)
سرقے کی ایک شکل،غلط انتساب بھی ہے یعنی یہ کہ کسی نے کوئی شعر، اپنی من چاہی ترمیم کرکے کسی اور کے نام سے مشہور کردیا،جیسے داغؔ کا شعر ہے:
ہزار کام مزے کے ہیں داغؔ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
اسے ابتذال کے شوقین کسی شخص نے تبدیل کرکے، غالبؔ کے نام سے مشہورکردیا:
بٹھا کے یار کو پہلو میں ساری رات اَسدؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
میرزا رضابرقؔکا شعر ہے:
عقل آرائی وتدبیر سے کیا ہوتاہے
وہی ہوتا ہے جو منظور ِ خدا ہوتاہے
اسے آغاحشرؔ کاشمیری سے منسوب کرتے ہوئے اس کا حلیہ یوں بگاڑاگیا:
مدعی لاکھ بُراچاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتاہے
بسمل ؔ عظیم آبادی (تلمیذِ شادؔ عظیم آبادی) کا معرکہ آرا (ہمزہ کے بغیر) شعرہے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا،بازوئے قاتل میں ہے
اسے پنڈت رام پرشاد بسملؔ شاہجہاں پوری سے غلط منسوب کردیا گیا۔بسملؔ عظیم آبادی کا ایک کم مشہور شعر دیکھیے:
جو بات سارے فسانے کی جان تھی بسملؔ
یہ اتفاق کہ آئی وہ داستاں میں نہیں
اب فیض احمد فیض ؔ کا ضرب المثل شعر ملاحظہ فرمائیں اور ایمان داری سے کہیں کہ انھوں نے اپنے بزرگ معاصر سے کتنا 'استفادہ' کیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شادؔ کے ایک اور شاگر د سید خیرات حسین بسملؔ عظیم آبادی بھی ہوگزرے ہیں۔
سلمان ؔ عظیم آبادی، تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:
آگیا کام مِرا اشکِ ندامت آخر
ایک قطرے نے جہنم کو بجھا کر رکھا
کیا علامہ اقبالؔ کا "قطرے جو تھے مِرے عرق ِ انفعال کے" یاد نہیں آتا۔
ویسے علامہ اقبال کی مشہور 'دعا' "لب پہ آتی ہے دعا"، (1902)بھی انگریزی شاعرہ Matilda Barbara Betham Edwardsکی 1873ء میں لکھی گئی انگریزی نظم کا ترجمہ ہے۔
شائق ؔ عظیم آبادی،تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:
کچھ آج آئی ہے ہجر کی شب؟ ہمیشہ یوں ہی ہُواکیا ہے
کہ جب بلا آسماں سے اُتری، وہیں سے تاکا غریب خانہ
صاحبو! یہ انوریؔ کے اس کلام کا ترجمہ ہے:
ہر بلائی (بلائے) کز آسمان آید
گرچہ بر دیگران قضا باشد
بہ زمین نارسیدہ می گوید
خانہ ئ انوری کجا باشد
حمید ؔ عظیم آبادی، تلمیذِ شادؔ کا شعر دیکھیے:
تصدق ان بے نیازیوں کے، کسی سے مجھ کو گِلہ نہیں ہے
مجھے ستاکر ہے خوش زمانہ کہ جیسے میرا خدا نہیں ہے
(غزل محررہ 15دسمبر 1951ء)
اب ذرا اُنھی کے معاصر، استادقمر ؔ جلالوی کو یاد فرمائیں:
ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مِری، کیا تمھارا خدا ہے، ہمارا نہیں
بظاہر یہ سرقہ ہے نہ توارُد اور پھر قمر ؔ جیسے عوامی شاعر سے بعید ہے کہ انھوں نے کوئی کم مشہور کلام یوں 'اپنالیا' ہو، مگر پھر بھی خاکسار نے نقل اس لیے کردیا کہ کہیں ذکر آسکتاہے۔
منفرد شاعر جناب احمد نوید کی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں جو کسی رخسانہ نازی ؔ (مقیم راول پنڈی) نے پوری کی پوری سرقہ کرلی:
گھر کی ویران منڈیروں پہ دِیا رکھنے سے
کوئی آتا نہیں دروازہ کھلا رکھنے سے
جرمنی میں مقیم جناب حیدرقریشی کی ایک غزل کا شفیق آصف کے ہاتھوں سرقہ بھی مشہور ہے۔جرمنی ہی میں مقیم نعیمہ ضیاء الدین نے اپنے کلام کا مجموعہ تیار کرتے ہوئے،غالبؔ، فیضؔ اور ساحرؔ کا مربّہ بنایا ہے۔
دنیائے شعروسخن میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی استاد نے معاوضے یا کسی اور بِناء پر پوراپورا دیوان یا متفرق کلام کسی کو لکھ کر دے دیا۔ دور کیوں جائیے، علامہ سیماب ؔ اکبرآبادی جیسے بزرگ سخنور کے متعلق اُنھی کے پوتے محترم افتخار اِمام صدیقی یہ انکشاف کر گئے ہیں۔ جدید شعراء میں منور قریشی کا نوشی گیلانی کو ابتدائی دومجموعہ ہائے کلام لکھ کر دینا اور ایک مد ت بعد، نوشی کا اس سے مکرجانا بہت مشہور ہے، مگر تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ بزرگوار خود بھی کسی زمانے میں سید آل احمد سے غزلیں لکھوایا کرتے تھے۔ پاکستان کی سب سے مشہور متشاعرہ کے متعلق یہ خاکسار پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ وہ بقول ایک بزرگ شاعرہ، تیرہ شعراء سے لکھواچکی ہے۔
یہاں میں اپنے مشفق بزرگ معاصر، اردو،فارسی، سرائیکی اور انگریزی پر حاوی، پنجابی سے واقف، امدادؔ نظامی مرحوم کا بھی ذکر کرنا چاہتاہوں جن کی (کوئٹہ میں)وفات کے بعد گھر بند رہا تو کسی نے اُن کی غیر مطبوعہ متعدد نگارشات بشمول خودنوشتہ سوانح، ڈرامے، چُرالیے جو ہزاروں صفخات پرمشتمل خزانہ تھا۔ہوسکتا ہے کہ کسی مناسب وقت کا انتظار ہوجعل سازی کے لیے۔
شاعری میں نعت گوئی کا اپنا جداگانہ مقام بھی اس علّت سے محفوظ نہیں رہا۔نامور شاعر امید ؔ فاضلی کی کہی ہوئی مشہور نعت "کبھی یاسین ومبشر، کبھی طٰہٰ لکھوں" کو کسی راؤ یعقوب صاحب (مقیم مکہ معظمہ) نے اپنے نام سے روزنامہ اردو نیوز، جدّہ کے میگزین مؤرخہ21جولائی2000ء میں شایع کروادی۔ امدادؔ ہمدانی (مقیم جہلم) کی ایک نعت (مطبوعہ 'ماہِ نَو' (لاہور،بابت دسمبر 1984ء)،کاوش بٹ (مقیم لالہ موسیٰ) نے روزنامہ اِمروز، لاہور، مؤرخہ 21جولائی 1985ء میں اپنے نام سے شایع کروائی۔
ہمارے عہد کے معروف نعت گو جناب خالد محمود پر،(سینہ گزٹ کے مطابق) یہ الزام تھا کہ وہ ممتاز نعت گو محترم وقار صدیقی کے صحبت یافتہ ، شاید اُن سے اصلاح یافتہ تھے،اُنھوں نے انھی بزرگ کا اکثر کلام اپنے نام کرکے مشہور کردیا۔یہ الزام یقینا سنگین ہے، مگر کوئی شواہد میرے پاس نہیں۔خالد مرحوم کچھ عرصے میرے پڑوس میں بھی مقیم رہے، مگر محض دور سے سلام علیک تھی، ورنہ شاید بندہ اُن سے استفسار کی جسارت کرتا۔
اردو کی اولین افسانوی تصنیف 'سَب رَس'،درحقیقت فارسی سے لی گئی ہے،جبکہ قصہ چہار دَرویش بھی فارسی سے مستعار ہے اور مختلف ناموں سے ترجمہ اور طبع زاد ہوکر پیش ہوا، مگر بہرحال میر امنؔ کا کام بجائے خود، طبع زاد ہے۔طلسم ہوش رُبا اور طلسم کُن فَیکُون (عاشق حسین بزمؔ) کا معاملہ بھی چربے کے زُمرے میں آتاہے۔قصہ گل وصنوبر فارسی میں سید باصرعلی نے لکھا، پیم چند کھتری نے اردومیں ترجمہ کرتے ہوئے مصنف کو گمنام قراردیا اور اس داستان کو سید ولایت علی نے نقل کرتے ہوئے "عجیب وغریب" لکھ دی، مگر حوالہ نہ دیا۔
اردو کی دیگر قدیم داستانیں بھی فارسی سے ترجمہ ہیں، مگر انھیں طبع زاد سمجھاجاتاہے۔قاری سرفراز حسین عزمی ؔ کے ناول 'شاہد ِ رعنا' (1897ء) کو میرزاہادی رسواؔ نے اپنی کاری گری سے چربہ کرتے ہوئے 'اُمراؤ جان ادا' کا نام دیا، 1899ء میں شایع کرکے۔سجاد حیدریلدرم ترکی زبان سے بخوبی آشنا تھے۔انھوں نے ترکی کے رومانی افسانے ترجمہ کیے یا چربہ، دونوں ہی صورت میں طبع زاد کی شکل میں پیش کرکے شہرت پائی۔رومانیت کی تحریک میں نیاز فتح پوری کا نام شامل ہے جن کی کتب کی کثیرتعداد،دیگر فاضل اہل قلم کا ترجمہ وچربہ ہیں۔
عصمت چغتائی کا مشہور ناولِٹ 'ضدّی' (1942)درحقیقت ترکی ناول 'ہاجرہ' کا انگریزی سے ترجمہ وچربہ ہے جو 1899ء میں اردو میں ترجمہ ہوچکا تھا۔قدرت شہابؔ کا ناولِٹ "یاخدا" (1947)، کرشن چندر کے ایک سال پرانے ناولِٹ "اَن داتا" کا چربہ ہے۔انتصار حسین کا ناول 'پتھر'، تسنیم سلیم چھتاری کے افسانے 'بہ انداز دِگر'سے ماخوذ ہے۔عزیز احمد کے ناولٹ 'جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں' (1958)کو جلیل حشمی نے منظوم چربہ کرتے ہوئے نام دیا 'طلوع وغروب' (1959)۔مشہور ناول 'اداس نسلیں' بھی قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا چربہ ہے۔1964ء کی مشہور ترین ہندوستانی فلم 'وہ کون تھی' کا چربہ، افسانہ 'آوازیں' کے عنوان سے میرزا حامدبیگ نے پیش کردیا، 1999ء میں۔ہمارے بزرگ سید امتیاز علی تاج کے 'انارکلی' پر الزام ہے کہ کسی نامعلوم یورپی عیسائی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔
پی ایچ ڈی کے مقالہ جات میں سرقہ بہت عام ہوچکا ہے اور (یہ سلسلہ محض اردو زبان وادب وصحافت تک موقوف نہیں، بلکہ سائنسی مضامین میں بھی خاص طور پر وطن عزیز کا نام بہت بدنام کیا گیا ہے) اس طویل فہرست میں ڈاکٹر صفدرمحمود جیسا محترم نام بھی شامل ہے۔ ڈی لِٹ کے مقالے مؤلفہ سلیم احمد کا ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاتھوں منظر عام پر آنا بھی سینہ گزٹ ہے، مگر ثبوت میرے پاس نہیں۔خواجہ احمد فاروقی کا کتاب 'ارسطو سے ایلیٹ تک' لکھ کر جمیل جالبی کے نام کردینا، اردو زبان کی داستان مختلف بزرگوں سے لکھواکراپنے نام سے شایع کرنا وغیرہ یہ سارامواد، سردست میرے پاس نہیں جو سہ ماہی بادبان کے مدیر، ممتاز افسانہ نگار ناصر بغدادی نے شایع کیا، اسی طرح طارق سبزواری کا اپنے دادا کی بیاض سے کلام پڑھنا اور جمیل الدین عالیؔ کا اپنے ہم نام دادا کا کلام پیش کرنا، یہ سب ذہن میں ہے، مگر کتابی مواد سامنے نہیں۔
ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے بعنوان "ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرکی شخصیت اور فن" (سند: 2002ء، جامعہ پنجاب، لاہور; کتابی شکل میں اشاعت: 2005ء۔پاکستان اردواکیڈمی، لاہور)کے بہت سارے مندرجات کا سرقہ، اسی نام سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شایع ہونے والی کتاب میں محترمہ شبنم شکیل (دختر عابدعلی عابدؔ) نے کرنے کی جسارت کی۔
آخری بات: اس خاکسار کے شعری، نثری، صحافتی و نشریاتی مواد میں بھی سرقہ بہت ہوچکا ہے جس کا ذکر فی الحال چھوڑتا ہوں۔