اسرائیل‘ فلسطین اور مغربی ممالک کی سوچ

فلسطینی شہریوں نے اسرائیلی فوج کی کارروائی کو سفاکیت اور بڑا انسانی سانحہ قرار دیا ہے

فلسطینی شہریوں نے اسرائیلی فوج کی کارروائی کو سفاکیت اور بڑا انسانی سانحہ قرار دیا ہے۔ فوٹو:سوشل میڈیا

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی عروج پر ہے۔ یروشلم میں یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا' اس حملے میں 7 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق فائرنگ کے وقت یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔اطلاعات کے مطابق پولیس کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور بھی ہلاک ہوگیا۔فائرنگ کے اس واقعے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم سے رابطہ کرکے فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی اور اسے دہشت گردی کا خوفناک حملہ قرار دیا۔اسرائیلی پولیس نے فائرنگ کو دہشت گردی قرار دیا ہے تاہم اب تک کسی تنظیم نے واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔

اس کے بعد ہفتے کو ہی یروشلم میں ایک اسرائیلی اور اس کا بیٹا فائرنگ کے واقعے میں مارا گیا ہے۔ اسرائیلی سیکیورٹی اہلکار گھر گھر تلاشی کی مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے اتنے وسیع پیمانے پر پولیس کے چھاپے کبھی نہیں مارے گئے۔

اس وجہ سے علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں۔چند روز قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے معمر خاتون سمیت 10 فلسیطینی شہید ہوگئے تھے۔

بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حالیہ وارداتیںاس کا ردعمل ہو سکتی ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کی مذمت اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔

دو تین روز قبل اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی شہادت پر نکالی جانے والی ریلی کے شرکا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ،اس کے ساتھ ساتھ غزہ پر متعدد راکٹ بھی داغ دیے، جس میں متعدد فلسطینی شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جینین میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جمعرات کو 9 فلسطینی نوجوانوں کی شہادت پر غزہ میں شہریوں کی جانب سے پْرامن ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے اس ریلی کے شرکا پر بھرپور طاقت کا استعمال کیا جس میں متعدد شہری زخمی ہوئے جب کہ غزہ کے وسطی علاقے میں اسرائیلی طیاروں نے 8 راکٹ فائر کیے، جس سے مختلف رہائشی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اسرائیلی فوج کی بمباری سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

فلسطینی شہریوں نے اسرائیلی فوج کی کارروائی کو سفاکیت اور بڑا انسانی سانحہ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے عہدیدار نے بتایا کہ حنین میں نوجوانوں کی شہادت کے بعد فلسطینیوں کا غم و غصہ بڑھا اور انھوں نے احتجاج کیا تو اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ایمرجنسی نافذ کی اور اْن کے خلاف 'مجرمانہ کارروائی' کی۔

دوسری جانب اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطین کے مزاحمت کار گروپ کی جانب سے جمعے کو دو راکٹ فائر کیے گئے تھے جنھیں دفاعی سسٹم نے ہدف پر پہنچنے سے قبل ناکارہ بنا دیا اور پھر جوابی ردعمل میں حماس سمیت دیگر گروپوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔

اسلامی جہاد کے ترجمان خادر حبین نے کہا کہ 'مغربی علاقے میں اسرائیلی کارروائی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس میں فلسطینی شہریوں کی شہادتیں ہوئیں مگر عالمی برادری اس معاملے میں غائب اور مکمل خاموش ہے جب کہ انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی ممالک کی جانب سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ایسی صورت میں جب عالمی برادری اسرائیلی مظالم پر خاموش ہو تو ہمارے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

دوسری جانب حماس کے ترجمان حزیم القسیم نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فورسز کی کارروائی جنگی جرم ہے مگر اسرائیل کو کوئی بھی ملک سزا نہیں دے گا اور نہ ہی اسرائیل ہمارے جذبہ آزادی کو کسی طرح ختم کرسکتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی یروشلم میں یہودی عبادت گاہ پرحملے کی مذمت نہیں کی ہے۔

فلسطین کا تنازع نیا نہیں ہے ' امریکا اور ترقی یافتہ ممالک سمیت ساری دنیا اس سے آگاہ ہے۔ اسرائیل کا قیام کیسے عمل میں آیا اور اسرائیل پر برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے کس طرح یہودیوں کی بستیاں بسائیںاور جنگوں کے ذریعے نہ صرف فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا بلکہ ہمسایہ ممالک جن میں شام' اردن اور لبنان وغیرہ شامل ہیں ' ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے انھیں اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔


حال ہی میں شام کے علاقے گولان ہائیٹس پر اسرائیل نے جو قبضہ کر رکھا تھا ' اسے اب اس نے باقاعدہ طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا ہے۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی فورسز نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مزید آگے بڑھا دیا اور اب وہ وہاں اسرائیلی بستیاں بسا رہا ہے۔ ایسا ہی حربہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر رہا ہے۔

بھارتی حکومت نے بھی اسرائیلی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے پہلے تو مقبوضہ کشمیر کی آزادانہ اور خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا اور اسے باقاعدہ طور پر بھارت کا حصہ قرار دے دیا 'اس کے ساتھ ساتھ لداخ کے وسیع علاقے کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر دیا اور اسے براہ راست مرکز کے ماتحت کر دیا۔

اس کے بعد بھارت نے آئین میں ایک آدھ اور تبدیلیاں کیں'جن کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی دیگر ریاستوں سے آنے والے بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل ملنا شروع ہو گیا اور وہ وہاں جائیدادیں خریدنے لگے۔

اب بھارت مقبوضہ کشمیر میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رہا ہے اور ان منصوبوں میں استعمال ہونے والی افرادی قوت جنوبی بھارت کی ریاستوں سے لا کر مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کا عمل شروع کرنے والا ہے۔ یہ سب طریقہ کار اسرائیل کی حکمت عملی کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔

امریکا اور یورپ اپنے مفادات کے لیے اسرائیل کا غیرضروری اور بے جا تحفظ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

حقائق کو دیکھا جائے تو امریکا اور یورپی یونین کے مفادات کا حجم اسرائیل کے مقابلے میں عرب ممالک سے زیادہ ہے۔

عالمی مالیاتی نظام میں عرب ممالک کا ایک مضبوط اور فعال کردار ہے ' انٹرنیشنل کیپٹل ازم کو بچانے کے لیے عرب ملکوں نے اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ ہمہ گیر کردار ادا کیا ہے ' سرد جنگ میں بھی عرب ملکوں نے اسرائیل سے کہیں زیادہ فعال اور موثر کردار ادا کیا ہے۔لیکن امریکا اور یورپی یونین نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کو غیرضروری مدد اور حمایت فراہم کی ہے۔

امریکا اور یورپ کی اس پالیسی کی وجہ سے بھی مشرق وسطیٰ میں ردعمل نے جنم لیا ہے' اس ردعمل کا رخ اسرائیل سے زیادہ امریکا اور مغربی یورپی ممالک کی طرف ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک کے حکمران اور وہاں کا تعلیم یافتہ اور متمول طبقہ سمجھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکا اور یورپ انھیں کم اہمیت دیتے ہیں حالانکہ عالمی صف بندی میں عربوں کا رول اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے۔

اسرائیل میں اب تک جو بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں' انھوں نے عالمی صف بندی میں امریکا اور یورپ کے لیے انتہائی محدود نوعیت کا کردار ادا کیا ہے' اسرائیل کی طرز معاشرت یورپی ضرور ہے لیکن اسرائیلی قیادت کے مذہبی نظریات امریکا اور یورپ سے بالکل مختلف ہیں۔

اسی طرح اسرائیلی قیادت کی سوچ اور رجحانات Ethnicityکے لبادے میں چھپے ہوئے ہیں اور یہ رجحانات عرب ممالک ہی نہیں بلکہ امریکا اور یورپی ممالک کے وائٹل مفادات کے برعکس ہیں۔

اس کے مقابلے میں عرب اپنے کلچر میں امریکا اور یورپ کے برعکس نظر آتے ہیں لیکن وائٹل مفادات کے تناظر میں دونوں انتہائی قریب بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اب کئی عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ' اسی طرح اسرائیل اپنی مذہبی اور نسلی شناخت کے حوالے سے انتہا پسندی کا شکار ہے ' ان عوامل کو ملا کر دیکھا جائے تو اسرائیل کے آئین و قانون اور ان کی مذہبی فکر امریکا اور یورپ کی سیکولر اقدار اور سوچ کے خلاف ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے تنازع کو حقائق کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے' اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی سوچ سیکولرازم کے ساتھ زیادہ جڑی ہوئی ہے' امریکا اور یورپ جنھیں مذہبی انتہا پسند گروپ قرار دے رہا ہے' وہ درحقیقت امریکا اور یورپ کی یک طرفہ پالیسیوں اور اسرائیلی قیادت کے نظریات اور پالیسیوں کے خلاف ردعمل ہے۔

انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سرزمین فلسطین جو عہد قدیم میں کنعان کہلاتی تھی'اس پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے' فلسطینیوں نے اپنے حق کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ان کا علمی اور سیاسی مقدمہ بھی اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔
Load Next Story