پنجاب کی نگران کابینہ معقول و مستحسن انتخاب

دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں میں ایک بھی خاتون نگران وزیر نہیں ہے۔ یہ زیادتی نہیں؟

tanveer.qaisar@express.com.pk

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ حلف اُٹھا کر اپنی اپنی نگران کابینہ تشکیل دے چکے ہیں۔

دونوں نگران حکومتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی جونہی تحلیل ہُوئی ، وزیر اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے کوئی وقت ضایع کیے اور جھگڑوں میں پڑے بغیر نگران وزیر اعلیٰ، محمداعظم خان صاحب ، پر اتفاق کر لیا جو سابق بیورو کریٹ ہیں۔

پنجاب میں مگر صورتحال اِس کے بالکل برعکس رہی۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کسی شخص پر اتفاق نہ کر سکے ۔ اور یوں یہ قضیہ ایک اور درمیانی مرحلہ طے کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پہنچا۔ وہاں سے متفقہ فیصلہ آیا کہ جناب محسن رضا نقوی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں۔

پنجاب کی اکثر سیاسی جماعتوں نے جناب محسن نقوی کو بطورِ نگران وزیر اعلیٰ دل و جان سے قبول کیا ہے کہ محسن نقوی معتدل بھی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی اور کسی سیاسی جماعت سے کبھی تعلق بھی نہ رکھا۔ ایک نمایاں کوالیفکیشن اُن کی یہ بھی ہے کہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اُن کے دوستانہ تعلقات ہیں۔

وہ سب کو اپنا سمجھتے ہیں اور سب انھیں اپنا خیال کرتے ہیں۔ ایک نگران وزیر اعلیٰ میں اِن خصوصیات سے بڑھ کر اور کیا وصف ہونا چاہیے ؟

پی ٹی آئی ، عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی مگر جناب محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ ماننے اور تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ محسن نقوی کی تعیناتی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عمران خان اِس مخالفت میں یہاں تک چلے گئے ہیں کہ الزام عائد کر دیا کہ ''میری حکومت کے خاتمے میں محسن نقوی نے مرکزی کردار ادا کیا۔'' وہ اِسی پر ہی نہیں رُکے ، عمران خان کے حکم پر 27جنوری کو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جناب محسن نقوی کی بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی چیلنج کر دی۔

پی ٹی آئی نے بطور سیاسی جماعت اور اسد عمر نے بطور سیکریٹری پی ٹی آئی عدالتِ عظمیٰ میں یہ درخواست دائر کرتے ہُوئے استدعا کی ہے کہ ''محسن نقوی کو بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کام کرنے سے روکا جائے ۔''

یہ معاملہ چونکہ اب عدالت کے رُوبرو ہے، اس لیے اِس بارے کوئی تبصرہ یا تجزیہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اِس دوران پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے اپنی 8رکنی نگران کابینہ تشکیل دے ڈالی ہے۔ یہ کابینہ خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ سے نصف ہے۔

دونوں نگران کابینہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ پر ''الزام '' لگ رہا ہے کہ یہ سیاسی بنیادوں پر بنائی گئی ہے۔ کے پی کے نگران کابینہ پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اِس میں پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اورجے یو آئی ایف کے لوگ شامل ہیں۔

یہ نمایاں افراد اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں چھپا بھی نہیں رہے۔ بعض وزیر موجودہ نگران وزیر اعلیٰ،محمد اعظم خان صاحب، کے قریبی رشتے دار بھی بتائے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ کے کچھ ارکان تو''ارب پتی'' ہیں۔ وااللہ اعلم۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' ( پشاور) نے اِسی سلسلے میں کئی چشم کشا خبریں شایع کی ہیں ۔


نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی نگران کابینہ کا پہلا اجلاس ہو چکا ہے۔ اور یہ قابلِ تحسین خبر سامنے آئی ہے کہ پنجاب کی نگران کابینہ نے اپنے وزیر اعلیٰ کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے ، رضا کارانہ طور پر، تنخواہ اور سرکاری گھر لینے سے انکار کر دیا ہے ۔

پنجاب کی نگران کابینہ فی الحال''سیاست زدہ'' ہونے کے الزامات سے محفوظ ہے۔ اور یہ کمال نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب محسن نقوی، کا ہے۔ وہ چونکہ خود بھی غیر سیاسی فرد ہیں ، اس لیے انھوں نے کوشش کی ہے کہ اُن کی کیبنٹ بھی غیر سیاسی رہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ محسن نقوی صاحب کی نگران کابینہ میں اُن کی اپنی شخصیت جھلک رہی ہے۔

مثال کے طور پر عامر میر صاحب۔ انھیں اطلاعات اور ثقافت کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ عامر میر صاحب ایک نامور استاد ، دانشور اور صاحبِ طرز قلمکار باپ، پروفیسر وارث میر، کے معروف صاحبزادے ہیں ۔ عامر میر صاحب کی اپنی بھی منفرد پہچان ہے۔

وہ وطنِ عزیز کے نامور اخبار نویس ہیں۔ کئی شاندار اور مشہور انگریزی کتابوں کے مصنف بھی۔ عامر میر صاحب لبرل اور جمہوری مزاج رکھتے ہیں۔ آمریت کے سخت مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے آمر جنرل پرویز مشرف سے ایوارڈ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔جناب عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں انھیں ایف آئی اے نے حراست میں بھی لیا تھا۔

وہ پاکستان کے اُن معدودے چند اخبار نویسوں میں شامل سمجھے جاتے ہیں جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو بے حد اعتماد اور اعتبار کرتی تھیں ، مگر میر صاحب نے خود پر کبھی ''پپلیا'' ہونے کی مہر ثبت نہ ہونے دی۔پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا کی باریکیوں اور اسرارورموز سے آگاہی رکھنے والے ایسے تجربہ کار اور غیر جانبدار صحافی، عامر میر، کو اطلاعات اور کلچر کی وزارت دے کر ایک مستحسن اور بجا اقدام کیا گیا ہے۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ عامر میر صاحب جتنے دن بھی نگران وزیر رہیں گے، ٹِک کر کام کریں گے اور پنجاب کے محکمہ اطلاعات ، کلچر ، صحافیوں اور آرٹسٹوں کے لیے خیر ہی خیر ثابت ہوں گے ۔

ڈاکٹر جمال ناصر صاحب بھی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا اچھا انتخاب ہیں ۔ پنجاب کی نگران کابینہ میں انھیں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر (P&SHC) کا قلمدان تفویض کیا گیا ہے۔ جمال ناصر صاحب چونکہ خود بھی ایک ماہر اور معروف ڈاکٹر ہیں، اس لیے ''جس کا کام ، اُسی کو ساجھے'' کے مصداق، انھیں مذکورہ وزارت دے کر جناب محسن نقوی نے اُصولی فیصلہ کیا ہے۔

ڈاکٹر جمال ناصر راولپنڈی/اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ جڑواں شہروں میں اُن کا میڈیکل بزنس بھی ہے۔ وہ دونوں شہروں کی ڈاکٹرز کمیونٹی اور اخبار نویسوں میں یکساں مقبول و محبوب ہیں ۔ اُن کے ایک بھائی نامور جج بھی رہے ہیں۔

اُن کے والدین تحریکِ پاکستان کے نمایاں کارکن اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒکے معتمد ساتھی تھے۔ یوں اُن کا بطور نگران وزیر انتخاب اس لیے بھی اچھا اور معقول ہے کہ ڈاکٹر جمال ناصر کی رگوں میں تحریکِ پاکستان کی خدمت و محبت کا خون دوڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔

جب تقریر کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں تو آبشار کی طرح گرتے اُن کے الفاظ پر کسی مستند اور بڑے عالمِ دین کا گمان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اکرم صاحب بھی شاندار انتخاب ہیں۔ انھیں نگران کابینہ میں اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کا محکمہ دیا گیا ہے۔ڈاکٹر جاوید اکرم صاحب محکمہ صحت کو اندر باہر سے خوب جانتے ہیں۔ وہ اسپتال انتظامیہ سائنس سے بھی بخوبی واقف ہیں۔

یوں ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ پنجاب کی نگران کابینہ کے یہ دونوں ڈاکٹر صاحبان اپنے محکموں اور عوام کی بھرپور خدمت کرکے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی لاج رکھیں گے۔حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں میں ایک بھی خاتون نگران وزیر نہیں ہے۔ یہ زیادتی نہیں؟
Load Next Story