مریم نواز سے وابستہ اصل امید
ہرسمجھدارجانتاہے کہ ایسے تجربات صرف وقت اوراعتبارہی ضایع نہیں کرتے بلکہ کسی قوم کونئی آزمائشوں میں بھی مبتلاکردیتے ہیں
مریم نواز لوٹ آئی ہیں اور مسلم لیگ کے متوالوں نے ان کا پرجوش خیر مقدم بھی کر دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مریم نواز نے گزشتہ چار ماہ کے دوران میں ایسا کیا کیا ہے کہ وہ ایسے استقبال کی حق دار بنیں اور ایسا کیا ہے جو وہ اب کریں گی تو ان کی جماعت میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی؟یہ سوالات ایک بحث کے متقاضی ہیں۔
اس بحث میں جانے سے قبل مریم نواز کو سمجھنے کے علاوہ پارٹی میں ان کے کردار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ذرا سا پیچھے جائیں۔ یہی کوئی پانچ ساڑھے پانچ برس۔ قوم نے انھیں یہ کہتے سنا کہ میں نے آج (انھوں نے سیکڑوں میں) ایک نمبر بتاتے ہوئے کہا کہ اتنے سوالوں کے جواب دے کر وہ قرض بھی چکا دیا ہے جو مجھ پر واجب بھی نہ تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مریم نواز کا سیاست سے ابھی تک کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا پھر کیوں انھیں مقدمات میں الجھایا جا رہا تھا۔
خود انھیں بھی اس کا احساس تھا جبھی تو پہلی پیشی کے بعد انھوں نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ '' میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟'' پھر کہا کہ ''وہ مجھے نواز شریف کی کمزوری نہیں طاقت پائیں گے۔''
مریم نواز جب یہ بیان دے رہی تھیں، سینیٹر عرفان صدیقی اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کے پاس موجود تھے اور ٹیلی ویژن پر یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ انھوں کہا، ''جناب وزیر اعظم یہ لوگ تو مائنس ون کرنے چلے تھے لیکن ان کی بدقسمتی دیکھیے کہ مائنس ون تو کیا ہوتا ، یہ پلس ون کر بیٹھے ہیں۔''
کسی زیادتی، واقعہ یا اتفاق کے نتیجے میں کسی شخص کا یوں اچانک نمایاں ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن وہ واقعہ جسے عرفان صدیقی صاحب نے پلس ون سے تعبیر کیا، نہ اتنا معمولی ہے کہ کوئی اسے نظر انداز کر سکے اور نہ اتنا آسان ہے کہ کوئی فرزانہ کہہ دے کہ فلاں قیادت کے منصب پر فائز ہو گیا ہے تو اس پر یقین کر لیا جائے۔
کسی قوم یا کسی اجتماعیت کی زندگی میں ایسا واقعہ پے در پے آزمائشوں سے گزرنے اور سرخ رو ہونے کے بعد ہی رونما ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا واقعہ ہو گزرا ہے۔
پاناما کا تنازع اٹھنے اور اقامے کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو پہلے حکومت اور اس کے بعد سیاست سے بھی نکالنے کی کوششوں سے جس دور کا آغاز ہوا تھا، مریم نواز کو ان میں مکمل لپیٹ کرسیاست سے بارہ پتھر باہر رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مریم نواز ان تمام مشکلات سے نہ صرف سرخرو گزریں بلکہ ان کی جماعت میں قیادت کا جو خلا پیدا کیا گیا تھا، یہ کمی بھی انھوں نے پوری کی۔
آزمائشوں میں پیٹھ نہ دکھانا اور مایوسی کے شکار کارکنوں کو حوصلہ دینے جیسی خوبیاں ہی ہوتی ہیں جو کسی کو از خود قیادت کے منصب پر فائز کر دیتی ہیں۔ مریم نواز کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
اپنے ان ہی اوصاف کی وجہ سے وہ نہ صرف مسلم لیگ کے کارکنوں کی امید ہیں بلکہ قوم کے ان طبقات کے لیے روشنی کی ایک کرن ہیں جو گزشتہ چار برس کے عرصے میں تبدیلی کے نام پر مایوسیوں کا شکار ہوئے اور اب وہ واقعی ایک نئی اور پر عزم قیادت کے منتظر ہیں۔ مریم نواز اس اعتبار سے ان کے لیے ایک امید ہیں۔
ملک گزشتہ برسوں میں جس قسم کے حالات سے گزرا ہے اور اس عرصے میں معیشت کو جس بے دردی سے تباہ کیا گیا ہے، اس نے ملک کو مالی اعتبار سے ہی کمزور نہیں کیا بلکہ قوموں کی برادری میں بے توقیر بھی کیا ہے۔
حال ہی میں سعودی وزیر خزانہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔جس میں انھوں نے کہا کہ ہم مالی اعتبار سے آپ کے ساتھ جو تعاون کرتے ہیں، یہ دراصل ہمارے خون پسینے کی کمائی اور ہمارے ٹیکس گزاروں کی دولت ہے، ماضی میں جو ہوا، ہوا، اب ہم اسے اندھے کنویں میں نہیں پھینک سکتے۔ ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے آپ اپنے نظام میں اصلاحات کریں۔
ہمارے ذرایع ابلاغ نے اول تو اس بیان کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دی لیکن جو تھوڑی بہت اہمیت دی گئی ہے، اسے بھی مالی ڈسپلن قائم کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ بیان یقیناً مالی ڈسپلن پر ایک حد تک توجہ دینے پر زور دیتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کا تعلق سیاسی ڈسپلن پر توجہ دینے سے ہے۔
ہمارے سعودی دوستوں نے دراصل ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ جو آپ نے اپنے ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے ، یہ درست نہیں ہے۔ کبھی ایسے لوگوں کو قیادت کے منصب پر لا بٹھایا گیا جو پلے بوائے سے اوپر اٹھ کر قیادت کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ سکے ، قوم نے انھیں اپنی پارلیمانی قوت سے اٹھا پھینکا تو قوم کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے تو مزید توڑ پھوڑکا راستہ اختیار کیا گیا تاکہ کچھ نئے چہرے متعارف کروائے جا سکیں یا کوئی نیا تجربہ کیا جاسکے۔
ہمارے سعودی دوستوں نے دراصل ہمیں ایسے تجربوں سے خبردار کیا ہے کیونکہ صرف وہ نہیں ہر سمجھ دار جانتا ہے کہ ایسے تجربات صرف وقت اور اعتبار ہی ضایع نہیں کرتے بلکہ کسی قوم کو نئی آزمائشوں میں بھی مبتلا کر دیتے ہیں۔
قومی سیاست کے نشیب و فراز کا سنجیدگی سے جائزہ لینے والے جانتے ہوں گے کہ سعودی وزیر خزانہ کے اس بیان کے بعد نئے تجربات کے ضمن میں ہماری سیاست میں ٹھہراؤ نظر آیا ہے۔ ایسے ماحول میں مریم نواز کی واپسی محض ایک فرد کی اپنے وطن واپسی نہیں ہے بلکہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
یہ واقعہ صرف مسلم لیگ اور اس سے ہم دردی رکھنے والوں کے لیے امید کی کرن نہیں بلکہ ملک میں سیاسی اعتبار سے ایک نئے دور کی ابتدا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا سیاسی دور جو ملک کو ایک متحمل مزاج لیکن پر عزم ملک میں تبدیل کر سکے۔
ایک ایسی تبدیلی جو مختلف مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان کو اپنے قومی مقاصد اور مفادات کا پاس رکھتے ہوئے ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر دے جو اقوام عالم کی توقعات پر بھی پورا اتر سکے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ مریم نواز ایک ایسی تبدیلی ہی کا پیش خیمہ ثابت ہوںگی۔
اب سوال یہ ہے کہ مریم نواز نے گزشتہ چار ماہ کے دوران میں ایسا کیا کیا ہے کہ وہ ایسے استقبال کی حق دار بنیں اور ایسا کیا ہے جو وہ اب کریں گی تو ان کی جماعت میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی؟یہ سوالات ایک بحث کے متقاضی ہیں۔
اس بحث میں جانے سے قبل مریم نواز کو سمجھنے کے علاوہ پارٹی میں ان کے کردار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ذرا سا پیچھے جائیں۔ یہی کوئی پانچ ساڑھے پانچ برس۔ قوم نے انھیں یہ کہتے سنا کہ میں نے آج (انھوں نے سیکڑوں میں) ایک نمبر بتاتے ہوئے کہا کہ اتنے سوالوں کے جواب دے کر وہ قرض بھی چکا دیا ہے جو مجھ پر واجب بھی نہ تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مریم نواز کا سیاست سے ابھی تک کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا پھر کیوں انھیں مقدمات میں الجھایا جا رہا تھا۔
خود انھیں بھی اس کا احساس تھا جبھی تو پہلی پیشی کے بعد انھوں نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ '' میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟'' پھر کہا کہ ''وہ مجھے نواز شریف کی کمزوری نہیں طاقت پائیں گے۔''
مریم نواز جب یہ بیان دے رہی تھیں، سینیٹر عرفان صدیقی اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کے پاس موجود تھے اور ٹیلی ویژن پر یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ انھوں کہا، ''جناب وزیر اعظم یہ لوگ تو مائنس ون کرنے چلے تھے لیکن ان کی بدقسمتی دیکھیے کہ مائنس ون تو کیا ہوتا ، یہ پلس ون کر بیٹھے ہیں۔''
کسی زیادتی، واقعہ یا اتفاق کے نتیجے میں کسی شخص کا یوں اچانک نمایاں ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن وہ واقعہ جسے عرفان صدیقی صاحب نے پلس ون سے تعبیر کیا، نہ اتنا معمولی ہے کہ کوئی اسے نظر انداز کر سکے اور نہ اتنا آسان ہے کہ کوئی فرزانہ کہہ دے کہ فلاں قیادت کے منصب پر فائز ہو گیا ہے تو اس پر یقین کر لیا جائے۔
کسی قوم یا کسی اجتماعیت کی زندگی میں ایسا واقعہ پے در پے آزمائشوں سے گزرنے اور سرخ رو ہونے کے بعد ہی رونما ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا واقعہ ہو گزرا ہے۔
پاناما کا تنازع اٹھنے اور اقامے کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو پہلے حکومت اور اس کے بعد سیاست سے بھی نکالنے کی کوششوں سے جس دور کا آغاز ہوا تھا، مریم نواز کو ان میں مکمل لپیٹ کرسیاست سے بارہ پتھر باہر رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مریم نواز ان تمام مشکلات سے نہ صرف سرخرو گزریں بلکہ ان کی جماعت میں قیادت کا جو خلا پیدا کیا گیا تھا، یہ کمی بھی انھوں نے پوری کی۔
آزمائشوں میں پیٹھ نہ دکھانا اور مایوسی کے شکار کارکنوں کو حوصلہ دینے جیسی خوبیاں ہی ہوتی ہیں جو کسی کو از خود قیادت کے منصب پر فائز کر دیتی ہیں۔ مریم نواز کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
اپنے ان ہی اوصاف کی وجہ سے وہ نہ صرف مسلم لیگ کے کارکنوں کی امید ہیں بلکہ قوم کے ان طبقات کے لیے روشنی کی ایک کرن ہیں جو گزشتہ چار برس کے عرصے میں تبدیلی کے نام پر مایوسیوں کا شکار ہوئے اور اب وہ واقعی ایک نئی اور پر عزم قیادت کے منتظر ہیں۔ مریم نواز اس اعتبار سے ان کے لیے ایک امید ہیں۔
ملک گزشتہ برسوں میں جس قسم کے حالات سے گزرا ہے اور اس عرصے میں معیشت کو جس بے دردی سے تباہ کیا گیا ہے، اس نے ملک کو مالی اعتبار سے ہی کمزور نہیں کیا بلکہ قوموں کی برادری میں بے توقیر بھی کیا ہے۔
حال ہی میں سعودی وزیر خزانہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔جس میں انھوں نے کہا کہ ہم مالی اعتبار سے آپ کے ساتھ جو تعاون کرتے ہیں، یہ دراصل ہمارے خون پسینے کی کمائی اور ہمارے ٹیکس گزاروں کی دولت ہے، ماضی میں جو ہوا، ہوا، اب ہم اسے اندھے کنویں میں نہیں پھینک سکتے۔ ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے آپ اپنے نظام میں اصلاحات کریں۔
ہمارے ذرایع ابلاغ نے اول تو اس بیان کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دی لیکن جو تھوڑی بہت اہمیت دی گئی ہے، اسے بھی مالی ڈسپلن قائم کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ بیان یقیناً مالی ڈسپلن پر ایک حد تک توجہ دینے پر زور دیتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کا تعلق سیاسی ڈسپلن پر توجہ دینے سے ہے۔
ہمارے سعودی دوستوں نے دراصل ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ جو آپ نے اپنے ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے ، یہ درست نہیں ہے۔ کبھی ایسے لوگوں کو قیادت کے منصب پر لا بٹھایا گیا جو پلے بوائے سے اوپر اٹھ کر قیادت کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ سکے ، قوم نے انھیں اپنی پارلیمانی قوت سے اٹھا پھینکا تو قوم کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے تو مزید توڑ پھوڑکا راستہ اختیار کیا گیا تاکہ کچھ نئے چہرے متعارف کروائے جا سکیں یا کوئی نیا تجربہ کیا جاسکے۔
ہمارے سعودی دوستوں نے دراصل ہمیں ایسے تجربوں سے خبردار کیا ہے کیونکہ صرف وہ نہیں ہر سمجھ دار جانتا ہے کہ ایسے تجربات صرف وقت اور اعتبار ہی ضایع نہیں کرتے بلکہ کسی قوم کو نئی آزمائشوں میں بھی مبتلا کر دیتے ہیں۔
قومی سیاست کے نشیب و فراز کا سنجیدگی سے جائزہ لینے والے جانتے ہوں گے کہ سعودی وزیر خزانہ کے اس بیان کے بعد نئے تجربات کے ضمن میں ہماری سیاست میں ٹھہراؤ نظر آیا ہے۔ ایسے ماحول میں مریم نواز کی واپسی محض ایک فرد کی اپنے وطن واپسی نہیں ہے بلکہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
یہ واقعہ صرف مسلم لیگ اور اس سے ہم دردی رکھنے والوں کے لیے امید کی کرن نہیں بلکہ ملک میں سیاسی اعتبار سے ایک نئے دور کی ابتدا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا سیاسی دور جو ملک کو ایک متحمل مزاج لیکن پر عزم ملک میں تبدیل کر سکے۔
ایک ایسی تبدیلی جو مختلف مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان کو اپنے قومی مقاصد اور مفادات کا پاس رکھتے ہوئے ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر دے جو اقوام عالم کی توقعات پر بھی پورا اتر سکے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ مریم نواز ایک ایسی تبدیلی ہی کا پیش خیمہ ثابت ہوںگی۔