فیصلہ کن معرکوں میں کمزور کھیل‘ پاکستان کرکٹ کا دائمی مرض
ایک عشرے میں 9 بار آخری میچ ہار کر سیریز گنوانے والی ٹیم سے پھر بہتر کارکردگی کی اُمیدیں
کارکردگی میں عدم تسلسل پاکستان کرکٹ کا ہمیشہ سے ہی مسئلہ رہا ہے۔
ایک دن گرین شرٹس عرش پر تو دوسرے روز فرش پر ہوتے ہیں' کبھی ہمارے کھلاڑی کسی ٹیم کو ایسے چاروں شانے چت گراتے ہیں کہ مضبوط حریف بھی معمولی دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اگلے ہی میچ میں کارکردگی ایسی ہوتی ہے کہ کھیل کے ہر شعبے میں صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں اُتار چڑھائو کے بعد فیصلہ کن لمحات میں اعصاب پر قابو نہ رکھ پانے کے سبب 1-2 سے شکست ہوئی۔
پہلے میچ میں اچھے آغاز کو بڑے سکور میں نہ بدلا جا سکا' مگر دوسرے میں آسٹریلیا کا دیا معقول ہدف بھی باآسانی حاصل کر لیا' تیسرے میں ایک بار پھر 300 رنز بنانے کا موقع گنوایا پھر میچ اور سیریز بھی ہاتھ سے نکل گئی۔
ٹوئنٹی 20 میچز دونوں ٹیموں کیلئے ورلڈ کپ کی گرینڈ ریہرسل تھے۔ پہلے مقابلے میں بولرز ایسے چھائے کہ کینگروز اپنے کم ترین سکور 89 پر ڈھیر ہو گئے' اننگز میں صرف 3 چوکے شامل تھے۔ پاکستان نے ہدف 3 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا۔ دوسرے میچ کا فیصلہ سپر اوور میں گرین شرٹس کے حق میں ہوا' چند فاش غلطیوں کے باوجود سیریز میں فتح سے حوصلے جوان ہونے کے بعد کلین سویپ کے بارے میں شائقین کی توقعات بجا تھیں' مگر محمد حفیظ الیون نے کسی گلی محلے کے کلب جیسا کھیل پیش کیا۔
بولرز نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنز دیئے تو بیٹنگ لائن میں سے کسی نے وکٹ پر قیام کی ذمہ داری قبول کرنا گوارا نہ کی۔ کپتان پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ کھلاڑی تیسرے میچ میں شکست کے باوجود سیریز جیتنے پر خوش ہیں تو ان کے اپنے چہرے پر مایوسی جھلک رہی تھی۔ ون ڈے سیریز گنوانے کا ازالہ ٹوئنٹی 20 میں کلین سویپ سے ہوتا تو شاید قومی ٹیم کے مختلف کھلاڑیوں کو مورال بلند کرنے والے بیانات جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
فیصلہ کن لمحات میں کمزور کھیل پیش کرنا پاکستانی کھلاڑیوں کا دائمی مرض ہے' جس کا علاج کرنے میں کئی ملکی اور غیر ملکی کوچ ناکام ہو چکے۔ناقص حکمت عملی، سٹیمنا کی کمی اور اعصاب شکن مقابلے میں ہمت ہار دینے کے سبب کارکردگی میں عدم تسلسل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم 2002ء کے بعد سے مسلسل آخری میچ میں مات کھا کر ون ڈے سیریز گنواتی رہی ہے، 10برس میں 9بار گرین شرٹس نے فیصلہ کن میچ میں حریفوں کے سامنے ہتھیارڈالے۔
پاکستانی کرکٹرز کو آخری مقابلے میں نیچا دکھاکر سیریز اپنے نام کرنے والی ٹیموں میں جنوبی افریقہ، انگلینڈ، بھارت، سری لنکا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ گرین شرٹس نے آخری بار 2002ء میںکینگروز کو ان کے اپنے ہی دیس میں 3ایک روز میچز پر مشتمل سیریز کے فیصلہ کن معرکہ میں ہرایا تھا۔ پہلا مقابلہ ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی دوسرے میں فتح کے ساتھ سیریز برابری پر آ گئی۔
آخری میچ میں پاکستان نے عمران نذیر اور محمد یوسف کی نصف سنچریوں کی بدولت 256 رنز بنائے۔آسٹریلوی بیٹسمین ہدف کے تعاقب کیلئے میدان میں آئے تو انہیں وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے خطرناک پیس اٹیک کا سامنا کرنا تھا، ٹو ڈبلیوز کے بعد راولپنڈی ایکسپریس نے گیند تھامی تو بیٹسمینوں کی ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں، شعیب نے تباہ کن بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کیں۔
کینگروز صرف 165 پر ڈھیر ہو گئے۔ آسٹریلیا کو اس کے اپنے گھر میں ہرانے کے بعد گرین شرٹس اب تک دو طرفہ سیریز کا فیصلہ کن معرکہ سر کرنے میں ناکام رہے۔ 2003ء میں جنوبی افریقی ٹیم 5 ایک روزہ میچ کھیلنے کیلئے پاکستان آئی۔ قذافی سٹیڈیم میں گرین شرٹس نے 277 کا ہدف دے کر پروٹیز کو 269 پر ٹھکانے لگادیا۔
لاہور میں دوسرا میچ بھی گرین شرٹس نے 42 رنز سے اپنے نام کیا، تیسرا اور چوتھا مقابلہ جیت کر جنوبی افریقہ نے نہ صرف سیریز برابر کر لی بلکہ آخری میچ بھی فیصلہ کن بنا لیا۔ راولپنڈی سٹیڈیم میں میزبان ٹیم 192پر ڈھیر ہو گئی، مہمان سائیڈ نے ہدف 45.5 اوورز میں عبور کرتے ہوئے سیریز اپنے نام کر لی۔
بھارتی ٹیم 2004ء میں پاکستان آئی تو شائقین کو یقین تھا کہ گرین شرٹس روایتی حریف کو 5 ایک روزہ میچز کی سیریز میں با آسانی زیر کر لیں گے لیکن پہلے ہی معرکہ میں بلو شرٹس نے قومی ٹیم کو 349 رنز کے پہاڑ تلے دبا دیا، انضمام کی سنچری کی بدولت میزبان بیٹسمینوں نے خوب مقابلہ کیا مگر بد قسمتی سے معین خان آخری اوور میں 9رنز نہ بنا سکے۔
راولپنڈی میں قومی ٹیم نے یاسر حمید کے 86 اور شاہد آفریدی کے 80 رنز کی بدولت 329 رنز بنائے، بھارتی ٹیم 317تک پہنچ کر ہمت ہار گئی، تیسرا مقابلہ میزبان پلیئرز نے 4 وکٹوں سے اپنے نام کیا چوتھے میں بھارت نے 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سیریز 2-2 سے برابر کردی۔ فائنل کی صورت اختیار کرنے والا آخری میچ لاہور میں ہوا، روایتی حریف نے لکشمن کی سنچری کی بدولت 293 کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں گرین شرٹس 253 پر ڈھیر ہو گئے۔
معین خان نے 72اور شعیب ملک نے 65 رنز بنائے، دو برس میں دوسرا موقع تھا کہ قومی ٹیم فیصلہ کن مقابلہ جیتنے میں ناکام رہی، پاکستان کو 2006ء میں انگلینڈ کو 5 میچ سیریز ہرانے کا سنہری موقع بھی ہاتھ آیا جو ضائع ہوگیا۔
ابتدائی مقابلہ بارش کی نذر ہوا، دوسرے اور تیسرے میچ میں گرین شرٹس نے یک طرفہ مقابلوں کے بعد 2-0کی برتری حاصل کر لی، چوتھے معرکے میں میزبان سائیڈ نے کم بیک کرتے ہوئے 8وکٹوں سے فتح پائی، پاکستان کو سیریز جیتنے کیلئے آخری میچ میں کامیابی حاصل کرنا تھی مگر بیٹنگ لائن نے 154 پر ہتھیار ڈال دیئے۔ انگلینڈ نے ہدف 31 اوورز میں عبور کرتے ہوئے گرین شرٹس کے خواب خاک میں ملا دیئے۔
جنوبی افریقہ ٹیم 2007ء میں پاکستان آئی تو گرین شرٹس کیلئے 2003ء کی ہوم سیریز میں شکست کا بدلہ چکانے کا موقع تھا، قومی ٹیم نے پہلا مقابلہ ہارنے کے بعد دوسرے اور تیسرے معرکہ میںمہمان سائیڈ کو با آسانی زیر کر لیا، چوتھے میچ میں پروٹیز نے 7وکٹوں سے فتح کے ساتھ سیریز برابر کر دی، فیصلہ کن معرکے میں جنوبی افریقہ نے کیلس کے 85 رنز کی بدولت 233رنز کا ہدف دیا مگر میزبان سائیڈ نے 219 پر گھٹنے ٹیک دیئے۔
پاکستانی شاہینوں کا 2008 میں ہوم گرائونڈ پر سری لنکا سے 3 میچز پر مشتمل سیریز میں جوڑ پڑا، پہلا میچ مہمان، دوسرا میزبان ٹیم نے جیتا۔ آخری میچ ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم نے اپنی سابق روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ناکامی دیکھی، وہ بھی ایسی شرمناک کہ شائقین کو یقین ہی نہیں آیا، گرین شرٹس 309رنز کے جواب میں صرف 75رنز ہی بنا سکے۔
نیوٹرل وینیو متحدہ عرب امارات میں 2009ء میں پاکستان کا نسبتاً کمزور حریف نیوزی لینڈ سے سامنا تھا، قومی ٹیم پہلا مقابلہ با آسانی جیتنے کے بعد دوسرے میں مات کھا گئی، تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں گرین شرٹس نے ہمت ہار دی۔
پاکستان کرکٹ کو بدنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے والا 2010ء کا دورہ انگلینڈ سپاٹ فکسنگ میں ملوث سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کا کیریئر کھا گیا، ٹیسٹ سیریز اسی کشمکش میں گزری، بعد ازاں ون ڈے میچز سے قبل ہی میڈیا کا شور برپا تھا، چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کی بیان بازی کے سبب میزبان کھلاڑیوں کا رویہ بھی نفرت آمیز رہا، ابتدائی دونوں مقابلوںمیں سکینڈل سے شرمندہ قومی کرکٹرز کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تیسرے اور چوتھے میچ میں شاہد آفریدی کی قیادت میں گرین شرٹس نے میزبان ٹیم کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے کامیابی کے ساتھ سیریز برابر کر دی، آخری فیصلہ کن میچ میں میزبان ٹیم نے مورگن کے 107 رنز کی بدولت 256 کا ہدف دیا، گرین شرٹس 135 پر ڈھیر ہو کر ایک اور سیریز گنوا بیٹھے۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستان کا سامنا جنوبی افریقہ سے ہوا، پہلے میچ ہارا، دوسرا جیتا، تیسرے میں زیر ہونے کے بعد چوتھے مقابلے میںعبد الرزاق کی 109 رنز کی یادگار اننگز کی بدولت ایک وکٹ سے فتح نصیب ہوئی۔آل رائونڈر نے پروٹیز بولرز کی وہ درگت بنائی کہ کرکٹ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی، فیصلہ کن معرکہ میں جنوبی افریقہ نے سیریز جیتنے کا موقع نہ دیا۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کیخلاف سیریز کا ذکر پہلے ہی ہوچکا۔
قومی کرکٹ ٹیم ٹوئٹی 20 ورلڈ کپ میں فتح کا عزم لئے سری لنکا میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ محمد حفیظ کی قیادت میں کھلاڑی ایک بار پھر قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں' مختصر فارمیٹ میں پاکستان کے پاس باصلاحیت پلیئرز کی کوئی کمی نہیں' آئی لینڈز کی وکٹیں اور موسم بھی گرین شرٹس کیلئے موزوں خیال کی جا رہی ہیں۔
کپتان' کوچ اور مینجمنٹ اپنی اور حریف ٹیموں کی خوبیوں اور خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دیں تو ماضی کی غلطیوں کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ وارم اپ میچز میں زیادہ تر انہی کھلاڑیوں کو آزمایا جائے' جن کو میگا ایونٹ میں موقع دینا ہے۔ بیٹنگ آرڈر میں بار بار تبدیلیوں سے پلیئرز اور ٹیم کی مشکلات بڑھتی ہیں' نئے تجربات ہمیشہ کمزور حریفوں یا غیر اہم مقابلوں میں کئے جاتے ہیں' سری لنکا میں ٹائٹل کے حصول کیلئے ہر میچ فائنل سمجھ کر کھیلنا ہو گا۔
ایک دن گرین شرٹس عرش پر تو دوسرے روز فرش پر ہوتے ہیں' کبھی ہمارے کھلاڑی کسی ٹیم کو ایسے چاروں شانے چت گراتے ہیں کہ مضبوط حریف بھی معمولی دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اگلے ہی میچ میں کارکردگی ایسی ہوتی ہے کہ کھیل کے ہر شعبے میں صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں اُتار چڑھائو کے بعد فیصلہ کن لمحات میں اعصاب پر قابو نہ رکھ پانے کے سبب 1-2 سے شکست ہوئی۔
پہلے میچ میں اچھے آغاز کو بڑے سکور میں نہ بدلا جا سکا' مگر دوسرے میں آسٹریلیا کا دیا معقول ہدف بھی باآسانی حاصل کر لیا' تیسرے میں ایک بار پھر 300 رنز بنانے کا موقع گنوایا پھر میچ اور سیریز بھی ہاتھ سے نکل گئی۔
ٹوئنٹی 20 میچز دونوں ٹیموں کیلئے ورلڈ کپ کی گرینڈ ریہرسل تھے۔ پہلے مقابلے میں بولرز ایسے چھائے کہ کینگروز اپنے کم ترین سکور 89 پر ڈھیر ہو گئے' اننگز میں صرف 3 چوکے شامل تھے۔ پاکستان نے ہدف 3 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا۔ دوسرے میچ کا فیصلہ سپر اوور میں گرین شرٹس کے حق میں ہوا' چند فاش غلطیوں کے باوجود سیریز میں فتح سے حوصلے جوان ہونے کے بعد کلین سویپ کے بارے میں شائقین کی توقعات بجا تھیں' مگر محمد حفیظ الیون نے کسی گلی محلے کے کلب جیسا کھیل پیش کیا۔
بولرز نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنز دیئے تو بیٹنگ لائن میں سے کسی نے وکٹ پر قیام کی ذمہ داری قبول کرنا گوارا نہ کی۔ کپتان پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ کھلاڑی تیسرے میچ میں شکست کے باوجود سیریز جیتنے پر خوش ہیں تو ان کے اپنے چہرے پر مایوسی جھلک رہی تھی۔ ون ڈے سیریز گنوانے کا ازالہ ٹوئنٹی 20 میں کلین سویپ سے ہوتا تو شاید قومی ٹیم کے مختلف کھلاڑیوں کو مورال بلند کرنے والے بیانات جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
فیصلہ کن لمحات میں کمزور کھیل پیش کرنا پاکستانی کھلاڑیوں کا دائمی مرض ہے' جس کا علاج کرنے میں کئی ملکی اور غیر ملکی کوچ ناکام ہو چکے۔ناقص حکمت عملی، سٹیمنا کی کمی اور اعصاب شکن مقابلے میں ہمت ہار دینے کے سبب کارکردگی میں عدم تسلسل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم 2002ء کے بعد سے مسلسل آخری میچ میں مات کھا کر ون ڈے سیریز گنواتی رہی ہے، 10برس میں 9بار گرین شرٹس نے فیصلہ کن میچ میں حریفوں کے سامنے ہتھیارڈالے۔
پاکستانی کرکٹرز کو آخری مقابلے میں نیچا دکھاکر سیریز اپنے نام کرنے والی ٹیموں میں جنوبی افریقہ، انگلینڈ، بھارت، سری لنکا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ گرین شرٹس نے آخری بار 2002ء میںکینگروز کو ان کے اپنے ہی دیس میں 3ایک روز میچز پر مشتمل سیریز کے فیصلہ کن معرکہ میں ہرایا تھا۔ پہلا مقابلہ ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی دوسرے میں فتح کے ساتھ سیریز برابری پر آ گئی۔
آخری میچ میں پاکستان نے عمران نذیر اور محمد یوسف کی نصف سنچریوں کی بدولت 256 رنز بنائے۔آسٹریلوی بیٹسمین ہدف کے تعاقب کیلئے میدان میں آئے تو انہیں وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے خطرناک پیس اٹیک کا سامنا کرنا تھا، ٹو ڈبلیوز کے بعد راولپنڈی ایکسپریس نے گیند تھامی تو بیٹسمینوں کی ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں، شعیب نے تباہ کن بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کیں۔
کینگروز صرف 165 پر ڈھیر ہو گئے۔ آسٹریلیا کو اس کے اپنے گھر میں ہرانے کے بعد گرین شرٹس اب تک دو طرفہ سیریز کا فیصلہ کن معرکہ سر کرنے میں ناکام رہے۔ 2003ء میں جنوبی افریقی ٹیم 5 ایک روزہ میچ کھیلنے کیلئے پاکستان آئی۔ قذافی سٹیڈیم میں گرین شرٹس نے 277 کا ہدف دے کر پروٹیز کو 269 پر ٹھکانے لگادیا۔
لاہور میں دوسرا میچ بھی گرین شرٹس نے 42 رنز سے اپنے نام کیا، تیسرا اور چوتھا مقابلہ جیت کر جنوبی افریقہ نے نہ صرف سیریز برابر کر لی بلکہ آخری میچ بھی فیصلہ کن بنا لیا۔ راولپنڈی سٹیڈیم میں میزبان ٹیم 192پر ڈھیر ہو گئی، مہمان سائیڈ نے ہدف 45.5 اوورز میں عبور کرتے ہوئے سیریز اپنے نام کر لی۔
بھارتی ٹیم 2004ء میں پاکستان آئی تو شائقین کو یقین تھا کہ گرین شرٹس روایتی حریف کو 5 ایک روزہ میچز کی سیریز میں با آسانی زیر کر لیں گے لیکن پہلے ہی معرکہ میں بلو شرٹس نے قومی ٹیم کو 349 رنز کے پہاڑ تلے دبا دیا، انضمام کی سنچری کی بدولت میزبان بیٹسمینوں نے خوب مقابلہ کیا مگر بد قسمتی سے معین خان آخری اوور میں 9رنز نہ بنا سکے۔
راولپنڈی میں قومی ٹیم نے یاسر حمید کے 86 اور شاہد آفریدی کے 80 رنز کی بدولت 329 رنز بنائے، بھارتی ٹیم 317تک پہنچ کر ہمت ہار گئی، تیسرا مقابلہ میزبان پلیئرز نے 4 وکٹوں سے اپنے نام کیا چوتھے میں بھارت نے 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سیریز 2-2 سے برابر کردی۔ فائنل کی صورت اختیار کرنے والا آخری میچ لاہور میں ہوا، روایتی حریف نے لکشمن کی سنچری کی بدولت 293 کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں گرین شرٹس 253 پر ڈھیر ہو گئے۔
معین خان نے 72اور شعیب ملک نے 65 رنز بنائے، دو برس میں دوسرا موقع تھا کہ قومی ٹیم فیصلہ کن مقابلہ جیتنے میں ناکام رہی، پاکستان کو 2006ء میں انگلینڈ کو 5 میچ سیریز ہرانے کا سنہری موقع بھی ہاتھ آیا جو ضائع ہوگیا۔
ابتدائی مقابلہ بارش کی نذر ہوا، دوسرے اور تیسرے میچ میں گرین شرٹس نے یک طرفہ مقابلوں کے بعد 2-0کی برتری حاصل کر لی، چوتھے معرکے میں میزبان سائیڈ نے کم بیک کرتے ہوئے 8وکٹوں سے فتح پائی، پاکستان کو سیریز جیتنے کیلئے آخری میچ میں کامیابی حاصل کرنا تھی مگر بیٹنگ لائن نے 154 پر ہتھیار ڈال دیئے۔ انگلینڈ نے ہدف 31 اوورز میں عبور کرتے ہوئے گرین شرٹس کے خواب خاک میں ملا دیئے۔
جنوبی افریقہ ٹیم 2007ء میں پاکستان آئی تو گرین شرٹس کیلئے 2003ء کی ہوم سیریز میں شکست کا بدلہ چکانے کا موقع تھا، قومی ٹیم نے پہلا مقابلہ ہارنے کے بعد دوسرے اور تیسرے معرکہ میںمہمان سائیڈ کو با آسانی زیر کر لیا، چوتھے میچ میں پروٹیز نے 7وکٹوں سے فتح کے ساتھ سیریز برابر کر دی، فیصلہ کن معرکے میں جنوبی افریقہ نے کیلس کے 85 رنز کی بدولت 233رنز کا ہدف دیا مگر میزبان سائیڈ نے 219 پر گھٹنے ٹیک دیئے۔
پاکستانی شاہینوں کا 2008 میں ہوم گرائونڈ پر سری لنکا سے 3 میچز پر مشتمل سیریز میں جوڑ پڑا، پہلا میچ مہمان، دوسرا میزبان ٹیم نے جیتا۔ آخری میچ ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم نے اپنی سابق روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ناکامی دیکھی، وہ بھی ایسی شرمناک کہ شائقین کو یقین ہی نہیں آیا، گرین شرٹس 309رنز کے جواب میں صرف 75رنز ہی بنا سکے۔
نیوٹرل وینیو متحدہ عرب امارات میں 2009ء میں پاکستان کا نسبتاً کمزور حریف نیوزی لینڈ سے سامنا تھا، قومی ٹیم پہلا مقابلہ با آسانی جیتنے کے بعد دوسرے میں مات کھا گئی، تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں گرین شرٹس نے ہمت ہار دی۔
پاکستان کرکٹ کو بدنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے والا 2010ء کا دورہ انگلینڈ سپاٹ فکسنگ میں ملوث سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کا کیریئر کھا گیا، ٹیسٹ سیریز اسی کشمکش میں گزری، بعد ازاں ون ڈے میچز سے قبل ہی میڈیا کا شور برپا تھا، چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کی بیان بازی کے سبب میزبان کھلاڑیوں کا رویہ بھی نفرت آمیز رہا، ابتدائی دونوں مقابلوںمیں سکینڈل سے شرمندہ قومی کرکٹرز کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تیسرے اور چوتھے میچ میں شاہد آفریدی کی قیادت میں گرین شرٹس نے میزبان ٹیم کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے کامیابی کے ساتھ سیریز برابر کر دی، آخری فیصلہ کن میچ میں میزبان ٹیم نے مورگن کے 107 رنز کی بدولت 256 کا ہدف دیا، گرین شرٹس 135 پر ڈھیر ہو کر ایک اور سیریز گنوا بیٹھے۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستان کا سامنا جنوبی افریقہ سے ہوا، پہلے میچ ہارا، دوسرا جیتا، تیسرے میں زیر ہونے کے بعد چوتھے مقابلے میںعبد الرزاق کی 109 رنز کی یادگار اننگز کی بدولت ایک وکٹ سے فتح نصیب ہوئی۔آل رائونڈر نے پروٹیز بولرز کی وہ درگت بنائی کہ کرکٹ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی، فیصلہ کن معرکہ میں جنوبی افریقہ نے سیریز جیتنے کا موقع نہ دیا۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کیخلاف سیریز کا ذکر پہلے ہی ہوچکا۔
قومی کرکٹ ٹیم ٹوئٹی 20 ورلڈ کپ میں فتح کا عزم لئے سری لنکا میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ محمد حفیظ کی قیادت میں کھلاڑی ایک بار پھر قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں' مختصر فارمیٹ میں پاکستان کے پاس باصلاحیت پلیئرز کی کوئی کمی نہیں' آئی لینڈز کی وکٹیں اور موسم بھی گرین شرٹس کیلئے موزوں خیال کی جا رہی ہیں۔
کپتان' کوچ اور مینجمنٹ اپنی اور حریف ٹیموں کی خوبیوں اور خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دیں تو ماضی کی غلطیوں کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ وارم اپ میچز میں زیادہ تر انہی کھلاڑیوں کو آزمایا جائے' جن کو میگا ایونٹ میں موقع دینا ہے۔ بیٹنگ آرڈر میں بار بار تبدیلیوں سے پلیئرز اور ٹیم کی مشکلات بڑھتی ہیں' نئے تجربات ہمیشہ کمزور حریفوں یا غیر اہم مقابلوں میں کئے جاتے ہیں' سری لنکا میں ٹائٹل کے حصول کیلئے ہر میچ فائنل سمجھ کر کھیلنا ہو گا۔