مشکل فیصلے لینا ناگزیر

حکومت نے تو اپنا رانجھا راضی رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرط منانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے

حکومت نے تو اپنا رانجھا راضی رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرط منانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے (فائل : فوٹو)

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 35، 35 روپے، جب کہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 18، 18 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے لیے روڈ میپ وضع کر لیا ہے.

اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے مگر غریب آدمی پر اس کا بوجھ نہ پڑے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی اور بلواسطہ ٹیکسوں میں اضافے سے افراط زر میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو۔

مانا کہ قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آ ہی جاتا ہے کہ جب انتہائی مشکل فیصلے لینا ناگزیر ہو جاتا ہے اور ان فیصلوں کے بعد حالات اکثر نارمل ہوجاتے ہیں۔ حکومت نے تو اپنا رانجھا راضی رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرط منانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔

اسی لیے ایک دم پٹرولیم مصنوعات میں پینتیس روپے کا اضافے کیا گیا ہے۔ جس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہونگے، ایک طرف ملک میں سیاسی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔

جیسے پٹرول پمپ مالکان کو سن گن مل جاتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہونے جارہا ہے تو ملک کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں اکثر پٹرول پمپوں پر '' بند ہے'' کے بورڈ آویزاں ہو جاتے ہیں، جب کہ بعض پمپ راشننگ کا نظام متعارف کرواتے ہوئے فی کار یا موٹر کے لیے فروخت مخصوص مقدار (عام طور پر پانچ سے دس لیٹر) تک محدود کر دیتے ہیں۔

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح پمپوں پر سے پٹرول اور ڈیزل وغیرہ غائب ہو جانے کی روایت کا تسلسل برقرار رہا۔ درحقیقت پٹرول کہیں غائب نہیں ہو جاتا ، بلکہ پمپ مالکان صرف زیادہ منافع کمانے کی غرض سے فروخت روک یا کم کر دیتے ہیں، جب کہ حکومت ان پٹرول پمپس مالکان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے۔

دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی اعلان کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مزید اضافے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ لاہور سے کراچی کے کرائے میں 600 روپے اضافہ کیا گیا ہے جب کہ لاہور سے پشاور اور صادق آباد کے کرایوں میں 200 روپے کا اضافے کا اعلان کردیا گیا ہے۔

عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ ، وزراء ، مشیروں ، با اثر طبقے و افسران کو مفت بجلی، گیس اور پٹرول مہیا کرنا بند کیا جائے۔

پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے کاروبار بند ہو جائیں گے، کاروباری لاگت بڑھنے سے مینوفیکچرنگ کا شعبہ شدید دباؤ کا شکار ہوچکا ہے۔پہلے کچھ معاشی ماہرین اور سیاست دان خیال کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے بغیر بھی Multilateral grants and loansحاصل کی جا سکتی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی اسی سوچ کے حامل تھے مگر اب ہمارے دوست سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ہم پاکستان میں 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو جواب میں پاکستان کو بھی معاشی اصلاحات کرنی ہوں گی۔

سعودی عرب کے وزیر خزانہ کا واضح اشارہ اس طرف تھا کہ وہ آیندہ سےArticle for consultation کے تحت ہی پاکستان کو قرض دے گا ، اس کے لیے آئی ایم ایف سے منظوری ضروری ہوگی۔

آنے والے دنوں میں 400 ارب کا منی بجٹ کے ذریعے بجلی کی قیمت 7.50 روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ متوقع ہے کیونکہ توانائی کے شعبے میں 4 ٹریلین اور گیس کے سیکٹر میں 1640 ارب کا خسارہ موجود ہے۔ڈالرز کو فری فلوٹ کردیا گیا ہے جس سے امکان ہے کہ اس کا مارکیٹ ریٹ 270 روپے کے اردگرد ٹھہرے گا۔

ان نازک ترین معاشی حالات میں بھی پاکستانی سرمایہ کار مالی نقصانات سے بچنے کے لیے ڈالر اور سونے میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں جاری سیاسی بحران نے معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے رواں برس مہنگائی مزید بڑھے گی۔


اس وقت آٹا 160 روپے فی کلو، گھی 600 روپے، چینی 120، چاول 400، ڈالر 262 اور سونا دو لاکھ پانچ ہزار روپے تولہ ہوچکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی شرح سود بھی 17 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد تک پہنچنے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔

ہمارے کچھ معیشت دانوں کا خیال تھا کہ قرضے لے کر گروتھ بڑھا کر قرضے واپس کیے جا سکتے ہیں مگر اس فلسفے میں ہم کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے کا ایسا شکار ہوئے ہیں کہ گروتھ کا تیا پانچہ ہونے کے ساتھ doing business Cost of ا س قدر بڑھ گئی ہے کہ صنعتی اور زرعی ترقی کے خواب بھی ادھورے رہ گئے ہیں اور اوپر سے بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے ملکی سلامتی کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے کیوں کہ اقتدار کی جنگ میں طاقتور اشرافیہ بھی گتھم گتھا ہے۔

یہ عوام کو اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے ایندھن بنانے پر لگے ہوئے ہیں اور ملک میں شدید عدم برداشت اسکو انارکی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ رواں سال میں عالمی معیشت کا ایک تہائی حصہ کساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ ممالک جو کساد بازاری کا شکار نہیں ہیں، وہ بھی اس کے اثرات محسوس کریں گے۔

عالمی شرحِ نمو کے اہم ممالک، امریکا، یورپ اور چین کو کمزور اقتصادی سرگرمیوں کا سامنا رہا ہے۔اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی شدید قلت کا سامنا ہے ، اسٹیٹ بینک کے پاس محض 4 ارب ڈالرز کے ذخائر رہ گئے ہیں جو بمشکل 2 ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔

ان حالات میں ملکی بینکس درآمد کنندگان کے لیٹر آف کریڈٹ یعنی ایل سی کھولنے سے انکاری ہیں جس کی وجہ سے ضروری اشیاء اور برآمدات میں استعمال ہونے والے خام مال کی شدید قلت کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی بحران نے مہنگائی، بیروزگاری، ادویات اور درآمدی گھی کی بھی قلت پیدا کر دی ہے۔

ان حالات میں اشیائے تعیش کی درآمدات کی تو حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے (حالانکہ ورلڈ ٹریڈ یونین کے معاہدوں کی وجہ سے ہم دوسرے ممالک کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتے ہیں) لیکن ڈالرز کے ناپید ہونے سے جہاں حکومت کے پی ایس ڈی پی پروگرامز دیا میر بھاشا، مہمند ڈیم، آب رسانی کا منصوبہ k4 ، وارسک کینال کی ری ماڈلنگ اور باسول ڈیم کی تعمیرات کو روک دیا گیا ہے وہیں بینکوں کی طرف سے ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے ملک میں 150 سے زائد سپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جس سے ہزاروں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔

آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل، دالوں، گھی اور ادویات کی قلت کا شدید بحران پیدا ہو نے کے خدشات نظر آرہے ہیں۔ ڈالرز کی قلت کے باعث غیر ملکی شپنگ کمپنیوں نے اپنی خدمات کی فراہمی معطل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

پاکستان شپنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کر نے کے لیے خط تحریر کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی ماہانہ 900 ملین ڈالرز کی برآمدگی کارگو کی ترسیل بھی بند ہو جائے گی اور تو پاکستان کی 90 فیصد بین الاقوامی تجارت کا سلسلہ رک جائے گا کیونکہ چین، افغانستان اور بھارت کے علاوہ پاکستان کی زیادہ تر تجارت کی رسد کھلے سمندر کے ذریعے ہوتی ہے۔

پاکستان کی معیشت اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے، بقول معاشی تجزیہ کار، پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 2.5 ٹریلین خالص آمدنی کے مقابلے میں قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر 3.2 ٹریلین خرچ کیے ہیں جو ہماری خالص آمدنی کے 128 فیصد ہیں جب کہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف 147 ارب خرچ ہوئے ہیں۔

یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ان دو مدوں میں خرچ ہونے والے اخراجات خالص وفاقی آمدنی سے 708 ارب روپے زیادہ ہیں جب ہم چھ ماہ میں 69 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ کر دیں گے۔حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت تو بڑھا دی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قیمت درست ہے اور کیا یہ اضافہ آخری مرتبہ ہے؟

کیونکہ پچھلے کئی برسوں سے آئی ایم ایف کی ہر قسط ملنے سے پہلے روپے کی قدر گھٹنا معمول بن چکا ہے، اگر حکومت نے برآمدات بڑھانے اور ترسیلات زر میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ایکسپورٹرز اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک مرتبہ پھر گرے مارکیٹ کا رخ کرسکتے ہیں اور ڈالر ریٹ مزید بڑھانا حکومت کی مجبوری بن سکتا ہے ۔

اس وقت ڈالر ذخائر نو سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ درحقیقت ڈالر ریٹ بڑھانے سے متعلق تاخیری حربے پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں ، یہاں پر اہم ذمے داری پاکستانی برآمد کنندگان پر عائد ہوتی ہے کہ اب انٹر بینک میں ڈالر ریٹ بہتر ہوچکا ہے۔

امید ہے کہ وہ ڈالرز ہنڈی اور حوالے کے بجائے بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان منگوائیں گے ، دوسری جانب حکومت کو بھی ہنڈی حوالے کے راستے بند کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح ڈالرز مصنوعی قلت پر قابو پا کر ملکی معیشت کی بحالی کے اقدامات کے بہتر نتائج سامنے آسکیں۔
Load Next Story