معاشی مسائل کا مستقل حل

زرعی اصلاحات، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے ساتھ بچت اور اعتدال کی راہ اپنائی جائے

مقامی انڈسٹری اور خاص طور پر میڈ اِن پاکستان کو پروموٹ کیا جائے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اللہ پاک کے کرم سے وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن اس وقت ملک ان حالات سے دوچار ہے کہ کسی وقت بھی اس کو دیوالیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ملک عزیز دیوالیہ ہونے کے اثرات سے بہت حد تک متاثر نظر آرہا ہے۔ بینک ایل سیز پہلے ہی بند کرچکے ہیں، جس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔ اگرچہ ان حالات کی ذمے دار ہر سیاسی پارٹی دوسری پارٹی کو قرار دیتی ہے۔ لیکن درحقیقت ملک اس نہج پر کسی ایک فرد کی وجہ سے نہیں پہنچا بلکہ اس ملک کی بربادی میں قوم کا اجتماعی ہاتھ ہے۔

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے اندیشے کے پیچھے جہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، وہیں پاکستان میں انتہائی زیادہ درآمدات کا بھی ہاتھ ہے۔ ہم زندگی کے کم وبیش ہر شعبے کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے لاکھوں ڈالرز خرچ کرتے ہیں اور دیگر ممالک سے اشیا درآمد کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس عدم توازن کو پورا کرنے کےلیے ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ اس دوران اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے نہ تو اس طرف کوئی خاص توجہ دی اور نہ ہی ٹھوس اقدامات کیے گئے جس سے یہ کوشش کی جاتی کہ ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔

اگر حکومتیں ملک میں ایسی پالیسیاں بناتی جس کے تحت مقامی انڈسٹری کو فوقیت دی جاتی، بالخصوص کاٹیج انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اس ملک میں کافی زرمبادلہ کمایا جاسکتا تھا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں بنائے جس میں مقامی انڈسٹری اور خاص طور پر میڈ اِن پاکستان کو پروموٹ کیا جاسکے۔ چھوٹے کاروباری حضرات کو بلاسود قرض فراہم کیے جائیں، جو اس سیکٹر میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔


زراعت ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی صلاحیت سے ابھی تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ زرعی شعبے میں تحقیق پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے یہ شعبہ اتنا پیداواری اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ملک میں فی ایکڑ پیداوار بھی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ حالانکہ اس سیکٹر میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ شعبہ پاکستان کی مشکلات حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کا عملی حل یہ ہے کہ ملک کے اندر ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن کے اگانے سے ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔ پچھلے مالی سال میں ہم نے تقریبا 3.6 بلین ڈالرز کا صرف خوردنی تیل درآمد کیا۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ تیل دار اجناس اگا کر وطن عزیز کا زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے اور اس کےلیے محکمہ زراعت کے تحقیقاتی اداروں بشمول ذیلی ادارہ توسیع زراعت کو بہتر اور جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ ایگری بزنس پر توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ فصلوں سے حاصل شدہ خام مال کی ویلیو ایڈیشن کی جاسکے اور اسے بیرون ملک برآمد کیا جاسکے۔

حالیہ خدشات کو فوری دور کرنے کےلیے بچت اور اعتدال بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں پر کنجوسی سے منع کیا، وہیں کفایت شعاری پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قوم ایک طرف تو مہنگائی کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف اگر تفریح گاہوں اور خریداری کے مراکز کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہو اور ہمارے ملک میں کسی قسم کا بحران موجود نہ ہو۔ ان حالات میں بھی امپورٹڈ سامان کی مانگ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان نے پچھلے مالی سال میں 20 بلین ڈالرز پٹرولیم کی درآمد پر خرچ کیے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان خراب حالات میں بھی پچھلے 6 ماہ کے درران 1.2 بلین ڈالرز کی پرتعیش گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ بحیثیت قوم ہمیں ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور بچت کو قومی سطح پر اپنانا ہوگا۔ اس عمل میں ان تمام سیاسی عہدیداروں اور افسران کو بھی اپنے اخراجات کم سے کم رکھنے ہوں گے، جو اخراجات وہ فرائض کی انجام دہی کے علاوہ مراعات کے طور پر لیتے ہیں۔ بچت کو اپنانے کے دیگر فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ملک کو بجلی کی پیداوار کےلیے کم سے کم امپورٹ بل ادا کرنا پڑے گا۔

ان اقدامات کے علاوہ بھی کئی ایسے امور ہیں جنھیں اپنا کر ملک کو فائدہ بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔ حکومت صرف ان شعبوں پر بھی فوری طور مرکوز کرے تو کئی بلین ڈالرز کی بچت کی جاسکتی ہے اور ملک عزیز کو قرض کی دلدل سے چھٹکارہ دلایا جاسکتا ہے۔ ان اقدامات کےلیے کسی راکٹ سائنس کی نہیں بلکہ نیک نیتی کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story