پشاور پولیس لائن دھماکا ایک المیہ
انتہائی حساس علاقے میں قائم مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے
پولیس لائن پشاور پولیس کا ہیڈکوارٹر ہے جہاں سے پولیس کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ پولیس کی تقرریاں و تبادلے، نفری کی تعیناتی پولیس لائن سے کی جاتی ہے۔ اس کے اردگرد انتہائی حساس مقامات ہیں۔ سول سیکریٹریٹ، کچھ ہی فاصلے پر وزیراعلیٰ ہاؤس، سینٹرل پولیس آفس اور گورنر ہاؤس ہیں۔
انتہائی حساس علاقے میں قائم مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ پولیس لائن پشاور جیسے انتہائی حساس علاقے میں، جہاں ایک عام شہری کا داخلہ بھی ناممکن ہو، وہاں تک دہشتگردوں کی رسائی کیسے ممکن ہوئی؟
دہشت گردوں نے ملک سعد شہید کے نام سے منسوب پولیس لائن پشاور کو پیر کے دن نماز ظہر کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں اس وقت تک 92 افراد کی شہادت اور 150 زخمیوں کی اطلاعات تھیں۔ دھماکے کے 20 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ریسکیو آپریشن جاری تھا۔
پولیس لائن دھماکے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت اور ہر شہری کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھ رہا ہے کہ دہشت گردوں کی رسائی پولیس لائن تک کیسے ممکن ہوئی؟ جب ہم نے 1997 میں صحافت شروع کی تھی تو اس وقت کرائم رپورٹنگ کا شوق تھا۔ اس وقت جرائم کی خبروں کے لیے پولیس لائن آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن اس وقت دہشت گردی کا ناسور ہماری اس دھرتی پر نہیں ہوا کرتا تھا۔ تب بھی صحافی ہوتے ہوئے پولیس لائن میں پوچھ گچھ کے بعد بغیر تعارف کے چھوڑا نہیں جاتا تھا۔ ابھی بھی پولیس لائن کسی کام سے جانے کےلیے پہلے سے پولیس لائن کے پی آر او کو آگاہ جاتا ہے کہ ضروری کام کےلیے آنا چاہتے ہیں، وہ گیٹ پر بتادیں۔ تب کہیں جاکر رسائی ممکن ہوتی ہے۔
2007 میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پولیس لائن کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی تھی۔ پولیس افسران کے علاوہ کسی کو بھی پولیس لائن کے مرکزی گیٹ سے اندر جانے پر پابندی لگادی گئی۔ کسی کام کےلیے جانے پر مکمل پوچھ گچھ کے بعد ہی چھوڑا جاتا تھا۔ پولیس لائن تک رسائی کےلیے تین سیکیورٹی حصار سے گزرنا پڑتا تھا لیکن جب دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہوئی تب سے پولیس لائن جانے والے راستوں پر سیکیورٹی پہلی جیسی نہیں رہی۔ لیکن ابھی بھی پولیس لائن کے مرکزی گیٹ سے گزر کر جانا عام آدمی کےلیے ممکن نہیں۔ دہشت گردی کا حالیہ واقعہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
جب وزیراعظم کو دھماکے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو اس وقت شہباز شریف نے بھی سوال اٹھایا کہ پولیس لائن کا ایک گیٹ ہونے کے باوجود دہشت گرد کیسے پولیس لائن میں داخل ہوئے؟ اس وقت آئی جی خیبرپختونخوا بھی تحقیقات سے قبل جواب دینے سے قاصر تھے۔
دھماکے کی تحقیقات کےلیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جنہوں نے مختلف زاویوں سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ بھی تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق دھماکا خودکش تھا اور حملہ آور نے پہلی صف میں خود کو دھماکے سے اڑایا۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ مسجد کی چھت منہدم ہوگئی اور چھت تلے کئی پولیس اہلکار اور نماز کےلیے آئے شہری دب گئے۔ منہدم چھت تلے زخمیوں کو نکالنے کےلیے صبح تک ریسکیو آپریشن جاری رہا۔
پولیس لائن دھماکے سے قبل دہشت گردی کے اِکا دُکا واقعات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پشاور کے نواحی علاقوں میں پولیس چوکیوں اور گشت پر پولیس ہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کافی عرصے بعد سانحہ پولیس لائن دہشت گردی کی بڑی واردات ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے چند ماہ قبل حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہورہے ہیں۔ سوات سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں اور قبائلی اضلاع میں بھی عوام نے امن مارچ کیا اور دہشت گردوں کا پیغام دیا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کےلیے استعمال ہونے نہیں دیں گے لیکن دہشت گرد مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
پولیس لائن پشاور کے دھماکے کی تحقیقات ہوگی، اس کی رپورٹ بھی آئے گی لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو جاگنا ہوگا۔ پشاور پولیس لائن کا دھماکا یقیناً سیکیورٹی غفلت ہے۔ سیکیورٹی کے اتنے بڑے حصار سے اور حساس مقام کے اندر ٹارگٹ تک پہنچنا غفلت کے سوا کچھ نہیں۔ سیکیورٹی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ مزید خون بہانے والوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔ اگر سرحد پار سے یہ ہورہا ہے تو اس کا بھی جواب دینا ہوگا۔
کب تک مائیں اپنے بیٹوں، بہنیں اپنے بھائیوں کی میتوں پر آنسو بہائیں گی؟ کب تک باپ اپنے بیٹوں اور بھائی اپنے بھائیوں کا جنازہ اٹھائیں گے؟ کب تک چھوٹے بچے اپنے باپ کی میت کو دیکھ کر کہیں گے بابا کب آؤ گے؟ پشاور پولیس لائن دھماکے کے بعد چوکنا رہنا ہوگا۔ دہشت گردی کی جو نئی لہر شروع ہوئی ہے اور پولیس لائن جیسے حساس مقام کو دہشت گرد نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے اس پر ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنا ہوں گی۔۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
انتہائی حساس علاقے میں قائم مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ پولیس لائن پشاور جیسے انتہائی حساس علاقے میں، جہاں ایک عام شہری کا داخلہ بھی ناممکن ہو، وہاں تک دہشتگردوں کی رسائی کیسے ممکن ہوئی؟
دہشت گردوں نے ملک سعد شہید کے نام سے منسوب پولیس لائن پشاور کو پیر کے دن نماز ظہر کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں اس وقت تک 92 افراد کی شہادت اور 150 زخمیوں کی اطلاعات تھیں۔ دھماکے کے 20 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ریسکیو آپریشن جاری تھا۔
پولیس لائن دھماکے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت اور ہر شہری کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھ رہا ہے کہ دہشت گردوں کی رسائی پولیس لائن تک کیسے ممکن ہوئی؟ جب ہم نے 1997 میں صحافت شروع کی تھی تو اس وقت کرائم رپورٹنگ کا شوق تھا۔ اس وقت جرائم کی خبروں کے لیے پولیس لائن آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن اس وقت دہشت گردی کا ناسور ہماری اس دھرتی پر نہیں ہوا کرتا تھا۔ تب بھی صحافی ہوتے ہوئے پولیس لائن میں پوچھ گچھ کے بعد بغیر تعارف کے چھوڑا نہیں جاتا تھا۔ ابھی بھی پولیس لائن کسی کام سے جانے کےلیے پہلے سے پولیس لائن کے پی آر او کو آگاہ جاتا ہے کہ ضروری کام کےلیے آنا چاہتے ہیں، وہ گیٹ پر بتادیں۔ تب کہیں جاکر رسائی ممکن ہوتی ہے۔
2007 میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پولیس لائن کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی تھی۔ پولیس افسران کے علاوہ کسی کو بھی پولیس لائن کے مرکزی گیٹ سے اندر جانے پر پابندی لگادی گئی۔ کسی کام کےلیے جانے پر مکمل پوچھ گچھ کے بعد ہی چھوڑا جاتا تھا۔ پولیس لائن تک رسائی کےلیے تین سیکیورٹی حصار سے گزرنا پڑتا تھا لیکن جب دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہوئی تب سے پولیس لائن جانے والے راستوں پر سیکیورٹی پہلی جیسی نہیں رہی۔ لیکن ابھی بھی پولیس لائن کے مرکزی گیٹ سے گزر کر جانا عام آدمی کےلیے ممکن نہیں۔ دہشت گردی کا حالیہ واقعہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
جب وزیراعظم کو دھماکے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو اس وقت شہباز شریف نے بھی سوال اٹھایا کہ پولیس لائن کا ایک گیٹ ہونے کے باوجود دہشت گرد کیسے پولیس لائن میں داخل ہوئے؟ اس وقت آئی جی خیبرپختونخوا بھی تحقیقات سے قبل جواب دینے سے قاصر تھے۔
دھماکے کی تحقیقات کےلیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جنہوں نے مختلف زاویوں سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ بھی تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق دھماکا خودکش تھا اور حملہ آور نے پہلی صف میں خود کو دھماکے سے اڑایا۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ مسجد کی چھت منہدم ہوگئی اور چھت تلے کئی پولیس اہلکار اور نماز کےلیے آئے شہری دب گئے۔ منہدم چھت تلے زخمیوں کو نکالنے کےلیے صبح تک ریسکیو آپریشن جاری رہا۔
پولیس لائن دھماکے سے قبل دہشت گردی کے اِکا دُکا واقعات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پشاور کے نواحی علاقوں میں پولیس چوکیوں اور گشت پر پولیس ہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کافی عرصے بعد سانحہ پولیس لائن دہشت گردی کی بڑی واردات ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے چند ماہ قبل حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہورہے ہیں۔ سوات سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں اور قبائلی اضلاع میں بھی عوام نے امن مارچ کیا اور دہشت گردوں کا پیغام دیا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کےلیے استعمال ہونے نہیں دیں گے لیکن دہشت گرد مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
پولیس لائن پشاور کے دھماکے کی تحقیقات ہوگی، اس کی رپورٹ بھی آئے گی لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو جاگنا ہوگا۔ پشاور پولیس لائن کا دھماکا یقیناً سیکیورٹی غفلت ہے۔ سیکیورٹی کے اتنے بڑے حصار سے اور حساس مقام کے اندر ٹارگٹ تک پہنچنا غفلت کے سوا کچھ نہیں۔ سیکیورٹی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ مزید خون بہانے والوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔ اگر سرحد پار سے یہ ہورہا ہے تو اس کا بھی جواب دینا ہوگا۔
کب تک مائیں اپنے بیٹوں، بہنیں اپنے بھائیوں کی میتوں پر آنسو بہائیں گی؟ کب تک باپ اپنے بیٹوں اور بھائی اپنے بھائیوں کا جنازہ اٹھائیں گے؟ کب تک چھوٹے بچے اپنے باپ کی میت کو دیکھ کر کہیں گے بابا کب آؤ گے؟ پشاور پولیس لائن دھماکے کے بعد چوکنا رہنا ہوگا۔ دہشت گردی کی جو نئی لہر شروع ہوئی ہے اور پولیس لائن جیسے حساس مقام کو دہشت گرد نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے اس پر ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنا ہوں گی۔۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔