لاپتا کانسٹیبل کیس پولیس حکام کو جیل بھیجنے کا وقت آگیا سندھ ہائیکورٹ

خود افسران بڑی بڑی ویگو میں پھرتے ہیں اور یہ لوگ دھکے کھانے پر مجبور ہیں، جسٹس محمد اقبال کلہوڑو


کورٹ رپورٹر January 31, 2023
(فوٹو فائل)

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے لاپتا کانسٹیبل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وکیلِ سرکار اور پولیس حکام پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آپ سب کو جیل بھیجنے کا وقت آگیا ہے۔

6 سال سے تاحال لاپتا پولیس کانسٹیبل کی تلاش میں سندھ پولیس کی ناکامی پر اہل خانہ کی درخواست پر عدالت نے محکمہ پولیس کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں؟ خود افسران بڑی بڑی ویگو میں پھرتے ہیں اور یہ لوگ دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو 6 سال سے لاپتا پولیس کانسٹیبل کے اہلخانہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اہلخانہ نے بتایا کہ احمد خان کو تلاش بھی نہیں کیا گیا اور نوکری سے بھی نکال دیا۔ عدالت نے وکیل سرکار اور پولیس حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ سب کو جیل بھجنے کا وقت آگیا ہے۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے ہی محکمے کے لاپتا کانسٹیبل کو 6 سال سے تلاش نہیں کرسکے۔ شرمندہ ہونے کے بجائے آپ نے 27 سال سروس پوری ہونے والے کو نوکری سے بھی نکال دیا۔ کون لاپتا کانسٹبل کو ڈھونڈ کر لائے گا؟

سرکاری وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہم نے اہل خانہ سے جواب مانگا لیکن جواب نہیں ملا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں؟۔ خود افسران بڑی بڑی ویگو میں پھرتے ہیں اور یہ لوگ دھکے کھانے پر مجبور ہیں، اوپر سے آپ نے نوکری سے نکال کر ذریعہ آمدن بھی چھین لیا۔

عدالت نے 6 سالہ بچے ابوبکر کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ بچے کو عدالت نہ لے کر آئیں، اسے اسکول بھیجیں۔عدالت نے محکمہ پولیس کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ اطمنان بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں سخت حکم جاری کیا جائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میر احمد خان سندھ سیکرٹریٹ میں سکیورٹی کے فرائض دیتا تھا۔ 2012ء سے سندھ پولیس میں تعینات تھا اور 2015ء میں لاپتا ہوا۔عدالت میں لاپتا فرد کی درخواست لگا چکے ہیں۔ پولیس نے ڈھونڈنے کے بجائے نوکری ہی سے نکالا ہوا ہے۔ 2015ء سے تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں