آرمی چیف کو فوج پر تنقیدکے بارے میں بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی
پاک فوج کے سربراہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے تربیلہ کے مقام پر قائم ایس ایس جی کمانڈوز...
پاک فوج کے سربراہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے تربیلہ کے مقام پر قائم ایس ایس جی کمانڈوز کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں پاک فوج کے بارے میں بعض عناصر کی طرف سے کی جانے والی تنقید کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس حوالے سے فوجی افسروں اور جوانوں کے تحفظات کا اعتراف کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جبکہ ملک اندرونی اور بیرونی مشکلات سے دوچار ہے۔
پاک فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاک فوج اپنے وقار کا بھی ہر حال میں تحفظ کرے گی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ذمہ داران کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان کے منظرِ عام پر آتے ہی بہت سے سوالات نے سر اٹھا لیا اور بہت سے ایسے سوالات کے جوابات بھی مل گئے جو مختلف حلقے اور ذرائع مختلف حوالوں سے دبے دبے الفاظ میں پوچھ رہے تھے۔ میڈیا وار کے اس دور میں پاک فوج نے بھی اشارتاً یہ بتا دیا کہ اگر کوئی سیاسی شخصیت، گروہ یا ادارہ میڈیا کی طاقت استعمال کرکے پاک فوج یا اس سے وابستہ (سابقہ یا موجودہ) افراد کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرے گا تو پاک فوج اور اس کے ذمہ داران بھی اس میڈیا کی طاقت سے میڈیا وار کے ناخوشگوار کھیل میں الجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی تو جواب تلاش کرنے والوں کو گزشتہ کچھ عرصہ سے مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے ٹاک شوز کی ریکارڈنگز اور بعض سیاستدانوں کی پریس کانفرنسیں اور ٹاکس ریکارڈ سے نکال کر دوبارہ سننا ہوں گی۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے عدالتی کیس کے حوالے سے سخت لب و لہجہ اور زبان استعمال کی ہے۔ مگر پھر دونون نے اس کی وضاحت بھی پیش کردی کہ وہ پاک فوج کی بحیثیت ادارہ عزت کرتے ہیں ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان اداروں کے درمیان ٹکراؤ سے بچاؤ کی صورتحال سے کوشش کے باوجود کیوں نہیں بچ پا رہے۔ انگلی تو میڈیا اور اس کے بعض اینکر پرسنز کی جانب بھی اٹھے گی کہ آخر ایسے موضوعات ہی ان کے من پسند اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بننے والے مبصر اور تجزیہ کار ہی ایک تسلسل کے ساتھ ان کے مرغوب مہمان کیوں ٹھہرے۔ اور رہے ہمارے میڈیا ارکان تو وہ اگر اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کر رہے ہیں تو انہیں بھی ہر دو صورتوں میں ملک و قوم سے وفادار نہ رہنے اور انتشار کا باعث بننے کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا چاہیے ۔
یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پرویز مشرف کیس کے تناظر میں ضروری نہیں کہ ٹکراؤ کی صورتحال کا باعث حکومتی ذمہ داران ہی ہوں۔ پرویز مشرف کے بعض وکلاء اور آل پاکستان مسلم لیگ کے بعض عہدیداران کا بھی اس حوالے سے کردار اور روّیہ دیکھا جانا چاہیے۔ چند روز قبل وزیرستان کے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے غیر متوقع طور پر رہا کیے جانے والے 19 قیدیوں کے معاملہ کو اس پریشانی اور تحفظات کا باعث سمجھا جانا بھی کسی حد تک درست ہے۔ بہرحال وجہ ایک ہو یا کئی ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت کے ذمہ داران، جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی وابستگان اور میڈیا کے ارکان سمیت سب کو غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ چیف آف آرمی سٹاف کے اس وارننگ بھرے بیان کے بعد ہم سب اپنے اپنے کردار میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔
قومی اسمبلی کے سیشن سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور عمران خان اب مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز تحفظ پاکستان ترمیمی بل اور انسداد بجلی چوری آرڈی نینس کو ایک بار پھر 120 دنوں کی توسیع دیے جانے کے معاملے پر حکومتی و اپوزیشن اراکین اسمبلی نے جو ہوہو ہاہا کی ہاؤ کار مچائی اس سے نوّے کی دہائی کی پی پی پی اور مسلم لیگ کی اسمبلیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ بظاہر مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل ہے مگر پیپلز پارٹی کے تجربہ کار اراکین اسمبلی اور تحریک انصاف کے پُرجوش اراکین اسمبلی نے طے کر لیا ہے کہ ہر معاملے پر حکومت کو اسمبلی میں مشترکہ طور پر ٹف ٹائم دیں گے تو پھر تجربے اور جذبے کی اجتماعی طاقت باہم مل کر پارلیمنٹ سے باہر حکومت سے نالاں قوتوں، افراد، اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے کسی آکسیجن سے کم نہ ہو گی۔ قوم ملک کے مسائل کا حل چاہتی ہے، ایسے میں ہمیں نامعلوم سازشوں کا کسی بھی صورت میں دانستہ یا نادانستہ حصہ نہیں بننا ہو گا اور اس کے لیے ایک دوسرے کی جانب انگلیاں یا ہاتھ اٹھانے کی بجائے محض اپنے اپنے گریبان میں جھانک لینا اور اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کر لینا ہی کافی ہو گا۔
پاک فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاک فوج اپنے وقار کا بھی ہر حال میں تحفظ کرے گی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ذمہ داران کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان کے منظرِ عام پر آتے ہی بہت سے سوالات نے سر اٹھا لیا اور بہت سے ایسے سوالات کے جوابات بھی مل گئے جو مختلف حلقے اور ذرائع مختلف حوالوں سے دبے دبے الفاظ میں پوچھ رہے تھے۔ میڈیا وار کے اس دور میں پاک فوج نے بھی اشارتاً یہ بتا دیا کہ اگر کوئی سیاسی شخصیت، گروہ یا ادارہ میڈیا کی طاقت استعمال کرکے پاک فوج یا اس سے وابستہ (سابقہ یا موجودہ) افراد کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرے گا تو پاک فوج اور اس کے ذمہ داران بھی اس میڈیا کی طاقت سے میڈیا وار کے ناخوشگوار کھیل میں الجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی تو جواب تلاش کرنے والوں کو گزشتہ کچھ عرصہ سے مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے ٹاک شوز کی ریکارڈنگز اور بعض سیاستدانوں کی پریس کانفرنسیں اور ٹاکس ریکارڈ سے نکال کر دوبارہ سننا ہوں گی۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے عدالتی کیس کے حوالے سے سخت لب و لہجہ اور زبان استعمال کی ہے۔ مگر پھر دونون نے اس کی وضاحت بھی پیش کردی کہ وہ پاک فوج کی بحیثیت ادارہ عزت کرتے ہیں ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان اداروں کے درمیان ٹکراؤ سے بچاؤ کی صورتحال سے کوشش کے باوجود کیوں نہیں بچ پا رہے۔ انگلی تو میڈیا اور اس کے بعض اینکر پرسنز کی جانب بھی اٹھے گی کہ آخر ایسے موضوعات ہی ان کے من پسند اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بننے والے مبصر اور تجزیہ کار ہی ایک تسلسل کے ساتھ ان کے مرغوب مہمان کیوں ٹھہرے۔ اور رہے ہمارے میڈیا ارکان تو وہ اگر اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کر رہے ہیں تو انہیں بھی ہر دو صورتوں میں ملک و قوم سے وفادار نہ رہنے اور انتشار کا باعث بننے کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا چاہیے ۔
یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پرویز مشرف کیس کے تناظر میں ضروری نہیں کہ ٹکراؤ کی صورتحال کا باعث حکومتی ذمہ داران ہی ہوں۔ پرویز مشرف کے بعض وکلاء اور آل پاکستان مسلم لیگ کے بعض عہدیداران کا بھی اس حوالے سے کردار اور روّیہ دیکھا جانا چاہیے۔ چند روز قبل وزیرستان کے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے غیر متوقع طور پر رہا کیے جانے والے 19 قیدیوں کے معاملہ کو اس پریشانی اور تحفظات کا باعث سمجھا جانا بھی کسی حد تک درست ہے۔ بہرحال وجہ ایک ہو یا کئی ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت کے ذمہ داران، جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی وابستگان اور میڈیا کے ارکان سمیت سب کو غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ چیف آف آرمی سٹاف کے اس وارننگ بھرے بیان کے بعد ہم سب اپنے اپنے کردار میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔
قومی اسمبلی کے سیشن سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور عمران خان اب مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز تحفظ پاکستان ترمیمی بل اور انسداد بجلی چوری آرڈی نینس کو ایک بار پھر 120 دنوں کی توسیع دیے جانے کے معاملے پر حکومتی و اپوزیشن اراکین اسمبلی نے جو ہوہو ہاہا کی ہاؤ کار مچائی اس سے نوّے کی دہائی کی پی پی پی اور مسلم لیگ کی اسمبلیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ بظاہر مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل ہے مگر پیپلز پارٹی کے تجربہ کار اراکین اسمبلی اور تحریک انصاف کے پُرجوش اراکین اسمبلی نے طے کر لیا ہے کہ ہر معاملے پر حکومت کو اسمبلی میں مشترکہ طور پر ٹف ٹائم دیں گے تو پھر تجربے اور جذبے کی اجتماعی طاقت باہم مل کر پارلیمنٹ سے باہر حکومت سے نالاں قوتوں، افراد، اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے کسی آکسیجن سے کم نہ ہو گی۔ قوم ملک کے مسائل کا حل چاہتی ہے، ایسے میں ہمیں نامعلوم سازشوں کا کسی بھی صورت میں دانستہ یا نادانستہ حصہ نہیں بننا ہو گا اور اس کے لیے ایک دوسرے کی جانب انگلیاں یا ہاتھ اٹھانے کی بجائے محض اپنے اپنے گریبان میں جھانک لینا اور اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کر لینا ہی کافی ہو گا۔