دہشت گردوں کا سر کچلنا پڑے گا
پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کا امن خراب کیا گیا تو امن کے ساتھ وہ بھی نہیں رہ سکتے
پشاور، پولیس لائنز میں واقع مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 93 افراد شہید جب کہ 221سے زائد زخمی ہوگئے، مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
پولیس کے مطابق مسجد میں با جماعت نماز ظہر ادا کی جا رہی تھی جس کے دوران پہلی صف میں کھڑے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس سے مسجد کی دو منزلہ عمارت کرگئی۔
ان سطور کے لکھے جانے تک بھی متعدد افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جب کہ بھاری مشینری سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کا دورہ بھی کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اِن مجرموں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دَم لیں گے، اسلام کے نام پر دوران نماز مساجد اور معصوم شہریوں پر حملہ بدترین فعل ہے۔
دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پر پشاور خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرلی۔ ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ یہ خود کش دھماکا ہم نے کیا ہے اور یہ حملے جاری رہیں گے۔
رب کائنات کی بارگاہ میں سر بسجود مسلمانوں کا نشانہ بنانا انسانیت سوز اور اسلام دشمن کارروائی ہے۔ درحقیقت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ حالیہ کارروائی کے بعد دہشت گردوں نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف ابتدائی کامیابیوں کے بعد گزشتہ تین چار برسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دہشت گردی کے حوالے سے نرم پالیسی اپنائی بلکہ غفلت کا مظاہرہ کیا ، اس وجہ سے دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور سپورٹ نیٹ ورک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے، پھر افغان طالبان کے کہنے پر ٹی پی ٹی کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔
اس دوران ٹی ٹی پی کے جنگجو دوبارہ منظم ہونے اور اپنے آپ کو دوبارہ فعال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سابق حکومت کے دور میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو نرم گوشہ اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی گئی، اسی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد ایک مرتبہ پھر قوت پکڑ رہے ہیں۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کا سِرا مشرقی افغانستان سے ملتا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی افغان طالبان مہمان نوازی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے، 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی سرحدی باڑ پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکھاڑنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا دائرہ وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق بنوں میں مرکوز رہا ، یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا سے ملحقہ ہیں۔
اسی لیے یہ علاقے پاکستانی حدود میں دہشت گردی کے مقاصد کے تحت داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور پھر یہ دہشت گرد اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ہماری دشمن قوتیں پاکستان میں شر پسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔
پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے یہاں تک کہ یہ باتیں کی گئیں کہ جب پاکستان معاشی نظام میں پھنس جائے گا اور بینک کرپٹ ہو جائے گا تو بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر اسکو الگ کر دیا جائے گا اور ساتھ ساتھ انڈیا کا آزاد کشمیر پر قبضہ اور سندھ پر انڈیا کی طرف سے قبضہ کرنے کی باتیں بھی کی گئیں یہاں تک کہا گیا کہ معاشی بدحالی کے بعد پاکستان کے پاس صرف نیوکلیئر اثاثے بچے ہیں جس پر اس کے بعد سودا کیا جائے گا۔
پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کا امن خراب کیا گیا تو امن کے ساتھ وہ بھی نہیں رہ سکتے۔
علاقائی امن کے لیے ایک دوسرے کے ملکوں میں مداخلت بند کرنا ہوگی اور دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی ختم کرنا ہو گا تاکہ پورے جنوبی ایشیااور وسط ایشیا میں بھی امن رہ سکے۔ ان دہشت گرد کارروائیوں کے باعث قوم کو ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
ٹی ٹی پی کے کئی ہزار لوگ سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں اپنے قبائلی روابط کی وجہ سے برسوں سے پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے صوبوں میں موجود ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے وہ لوگ جنھیں اشرف غنی حکومت نے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رکھا تھا۔
انھیں رہا کردیا ہے۔افغان عبوری حکومت کے کرتا دھرتا ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ،انھیں زیادہ آزادی دے رہے ہیں بلکہ افغان طالبان نے پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا، لیکن دیوار پر لکھا تھا کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں اور ایسا ہی ہوا۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے دوحہ امن معاہدے میں تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ افغان طالبان کی قیادت کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ اس عزم کا کئی بار اعادہ کیا جا چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس عزم کو عملی طور پر پورا کیا جائے ۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے اثرات نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی امن بھی متاثر ہوسکتا ہے ، عسکریت پسندوں کے چیلنج کے خلاف فوجی کارروائیوں کو ہمیشہ ایک سیاسی نقطہ نظر اور موثر نگرانی سے تعاون حاصل کرنا ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) نے وہ اقدامات طے کیے تھے جن پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کو ایک تنظیم کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی اور مرکز اور صوبوں کے درمیان اور فوج اور سویلین انسداد دہشت گردی کے ہتھیاروں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
تاہم، نیکٹا ایک موثر قومی ادارے کے طور پر ترقی اور ارتقاء نہیں کر سکا کیونکہ آنے والی حکومتوں نے اسے کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ زیادہ حساس اور طویل المدتی اقدامات جن میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب تیار کرنا اور دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں لانا شامل ہے، کو چھوا تک نہیں گیا۔ اب چونکہ ریاست پاکستان ، دہشت گردوںکے خلاف ایک نیا انسداد دہشت گردی اقدام شروع کرنے پر مجبور ہے، اس لیے ماضی سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔
اس بار، انسداد دہشت گردی آپریشنز کو حتمی نتیجے تک لے جانا ہے جس میں دہشت گردی کا خاتمہ اور ان عوامل کا مقابلہ کرنا ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے یا اس کی حمایت کرنے والے ماحول کا باعث بنتے ہیں۔
خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو بچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کا بھی صفایا کیا جاسکے۔
پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اور ڈالرز ضایع کیے پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد خرچ کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا۔
امریکی میڈیا اور امریکی حکام اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ افغان فوج کو اس قابل نہیں بنا سکے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرسکیں ، وقت آنے پرافغان فوجی ہتھیار ڈال کراپنے گھروں کوچلے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ وہ افغان فوج میں لڑنے کا جذبہ پیدا نہیں کرسکے۔
پاکستان کی دلیر اور باہمت آرمڈ فورسز کی وجہ سے ان دونوں دہشت گردتنظیموں کا نیٹ ورک ختم کیا جا چکا ہے۔
پاکستان نے ایک طرف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی تو دوسری طرف اپنے خلاف ہونے والی پروپیگنڈہ وار کا بھی سامنا کیا۔
پاکستان ففتھ جنریشن وارفئیر کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی مزید واضح کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی اور نیکٹا کو مرکزی کردار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کا ایک مربوط میکانزم بنانا چاہیے جس تمام ایجنسیاں آن بورڈ اور ہمہ وقت رابطے میں ہوں۔
پولیس کے مطابق مسجد میں با جماعت نماز ظہر ادا کی جا رہی تھی جس کے دوران پہلی صف میں کھڑے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس سے مسجد کی دو منزلہ عمارت کرگئی۔
ان سطور کے لکھے جانے تک بھی متعدد افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جب کہ بھاری مشینری سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کا دورہ بھی کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اِن مجرموں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دَم لیں گے، اسلام کے نام پر دوران نماز مساجد اور معصوم شہریوں پر حملہ بدترین فعل ہے۔
دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پر پشاور خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرلی۔ ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ یہ خود کش دھماکا ہم نے کیا ہے اور یہ حملے جاری رہیں گے۔
رب کائنات کی بارگاہ میں سر بسجود مسلمانوں کا نشانہ بنانا انسانیت سوز اور اسلام دشمن کارروائی ہے۔ درحقیقت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ حالیہ کارروائی کے بعد دہشت گردوں نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف ابتدائی کامیابیوں کے بعد گزشتہ تین چار برسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دہشت گردی کے حوالے سے نرم پالیسی اپنائی بلکہ غفلت کا مظاہرہ کیا ، اس وجہ سے دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور سپورٹ نیٹ ورک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے، پھر افغان طالبان کے کہنے پر ٹی پی ٹی کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔
اس دوران ٹی ٹی پی کے جنگجو دوبارہ منظم ہونے اور اپنے آپ کو دوبارہ فعال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سابق حکومت کے دور میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو نرم گوشہ اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی گئی، اسی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد ایک مرتبہ پھر قوت پکڑ رہے ہیں۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کا سِرا مشرقی افغانستان سے ملتا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی افغان طالبان مہمان نوازی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے، 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی سرحدی باڑ پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اکھاڑنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا دائرہ وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق بنوں میں مرکوز رہا ، یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا سے ملحقہ ہیں۔
اسی لیے یہ علاقے پاکستانی حدود میں دہشت گردی کے مقاصد کے تحت داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور پھر یہ دہشت گرد اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ہماری دشمن قوتیں پاکستان میں شر پسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔
پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے یہاں تک کہ یہ باتیں کی گئیں کہ جب پاکستان معاشی نظام میں پھنس جائے گا اور بینک کرپٹ ہو جائے گا تو بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر اسکو الگ کر دیا جائے گا اور ساتھ ساتھ انڈیا کا آزاد کشمیر پر قبضہ اور سندھ پر انڈیا کی طرف سے قبضہ کرنے کی باتیں بھی کی گئیں یہاں تک کہا گیا کہ معاشی بدحالی کے بعد پاکستان کے پاس صرف نیوکلیئر اثاثے بچے ہیں جس پر اس کے بعد سودا کیا جائے گا۔
پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کا امن خراب کیا گیا تو امن کے ساتھ وہ بھی نہیں رہ سکتے۔
علاقائی امن کے لیے ایک دوسرے کے ملکوں میں مداخلت بند کرنا ہوگی اور دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی ختم کرنا ہو گا تاکہ پورے جنوبی ایشیااور وسط ایشیا میں بھی امن رہ سکے۔ ان دہشت گرد کارروائیوں کے باعث قوم کو ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
ٹی ٹی پی کے کئی ہزار لوگ سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں اپنے قبائلی روابط کی وجہ سے برسوں سے پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے صوبوں میں موجود ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے وہ لوگ جنھیں اشرف غنی حکومت نے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رکھا تھا۔
انھیں رہا کردیا ہے۔افغان عبوری حکومت کے کرتا دھرتا ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ،انھیں زیادہ آزادی دے رہے ہیں بلکہ افغان طالبان نے پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا، لیکن دیوار پر لکھا تھا کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں اور ایسا ہی ہوا۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے دوحہ امن معاہدے میں تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ افغان طالبان کی قیادت کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ اس عزم کا کئی بار اعادہ کیا جا چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس عزم کو عملی طور پر پورا کیا جائے ۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے اثرات نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی امن بھی متاثر ہوسکتا ہے ، عسکریت پسندوں کے چیلنج کے خلاف فوجی کارروائیوں کو ہمیشہ ایک سیاسی نقطہ نظر اور موثر نگرانی سے تعاون حاصل کرنا ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) نے وہ اقدامات طے کیے تھے جن پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کو ایک تنظیم کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی اور مرکز اور صوبوں کے درمیان اور فوج اور سویلین انسداد دہشت گردی کے ہتھیاروں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
تاہم، نیکٹا ایک موثر قومی ادارے کے طور پر ترقی اور ارتقاء نہیں کر سکا کیونکہ آنے والی حکومتوں نے اسے کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ زیادہ حساس اور طویل المدتی اقدامات جن میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب تیار کرنا اور دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں لانا شامل ہے، کو چھوا تک نہیں گیا۔ اب چونکہ ریاست پاکستان ، دہشت گردوںکے خلاف ایک نیا انسداد دہشت گردی اقدام شروع کرنے پر مجبور ہے، اس لیے ماضی سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔
اس بار، انسداد دہشت گردی آپریشنز کو حتمی نتیجے تک لے جانا ہے جس میں دہشت گردی کا خاتمہ اور ان عوامل کا مقابلہ کرنا ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے یا اس کی حمایت کرنے والے ماحول کا باعث بنتے ہیں۔
خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو بچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کا بھی صفایا کیا جاسکے۔
پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اور ڈالرز ضایع کیے پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد خرچ کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا۔
امریکی میڈیا اور امریکی حکام اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ افغان فوج کو اس قابل نہیں بنا سکے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرسکیں ، وقت آنے پرافغان فوجی ہتھیار ڈال کراپنے گھروں کوچلے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ وہ افغان فوج میں لڑنے کا جذبہ پیدا نہیں کرسکے۔
پاکستان کی دلیر اور باہمت آرمڈ فورسز کی وجہ سے ان دونوں دہشت گردتنظیموں کا نیٹ ورک ختم کیا جا چکا ہے۔
پاکستان نے ایک طرف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی تو دوسری طرف اپنے خلاف ہونے والی پروپیگنڈہ وار کا بھی سامنا کیا۔
پاکستان ففتھ جنریشن وارفئیر کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی مزید واضح کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی اور نیکٹا کو مرکزی کردار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کا ایک مربوط میکانزم بنانا چاہیے جس تمام ایجنسیاں آن بورڈ اور ہمہ وقت رابطے میں ہوں۔