خاموشی جرم ہے
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ اٹھ رہی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اہل قلم اپنی ذمے داریوں سے روگردانی نہیں کرسکتے
شاید دوسری جنگ عظیم کی ابتداء میں لوگوں کو اس بات کا گمان نہ گزرا ہو کہ پہلی جنگ عظیم جو کروڑوں انسانوں کی جان کا نذرانہ لے کر جاچکی ہے، اب اس کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ خوفناک جنگ ہمارے سر پرکھڑی ہے۔
بالکل اسی طرح روس اور یوکرین کے درمیان وہ جھڑپیں جو عموما لوگوں کو صرف جھڑپیں محسوس ہورہی تھیں، وہ شاید کسی بڑی جنگ کی طرف اشارہ ہیں۔
اس مرحلے پر یاد آتا ہے کہ سماج میں دانشوروں اور اہل قلم کی ذمے داریوں کے بنیادی معیار ہزاروں برس کے دوران گزرنے والے فلسفی، دانشور، تاریخ دان، ادیب اور سائنس دان متعین کر گئے ہیں۔
یہ وہی ہیں جنھوں نے غور و فکر سے اپنے سماج کو تبدیل کیا اور فکری ارتقاء کی نئی راہیں نکالیں۔ ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے کچھ اپنی جان سے گئے ، کچھ نے جلاوطنی سہی اور کچھ غدار اور گمراہ ٹھہرائے گئے۔ یہ ڈھائی ہزار برس پہلے کے یونانی تھے۔
جنھوں نے سچ اور باضمیری کے نہایت کڑے معیار قائم کیے۔ سقراط کا '' صفائی کا بیان '' ہمیں حیران کردیتا ہے۔ سقراط پر دیوتاؤں سے بغاوت اور شہر کے نوجوان کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔
اس پر مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنائی گئی ، وہ جب اپنا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو اس نے کہا کہ '' اے اہل ایتھنز جب تک میری جان میں جان ہے اور بدن میں طاقت ہے، میں فلسفے پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم دینا نہیں چھوڑوں گا ، تم مجھے رہا کرو یا نہ کرو ، دونوں صورتوں میں یہ جان لو کہ میں اپنا راستہ کبھی نہیں بدلوں گا۔''
سزائے موت سے چند گھنٹوں پہلے جب اس کے دوستوں نے اسے قید خانے سے فرار کرانا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکرادی کہ '' میں دنیا سے ایک ظالم کی حیثیت سے نہیں، ایک مظلوم کے طور پر رخصت ہونا چاہتا ہوں۔''
تاریخ اسلام کے صفحے پلٹیں تو ہمیں ابن رشد، منصور حلاج، رازی اور سرمد ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جن میں سے کئی اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے زندگی، زندان میں گزار کر ختم ہوئے، کسی نے سولی پر یوں جان دی کہ اس کا بدن تین دن اور تین رات کترا جاتا رہا اور کسی کی گردن جامع کی سیڑھیوں پر اڑا دی گئی۔
دانشوروں اور اہل قلم نے اپنی ذمے داریوں کو سولہویں صدی سے ہی بہت شدت سے محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔ 1652 میں اپنے عہد کے ایک بڑے دانشور، شاعر، ریاضی داں اور ہیئت دان برونو سے کلیسا بہت ناراض تھا۔
اس کے سائنسی خیالات کی زو مذہبی عقائد پر پڑتی تھی۔ اسے گرفتار کیا گیا اور سات برس تک اس پر مذہبی عدالت (inquisition) میں مقدمہ چلا، برونو کو موت کی سزا سنائی گئی اور سیکڑوں افرادکی موجودگی میں روم کے ایک چوک میں ناقابل یقین تشدد کے بعد اسے زندہ جلادیا گیا اور لوگ کلیسا کے حق میں پرجوش نعرے لگاتے رہے۔
برونو کو تاریخ میں سائنس کا پہلا شہید کہا گیا ہے۔ برونو کی ہلاکت کے16 برس بعد گیلیلیو نے بھی خیال دشمن پادریوں کے سامنے ایک توہین آمیز مقدمے کا سامنا کیا۔ کوپرنیکس، برونو، گیلیلیو وہ لوگ ہیں۔
جنھوں نے اپنی علمی اور سائنسی تحقیقات پر اصرار نہ کیا ہوتا تو انسان چاند پر قدم نہ رکھ سکتا تھا اور نہ جہاز کروڑوں میل دور سے مریخ کے احوال کی خبر لاتا۔
صنعتی انقلاب اور چھاپہ کی ایجاد نے اہل قلم اور اہل دانش کی ذمے داریوں کو روز افزوں کیا۔ اپنے رجعت پسند اور عقل دشمن سماج کوبدلنے کی کوشش کرنے والوں میں روسو اور والٹیئر سامنے کے نام ہیں۔ انقلاب فرانس کی بنیادیں ان کے خیالات پر استوار ہوئیں۔
حقوق انسانی، آزادی تحریر و تقریر ، دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مساوی حقوق اورعدل و انصاف کا آوازہ آج بھی دنیا کے کونے کونے میں سنا جا رہا ہے۔
اس کی ابتداء اٹھارہویں صدی میں تھامس پائین جیسے متعدد دانشوروں نے بھاری قیمت ادا کر کے کی۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جون اسٹوارٹ مل اور دیگر دوسروں نے کتابیں لکھیں، میری اسٹونوال کرافٹ سے ورجینا وولف اور ایما گولڈماں تک درجنوں دانشور عورتیں تھیں جنھوں نے اپنے قلم اور عمل سے عورتوں کے مساوی حقوق کی لڑائی لڑی جو آج تک جاری ہے۔
اسی طرح مارکس نے جلاوطنی اور مفلسی کی زندگی گزارکر دنیا بھرکے مزدوروں اورمحنت کشوں کو منظم کیا اور سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی سیاسی اور سماجی شکست و ریخت کی صدیاں تھیں۔ شاہی، جاگیرداری اور اشرافیہ پسپائی پر تھی۔ مساوات، عدل و انصاف، غلامی کے خاتمے اورجمہوریت کے قیام کے لیے سیکڑوں اہل قلم کی جدوجہد جاری تھی۔
اخباروں اور جریدوں کی اشاعت کے سبب شخصی اور مذہبی آزادی کے معاملات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔ یہ انیسویں صدی کے آخری دن تھے جب ایک یہودی فوجی افسر پرچلنے والا مقدمہ فرانس کے مشہور ادیب ژولا کو مضطرب کرگیا۔
اس نے 1898 میں فرانسیسی صدرکے نام ایک کھلا خط اخبار میں شایع کرایا۔ یہ خط تاریخ میں I'Accuse کے نام سے مشہور ہے۔
اس خط نے مجبور، مفلس اور بے آسرا اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی کا سرنامہ لکھا۔ ژولا کو ایک اعلیٰ عہدے سے برطرف کیا گیا، جان بچانے کے لیے اسے انگلستان میں پناہ لینا پڑی اور ڈریفس کا مقدمہ جب پھر سے کھلا تو ثابت ہوگیا کہ وہ بے گناہ تھا اور ژولا نے ایک باضمیر ادیب ہونے کا حق ادا کردیا تھا۔
بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دہائی میں یورپ نے نازی فاشزم اور دوسری جنگ عظیم کو جھیلا۔ لاکھوں لوگ یہودی ہونے کے جرم میں ہلاک کیے گئے۔
ان کے لیے انصاف مانگنے والے اور فاشزم سے لڑنے والے جرمن ادیب، دانشور اور سائنسداں جان بچانے کے لیے یورپ کے ایک سے دوسرے ملک میں بھاگتے رہے۔ بریخت، ہرمن ہیسے، تھامس مان، اسٹیفن زدیگ اور فرائیڈ اس کی سامنے کی مثال ہیں۔
1945 میں جاپان کے دو شہروں پر امریکی ایٹمی حملہ دنیا بھر کے دانشوروں اور اہل قلم کو دہلاگیا۔ رسل، آئن اسٹائن، سارتر، سیمون دی بووا، آندرے سخاروف اور متعدد دوسرے اہل قلم کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت نے انھیں اپنی حکومتوں اور عوام کی نظر میں غدار ٹھہرایا۔
الجزائر کو فرانس سے آزادی دلانے کی جدوجہد کے دوران سارتر، سیمون سی بووا اور فرانسیسی دانشوروں پر قاتلانہ حملے ہوئے اور انھیں عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکا میں ادیبوں اور دانشوروں نے مہم چلائی جس کا نقطہ عروج فروری 1967میں شایع ہونے والا نوم چومسکی کا طویل مضمون تھا جس نے امریکی رائے عامہ کو حکومت کے خلاف کردیا اور بات وہاں تک پہنچی کہ ویت نام سے امریکا کو رخصت ہونا پڑا۔
برصغیر پر نظر ڈالیں تو یہاں افسانہ لکھنے کے جرم میں ڈاکٹر رشید جہاں اور منٹو جیل جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ضبط ہوتی ہیں۔
پاکستان قائم ہوتا ہے تو فیض، سبط حسن، جالب، شیخ ایاز اورمتعدد دوسرے سماجی انصاف اور جمہوری حقوق کی لڑائی میں کیا نہیں سہتے۔ حسن ناصرکی ہڈیاں توڑ کر اسے گمنام قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان میں ہم جس سنگین بحران سے دوچار ہیں، اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور قلمکاروں نے جمہوری اور سیاسی روایات کو آگے بڑھانے اور قومی مسائل پر مکالمہ کرنے کے بجائے خامشی اختیار کی۔ ہماری سرزمین پرجب دہشت گردی کی پنیری لگائی جارہی تھی تو ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت خاموش رہی۔ ان کا خیال تھا کہ خاموشی میں عافیت ہے۔
یہ سماج کی نہیں ان کی ذاتی عافیت تھی اور وہ بھی عارضی عافیت۔ 80ء کی دہائی میں اس وقت کے آمر مطلق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے صرف ۷ دن بعد دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو ایوان صدر میں مدعو کیا۔ ایک بھاری تعداد کچے دھاگے سے بندھی اس آمر کے سامنے حاضر ہوئی۔
ان لوگوں نے ایوان صدر کے جگمگاتے ہوئے ماحول میں جمہوریت پرشب خون مارنے والے کے ہونٹوں سے اپنے باضمیر دانشوروں اور ادیبوں کے بارے میں یہ تضحیک آمیز جملے سنے کہ ان لوگوں کے لیے پاکستان کا رزق ، یہاں کا پانی ، اس ملک کا سایہ ، اس کی چاندنی حرام ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ اٹھ رہی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اہل قلم اپنی ذمے داریوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور اس میں خاموشی حرام ہے ، وہ بھی اس صورتحال میں جب تیسری جنگ عظیم ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔
بالکل اسی طرح روس اور یوکرین کے درمیان وہ جھڑپیں جو عموما لوگوں کو صرف جھڑپیں محسوس ہورہی تھیں، وہ شاید کسی بڑی جنگ کی طرف اشارہ ہیں۔
اس مرحلے پر یاد آتا ہے کہ سماج میں دانشوروں اور اہل قلم کی ذمے داریوں کے بنیادی معیار ہزاروں برس کے دوران گزرنے والے فلسفی، دانشور، تاریخ دان، ادیب اور سائنس دان متعین کر گئے ہیں۔
یہ وہی ہیں جنھوں نے غور و فکر سے اپنے سماج کو تبدیل کیا اور فکری ارتقاء کی نئی راہیں نکالیں۔ ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے کچھ اپنی جان سے گئے ، کچھ نے جلاوطنی سہی اور کچھ غدار اور گمراہ ٹھہرائے گئے۔ یہ ڈھائی ہزار برس پہلے کے یونانی تھے۔
جنھوں نے سچ اور باضمیری کے نہایت کڑے معیار قائم کیے۔ سقراط کا '' صفائی کا بیان '' ہمیں حیران کردیتا ہے۔ سقراط پر دیوتاؤں سے بغاوت اور شہر کے نوجوان کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔
اس پر مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنائی گئی ، وہ جب اپنا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو اس نے کہا کہ '' اے اہل ایتھنز جب تک میری جان میں جان ہے اور بدن میں طاقت ہے، میں فلسفے پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم دینا نہیں چھوڑوں گا ، تم مجھے رہا کرو یا نہ کرو ، دونوں صورتوں میں یہ جان لو کہ میں اپنا راستہ کبھی نہیں بدلوں گا۔''
سزائے موت سے چند گھنٹوں پہلے جب اس کے دوستوں نے اسے قید خانے سے فرار کرانا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکرادی کہ '' میں دنیا سے ایک ظالم کی حیثیت سے نہیں، ایک مظلوم کے طور پر رخصت ہونا چاہتا ہوں۔''
تاریخ اسلام کے صفحے پلٹیں تو ہمیں ابن رشد، منصور حلاج، رازی اور سرمد ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جن میں سے کئی اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے زندگی، زندان میں گزار کر ختم ہوئے، کسی نے سولی پر یوں جان دی کہ اس کا بدن تین دن اور تین رات کترا جاتا رہا اور کسی کی گردن جامع کی سیڑھیوں پر اڑا دی گئی۔
دانشوروں اور اہل قلم نے اپنی ذمے داریوں کو سولہویں صدی سے ہی بہت شدت سے محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔ 1652 میں اپنے عہد کے ایک بڑے دانشور، شاعر، ریاضی داں اور ہیئت دان برونو سے کلیسا بہت ناراض تھا۔
اس کے سائنسی خیالات کی زو مذہبی عقائد پر پڑتی تھی۔ اسے گرفتار کیا گیا اور سات برس تک اس پر مذہبی عدالت (inquisition) میں مقدمہ چلا، برونو کو موت کی سزا سنائی گئی اور سیکڑوں افرادکی موجودگی میں روم کے ایک چوک میں ناقابل یقین تشدد کے بعد اسے زندہ جلادیا گیا اور لوگ کلیسا کے حق میں پرجوش نعرے لگاتے رہے۔
برونو کو تاریخ میں سائنس کا پہلا شہید کہا گیا ہے۔ برونو کی ہلاکت کے16 برس بعد گیلیلیو نے بھی خیال دشمن پادریوں کے سامنے ایک توہین آمیز مقدمے کا سامنا کیا۔ کوپرنیکس، برونو، گیلیلیو وہ لوگ ہیں۔
جنھوں نے اپنی علمی اور سائنسی تحقیقات پر اصرار نہ کیا ہوتا تو انسان چاند پر قدم نہ رکھ سکتا تھا اور نہ جہاز کروڑوں میل دور سے مریخ کے احوال کی خبر لاتا۔
صنعتی انقلاب اور چھاپہ کی ایجاد نے اہل قلم اور اہل دانش کی ذمے داریوں کو روز افزوں کیا۔ اپنے رجعت پسند اور عقل دشمن سماج کوبدلنے کی کوشش کرنے والوں میں روسو اور والٹیئر سامنے کے نام ہیں۔ انقلاب فرانس کی بنیادیں ان کے خیالات پر استوار ہوئیں۔
حقوق انسانی، آزادی تحریر و تقریر ، دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مساوی حقوق اورعدل و انصاف کا آوازہ آج بھی دنیا کے کونے کونے میں سنا جا رہا ہے۔
اس کی ابتداء اٹھارہویں صدی میں تھامس پائین جیسے متعدد دانشوروں نے بھاری قیمت ادا کر کے کی۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جون اسٹوارٹ مل اور دیگر دوسروں نے کتابیں لکھیں، میری اسٹونوال کرافٹ سے ورجینا وولف اور ایما گولڈماں تک درجنوں دانشور عورتیں تھیں جنھوں نے اپنے قلم اور عمل سے عورتوں کے مساوی حقوق کی لڑائی لڑی جو آج تک جاری ہے۔
اسی طرح مارکس نے جلاوطنی اور مفلسی کی زندگی گزارکر دنیا بھرکے مزدوروں اورمحنت کشوں کو منظم کیا اور سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی سیاسی اور سماجی شکست و ریخت کی صدیاں تھیں۔ شاہی، جاگیرداری اور اشرافیہ پسپائی پر تھی۔ مساوات، عدل و انصاف، غلامی کے خاتمے اورجمہوریت کے قیام کے لیے سیکڑوں اہل قلم کی جدوجہد جاری تھی۔
اخباروں اور جریدوں کی اشاعت کے سبب شخصی اور مذہبی آزادی کے معاملات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔ یہ انیسویں صدی کے آخری دن تھے جب ایک یہودی فوجی افسر پرچلنے والا مقدمہ فرانس کے مشہور ادیب ژولا کو مضطرب کرگیا۔
اس نے 1898 میں فرانسیسی صدرکے نام ایک کھلا خط اخبار میں شایع کرایا۔ یہ خط تاریخ میں I'Accuse کے نام سے مشہور ہے۔
اس خط نے مجبور، مفلس اور بے آسرا اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی کا سرنامہ لکھا۔ ژولا کو ایک اعلیٰ عہدے سے برطرف کیا گیا، جان بچانے کے لیے اسے انگلستان میں پناہ لینا پڑی اور ڈریفس کا مقدمہ جب پھر سے کھلا تو ثابت ہوگیا کہ وہ بے گناہ تھا اور ژولا نے ایک باضمیر ادیب ہونے کا حق ادا کردیا تھا۔
بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دہائی میں یورپ نے نازی فاشزم اور دوسری جنگ عظیم کو جھیلا۔ لاکھوں لوگ یہودی ہونے کے جرم میں ہلاک کیے گئے۔
ان کے لیے انصاف مانگنے والے اور فاشزم سے لڑنے والے جرمن ادیب، دانشور اور سائنسداں جان بچانے کے لیے یورپ کے ایک سے دوسرے ملک میں بھاگتے رہے۔ بریخت، ہرمن ہیسے، تھامس مان، اسٹیفن زدیگ اور فرائیڈ اس کی سامنے کی مثال ہیں۔
1945 میں جاپان کے دو شہروں پر امریکی ایٹمی حملہ دنیا بھر کے دانشوروں اور اہل قلم کو دہلاگیا۔ رسل، آئن اسٹائن، سارتر، سیمون دی بووا، آندرے سخاروف اور متعدد دوسرے اہل قلم کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت نے انھیں اپنی حکومتوں اور عوام کی نظر میں غدار ٹھہرایا۔
الجزائر کو فرانس سے آزادی دلانے کی جدوجہد کے دوران سارتر، سیمون سی بووا اور فرانسیسی دانشوروں پر قاتلانہ حملے ہوئے اور انھیں عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکا میں ادیبوں اور دانشوروں نے مہم چلائی جس کا نقطہ عروج فروری 1967میں شایع ہونے والا نوم چومسکی کا طویل مضمون تھا جس نے امریکی رائے عامہ کو حکومت کے خلاف کردیا اور بات وہاں تک پہنچی کہ ویت نام سے امریکا کو رخصت ہونا پڑا۔
برصغیر پر نظر ڈالیں تو یہاں افسانہ لکھنے کے جرم میں ڈاکٹر رشید جہاں اور منٹو جیل جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ضبط ہوتی ہیں۔
پاکستان قائم ہوتا ہے تو فیض، سبط حسن، جالب، شیخ ایاز اورمتعدد دوسرے سماجی انصاف اور جمہوری حقوق کی لڑائی میں کیا نہیں سہتے۔ حسن ناصرکی ہڈیاں توڑ کر اسے گمنام قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔
آج پاکستان میں ہم جس سنگین بحران سے دوچار ہیں، اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور قلمکاروں نے جمہوری اور سیاسی روایات کو آگے بڑھانے اور قومی مسائل پر مکالمہ کرنے کے بجائے خامشی اختیار کی۔ ہماری سرزمین پرجب دہشت گردی کی پنیری لگائی جارہی تھی تو ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت خاموش رہی۔ ان کا خیال تھا کہ خاموشی میں عافیت ہے۔
یہ سماج کی نہیں ان کی ذاتی عافیت تھی اور وہ بھی عارضی عافیت۔ 80ء کی دہائی میں اس وقت کے آمر مطلق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے صرف ۷ دن بعد دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو ایوان صدر میں مدعو کیا۔ ایک بھاری تعداد کچے دھاگے سے بندھی اس آمر کے سامنے حاضر ہوئی۔
ان لوگوں نے ایوان صدر کے جگمگاتے ہوئے ماحول میں جمہوریت پرشب خون مارنے والے کے ہونٹوں سے اپنے باضمیر دانشوروں اور ادیبوں کے بارے میں یہ تضحیک آمیز جملے سنے کہ ان لوگوں کے لیے پاکستان کا رزق ، یہاں کا پانی ، اس ملک کا سایہ ، اس کی چاندنی حرام ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ اٹھ رہی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اہل قلم اپنی ذمے داریوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور اس میں خاموشی حرام ہے ، وہ بھی اس صورتحال میں جب تیسری جنگ عظیم ہمارے سر پر تلی کھڑی ہے۔