نو ماہ کے انگوٹھے اور بدلتا ہوا لاہور
مشہور زمانہ پنجاب پولیس کا تازہ کارنامہ نو ماہ کی عمر کے مبینہ قاتل کی کامیاب گرفتاری ہے
SAUDI ARABIA:
مشہور زمانہ پنجاب پولیس کا تازہ کارنامہ نو ماہ کی عمر کے مبینہ قاتل کی کامیاب گرفتاری ہے لیکن یہ ملزم اس قدر دہشت زدہ تھا کہ پولیس کے رجسٹر پر انگوٹھا لگاتے ہوئے رونے لگا۔ یہ سارا واقعہ ایک لطیفے یا ایک المیے کے سوا کچھ نہیں اور شاید سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ہماری پولیس پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ حیرت ہے اس پولیس والے کی دیدہ دلیری پر جس نے چند ماہ کے اس بچے کے انگوٹھے لگوائے اور رجسٹر بغل میں لے کر تھانے چلا گیا۔ بچہ پولیس کی اس واردات پر رو سکتا تھا اس کے سوا اس کے پاس احتجاج کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ اگر وہ چار پانچ سال کی کوئی بچی ہی ہوتی اور اس عمر میں کسی بہادر پاکستانی کی ہوس میں لٹ جاتی اور پولیس اسے پکڑ نہ سکتی یا پکڑ کر چھوڑ دیتی جو وہ ان دنوں اکثر کر رہی ہوتی ہے تو یہ بچہ بھی کوئی ایسا ہی احتجاج کرتا مگر وہ اپنے دادا کی گود میں روتا ہوا لیٹ گیا اور پھر کچھ دیر بعد بوتل میں دودھ پینے لگ گیا۔
میرا خیال تھا بلکہ یقین تھا کہ پولیس والے اس واردات کے نتیجے میں خود ہی اپنی گرفتاری دے دیں گے کیونکہ اتنی عمر کے بچے پر کوئی جرم عائد ہی نہیں ہوتا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس پر جرم عائد کر کے اس کے انگوٹھے لگوائے جائیں۔ ان معصوم ننھے منے انگوٹھوں کے نشان اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایک تو یہ نشان ہمارے وزیر اعلیٰ کے صدر دفتر میں کسی نمایاں جگہ پر یعنی قائد اعظم کی تصویر کے برابر میں آویزاں کر دیے جائیں کہ ہم نے اس کے پاکستان کی کیا حالت بنا دی ہے اور اس نو ماہ کے پاکستانی کے انگوٹھوں کے نشانات کے نیچے اس کی طرف سے صرف اتنا لکھ دیا جائے کہ ''بابا میں آپ کا بیٹا ہوں مجھے پیار کیجیے''۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے حکمران خانوادے کے ہاں کتنے پوتے ہیں اور کس عمر کے ہیں لیکن جب انھوں نے اپنی قلمرو میں کسی غریب کے اس پوتے کو اس کے دادا کی گود میں پولیس اسٹیشن میں دیکھا ہو گا یعنی ٹی وی کی تصویر میں تو شاید ان کے دل میں بھی کسی اپنے پوتے کا خیال آیا ہو گا۔ خواہ لمحہ بھر کے لیے ہی سہی وہ اس ملک کے مائی باپ ہیں اور سب بچے ان کے بچے ہیں۔ میں جو ایک عام آدمی ہوں اور ان کی رعایا کا ایک معمولی فرد لیکن اتفاق سے دادا نانا بھی ہوں۔ اس نو ماہ کے بچے کا منظر میری برداشت سے بالکل باہر تھا۔ میں وادی سون کا اعوان ہوں اور ایک خاص پس منظر رکھتا ہوں۔
میرا جی چاہا کہ میں تھانے پہنچ جائوں اور اس پولیس والے کے ہاتھ کاٹ دوں جن سے اس بچے کو پکڑ کر اس کے انگوٹھوں کے نشان لگوائے جا رہے تھے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور میرے پاس پولیس والوں کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے میں صرف اتنا کر سکا کہ اپنے پوتے کو اپنی گود میں لے لیا اور اللہ تبارک تعالیٰ سے ایک دعا مانگی، آپ نے کچھ سنا ہے یا کسی اخبار میں پڑھا ہے کہ کسی پولیس والے کو معطل وعطل کیا گیا ہے یعنی اسے قرار واقعی سزا دی گئی ہے اگر کسی پولیس والے کو یہ تک معلوم نہیں کہ چند ماہ کے بچے پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں تو اس پولیس والے کو اگر ہمارے حکمرانوں کی سیکیورٹی میں لگا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس شعبے میں ایسے لوگ بڑی آسانی کے ساتھ کھپ سکتے ہیں اور کسی سڑک کے کنارے برائے نام پولیس والے بن کر گھنٹوں کھڑے رہ سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں جزا کا سلسلہ تو چل رہا ہے مگر سزا والا مسئلہ معطل ہی سمجھئے۔ چھوٹے موٹے جرائم کو چھوڑیں کہ اب ان کا شمار کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا لیکن بڑے جرم یعنی انسانی قتل عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم بدقسمت مسلمانوں نے موت کی سزا اس لیے معطل کر رکھی ہے کہ یورپ کے کئی ممالک میں سزائے موت کو غلط سمجھا جا رہا ہے اس کا نتیجہ ایک یہ نکلا ہے کہ قتل عام ہو گئے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل ہو رہے ہیں کیونکہ قتل جیسے ناقابل معافی جرم میں بھی اگر کچھ وقت کے لیے قید ہی ہے تو اس میں کیا مشکل ہے جب کہ جیل کا محکمہ بھی قابو میں آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ ہر صبح کا اخبار امن و امان کی ایک بھیانک تصویر سامنے لاتا ہے۔ چوریاں ڈاکے بلکہ بازاروں میں چھینا جھپٹی عام ہے۔ خواتین اب خالی بیگ لے کر باہر جاتی ہیں اور ضرورت کی رقم کہیں ادھر ادھر رکھ لیتی ہیں۔
موبائل ایک مجبوری ہے لیکن کلائی کی گھڑی اب بہت کم دکھائی دیتی ہے یا کوئی معمولی سی سستی گھڑی۔ جس آبادی میں انسانی جان و مال محفوظ نہیں اس میں فلائی اوور اور ہوائوں میں اونچی سڑکوں پر چلنے والی بسیں کس کام کی۔ ان فلائی اووروں کے شوق میں لاہور کا ایک پرانا تاریخی اسپتال مسمار ہو رہا تھا لیکن کوئی عدالت میں چلا گیا اور اسپتال میں سے ایک محدود رقبہ الگ کرنے کی اجازت مل گئی یعنی برطانوی دور کا یہ اسپتال بچ تو گیا مگر اب اس میں شاید کوئی اضافہ نہ ہو سکے اور مجھے تو زبردست ڈر لگ رہا ہے کہ مینار پاکستان شاہی مسجد اور شاہی قلعے جیسی عمارتوں کو داغدار نہ کر دیا جائے۔ ہندوستان کا تاج محل اس لیے بھی ایک عجوبہ ہے کہ اس کے گردو پیش میں کوئی عمارت نہیں اور وہ کھلی زمین میں سے باہر نکلتا ہوا ایک شاہ کار ہے۔ انسانی آنکھ اسے دیکھ کر اگر دنگ رہ جاتی ہے تو اس کی ایک وجہ دیکھنے والے کے لیے اس عمارت کا پہلا منظر ہے جس پر نظر پڑتی ہے تو حیرت میں ڈوب جاتی ہے بہر کیف ہمارے لاہور میں بھی کچھ عمارتیں ہیں اگر وہ بچ سکیں تو۔
مشہور زمانہ پنجاب پولیس کا تازہ کارنامہ نو ماہ کی عمر کے مبینہ قاتل کی کامیاب گرفتاری ہے لیکن یہ ملزم اس قدر دہشت زدہ تھا کہ پولیس کے رجسٹر پر انگوٹھا لگاتے ہوئے رونے لگا۔ یہ سارا واقعہ ایک لطیفے یا ایک المیے کے سوا کچھ نہیں اور شاید سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ہماری پولیس پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ حیرت ہے اس پولیس والے کی دیدہ دلیری پر جس نے چند ماہ کے اس بچے کے انگوٹھے لگوائے اور رجسٹر بغل میں لے کر تھانے چلا گیا۔ بچہ پولیس کی اس واردات پر رو سکتا تھا اس کے سوا اس کے پاس احتجاج کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ اگر وہ چار پانچ سال کی کوئی بچی ہی ہوتی اور اس عمر میں کسی بہادر پاکستانی کی ہوس میں لٹ جاتی اور پولیس اسے پکڑ نہ سکتی یا پکڑ کر چھوڑ دیتی جو وہ ان دنوں اکثر کر رہی ہوتی ہے تو یہ بچہ بھی کوئی ایسا ہی احتجاج کرتا مگر وہ اپنے دادا کی گود میں روتا ہوا لیٹ گیا اور پھر کچھ دیر بعد بوتل میں دودھ پینے لگ گیا۔
میرا خیال تھا بلکہ یقین تھا کہ پولیس والے اس واردات کے نتیجے میں خود ہی اپنی گرفتاری دے دیں گے کیونکہ اتنی عمر کے بچے پر کوئی جرم عائد ہی نہیں ہوتا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس پر جرم عائد کر کے اس کے انگوٹھے لگوائے جائیں۔ ان معصوم ننھے منے انگوٹھوں کے نشان اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایک تو یہ نشان ہمارے وزیر اعلیٰ کے صدر دفتر میں کسی نمایاں جگہ پر یعنی قائد اعظم کی تصویر کے برابر میں آویزاں کر دیے جائیں کہ ہم نے اس کے پاکستان کی کیا حالت بنا دی ہے اور اس نو ماہ کے پاکستانی کے انگوٹھوں کے نشانات کے نیچے اس کی طرف سے صرف اتنا لکھ دیا جائے کہ ''بابا میں آپ کا بیٹا ہوں مجھے پیار کیجیے''۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے حکمران خانوادے کے ہاں کتنے پوتے ہیں اور کس عمر کے ہیں لیکن جب انھوں نے اپنی قلمرو میں کسی غریب کے اس پوتے کو اس کے دادا کی گود میں پولیس اسٹیشن میں دیکھا ہو گا یعنی ٹی وی کی تصویر میں تو شاید ان کے دل میں بھی کسی اپنے پوتے کا خیال آیا ہو گا۔ خواہ لمحہ بھر کے لیے ہی سہی وہ اس ملک کے مائی باپ ہیں اور سب بچے ان کے بچے ہیں۔ میں جو ایک عام آدمی ہوں اور ان کی رعایا کا ایک معمولی فرد لیکن اتفاق سے دادا نانا بھی ہوں۔ اس نو ماہ کے بچے کا منظر میری برداشت سے بالکل باہر تھا۔ میں وادی سون کا اعوان ہوں اور ایک خاص پس منظر رکھتا ہوں۔
میرا جی چاہا کہ میں تھانے پہنچ جائوں اور اس پولیس والے کے ہاتھ کاٹ دوں جن سے اس بچے کو پکڑ کر اس کے انگوٹھوں کے نشان لگوائے جا رہے تھے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور میرے پاس پولیس والوں کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے میں صرف اتنا کر سکا کہ اپنے پوتے کو اپنی گود میں لے لیا اور اللہ تبارک تعالیٰ سے ایک دعا مانگی، آپ نے کچھ سنا ہے یا کسی اخبار میں پڑھا ہے کہ کسی پولیس والے کو معطل وعطل کیا گیا ہے یعنی اسے قرار واقعی سزا دی گئی ہے اگر کسی پولیس والے کو یہ تک معلوم نہیں کہ چند ماہ کے بچے پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں تو اس پولیس والے کو اگر ہمارے حکمرانوں کی سیکیورٹی میں لگا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس شعبے میں ایسے لوگ بڑی آسانی کے ساتھ کھپ سکتے ہیں اور کسی سڑک کے کنارے برائے نام پولیس والے بن کر گھنٹوں کھڑے رہ سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں جزا کا سلسلہ تو چل رہا ہے مگر سزا والا مسئلہ معطل ہی سمجھئے۔ چھوٹے موٹے جرائم کو چھوڑیں کہ اب ان کا شمار کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا لیکن بڑے جرم یعنی انسانی قتل عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم بدقسمت مسلمانوں نے موت کی سزا اس لیے معطل کر رکھی ہے کہ یورپ کے کئی ممالک میں سزائے موت کو غلط سمجھا جا رہا ہے اس کا نتیجہ ایک یہ نکلا ہے کہ قتل عام ہو گئے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل ہو رہے ہیں کیونکہ قتل جیسے ناقابل معافی جرم میں بھی اگر کچھ وقت کے لیے قید ہی ہے تو اس میں کیا مشکل ہے جب کہ جیل کا محکمہ بھی قابو میں آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ ہر صبح کا اخبار امن و امان کی ایک بھیانک تصویر سامنے لاتا ہے۔ چوریاں ڈاکے بلکہ بازاروں میں چھینا جھپٹی عام ہے۔ خواتین اب خالی بیگ لے کر باہر جاتی ہیں اور ضرورت کی رقم کہیں ادھر ادھر رکھ لیتی ہیں۔
موبائل ایک مجبوری ہے لیکن کلائی کی گھڑی اب بہت کم دکھائی دیتی ہے یا کوئی معمولی سی سستی گھڑی۔ جس آبادی میں انسانی جان و مال محفوظ نہیں اس میں فلائی اوور اور ہوائوں میں اونچی سڑکوں پر چلنے والی بسیں کس کام کی۔ ان فلائی اووروں کے شوق میں لاہور کا ایک پرانا تاریخی اسپتال مسمار ہو رہا تھا لیکن کوئی عدالت میں چلا گیا اور اسپتال میں سے ایک محدود رقبہ الگ کرنے کی اجازت مل گئی یعنی برطانوی دور کا یہ اسپتال بچ تو گیا مگر اب اس میں شاید کوئی اضافہ نہ ہو سکے اور مجھے تو زبردست ڈر لگ رہا ہے کہ مینار پاکستان شاہی مسجد اور شاہی قلعے جیسی عمارتوں کو داغدار نہ کر دیا جائے۔ ہندوستان کا تاج محل اس لیے بھی ایک عجوبہ ہے کہ اس کے گردو پیش میں کوئی عمارت نہیں اور وہ کھلی زمین میں سے باہر نکلتا ہوا ایک شاہ کار ہے۔ انسانی آنکھ اسے دیکھ کر اگر دنگ رہ جاتی ہے تو اس کی ایک وجہ دیکھنے والے کے لیے اس عمارت کا پہلا منظر ہے جس پر نظر پڑتی ہے تو حیرت میں ڈوب جاتی ہے بہر کیف ہمارے لاہور میں بھی کچھ عمارتیں ہیں اگر وہ بچ سکیں تو۔