مسائل و افکار
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا شمار پاکستان کے ممتاز سوشل سائنٹسٹ میں ہوتا ہے۔
SINGAPORE:
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا شمار پاکستان کے ممتاز سوشل سائنٹسٹ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی مگر وہ سیاسیات کے علاوہ تعلیم، ادب، شاعری، تاریخ اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کے مختلف موضوعات کو اپنے آرٹیکلز کی بنیاد بنایا۔ اردو صحافت میں انگریزی اخبارات میں شایع ہونے والے آرٹیکلز کے معیار کے آرٹیکلز تحریر کرکے خوبصورت جملوں کے استعمال کے ذریعے آرٹیکلز کو قاری کے لیے دلچسپ بنایا۔ ان آرٹیکلز پر مشتمل کتاب 'مسائل و افکار' شایع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے تعلیم کے 65 سال کا سفر بے سود نہیں رہا، البتہ وسیلہ ظفر نہ بن سکا۔
تعلیم کے موضوع پر وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ 65 برسوں میں پاکستان کے تعلیمی منظرنامے میں مقداری اعتبار سے یقیناً غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن بغور دیکھا جائے تو ملک کی آبادی میں اضافے اور ملکی ضروریات کے پیش نظر تعلیم کے شعبے میں ترقی جتنی ہونی چاہیے تھے وہ نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان میں تعلیم کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ اس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکی۔ وہ لکھتے ہیں کہ کانگریس نے انگریز کے جانے کے بعد کے منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے قدرے ٹھوس کام اور بنیادی پالیسیاں پہلے سے بنائی ہوئی تھیں، مسلم لیگ کا کام اس سلسلے میں اگر تھا بھی تو بہت ابتدائی نوعیت کا تھا۔وہ ملک میں نافذ کی جانے والی مختلف پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایوب خان کی تعلیمی پالیسی میں امریکا کے ہارورڈ گروپ کی پالیسی کی جھلک نظر آتی تھی، اس کے برعکس بھٹو صاحب کی پالیسی پاپولسٹ حکومت کی سوچ کی مظہر تھی، جس کا مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو ان کی پسماندگی سے نکالنا تھا لیکن اس کارخیر کے جو تقاضے تھے ان کی تکمیل کی اہلیت اس وقت کے ریاستی ڈھانچے میں نہیں تھی۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنی تعلیمی پالیسی کے ذریعے نصاب کو مخصوص مذہبی قالب میں ڈھالا جو پاکستان کے عوام کی سطح پر مذہبی رویوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان اپنی مجموعی قومی ترجیحات میں تعلیم کو مناسب جگہ نہ دینے کی بناء پر کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ کرسکا۔ وہ مفت اور لازمی تعلیم کے حق کے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ اسکول میں داخل نہ ہوا تو اس کے والد یا سرپرست کو 5 ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا ہوگی، یہ سزا پاکستانی معاشرے کے حقائق سے مناسب طور پر واقف نہ ہونے کا اشارہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اگر بچے اسکول نہیں جاتے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غربت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی اولاد کو تعلیم نہ دلا سکا وہ 5 ہزار روپے جرمانہ کیسے ادا کرے گا۔ بل کے منصفین کو ان خاندانوں کی کفالت کے نقطہ نظر سے کوئی تجویز دینی چاہیے جس کے نتیجے میں غریب خاندان اپنے بچوں کو اسکول بھیجیںپر آمادہ ہوں۔سندھ میں اسکولوں کی مایوس کن کارکردگی کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ سندھ کے دیہی اور شہری تعلیمی اداروں کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیم اثر کے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اصل صورت حال مایوس کن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسکول پورے نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اسکول کی تعلیم کی حیثیت ایک بنیاد، ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اگر اسکولوں میں تعلیم کی بنیاد کمزور ہوئی تو بچے آگے جاکر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کیا کارکردگی دکھا سکیں گے۔ وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹ پر اپنے آرٹیکل میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رپورٹ کے چند حوالے ہمارے مجموعی تعلیمی نظام کے کمزور پہلوئوں کی صرف چند جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ معاشرے اور ریاست دونوں کی تعمیر و ترقی کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ہم کتنی جلدی اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح کرنے اور اس کو قومی مقاصد سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ڈاکٹر جعفر نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کا قیام تب ہی بامعنی ثابت ہوسکتا ہے جب ان کو قائم کرتے وقت سطحی اور فوری مقاصد کے سحر کا شکار نہ ہوا جائے بلکہ حقیقت پسندانہ انداز میں ان کی ضروریات کا یقین کیا جائے۔ ہر یونیورسٹی کے قیام سے قبل باقاعدہ تحقیق کے ذریعے اس کے مقاصد ضرورت اور اس کے قابل عمل ہونے کا یقین بھی کیا جائے۔ وہ علمی و تہذیبی اداروں کے احیاء کے موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے بے شمار ادارے قائم کیے۔ بھٹو صاحب کے قائم کردہ اداروں میں بیشتر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سرکار کی طرف سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں یا تو مکمل طور پر ختم ہوگئے یا ان کی فعالیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔
ڈاکٹر جعفر نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ملک کے کم از کم تین شہروں میں ایسی بڑی لائبریریاں قائم کردی جائیں جو کتابوں کے عطیات کو محفوظ کرسکیں۔ اس طرح گم گشتہ وحدت کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ علم کی وحدت کا یہ ڈھانچہ صنعتی انقلاب کے بعد اور خاص طور پر بیسویں صدی میں کمزور ہونا شروع ہوا اور پھر سماجی اور نظری علوم کی دو مختلف دنیائوں کے اندر تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ تاریخ کے مضمون کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مغرب کی علمی دنیا میں تاریخ کے حوالے سے جو غیر معمولی سرگرمی دیکھتے ہیں، ایسی سرگرمی ہمیں پاکستان میں نظر نہیں آتی۔ تاریخ کے مضمون کے احیاء کے لیے کچھ کوششیں ضرور ہوئی ہیں لیکن ان کا دائرہ اتنا مختصر ہے کہ صرف ان کی بنیاد پر پاکستان میں تاریخ نویسی کے مستقبل کے بارے میں کسی خوش فہمی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر جعفر ذرایع ابلاغ اور جمہوریت کے پس منظر و پیش نظر کے موضوع پر ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ میڈیا کی کم از کم تین کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کی جاسکتی ہے، ان میں سرفہرست تو وہ پیشہ ورانہ کمزوریاں ہیں جن کا مظاہرہ روز ہوتا ہے، رپورٹنگ کا معیار ناقص نظر آتا ہے، چینلوں کے رپورٹر ایسے موضوعات کا احاطہ کررہے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ان کے پاس بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتیں۔ وہ المیہ مشرقی پاکستان سے ہماری علمی اور حقیقی لاتعلقی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ المیہ پاکستان کے حوالے سے علم و تحقیق کے شعبے میں جو پسماندگی نظر آتی ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسلوں کو اس واقعے سے بے خبر رکھاہے۔
انھوں نے 2013 میں ہونے والے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کے تعلیم کے بارے میں نکات کا انتہائی زیرک انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں قومی نصابی کونسل کی تشکیل کا تصور دیا گیا ہے جو قومی سطح پر قائم ہوگی، یہ تصور 18ویں ترمیم سے متصادم ہے۔ اگر تعلیم صوبوں کو منتقل ہوچکی ہے تو وفاق کی سطح پر نصاب سازی کا کام کسی آئینی ترمیم کے بعد صوبوں سے مرکز کی طرف کیسے منتقل ہوگا۔وہ پیپلزپارٹی کے تعلیمی منشور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ، تعلیمی اداروں کو اوطاقوں میں تبدیل کرنے، تعلیمی اداروں میں اسلحہ کی بھرمارجیسے مسائل کا حل پیپلزپارٹی کے منشور میں نظر نہیں آتا۔ اس طرح تحریک انصاف کے منشور کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمیں انفرااسٹرکچر پر کتنی توجہ دینی چاہیے، نصاب تعلیم میں جدید رجحانات اور روشن خیالی کی بھی گنجائش ہے یا نہیں، اگر ملے تو اس کو کس طرح نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
ایسے بہت سے دوسرے موضوعات ہیں جن کے حوالے سے ایک مضبوط سوچ او رحکمت عملی ہمیں تحریک انصاف کے منشور میں نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر جعفر نے ممتاز سماجی کارکنوں، سائنسدانوں، ادیبوں اور اساتذہ کے بارے میں خوبصورت آرٹیکلز تحریر کیے ہیں۔ ان میں علی اصغر انجنیئر، ڈاکٹر زکی حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور اقبال حیدر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ یوں نئے پڑھنے والوں کو ان شخصیات کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ پھر کراچی یونیورسٹی کی آرٹس لابی میں اپنے دور میں ہونے والی سرگرمیوں کا ذکر کر کے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا شمار پاکستان کے ممتاز سوشل سائنٹسٹ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی مگر وہ سیاسیات کے علاوہ تعلیم، ادب، شاعری، تاریخ اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کے مختلف موضوعات کو اپنے آرٹیکلز کی بنیاد بنایا۔ اردو صحافت میں انگریزی اخبارات میں شایع ہونے والے آرٹیکلز کے معیار کے آرٹیکلز تحریر کرکے خوبصورت جملوں کے استعمال کے ذریعے آرٹیکلز کو قاری کے لیے دلچسپ بنایا۔ ان آرٹیکلز پر مشتمل کتاب 'مسائل و افکار' شایع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے تعلیم کے 65 سال کا سفر بے سود نہیں رہا، البتہ وسیلہ ظفر نہ بن سکا۔
تعلیم کے موضوع پر وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ 65 برسوں میں پاکستان کے تعلیمی منظرنامے میں مقداری اعتبار سے یقیناً غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن بغور دیکھا جائے تو ملک کی آبادی میں اضافے اور ملکی ضروریات کے پیش نظر تعلیم کے شعبے میں ترقی جتنی ہونی چاہیے تھے وہ نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان میں تعلیم کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ اس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکی۔ وہ لکھتے ہیں کہ کانگریس نے انگریز کے جانے کے بعد کے منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے قدرے ٹھوس کام اور بنیادی پالیسیاں پہلے سے بنائی ہوئی تھیں، مسلم لیگ کا کام اس سلسلے میں اگر تھا بھی تو بہت ابتدائی نوعیت کا تھا۔وہ ملک میں نافذ کی جانے والی مختلف پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایوب خان کی تعلیمی پالیسی میں امریکا کے ہارورڈ گروپ کی پالیسی کی جھلک نظر آتی تھی، اس کے برعکس بھٹو صاحب کی پالیسی پاپولسٹ حکومت کی سوچ کی مظہر تھی، جس کا مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو ان کی پسماندگی سے نکالنا تھا لیکن اس کارخیر کے جو تقاضے تھے ان کی تکمیل کی اہلیت اس وقت کے ریاستی ڈھانچے میں نہیں تھی۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنی تعلیمی پالیسی کے ذریعے نصاب کو مخصوص مذہبی قالب میں ڈھالا جو پاکستان کے عوام کی سطح پر مذہبی رویوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان اپنی مجموعی قومی ترجیحات میں تعلیم کو مناسب جگہ نہ دینے کی بناء پر کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ کرسکا۔ وہ مفت اور لازمی تعلیم کے حق کے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ اسکول میں داخل نہ ہوا تو اس کے والد یا سرپرست کو 5 ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا ہوگی، یہ سزا پاکستانی معاشرے کے حقائق سے مناسب طور پر واقف نہ ہونے کا اشارہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اگر بچے اسکول نہیں جاتے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غربت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی اولاد کو تعلیم نہ دلا سکا وہ 5 ہزار روپے جرمانہ کیسے ادا کرے گا۔ بل کے منصفین کو ان خاندانوں کی کفالت کے نقطہ نظر سے کوئی تجویز دینی چاہیے جس کے نتیجے میں غریب خاندان اپنے بچوں کو اسکول بھیجیںپر آمادہ ہوں۔سندھ میں اسکولوں کی مایوس کن کارکردگی کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ سندھ کے دیہی اور شہری تعلیمی اداروں کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیم اثر کے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اصل صورت حال مایوس کن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسکول پورے نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اسکول کی تعلیم کی حیثیت ایک بنیاد، ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اگر اسکولوں میں تعلیم کی بنیاد کمزور ہوئی تو بچے آگے جاکر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کیا کارکردگی دکھا سکیں گے۔ وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹ پر اپنے آرٹیکل میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رپورٹ کے چند حوالے ہمارے مجموعی تعلیمی نظام کے کمزور پہلوئوں کی صرف چند جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ معاشرے اور ریاست دونوں کی تعمیر و ترقی کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ہم کتنی جلدی اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح کرنے اور اس کو قومی مقاصد سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ڈاکٹر جعفر نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کا قیام تب ہی بامعنی ثابت ہوسکتا ہے جب ان کو قائم کرتے وقت سطحی اور فوری مقاصد کے سحر کا شکار نہ ہوا جائے بلکہ حقیقت پسندانہ انداز میں ان کی ضروریات کا یقین کیا جائے۔ ہر یونیورسٹی کے قیام سے قبل باقاعدہ تحقیق کے ذریعے اس کے مقاصد ضرورت اور اس کے قابل عمل ہونے کا یقین بھی کیا جائے۔ وہ علمی و تہذیبی اداروں کے احیاء کے موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے بے شمار ادارے قائم کیے۔ بھٹو صاحب کے قائم کردہ اداروں میں بیشتر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سرکار کی طرف سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں یا تو مکمل طور پر ختم ہوگئے یا ان کی فعالیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔
ڈاکٹر جعفر نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ملک کے کم از کم تین شہروں میں ایسی بڑی لائبریریاں قائم کردی جائیں جو کتابوں کے عطیات کو محفوظ کرسکیں۔ اس طرح گم گشتہ وحدت کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ علم کی وحدت کا یہ ڈھانچہ صنعتی انقلاب کے بعد اور خاص طور پر بیسویں صدی میں کمزور ہونا شروع ہوا اور پھر سماجی اور نظری علوم کی دو مختلف دنیائوں کے اندر تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ تاریخ کے مضمون کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مغرب کی علمی دنیا میں تاریخ کے حوالے سے جو غیر معمولی سرگرمی دیکھتے ہیں، ایسی سرگرمی ہمیں پاکستان میں نظر نہیں آتی۔ تاریخ کے مضمون کے احیاء کے لیے کچھ کوششیں ضرور ہوئی ہیں لیکن ان کا دائرہ اتنا مختصر ہے کہ صرف ان کی بنیاد پر پاکستان میں تاریخ نویسی کے مستقبل کے بارے میں کسی خوش فہمی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر جعفر ذرایع ابلاغ اور جمہوریت کے پس منظر و پیش نظر کے موضوع پر ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ میڈیا کی کم از کم تین کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کی جاسکتی ہے، ان میں سرفہرست تو وہ پیشہ ورانہ کمزوریاں ہیں جن کا مظاہرہ روز ہوتا ہے، رپورٹنگ کا معیار ناقص نظر آتا ہے، چینلوں کے رپورٹر ایسے موضوعات کا احاطہ کررہے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ان کے پاس بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتیں۔ وہ المیہ مشرقی پاکستان سے ہماری علمی اور حقیقی لاتعلقی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ المیہ پاکستان کے حوالے سے علم و تحقیق کے شعبے میں جو پسماندگی نظر آتی ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسلوں کو اس واقعے سے بے خبر رکھاہے۔
انھوں نے 2013 میں ہونے والے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کے تعلیم کے بارے میں نکات کا انتہائی زیرک انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں قومی نصابی کونسل کی تشکیل کا تصور دیا گیا ہے جو قومی سطح پر قائم ہوگی، یہ تصور 18ویں ترمیم سے متصادم ہے۔ اگر تعلیم صوبوں کو منتقل ہوچکی ہے تو وفاق کی سطح پر نصاب سازی کا کام کسی آئینی ترمیم کے بعد صوبوں سے مرکز کی طرف کیسے منتقل ہوگا۔وہ پیپلزپارٹی کے تعلیمی منشور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ، تعلیمی اداروں کو اوطاقوں میں تبدیل کرنے، تعلیمی اداروں میں اسلحہ کی بھرمارجیسے مسائل کا حل پیپلزپارٹی کے منشور میں نظر نہیں آتا۔ اس طرح تحریک انصاف کے منشور کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمیں انفرااسٹرکچر پر کتنی توجہ دینی چاہیے، نصاب تعلیم میں جدید رجحانات اور روشن خیالی کی بھی گنجائش ہے یا نہیں، اگر ملے تو اس کو کس طرح نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
ایسے بہت سے دوسرے موضوعات ہیں جن کے حوالے سے ایک مضبوط سوچ او رحکمت عملی ہمیں تحریک انصاف کے منشور میں نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر جعفر نے ممتاز سماجی کارکنوں، سائنسدانوں، ادیبوں اور اساتذہ کے بارے میں خوبصورت آرٹیکلز تحریر کیے ہیں۔ ان میں علی اصغر انجنیئر، ڈاکٹر زکی حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور اقبال حیدر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ یوں نئے پڑھنے والوں کو ان شخصیات کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ پھر کراچی یونیورسٹی کی آرٹس لابی میں اپنے دور میں ہونے والی سرگرمیوں کا ذکر کر کے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔