کامیابی کا راز…
اس کی آنکھوں میں نادیدہ آنسو تھے اور رخساروں کی شادابی رخصت ہو چکی تھی
اس کی آنکھوں میں نادیدہ آنسو تھے اور رخساروں کی شادابی رخصت ہو چکی تھی، لبوں پہ ایک خفیف سی طنزیہ مسکراہٹ تھی، مضمحل اور نڈھال، مایوس اور اداس، جیسے نہ گزرنے والی زندگی گزار کر آیا ہو۔ یہ نئی نسل کا ایک ہونہار ذہین طالب علم علی تھا، جسے شعر و ادب سے کوئی سروکار نہ تھا، بجز مجاز کی نظم ''آوارہ'' کے، جو آج کی نئی نسل کے دل کی ترجمان ہے۔
''سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اتنی ترقی کیوں کر لیتے ہیں، میری مراد ان لوگوں سے ہے جو جعلی ڈگریوں پر ملازمتیں حاصل کرتے ہیں، بلکہ ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں، یہ کون لوگ ہوتے ہیں، ان کے پاس آخر ایسا کون سا نسخہ ہے؟'' وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔
''سنو کہ کامیابی تمہارے بھی قدم چوم سکتی ہے اس کے لیے تمہیں تھوڑی سی قربانی دینی پڑے گی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں شاید تم بھی یہی چاہتے ہو''۔ ہم نے پوچھا۔
''نہیں ایسی بات نہیں۔ میں نے چھ سال در بدر ٹھوکریں کھائیں، اخبارات میں آسامی خالی ہے کے اشتہارات پڑھے، ہر جگہ اپلائی کیا مگر ہر جگہ سفارش، پرچی اور رشوت یہاں تک کہ مقابلوں کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ نہ ہو سکا''۔ اس نے کہا۔
''خاندانی معلوم ہوتے ہو''۔ ہم نے کہا۔
''ہاں یہ خاندان ہی میرے لیے رکاوٹ بن گیا، کیونکہ مجھے کسی کی خوشامد کرنا نہیں آتی، لیکن اس کے بغیر گزارا بھی تو نہیں، دھن دولت کمانا بہت مشکل مگر نہایت آسان ہے، بس اس کے طریقے آنے چاہئیں''۔
''یعنی۔۔۔۔!'' وہ حیرت سے بولا۔
''جس طرح ڈاکٹروں کے مطب میں صحت مند رہنے کے اصول لکھے ہوتے ہیں اسی طرح اگر تمہیں بھی کامیاب رہنے کے چند آزمودہ اصول بتا دیے جائیں تو کیا تم اسے قبول کر لو گے؟''
''شاید ۔۔۔۔اب شاید''۔ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا۔
''تو سنو! کہ سروس تمہیں مل سکتی ہے مگر اصل کام جاب ملنے کے بعد شروع ہوتا ہے ورنہ ترقی رک جاتی ہے، مندرجہ ذیل ترکیبوں پر کاربند رہنا تو بہت جلد چپراسی کی پوسٹ سے بھی مختصر عرصے میں 17 گریڈ پر چلے جاؤ گے''۔
''ایسا کیسے ممکن ہے؟'' حیرت سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔
''سب ممکن ہے اس پاکستان میں، جہاں لٹیرے راج کرتے ہیں اور شرفا غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں، اب آج کل کے حالات ہی دیکھ لو، کتنے بڑے بڑے چور، ڈاکو، ٹیکس نادہندہ آزادی سے گھوم رہے ہیں، آخر ان کے پاس ایسا کیا ہے کہ یہ عدالتوں سے بھی بری ہو جاتے ہیں اور ان کو سزا بھی نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میموگیٹ اسکینڈل نے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا دی تھی تو ایک دور میں ایفی ڈرین کیس سامنے آیا، پھر مختلف سرکاری اداروں میں اعلیٰ منصب پر متمکن افسران کی خورد برد کی خبریں میڈیا کا عنوان بنیں آج کل سارا زور کسی اور پر ہے یا مذاکرات پر۔ سچ تو یہ ہے کہ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کے حالات درست کر سکتا ہے ویسے ملازمت کے لیے تمہیں مزید ٹھوکریں کھانی ہوں گی لہٰذا:
1۔ سب سے پہلے کسی بڑے صاحب سے تعلقات استوار کرو، ان کے لیے تحفے تحائف لے کر جاؤ، ہو سکے تو ان کے گھریلو کام بھی ان کے ملازموں کی طرح کرو۔
2۔ صاحب گاڑی میں بیٹھنے کے لیے روانہ ہوں تو ایک کونے میں غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے رہو اور پھر تیزی سے بڑھ کر دروازہ کھولو اس سے پہلے کہ ان کا شوفر یہ فریضہ انجام دے۔
3۔ ملازمت کے حصول کے بعد صاحب کی خوشامد اس انداز سے کرو کہ پتہ نہ چلے۔
4۔ اگر تم ایسے محکمے میں جاؤ جہاں اوپر کی آمدنی ہوتی ہو تو بہتی گنگا سے ہاتھ نہ دھونا تمہاری سب سے بڑی حماقت ہو گی، لہٰذا تم بھی اس نعمت بے بہا سے سرفراز ہو مگر اس اقدام سے جو دولت تمہیں حاصل ہو اس میں صاحب کا 50 فیصد حصہ ضرور ہونا چاہیے ورنہ تمہاری پوسٹنگ کے چانسز معدوم رہیں گے''۔
5۔ صاحب کی ہاں میں ہاں ملانا تمہاری عادت نہیں فطرت بن جانی چاہیے۔
6۔ سرکاری فائلوں کو جلدی نکالنا ایک نامعقول افسر کی پہچان ہے لہٰذا صاحب کے دستخط کے لیے ان کے چیمبر میں جانے والی فائلوں کو ہفتوں بلکہ مہینوں اپنے پاس رکھو، جب ضرورت مند فائلوں کی واپسی کا تقاضا کریں تو موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنا مدعا بیان کرو کہ بھائی آپ کی فائل کی جانچ پڑتال میں اتنا وقت صرف ہوا، میں نے یہ کام اپنے ماتحتوں سے کروایا ہے اور وہ یہ کام اوور ٹائم سمجھ کر کرتے ہیں، لہٰذا ان کا اوور ٹائم ضرور دیا جائے، اس ذہانت انگیز گفتگو سے آپ کا مسئلہ سیکنڈوں اور اس کا مسئلہ منٹوں میں حل ہو جائے گا۔
7۔ چونکہ اس وقت ہر جگہ مافیا ہے لہٰذا تم کو بھی کسی ایک مافیا کا حصہ بننا پڑے گا، اگر خدانخواستہ تمہارے باس علیل ہو جائیں تو ان کی خدمت ان کی ماں بہن اور بیوی سے بڑھ کر کرو، سر دبانے سے ایک گریڈ اور پاؤں دبانے سے دو گریڈ آگے چلے جاؤ گے۔
8۔ اپنی پبلک ریلیشنگ بڑھاؤ، تقریبات میں جاؤ سب کو اپنے وزیٹنگ کارڈ دو، جو کام کے بندے ہوں ان سے آہستہ آہستہ تعلقات بڑھاؤ اور ان کی اس حد تک مدح سرائی کرو کہ تم ان کے وجود کا ایک حصہ بن جاؤ۔
9۔ اگر تمہیں میڈیا میں اینکر پرسن بننا ہے تو اپنے اندر اعتماد پیدا کرو اور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی بھی رکھنی ہے ورنہ اس کے بغیر لفافوں کا حصول مشکل ہو گا۔
10۔ اپنے آپ کو ہمیشہ بڑے لوگوں کے درمیان رکھو، بزرگوں سے سنا ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لہٰذا تمہاری کمپنی ان لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے جسے میڈیا فوکس کرتا ہے۔''
اس نے یہ تمام باتیں خاموشی سے سنیں اور یہ کہہ کر کہ میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا، چلا گیا، پھر اس کا پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ چار ماہ بعد جب ہمارا اسلام آباد جانا ہوا، کیونکہ اے جی آفس میں ہمارے کچھ بل پھنسے ہوئے تھے جس وقت ہم نے علی کو یہ نادر مشورے دیے تھے اس وقت ہمارا نام سیما شیراز تھا، اس عرصے میں ہم شادی کے بعد سیما محسن ہو گئے تھے لہٰذا ہمارے سارے بل سیما محسن کے نام کے تھے، ابھی ہم اے جی آفس میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک چپراسی نے لپک کر ہم سے پوچھا ''بی بی! کس سے ملنا ہے؟''
''اکاؤنٹنٹ جنرل سے!'' ہم نے کہا۔
''مگر آپ ان سے براہ راست نہیں مل سکتیں، ٹائم لیا تھا آپ نے ان سے؟'' چپراسی نے تن کر کہا۔
''ٹائم تو نہیں لیا تھا اور ان سے براہ راست اس لیے ملنا ہے کہ گزشتہ پانچ مہینے سے ہم اس دفتر کے چکر لگا رہے ہیں مگر یہاں تو بغیر رشوت کے کام ہی نہیں ہوتا''۔ ہم نے چڑ کر کہا۔ ''خیر فی الحال آپ اپنا وزیٹنگ کارڈ دے دیں ہم ان کے پرسنل سیکریٹری کو دیتے ہیں، وہ مناسب سمجھیں گے تو آپ کو صاحب سے ملوا دیں گے''۔ ہم نے ان کو اپنا کارڈ دیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے بس دل میں یہ وسوسہ ضرور موجود تھا کہ ابھی چپراسی آ کر یہ نہ کہہ دے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ، آخر ہم کب تک انتظار کرتے، اٹھ کر کھڑے ہوئے، ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ چپراسی ہی نظر آ جائے مگر اس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا مگر اگلے ہی لمحے وہ اچانک عقبی دروازے سے نمودار ہوا اور بولا۔
''بی بی! پرسنل سیکریٹری صاحب بھی صاحب کے ساتھ کہیں وزٹ پر جا رہے ہیں، آپ کی فائل ان ہی کی ٹیبل پر ہے، نیچے کے عملے نے اپنا کام کردیا ہے، آپ دس ہزار روپے جمع کرا دیں اور یہ پی ایس صاحب کا کارڈ ہے، شام کو 5 سے پہلے ان سے فون کر کے پوچھ لیجیے گا کہ بڑے صاحب کے فائلوں پر دستخط ہوگئے یا نہیں۔ ویسے بی بی! میرا خیال ہے کل تک آپ کا کام ضرور ہو جائے گا۔ ہم نے چپراسی کے ہاتھ سے کارڈ لیا جس پر لکھا تھا:''علی شہزاد، پرسنل سیکریٹری ٹو اے جی''۔
''سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اتنی ترقی کیوں کر لیتے ہیں، میری مراد ان لوگوں سے ہے جو جعلی ڈگریوں پر ملازمتیں حاصل کرتے ہیں، بلکہ ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں، یہ کون لوگ ہوتے ہیں، ان کے پاس آخر ایسا کون سا نسخہ ہے؟'' وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔
''سنو کہ کامیابی تمہارے بھی قدم چوم سکتی ہے اس کے لیے تمہیں تھوڑی سی قربانی دینی پڑے گی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں شاید تم بھی یہی چاہتے ہو''۔ ہم نے پوچھا۔
''نہیں ایسی بات نہیں۔ میں نے چھ سال در بدر ٹھوکریں کھائیں، اخبارات میں آسامی خالی ہے کے اشتہارات پڑھے، ہر جگہ اپلائی کیا مگر ہر جگہ سفارش، پرچی اور رشوت یہاں تک کہ مقابلوں کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ نہ ہو سکا''۔ اس نے کہا۔
''خاندانی معلوم ہوتے ہو''۔ ہم نے کہا۔
''ہاں یہ خاندان ہی میرے لیے رکاوٹ بن گیا، کیونکہ مجھے کسی کی خوشامد کرنا نہیں آتی، لیکن اس کے بغیر گزارا بھی تو نہیں، دھن دولت کمانا بہت مشکل مگر نہایت آسان ہے، بس اس کے طریقے آنے چاہئیں''۔
''یعنی۔۔۔۔!'' وہ حیرت سے بولا۔
''جس طرح ڈاکٹروں کے مطب میں صحت مند رہنے کے اصول لکھے ہوتے ہیں اسی طرح اگر تمہیں بھی کامیاب رہنے کے چند آزمودہ اصول بتا دیے جائیں تو کیا تم اسے قبول کر لو گے؟''
''شاید ۔۔۔۔اب شاید''۔ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا۔
''تو سنو! کہ سروس تمہیں مل سکتی ہے مگر اصل کام جاب ملنے کے بعد شروع ہوتا ہے ورنہ ترقی رک جاتی ہے، مندرجہ ذیل ترکیبوں پر کاربند رہنا تو بہت جلد چپراسی کی پوسٹ سے بھی مختصر عرصے میں 17 گریڈ پر چلے جاؤ گے''۔
''ایسا کیسے ممکن ہے؟'' حیرت سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔
''سب ممکن ہے اس پاکستان میں، جہاں لٹیرے راج کرتے ہیں اور شرفا غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں، اب آج کل کے حالات ہی دیکھ لو، کتنے بڑے بڑے چور، ڈاکو، ٹیکس نادہندہ آزادی سے گھوم رہے ہیں، آخر ان کے پاس ایسا کیا ہے کہ یہ عدالتوں سے بھی بری ہو جاتے ہیں اور ان کو سزا بھی نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میموگیٹ اسکینڈل نے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا دی تھی تو ایک دور میں ایفی ڈرین کیس سامنے آیا، پھر مختلف سرکاری اداروں میں اعلیٰ منصب پر متمکن افسران کی خورد برد کی خبریں میڈیا کا عنوان بنیں آج کل سارا زور کسی اور پر ہے یا مذاکرات پر۔ سچ تو یہ ہے کہ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کے حالات درست کر سکتا ہے ویسے ملازمت کے لیے تمہیں مزید ٹھوکریں کھانی ہوں گی لہٰذا:
1۔ سب سے پہلے کسی بڑے صاحب سے تعلقات استوار کرو، ان کے لیے تحفے تحائف لے کر جاؤ، ہو سکے تو ان کے گھریلو کام بھی ان کے ملازموں کی طرح کرو۔
2۔ صاحب گاڑی میں بیٹھنے کے لیے روانہ ہوں تو ایک کونے میں غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے رہو اور پھر تیزی سے بڑھ کر دروازہ کھولو اس سے پہلے کہ ان کا شوفر یہ فریضہ انجام دے۔
3۔ ملازمت کے حصول کے بعد صاحب کی خوشامد اس انداز سے کرو کہ پتہ نہ چلے۔
4۔ اگر تم ایسے محکمے میں جاؤ جہاں اوپر کی آمدنی ہوتی ہو تو بہتی گنگا سے ہاتھ نہ دھونا تمہاری سب سے بڑی حماقت ہو گی، لہٰذا تم بھی اس نعمت بے بہا سے سرفراز ہو مگر اس اقدام سے جو دولت تمہیں حاصل ہو اس میں صاحب کا 50 فیصد حصہ ضرور ہونا چاہیے ورنہ تمہاری پوسٹنگ کے چانسز معدوم رہیں گے''۔
5۔ صاحب کی ہاں میں ہاں ملانا تمہاری عادت نہیں فطرت بن جانی چاہیے۔
6۔ سرکاری فائلوں کو جلدی نکالنا ایک نامعقول افسر کی پہچان ہے لہٰذا صاحب کے دستخط کے لیے ان کے چیمبر میں جانے والی فائلوں کو ہفتوں بلکہ مہینوں اپنے پاس رکھو، جب ضرورت مند فائلوں کی واپسی کا تقاضا کریں تو موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنا مدعا بیان کرو کہ بھائی آپ کی فائل کی جانچ پڑتال میں اتنا وقت صرف ہوا، میں نے یہ کام اپنے ماتحتوں سے کروایا ہے اور وہ یہ کام اوور ٹائم سمجھ کر کرتے ہیں، لہٰذا ان کا اوور ٹائم ضرور دیا جائے، اس ذہانت انگیز گفتگو سے آپ کا مسئلہ سیکنڈوں اور اس کا مسئلہ منٹوں میں حل ہو جائے گا۔
7۔ چونکہ اس وقت ہر جگہ مافیا ہے لہٰذا تم کو بھی کسی ایک مافیا کا حصہ بننا پڑے گا، اگر خدانخواستہ تمہارے باس علیل ہو جائیں تو ان کی خدمت ان کی ماں بہن اور بیوی سے بڑھ کر کرو، سر دبانے سے ایک گریڈ اور پاؤں دبانے سے دو گریڈ آگے چلے جاؤ گے۔
8۔ اپنی پبلک ریلیشنگ بڑھاؤ، تقریبات میں جاؤ سب کو اپنے وزیٹنگ کارڈ دو، جو کام کے بندے ہوں ان سے آہستہ آہستہ تعلقات بڑھاؤ اور ان کی اس حد تک مدح سرائی کرو کہ تم ان کے وجود کا ایک حصہ بن جاؤ۔
9۔ اگر تمہیں میڈیا میں اینکر پرسن بننا ہے تو اپنے اندر اعتماد پیدا کرو اور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی بھی رکھنی ہے ورنہ اس کے بغیر لفافوں کا حصول مشکل ہو گا۔
10۔ اپنے آپ کو ہمیشہ بڑے لوگوں کے درمیان رکھو، بزرگوں سے سنا ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لہٰذا تمہاری کمپنی ان لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے جسے میڈیا فوکس کرتا ہے۔''
اس نے یہ تمام باتیں خاموشی سے سنیں اور یہ کہہ کر کہ میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا، چلا گیا، پھر اس کا پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ چار ماہ بعد جب ہمارا اسلام آباد جانا ہوا، کیونکہ اے جی آفس میں ہمارے کچھ بل پھنسے ہوئے تھے جس وقت ہم نے علی کو یہ نادر مشورے دیے تھے اس وقت ہمارا نام سیما شیراز تھا، اس عرصے میں ہم شادی کے بعد سیما محسن ہو گئے تھے لہٰذا ہمارے سارے بل سیما محسن کے نام کے تھے، ابھی ہم اے جی آفس میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک چپراسی نے لپک کر ہم سے پوچھا ''بی بی! کس سے ملنا ہے؟''
''اکاؤنٹنٹ جنرل سے!'' ہم نے کہا۔
''مگر آپ ان سے براہ راست نہیں مل سکتیں، ٹائم لیا تھا آپ نے ان سے؟'' چپراسی نے تن کر کہا۔
''ٹائم تو نہیں لیا تھا اور ان سے براہ راست اس لیے ملنا ہے کہ گزشتہ پانچ مہینے سے ہم اس دفتر کے چکر لگا رہے ہیں مگر یہاں تو بغیر رشوت کے کام ہی نہیں ہوتا''۔ ہم نے چڑ کر کہا۔ ''خیر فی الحال آپ اپنا وزیٹنگ کارڈ دے دیں ہم ان کے پرسنل سیکریٹری کو دیتے ہیں، وہ مناسب سمجھیں گے تو آپ کو صاحب سے ملوا دیں گے''۔ ہم نے ان کو اپنا کارڈ دیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے بس دل میں یہ وسوسہ ضرور موجود تھا کہ ابھی چپراسی آ کر یہ نہ کہہ دے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ، آخر ہم کب تک انتظار کرتے، اٹھ کر کھڑے ہوئے، ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ چپراسی ہی نظر آ جائے مگر اس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا مگر اگلے ہی لمحے وہ اچانک عقبی دروازے سے نمودار ہوا اور بولا۔
''بی بی! پرسنل سیکریٹری صاحب بھی صاحب کے ساتھ کہیں وزٹ پر جا رہے ہیں، آپ کی فائل ان ہی کی ٹیبل پر ہے، نیچے کے عملے نے اپنا کام کردیا ہے، آپ دس ہزار روپے جمع کرا دیں اور یہ پی ایس صاحب کا کارڈ ہے، شام کو 5 سے پہلے ان سے فون کر کے پوچھ لیجیے گا کہ بڑے صاحب کے فائلوں پر دستخط ہوگئے یا نہیں۔ ویسے بی بی! میرا خیال ہے کل تک آپ کا کام ضرور ہو جائے گا۔ ہم نے چپراسی کے ہاتھ سے کارڈ لیا جس پر لکھا تھا:''علی شہزاد، پرسنل سیکریٹری ٹو اے جی''۔