مہنگائی کے اسباب کا خاتمہ ضروری

مہنگائی میں اضافے کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بے یقینی ہے

اخباری اطلاعات کے مطابق مہنگائی نئے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے، جنوری میں افراط زر کی شرح 27.6 تک پہنچ گئی۔

حکومت نے گزشتہ ماہ کے آخر میں ڈالر کی قیمت پر عائد غیر سرکاری حد (کیپ) ختم کر دی تھی ، جس کے نتیجے میں چھبیس سے تیس جنوری کے دوران روپے کی قدر میں 38.74 فی صد گراؤٹ ہوئی۔

مہنگائی میں اضافے کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بے یقینی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافے نے بھی مہنگائی کو مہمیز دی ہے ۔

پاکستان کو خوراک اور توانائی کی مہنگائی کا مسئلہ درپیش ہے، ہمارے ہاں خوراک کے طلب اور رسد کے اپنے مسائل ہیں ، خوراک کی پیداوارکی بے یقینی کا مسئلہ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور بیج کی بروقت اور سستے داموں نایابی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری خوراک کی پیداوار پر موسمی حالات اثر انداز ہوتے ہیں اگر موسم موافق رہے تو پیداوار ضرورت سے زائد بھی ہو سکتی ہے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں خوراک کی پیداوار کی محکمے اور اس کا انتظام دیانتدار اور معاملہ فہم افراد کے ہاتھوں میں نہیں، اہداف کا تعین اور پیداوار کا تخمینہ باقاعدہ مطالعے اور تحقیق کے بجائے اندازوں پر لگائے جاتے ہیں جس کے باعث یہ اندازے عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں اور ملک میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے۔

ایک اور مسئلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کرنا بھی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر' سبزی' آٹا اور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے۔

پاکستان کے شہروں میں اجناس کی منڈی کا میکنزم آڑھتیوں کے کنٹرول ہے جس کے نتیجے میں کسان ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے ۔ منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، یوں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے۔

کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے ، علاج معالجے اور دیگر ضروریات زندگی سے لے کر باورچی خانے اور تعلیمی اخراجات حد سے بڑھ گئے ہیں۔ مزدور کی مزدوری گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔

پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گاڑی مالکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر درمیانی طبقہ بری طرح پریشان ہے۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات ، گھریلو ضروریات ، علاج معالجے کے اخراجات کا خرچ ایک تنخواہ میں کہاں سے پورا کریں۔

مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کر کے اقتدار حاصل کرنے والوں نے برسر اقتدار آ کر مہنگائی ختم کرنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ، خود حکمران طبقہ امیر اور مراعات یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے انھیں آٹے دال کا بھاؤ تک معلوم نہیں اگر معلوم بھی ہو تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے کی فراوانی کے باعث ہر چیز ان کی پہنچ میں ہے مگر جس کی تنخواہ بیس ہزار ہو اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہو اس کے بچے بھی پڑھ رہے ہوں یا ایک شخص جو دیہاڑی دار مزدور ہے روز کی آمدنی سے اس کا گزارا ہوتا ہے۔

اگر کسی دن کام پر نہ جا سکے تو گھر والوں کی ضروریات کیسے پوری کرے؟ اخبارات میں خود کشی کے واقعات بھی تسلسل سے رپورٹ ہو رہے ہیں ،جن کی بنیادی وجہ غربت اور بیروزگاری تھی یعنی نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ لوگوں کا دین اور ایمان بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔

پاکستان میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کے ریٹ میں گزشتہ ایک سال کے دوران کم از کم دو گنا اضافہ نہیں ہوا۔


ایسا ہو سکتا ہے کہ درآمد شدہ مال کی ترسیل میں مشکلات ہوں لیکن مارکیٹ جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سوئی سے گاڑی تک تو ہر چیز باہر سے آ رہی ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کی مارکیٹ میں '' میڈ ان پاکستان'' کچھ بھی نہیں اور جو ہے اس کی قیمتیں بھی ا س لیے زیادہ مانگی جاتی ہیں کہ خام مال نہیں مل رہا۔ اس وقت بنیادی ضروریات زند گی آٹا ، گھی ، چینی ، ہی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا چُکی ہے۔

آج یہاں ہر چیز اتنی زیادہ مہنگی ہو گئی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کماتے ہیں، وہ کھانے پینے کی ضرورت بھی پوری نہیں کرتا۔ بجلی، پانی، گیس کے بلوں، بچوں کے اسکول کی فیسوں، اشیائے خوراک کی خریداری میں سے آپ کہاں اور کیا بچت کر سکتے ہیں؟ اس صورت حال میں تو بندہ بمشکل بس اپنا پیٹ ہی پال سکتا ہے۔

کم آمدنی والے اور بے روزگار لوگ مسلسل ایک عذاب سے گزر رہے ہیں، آمدنی کم اور اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں ، اکثر لوگوں نے تو بیماری کی صورت میں ڈاکٹروں تک کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ادویات انتہائی مہنگی ہو چکی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کا بھی برا حال ہے۔ جب بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا بھی ایک بڑی جدوجہد بن جائے، تو آپ بچوں کے لیے دودھ یا پھل خریدنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟

پاکستان میں امیر طبقہ خوراک پر شاید اپنی آمدنی کا بیس سے لے کر تیس فیصد تک خرچ کرتا ہے لیکن متوسط یا نچلے متوسط طبقے کے شہریوں کی بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا ستر سے لے کر اسی فیصد تک حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے، صرف زندہ رہنے کے لیے۔ جب اشیائے خوراک کی قیمتیں تیزی سے بڑھتی ہیں تو کم آمدنی والا طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے جانا شروع ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حکمران جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں؟ وہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کیسے کرتے ہیں؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے، جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 10 گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔

بجلی کا جو بلب 50 روپے کا درآمد کیا جاتا ہے وہ صارف کو 150 روپے میں ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ درمیان سے آڑھت کو نکال دیں تو صارف کو سستی چیزیں مل سکتی ہیں۔

مغربی ممالک میں کوئی صارف اگر کسی چیز کے معیار سے مطمئن نہ ہو تو وہ 15 دنوں سے ایک مہینے کے اندر انھیں واپس یا تبدیل کروا سکتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

اس وقت گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ مارکیٹ میں نئی گاڑی لینے جائیں تو چھ ماہ تک ویٹنگ ٹائم ہے، اگر فوری چاہیے تو دو سے 10 لاکھ تک اوون منی چل رہی ہے۔

پلاٹ آٹھ ماہ پہلے چار کروڑ کا تھا وہ اب آٹھ کروڑ کا ہو گیا ہے ۔اب تو درمیانے طبقے کے لیے دو کمروں پر مشتمل فلیٹ خریدنا یا گھر بنانا بھی ممکن نہیں ہے۔تعمیراتی سامان کے نرخوں کے تعین کا تو کوئی طریقہ کار ہی نہیں ہے 'سریا سیمنٹ 'اینٹ اور ٹائلز وغیرہ کے نرخ کون متعین کرتا ہے 'صارفین کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے 'اب تو یہ عالم ہے کہ نرخوں میں تبدیلی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایسا نہیں ہے کہ مہنگائی کو بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس حوالے سے مارکیٹ اکانومی کی مبادیات کابغورجائزہ لینا چاہیے۔مارکیٹ اکانومی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہی اور مارکیٹ اکانومی پرنجی شعبے کا مکمل کنٹرول ہو،مارکیٹ اکانومی کے سب سے بڑے علمبردار مغربی ممالک میں بھی ریاست مارکیٹ کو مستحکم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

برطانیہ جیسے ملک میں ٹرانسپورٹ کا سسٹم ریاست چلاتی ہے اور بھی کئی شعبے میں جو ریاست کی ملکیت ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے ریاست کو متحرک کردار بھی ادا کرنا ہے' اس مقصد کے لیے اس کنٹرولڈ معیشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، طب وصحت 'ٹرانسپورٹ اور ایجوکیشن کے شعبوں میں ریاست کو نجی شعبے کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

سرکاری اسپتالوں اورمیونسپلٹی کے زیراہتمام چلنے والی ڈسپنسریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے' یہاں کام کرنے والے ڈاکٹرز 'نرسزاور ٹیکنیشنز سمیت دیگر ملازمین کی تنخواہیں بہتر ہونی چاہئیں۔سرکاری اسپتالوں اور میونسپلٹی کی ڈسپنسریوںکی تعمیر و مرمت پر توجہ ہونی چاہیے۔یہاں طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے تونجی اسپتال وغیرہ خود بخود بے جا لوٹ مار سے باز آ جائیں گے۔

اسی طرح سرکاری یونیورسٹیوں' کالجوں 'ہائی اور پرائمری اسکولوں اور ان کے اساتذہ پر توجہ دی جائے تو نجی شعبے کے تعلیمی ادارے بھی اپنی فیسیں کم کر دیں گے۔
Load Next Story