ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

لوگوں کے گھروں میں شادیاں رکی پڑی ہیں کہ دس روپے کی چیز اب سو روپے میں مل رہی ہے

fatimaqazi7@gmail.com

ملک کا عجب حال ہے، ایسا لگتا ہے جیسے خدا ہم سے روٹھ گیا ہو، ہر طرف ایک افراتفری ، لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان اور تاجر طبقہ اس لیے پریشان کہ بازار میں خریدار نہیں ہے، لوگ اشیا کی قیمت پوچھ کر گزر جاتے ہیں، البتہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے لیے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس طبقے میں سیاستدان، بیورو کریٹ اور تاجر طبقہ شامل ہے۔

لوگوں کے گھروں میں شادیاں رکی پڑی ہیں کہ دس روپے کی چیز اب سو روپے میں مل رہی ہے ، بیوپاری خود ساختہ قیمتیں بھی بڑھا رہے ہیں، ایک ہی بازار میں ایک ہی قسم کی اشیا کے نرخ مختلف ہیں۔

کوئی پرسان حال نہیں ، آسمان سے اترکر تو کوئی آئے گا نہیں، یہاں قیادت کا کوئی کال نہیں، البتہ معاشی ماہرین کی حد درجے کمی ہے۔ وزیر اعظم نے اتنا وقت گزر جانے کے بعد یہ مژدہ جاں فزا سنایا ہے کہ حلف لیتے وقت انھیں پتا ہی نہیں تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے اور معیشت کا حال ناگفتہ بہ ہے۔

یہ تو بالکل وہی بات ہوگئی کہ عمران خان نے کہا تھا کہ انھیں تو پتا ہی نہ تھا کہ ان کے وزرا کیا کر رہے ہیں، نیز یہ کہ ایک زرعی ملک میں آٹا، چاول اور چینی کی قلت پیدا ہونے والی ہے، شہباز شریف بڑے ارمانوں سے وزیر اعظم بنے، ان کے خاندان میں خوشیاں منائی گئیں کہ وہ ہو گیا جس کا کبھی انھوں نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا، کاش ان میں اتنی جرأت ہوتی کہ حالات کا علم ہونے پر وہ کرسی وزارت چھوڑ دیتے۔

اس طرح ان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر چلا جاتا ، لیکن ایسا کبھی ہوا ہے اس ملک میں؟ وہی پرانی بات کہ اصل طاقت کا منبع کہیں اور ہے، وزرائے اعظم نوکریوں پر لگتے جاتے ہیں، وہ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ان طاقتوں کی چاکری کرنے لگتے ہیں جنھوں نے اقتدار کا عارضی تاج ان کے سر پر رکھا ہے۔

پاکستان کا وزیر اعظم اس شخص کی طرح ہے جسے ہاتھ پاؤں باندھ کر تیرنے کے لیے سمندر میں ڈال دیا گیا ہو اور وہ کنارے پہ کھڑے اپنے ان آقاؤں کو دیکھ رہا ہو جنھوں نے اسے سمندر میں پھینکنے کے ساتھ رسی کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں رکھا ہو، ذرا بھی کسی نے چوں چرا کی اور رسی کھینچ لی۔

شہباز شریف کے کام کرنے کا انداز مجھے شروع سے پسند ہے، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے جو ٹھان لی وہ کرکے دکھایا، اب وہ صرف پنجاب کے نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی ''پوری طرح'' بااختیار نہیں ہیں ، لیکن دو کام اگر وہ کر دیں تو واقعی عوام انھیں نہ صرف دعائیں دیں گے بلکہ (ن) لیگ کا ووٹ بینک بھی بڑھ جائے گا۔

ان دو کاموں میں سرفہرست ہے شادی اور ولیمے میں ون ڈش معہ ایک میٹھے کی پابندی کا۔ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں بیٹے اور بیٹیوں کی شادیاں انھی شاہ خرچیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہیں۔ قرض دار ہو کر لوگ شادیاں کر رہے ہیں۔

تقریبات کو دیکھیے تو آنکھیں چکا چوند ہو جائیں، چند دن قبل ہی ایک درمیانے طبقے کے گھرانے میں جانے کا اتفاق ہوا ، یقین کیجیے کہ معاشی حالات کا ہمیں علم تھا۔

اس پر بریانی، زردہ، چکن کڑھائی، حلیم، ترکی کباب، کشمیری چائے، کافی، آئس کریم، کولڈ ڈرنک اور مغلئی قورمہ، بیٹیوں کو سونے کے ٹاپس، بہنوں کو انگوٹھیاں اور نہ جانے کیا کیا ؟ پتا چلا انھوں نے اسی مقصد سے چار کمیٹیاں ڈالی تھیں، جو سب کی سب بیٹے کی شادی پر کھلیں، موصوف ایک چار منزلہ بلڈنگ کے مالک ہیں، قربانی کا جانور ایک مہینے پہلے لے آتے ہیں تاکہ محلے میں دھاک بیٹھے۔ کھانا کھایا کم جا رہا تھا ضایع زیادہ کیا جا رہا تھا۔

پتا نہیں کیوں شادی بیاہ میں لوگ اتنے ندیدے کیوں بن جاتے ہیں کہ پلیٹوں کو چوٹی تک بھر لیتے ہیں، پھر جو بھرا ہے وہ پسند نہیں آیا تو پلیٹ ایک طرف رکھ کر دوسری پہ طبع آزمائی کی، یہی حال ہر طرف تھا۔ اگر شہباز شریف صرف دو ایشوز پہ اپنی توجہ مرکوز کردیں تو لوگ انھیں یاد رکھیں گے۔


ہونا یہ چاہیے کہ اسمبلی میں بل پاس ہو کہ کسی بھی تقریب میں خواہ روزہ کشائی ہو، عقیقہ ہو، برأت ہو یا ولیمہ، اس میں صرف ایک کھانا اور ایک میٹھا ہوگا۔ باقاعدہ پابندی لگا دی جائے اور اگر اس حکم کی پابندی نہ کی گئی تو شادی ہال والوں پر اور میزبان پر بھاری جرمانہ کیا جائے۔ یقین کیجیے اس پابندی کا لوگ کھلے دل سے خیرمقدم کریں گے۔

یہ پابندی پورے ملک میں یکساں طور پر لگائی جائے تاکہ عوام تھوڑا سکھ کا سانس لے سکیں۔ کورونا میں لوگوں کے اجتماع پر پابندی تھی، اس دوران بھی شادیاں ہوئیں، جہاں کورونا ایک عفریت تھا وہیں بہت سے سفید پوشوں کا بھرم رکھ لیا اور لوگوں نے سادگی سے نکاح اور ولیمے کی تقریبات سرانجام دیں۔

ہمارے ہاں ایک بات بہت بری ہے، وہ ہے '' لوگ کیا کہیں گے'' لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ، لوگوں کی فکر چھوڑیں۔ لوگوں کا تو کام ہی یہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کریں، صرف لوگوں کی پرواہ کرکے خود کو مصیبت میں ڈالنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ لوگ تو پیت بھر کھائیں گے اور پھر بھی کوئی نہ کوئی نقص نکالیں گے۔

بریانی میں بوٹیاں کم تھیں، قورمے کا گوشت گلا ہوا نہیں تھا، میٹھا بس سو سو تھا ، کولڈ ڈرنک تک ٹھنڈی نہیں تھیں، کھیر میں پستہ بادام تو تھے ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ سچ کا سامنا کرنے سے کیوں کتراتے ہیں، لڑکا اور لڑکی والے مل بیٹھ کر طے کریں کہ کھانا ایک ہوگا اور میٹھا ایک ، چائے اور کولڈ ڈرنک موسم کے لحاظ سے ہوگی۔

یقین جانیے اگر لوگ یہ ہمت کرلیں اور '' لوگ کیا کہیں گے'' کو ایک طرف رکھ دیں تو دونوں خاندان ذہنی اور مالی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

چند ماہ پیشتر ایک خاندان میں شادی ہوئی، لڑکا اکلوتا تھا، تین بہنوں کا بھائی۔ ماں ایڈووکیٹ، باپ کی پرائیویٹ جاب کرتے ہیں، بیٹے نے اپنی پسند سے شادی کی، لڑکے والوں نے لڑکی والوں کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ لوگ بری میں سونے کا کوئی بھی زیور نہ دے سکیں گے اور نہ ہی انھیں جہیز درکار ہوگا۔

دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھا، اسی طرح دونوں خاندان عزت آبرو سے ایک اہم ذمے داری سے عہدہ برآ ہو گئے ، لیکن اتنی ہمت ہر ایک میں نہیں ہوتی۔

دوسرا مسئلہ یوں حل ہو سکتا ہے کہ پورے ملک میں کاروبار رات آٹھ بجے مکمل طور پر بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے اور جو عمل نہ کرے ایک سے دو لاکھ جرمانہ کیا جائے۔ ہم اس پر پہلے بھی بات کر چکے ہیں، ایک شور و غوغا اٹھا لیکن وہی حسب روایت تاجر برادری دو دھڑوں میں بٹ گئی۔

جیسا کہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔ آخر کورونا کے زمانے میں تو شام چھ بجے تمام بازار بند ہو جاتے تھے، تو اب کیوں نہیں؟ صبح کا وقت تاجروں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ کب وہ دکانیں کھولیں گے، صرف رات آٹھ بجے کے بعد کاروبار بند کروا دیا جائے۔ البتہ شادی ہال، ہوٹل اور بیکریاں رات دس بجے تک کھلی رہیں اور میڈیکل اسٹور رات گیارہ بجے تک کھولنے کی اجازت دی جائے۔ شہباز شریف یہ کرسکتے ہیں۔

اس طرح بجلی کی بچت ہوگی، مارکیٹوں میں بے شمار جگہوں پر کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے، ایک ایک دکان پر لاتعداد بلب روشن رہتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ یہ پابندی فوری لگائی جائے۔

کراچی کے لوگوں کی نظریں نئے میئر پر لگی ہوئی ہیں، یہ شہر مسائل کا گڑھ بن گیا ہے۔ ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جن پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں، گاڑی کے ٹائر ان سڑکوں پہ چلتے چلتے جواب دے جاتے ہیں، کچرے کا انبار ہر جگہ، غلاظت کے ڈھیر جگہ جگہ، بے ہنگم ٹریفک، لمبے لمبے راستے اور ہر طرف کے کٹ بند۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اتنا لمبا چکر کاٹنے سے پٹرول ضایع ہوگا لہٰذا وہ آنے والی روڈ سے جاتے ہیں اور جانے والی روڈ سے آتے ہیں۔

بڑے بڑے فلائی اوورز نے مسائل اور زیادہ بڑھا دیے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں ماہرین کی کمی نے مسائل بہت زیادہ بڑھا دیے ہیں۔ دیکھیے اب کراچی کے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ کبھی اس شہر میں جگہ جگہ کچرا کنڈیاں رکھی ہوتی تھیں، خاکروب کچرا اسی میں ڈالتے تھے اور اگلے دن بلدیہ کی گاڑیاں آ کر گندگی اٹھا کر لے جاتی تھیں، تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟
Load Next Story