کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب انسان پر بُرا وقت آتا ہے تو کوئی ساتھ نہیں دیتا
ایک ضرب المثل شعر ہے جسے غالب کے نام سے منسوب کر کے عموما لوگ یوں پڑھا کرتے ہیں۔
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اِس شعر کے خالق قربان علی بیگ ہیں جن کا تخلص تھا سالک۔ غیر معروف ہونے کی وجہ سے یہ شعر مرزا غالب کے کھاتے میں چلا گیا۔
غور فرمائیے تو اِس شعر میں بڑے پتہ کی بات کہی گئی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ تنگدستی سب سے بُری بلا ہے۔ اِس بات کو وہی جان سکتا ہے جو کبھی اِس عذاب سے گزرا ہو۔ بومؔ میرٹھی نے ایک نظم میں اِس کی خوب وضاحت کی ہے جس کا اندازہ اُن کے اِن چند اشعار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے:
کبھی بیوی کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا
کبھی اماں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلا لالا
مگر جب مفلسی کا آن کر گھر کو لگا تالا
مراد آباد کو اماں گئیں
میرٹھ گئیں خالہ
بوقتِ تنگدستی آشنا بیگانہ میگردد
صراحی چوں شَوَد خالی جدا پیمانہ میگردد
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب انسان پر بُرا وقت آتا ہے تو کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ سب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان بے سہارا اور تنِ تنہا رہ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سب ہوت کی جوت ہے۔ دوست احباب سب سکھ کے ساتھی ہیں اور دکھ کا ساتھی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اِسی بات کو ایک اور سخنور نے اِس شعر کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست
رب کریم سے یہی دعا کرتے رہیے کہ بدحالی اور تنگدستی سے کبھی پالا نہ پڑھے کیونکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاریکی میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب ، غربت سب سے بڑا عذاب ہے، بیماری کا نمبر اِس کے بعد ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب طِب کو پیشہ نہیں بلکہ خدمتِ خلق یا عبادت سمجھا جاتا تھا۔
طبیب مریض کا نہ صرف علاج کیا کرتے تھے بلکہ اُس کی شفایابی کے لیے دعا بھی کیا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی مزاج بھی تبدیل ہوتا رہا اور طِب کا شعبہ خدمت خلق سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ اور پیشہ بن گیا۔یہ بھی غنیمت تھا کہ اَطِبا انسان کو انسان سمجھتے تھے اور اُن کے دل میں مریض کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تھا لیکن صنعتی انقلاب آنے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ پیشہ عبادت سے بدل کر تجارت بن گیا۔ مادہ پرستی کے رجحان نے تمام اخلاقی اقدار کو مَلیا میٹ کردیا۔ علامہ اقبالؔ نے اپنی مشہور نظم '' لینن خدا کے حضور '' میں جو کچھ فرمایا تھا وہ آج کے دور میں حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کْچل دیتے ہیں آلات
ڈاکٹری کا مقدس پیشہ آج ٹکسال بن گیا ہے۔ ایک طرف انسان ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ رہا ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر منہ پھاڑے ہوئے ہیں ، جب سے اسپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا ہے دولت کمانے کی ہوس کی انتہا باقی نہیں رہی۔
ڈاکٹروں کے دل سے جذبہ ہمدردی اور خوفِ خدا نکل گیا ہے۔ سرکاری اسپتال شکار گاہوں میں تبدیل ہوگئے ہیں جہاں سے ڈاکٹرز مریضوں کو پھنسا کر اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں لاتے ہیں اور بھاری فیسیں کماتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا جو مریض کے تمام اعضاء کا علاج کیا کرتا تھا۔ نہ کوئی لیبارٹری ٹیسٹ ہوا کرتے تھے اور نہ کوئی اور علت۔ ابتدائی معائنہ میں پوری فیس وصول کی جاتی تھی اور اِس کے بعد کے تمام معائنوں میں صرف آدھی فیس لی جاتی تھی۔ اِس کے علاوہ مریض کی جب تک پوری تسلی نہ ہوجائے ڈاکٹر صاحب اُس وقت تک اپنی پوری توجہ مریض پر مرکوز رکھتے تھے۔
اب حال یہ ہے کہ ہر بار پوری فیس وصول کرنے کے بعد بھی ڈاکٹرز مریض کو رَوا رَوی میں دیکھ کر فارغ کر دیتے ہیں اور بعض ڈاکٹر تو مزاجا ایسے ہوتے ہیں کہ مریض سے سیدھے منہ اور زیادہ بات بھی نہیں کرتے۔ مزید برآں ڈاکٹروں سے اپوائنٹمنٹ لینا بھی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
نامی گرامی اور بڑے بڑے اسپتالوں کی تو بات ہی چھوڑیے جہاں مریض کی چمڑی اُدھیڑی جاتی ہے۔ ایسے اسپتال ملک کے بڑے بڑے شہروں میں موجود ہیں اور کراچی میں تو اِن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور یہ اسپتال بہت بڑی بڑی صنعتوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں کا تو حال ہی مت پوچھیے خدا دشمن کو بھی وہاں نہ لے جائے۔ غلاظت کا یہ عالم ہے کہ اِن کی حالت بُوچڑ خانوں سے بھی زیادہ بُری ہے۔ عملہ ڈیوٹی سے غائب اور دوائیں ناپید۔ نرسنگ اسٹاف کا عالم یہ کہ جیسے فراعین سے سابقہ پڑ رہا ہو۔ مریض بیچارے زندہ درگور اور لواحقین پریشان حال اور اُن کی سننے والا کوئی نہیں۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اب سنیے کراچی کے ایک معروف سرکاری اسپتال کا احوال جہاں ایک خاتون نے اسپتال کے واش روم میں بچے کو جنم دیا۔ اِس خبر پر خاتون کئی ایک مبارک بادوں کی مستحق ہوگئی۔ اسپتال سے زچہ وبچہ کا بخیریت اور زندہ نکل آنے پر مبارک باد۔
دوسری مبارک باد یہ کہ خوش قسمت خاتون نرسوں اور ڈاکٹروں کی دخل اندازی سے بچ گئی۔ تقریبا تمام سرکاری اسپتالوں کے نظام میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بہرحال ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں کو جیل یا بوچڑ خانہ کہنا نہ صرف اُن کے ساتھ بلکہ جیلوں اور بوچڑ خانوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اِس شعر کے خالق قربان علی بیگ ہیں جن کا تخلص تھا سالک۔ غیر معروف ہونے کی وجہ سے یہ شعر مرزا غالب کے کھاتے میں چلا گیا۔
غور فرمائیے تو اِس شعر میں بڑے پتہ کی بات کہی گئی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ تنگدستی سب سے بُری بلا ہے۔ اِس بات کو وہی جان سکتا ہے جو کبھی اِس عذاب سے گزرا ہو۔ بومؔ میرٹھی نے ایک نظم میں اِس کی خوب وضاحت کی ہے جس کا اندازہ اُن کے اِن چند اشعار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے:
کبھی بیوی کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا
کبھی اماں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلا لالا
مگر جب مفلسی کا آن کر گھر کو لگا تالا
مراد آباد کو اماں گئیں
میرٹھ گئیں خالہ
بوقتِ تنگدستی آشنا بیگانہ میگردد
صراحی چوں شَوَد خالی جدا پیمانہ میگردد
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب انسان پر بُرا وقت آتا ہے تو کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ سب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان بے سہارا اور تنِ تنہا رہ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سب ہوت کی جوت ہے۔ دوست احباب سب سکھ کے ساتھی ہیں اور دکھ کا ساتھی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اِسی بات کو ایک اور سخنور نے اِس شعر کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست
رب کریم سے یہی دعا کرتے رہیے کہ بدحالی اور تنگدستی سے کبھی پالا نہ پڑھے کیونکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاریکی میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب ، غربت سب سے بڑا عذاب ہے، بیماری کا نمبر اِس کے بعد ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب طِب کو پیشہ نہیں بلکہ خدمتِ خلق یا عبادت سمجھا جاتا تھا۔
طبیب مریض کا نہ صرف علاج کیا کرتے تھے بلکہ اُس کی شفایابی کے لیے دعا بھی کیا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی مزاج بھی تبدیل ہوتا رہا اور طِب کا شعبہ خدمت خلق سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ اور پیشہ بن گیا۔یہ بھی غنیمت تھا کہ اَطِبا انسان کو انسان سمجھتے تھے اور اُن کے دل میں مریض کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تھا لیکن صنعتی انقلاب آنے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ پیشہ عبادت سے بدل کر تجارت بن گیا۔ مادہ پرستی کے رجحان نے تمام اخلاقی اقدار کو مَلیا میٹ کردیا۔ علامہ اقبالؔ نے اپنی مشہور نظم '' لینن خدا کے حضور '' میں جو کچھ فرمایا تھا وہ آج کے دور میں حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کْچل دیتے ہیں آلات
ڈاکٹری کا مقدس پیشہ آج ٹکسال بن گیا ہے۔ ایک طرف انسان ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ رہا ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر منہ پھاڑے ہوئے ہیں ، جب سے اسپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا ہے دولت کمانے کی ہوس کی انتہا باقی نہیں رہی۔
ڈاکٹروں کے دل سے جذبہ ہمدردی اور خوفِ خدا نکل گیا ہے۔ سرکاری اسپتال شکار گاہوں میں تبدیل ہوگئے ہیں جہاں سے ڈاکٹرز مریضوں کو پھنسا کر اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں لاتے ہیں اور بھاری فیسیں کماتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا جو مریض کے تمام اعضاء کا علاج کیا کرتا تھا۔ نہ کوئی لیبارٹری ٹیسٹ ہوا کرتے تھے اور نہ کوئی اور علت۔ ابتدائی معائنہ میں پوری فیس وصول کی جاتی تھی اور اِس کے بعد کے تمام معائنوں میں صرف آدھی فیس لی جاتی تھی۔ اِس کے علاوہ مریض کی جب تک پوری تسلی نہ ہوجائے ڈاکٹر صاحب اُس وقت تک اپنی پوری توجہ مریض پر مرکوز رکھتے تھے۔
اب حال یہ ہے کہ ہر بار پوری فیس وصول کرنے کے بعد بھی ڈاکٹرز مریض کو رَوا رَوی میں دیکھ کر فارغ کر دیتے ہیں اور بعض ڈاکٹر تو مزاجا ایسے ہوتے ہیں کہ مریض سے سیدھے منہ اور زیادہ بات بھی نہیں کرتے۔ مزید برآں ڈاکٹروں سے اپوائنٹمنٹ لینا بھی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
نامی گرامی اور بڑے بڑے اسپتالوں کی تو بات ہی چھوڑیے جہاں مریض کی چمڑی اُدھیڑی جاتی ہے۔ ایسے اسپتال ملک کے بڑے بڑے شہروں میں موجود ہیں اور کراچی میں تو اِن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور یہ اسپتال بہت بڑی بڑی صنعتوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں کا تو حال ہی مت پوچھیے خدا دشمن کو بھی وہاں نہ لے جائے۔ غلاظت کا یہ عالم ہے کہ اِن کی حالت بُوچڑ خانوں سے بھی زیادہ بُری ہے۔ عملہ ڈیوٹی سے غائب اور دوائیں ناپید۔ نرسنگ اسٹاف کا عالم یہ کہ جیسے فراعین سے سابقہ پڑ رہا ہو۔ مریض بیچارے زندہ درگور اور لواحقین پریشان حال اور اُن کی سننے والا کوئی نہیں۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اب سنیے کراچی کے ایک معروف سرکاری اسپتال کا احوال جہاں ایک خاتون نے اسپتال کے واش روم میں بچے کو جنم دیا۔ اِس خبر پر خاتون کئی ایک مبارک بادوں کی مستحق ہوگئی۔ اسپتال سے زچہ وبچہ کا بخیریت اور زندہ نکل آنے پر مبارک باد۔
دوسری مبارک باد یہ کہ خوش قسمت خاتون نرسوں اور ڈاکٹروں کی دخل اندازی سے بچ گئی۔ تقریبا تمام سرکاری اسپتالوں کے نظام میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بہرحال ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں کو جیل یا بوچڑ خانہ کہنا نہ صرف اُن کے ساتھ بلکہ جیلوں اور بوچڑ خانوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔