پھولوں کے شہر میں خون کی ندیاں
پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن وہاں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں
پشاور سمیت سارا ملک ابھی تک سوگوار ہے۔ سوگ میںقومی پرچم بھی سرنگوں کیا گیا ہے، ہم سب پھر پژمردہ و افسردہ اور دلگیر واُداس ہیں۔ خونی سانحہ اے پی ایس کے بعد پشاور ہی میں ایک اور خونی سانحہ ہو چکا ہے۔
پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن وہاں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، اگر 8سال قبل پشاور میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ اے پی ایس( جس میں اسکول کے132معصوم بچوں سمیت150افراد کو ظالم و سفاک ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا) کے مجرموں کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جاتیں تو جنوری2023 کے آخری ہفتے پشاور کی پولیس لائن مسجد والا خونی سانحہ بھی پیش نہ آتا۔
30جنوری کو خود کش حملہ آور پشاور میں ہمارے 100 سے زائد بے گناہ شہری قتل کر دیں، مسجد میں ﷲ کے حضور جھکنے والوں کو شہید کر دیں اور ہمارے دلوں اور دماغوں پر افسردگی اور پژمردگی کے سیاہ بادل نہ چھا جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
کوئی ہمارے صبر اور آزمائشوں کی انتہا دیکھے کہ پچھلے 40 برسوں سے پاکستان اور اہلِ پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں ہیں۔ پھر بھی ہم جی رہے ہیں۔
جب بھی دہشت گرد ہمارے شہریوں کو سفاکی اور سنگدلی سے قتل کرتے ہیں، ہمیں امریکا، جہادِ افغانستان اور جنرل ضیاء الحق یاد آجاتے ہیں۔ اگلے روزسینیٹر مشاہد حسین سید نے سینیٹ میں ٹھیک کہا ہے:''ہم نے 5ارب ڈالر کا جہادِ افغانستان لڑا۔اس کے نتائج اب تک بھگت رہے ہیں۔''اس نام نہاد جہاد اور جنگِ افغانستان کے بطن سے جنم لینے والوں نے ہمارے باوردی جوانوں کے سنگدلی سے سر کاٹ کر اُن کے فٹ بال بنائے۔
ان ظالموں نے کالعدم ٹی ٹی پی کی شکل میں ہمارے ملک کے 80 ہزار بے گناہوں کا بیدردی سے خون بھی بہایا اور جب یہ عناصر کابل پر قابض ہوئے تو ہمارے کچھ لوگ کابل کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں چائے پیتے دیکھے گئے۔اگر وہ فتح کا جشن منانے گئے تھے تو اب پشاور سانحہ میں 100 سے زائد افراد کی شہادت اور سیکڑوں شدید زخمیوں کا خون بھی ہم انھی کے ہاتھوں پر تلاش کریں گے۔
افغان طالبان ملا عمر کی شکل میں جب پہلے بھی افغانستان کے حکمران بنے تھے، تب بھی ان کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو ٹھنڈی ہوا نہیں آئی تھی۔
یہ مسلسل ہمارے لیے دردِ سر بنے رہے۔ پاکستان پھر بھی بوجوہ ان کی ہر قسم کی اعانت و حمایت کرتا رہا۔ طالبان قیادت اور اُن کے بیوی بچے کوئٹہ سمیت پاکستان کے ہر شہر میں دندناتے رہے اور مہنگی جائیدادیں بناتے رہے ۔ہماری محبتیں ان کے لیے جاری و ساری رہیں۔ہماری سرحدیں بھی ان کے لیے کھلی رہیں جہاں سے یہ بغیر ویزہ ہمارے ملک میں داخل ہوتے رہے اور غدر مچاتے رہے۔
ہم نے ان کی طرف مگر اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں۔اور اب افغان طالبان پھر پچھلے ایک سال سے، ملا ہیبت اللہ کی شکل میں، افغانستان کے حکمران بنے ہیں تو یہ پھر پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔
ہم اِس حوالے سے کس پالیسی ساز کو موردِ الزام ٹھہرائیں؟ ہمارے وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، کا یہ کہنا کسی خطرے سے کم نہیں ہے کہ ''پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران 4لاکھ سے زائد مزید افغانی پاکستان میں آئے اور پھر واپس نہیں گئے۔''اور یوں یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں کہ ایسے بے دستاویز افغانی پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سہولت کار ہو سکتے ہیں ۔
اب یہ بات کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں ایک ہی مرشد کے ہاتھ بیعت ہیں۔ پھر فرق اور امتیاز کیسا؟ ٹی ٹی پی قیادت کو جس طرح افغان طالبان قیادت تحفظ فراہم کررہی ہے،اِس نے پاکستان اور پاکستانیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔
ان طالبان حکام سے تو کہیں بہتر پچھلے افغان حکمران ( حامد کرزئی اور اشرف غنی) تھے جن پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ بھارتی پٹھو ہیں۔
پاکستان کا ہر شہری پکار اُٹھا ہے:طالبان ، طالبان کے حامی اور ٹی ٹی پی مزید کتنے پاکستانیوں کا خون بہا کر مطمئن ہوں گے ؟آج ہمیں ولی خان مرحوم، اسفند یار ولی اور اے این پی کی سینئرقیادت کے وہ الفاظ شدت سے یاد آ تے ہیں جب وہ جہادِ افغانستان کے آغاز میں یہ کہا کرتے تھے :'' یہ جہاد نہیں، فساد ہے۔''
آج سابقہ جہادِ افغانستان واقعی معنوں میں فسادِ عظیم بن کر ہماری جان کو آگیا ہے۔ اِس حقیقت کو اب ہم سرکاری سطح پر بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
یکم فروری 2023کو قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے برملا اعتراف کیا کہ '' جہادی بنانا اور پالنا ہماری غلطی تھی''۔اِس سے بھی بڑی سنگین اور مہلک غلطی یہ کی گئی کہ جناب عمران خان کے دَور میں 100سے زائدسزا یافتہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کوبطورGoodwill Gesture پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔روزنامہ ''ایکسپریس ٹربیون''( بتاریخ22نومبر2021ئ) کی خبر اِس امر کی شاہد ہے۔
جمشید باغوان کی اِس خبر میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دَور میں کالعد ٹی ٹی پی کے ان سزا یافتہ دہشت گردوں نے Rahablitationکا عرصہ بھی پورا نہ کیا تھا اور ٹی ٹی پی کی قیادت نے ان کے چھوڑنے کا مطالبہ بھی پاکستان سے نہیں کیا تھا۔
اب اس ''فیشنی'' جملے سے ہمیں نجات حاصل کرنی چاہیے کہ '' دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ مسلک۔'' جی نہیں ۔ دہشت گردوں کا مذہب بھی ہوتا ہے اور مسلک بھی ۔ اِن کے مذہب و مسلک سے ہم سب خوب واقف اور آگاہ ہیں کہ ہمارا وجود ان کے خونی ہاتھوں سے لہو لہو ہو چکا ہے ۔
وزیر اعظم، صدرِ پاکستان، آرمی چیف اور ملک کی اکثریتی سیاسی و مذہبی قیادت کی طرف سے 30جنوری کے پشاور سانحہ کی مذمتیں آ چکی ہیں۔
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پشاور کے تازہ ترین خونریز سانحہ کے پیش منظر میں سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی طرف سے ابھی تک کوئی مذمتی بیان نہیں آیا ہے ۔اِس ضمن میں خیبر پختونخوا کے ایم این اے، نور عالم ، کی طرف سے یہ گلہ مناسب نہیں ہے کہ ''ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔''
حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پنجاب کو بھی اُتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا ان کے ہاتھوں سے خیبر پختونخوا کو پہنچا ہے ۔کیا نور عالم صاحب لاہور میں ایف آئی اے کی بلڈنگ ، داتا صاحب کے مزار شریف اور جامعہ نعیمیہ میں خود کش حملہ آوروں کی ڈھائی گئی قیامتیں بھول گئے ؟
پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن وہاں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، اگر 8سال قبل پشاور میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ اے پی ایس( جس میں اسکول کے132معصوم بچوں سمیت150افراد کو ظالم و سفاک ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا) کے مجرموں کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جاتیں تو جنوری2023 کے آخری ہفتے پشاور کی پولیس لائن مسجد والا خونی سانحہ بھی پیش نہ آتا۔
30جنوری کو خود کش حملہ آور پشاور میں ہمارے 100 سے زائد بے گناہ شہری قتل کر دیں، مسجد میں ﷲ کے حضور جھکنے والوں کو شہید کر دیں اور ہمارے دلوں اور دماغوں پر افسردگی اور پژمردگی کے سیاہ بادل نہ چھا جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
کوئی ہمارے صبر اور آزمائشوں کی انتہا دیکھے کہ پچھلے 40 برسوں سے پاکستان اور اہلِ پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں ہیں۔ پھر بھی ہم جی رہے ہیں۔
جب بھی دہشت گرد ہمارے شہریوں کو سفاکی اور سنگدلی سے قتل کرتے ہیں، ہمیں امریکا، جہادِ افغانستان اور جنرل ضیاء الحق یاد آجاتے ہیں۔ اگلے روزسینیٹر مشاہد حسین سید نے سینیٹ میں ٹھیک کہا ہے:''ہم نے 5ارب ڈالر کا جہادِ افغانستان لڑا۔اس کے نتائج اب تک بھگت رہے ہیں۔''اس نام نہاد جہاد اور جنگِ افغانستان کے بطن سے جنم لینے والوں نے ہمارے باوردی جوانوں کے سنگدلی سے سر کاٹ کر اُن کے فٹ بال بنائے۔
ان ظالموں نے کالعدم ٹی ٹی پی کی شکل میں ہمارے ملک کے 80 ہزار بے گناہوں کا بیدردی سے خون بھی بہایا اور جب یہ عناصر کابل پر قابض ہوئے تو ہمارے کچھ لوگ کابل کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں چائے پیتے دیکھے گئے۔اگر وہ فتح کا جشن منانے گئے تھے تو اب پشاور سانحہ میں 100 سے زائد افراد کی شہادت اور سیکڑوں شدید زخمیوں کا خون بھی ہم انھی کے ہاتھوں پر تلاش کریں گے۔
افغان طالبان ملا عمر کی شکل میں جب پہلے بھی افغانستان کے حکمران بنے تھے، تب بھی ان کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو ٹھنڈی ہوا نہیں آئی تھی۔
یہ مسلسل ہمارے لیے دردِ سر بنے رہے۔ پاکستان پھر بھی بوجوہ ان کی ہر قسم کی اعانت و حمایت کرتا رہا۔ طالبان قیادت اور اُن کے بیوی بچے کوئٹہ سمیت پاکستان کے ہر شہر میں دندناتے رہے اور مہنگی جائیدادیں بناتے رہے ۔ہماری محبتیں ان کے لیے جاری و ساری رہیں۔ہماری سرحدیں بھی ان کے لیے کھلی رہیں جہاں سے یہ بغیر ویزہ ہمارے ملک میں داخل ہوتے رہے اور غدر مچاتے رہے۔
ہم نے ان کی طرف مگر اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں۔اور اب افغان طالبان پھر پچھلے ایک سال سے، ملا ہیبت اللہ کی شکل میں، افغانستان کے حکمران بنے ہیں تو یہ پھر پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔
ہم اِس حوالے سے کس پالیسی ساز کو موردِ الزام ٹھہرائیں؟ ہمارے وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، کا یہ کہنا کسی خطرے سے کم نہیں ہے کہ ''پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران 4لاکھ سے زائد مزید افغانی پاکستان میں آئے اور پھر واپس نہیں گئے۔''اور یوں یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں کہ ایسے بے دستاویز افغانی پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سہولت کار ہو سکتے ہیں ۔
اب یہ بات کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں ایک ہی مرشد کے ہاتھ بیعت ہیں۔ پھر فرق اور امتیاز کیسا؟ ٹی ٹی پی قیادت کو جس طرح افغان طالبان قیادت تحفظ فراہم کررہی ہے،اِس نے پاکستان اور پاکستانیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔
ان طالبان حکام سے تو کہیں بہتر پچھلے افغان حکمران ( حامد کرزئی اور اشرف غنی) تھے جن پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ بھارتی پٹھو ہیں۔
پاکستان کا ہر شہری پکار اُٹھا ہے:طالبان ، طالبان کے حامی اور ٹی ٹی پی مزید کتنے پاکستانیوں کا خون بہا کر مطمئن ہوں گے ؟آج ہمیں ولی خان مرحوم، اسفند یار ولی اور اے این پی کی سینئرقیادت کے وہ الفاظ شدت سے یاد آ تے ہیں جب وہ جہادِ افغانستان کے آغاز میں یہ کہا کرتے تھے :'' یہ جہاد نہیں، فساد ہے۔''
آج سابقہ جہادِ افغانستان واقعی معنوں میں فسادِ عظیم بن کر ہماری جان کو آگیا ہے۔ اِس حقیقت کو اب ہم سرکاری سطح پر بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
یکم فروری 2023کو قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے برملا اعتراف کیا کہ '' جہادی بنانا اور پالنا ہماری غلطی تھی''۔اِس سے بھی بڑی سنگین اور مہلک غلطی یہ کی گئی کہ جناب عمران خان کے دَور میں 100سے زائدسزا یافتہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کوبطورGoodwill Gesture پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔روزنامہ ''ایکسپریس ٹربیون''( بتاریخ22نومبر2021ئ) کی خبر اِس امر کی شاہد ہے۔
جمشید باغوان کی اِس خبر میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دَور میں کالعد ٹی ٹی پی کے ان سزا یافتہ دہشت گردوں نے Rahablitationکا عرصہ بھی پورا نہ کیا تھا اور ٹی ٹی پی کی قیادت نے ان کے چھوڑنے کا مطالبہ بھی پاکستان سے نہیں کیا تھا۔
اب اس ''فیشنی'' جملے سے ہمیں نجات حاصل کرنی چاہیے کہ '' دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ مسلک۔'' جی نہیں ۔ دہشت گردوں کا مذہب بھی ہوتا ہے اور مسلک بھی ۔ اِن کے مذہب و مسلک سے ہم سب خوب واقف اور آگاہ ہیں کہ ہمارا وجود ان کے خونی ہاتھوں سے لہو لہو ہو چکا ہے ۔
وزیر اعظم، صدرِ پاکستان، آرمی چیف اور ملک کی اکثریتی سیاسی و مذہبی قیادت کی طرف سے 30جنوری کے پشاور سانحہ کی مذمتیں آ چکی ہیں۔
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پشاور کے تازہ ترین خونریز سانحہ کے پیش منظر میں سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی طرف سے ابھی تک کوئی مذمتی بیان نہیں آیا ہے ۔اِس ضمن میں خیبر پختونخوا کے ایم این اے، نور عالم ، کی طرف سے یہ گلہ مناسب نہیں ہے کہ ''ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔''
حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پنجاب کو بھی اُتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا ان کے ہاتھوں سے خیبر پختونخوا کو پہنچا ہے ۔کیا نور عالم صاحب لاہور میں ایف آئی اے کی بلڈنگ ، داتا صاحب کے مزار شریف اور جامعہ نعیمیہ میں خود کش حملہ آوروں کی ڈھائی گئی قیامتیں بھول گئے ؟