بہت دیر نہ ہو جائے

پیٹرول کی قیمت بڑھتے ہی اکثر دکان داروں نے پہلے سے پڑی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی ہیں

gfhlb169@gmail.com

اتوار 29جنوری 2023کو مسلم لیگ ن کے معاشی گُرو جناب اسحاق ڈار نے ٹی وی پر آ کر اعلان کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں فی لٹر 35روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ نئی قیمتیں فوری طور پر نافذالعمل ہو گئی ہیں۔

27جنوری سے سننے میں آ رہا تھا کہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اوگرا کی جانب سے یہ اطلاع سامنے آ رہی تھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔عوام اوگرا کے بیانات پر اعتماد نہیں کر رہے تھے۔

اس لیے پٹرول پمپوں پر بے تحاشہ رش ہونے لگا۔پٹرول پمپس مالکان زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے پمپس یا تو بند رکھ رہے تھے یا پھر کھلے توتھے لیکن پٹرول نایاب تھا، جیسے ہی پٹرول مہنگا ہوا، ادھر پٹرول کی قلت کا مصنوعی بحران پلک جھپکتے میں ختم ہو گیا۔ پٹرول پمپ بہانہ بنا رہے تھے کہ پٹرول آ نہیں رہا اور ان کے پاس پڑا پٹرول ختم ہو گیا ہے لیکن قیمتیں بڑھتے ہی نہ جانے کیسے، پٹرول ہر پمپ پر وافر مقدار میں موجود ہو گیا۔

سوئٹزرلینڈ میں ایک ریسرچ ہوئی جو بعد میں فراگ سینڈرومFrog Syndromeکے نام سے موسوم ہوئی۔ایک مینڈک پر مختلف تجربات کیے گئے اور اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے استفادہ کیا گیا۔

انھی تجربات میں سے ایک تجربے میں مینڈک کو پانی بھرے برتن میں ڈال کر چولہے پر رکھ دیا اور آگ جلا دی۔ابتدا میں شعلہ بہت مدھم تھا اور پانی ذرا سا گرم ہوا۔خالقِ کائنات نے مینڈک اور کچھ دیگر جانوروں کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ موسم اور درجہ حرارت کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔

مینڈک نے بھی پانی کے بڑھتے درجہ حرارت کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا،تجربہ کرنے والوں نے آگ کو تیز کیا اور پانی مزید گرم ہوا تو مینڈک نے بھی اپنے جسم کے درجہ حرارت کے مطابق ایڈجسٹ کر لیا حتیٰ کہ آگ نے پانی کو اتنا گرم کر دیا کہ پانی کھولنے لگا۔

یہ وہ درجہ حرارت تھا جس پر مینڈک اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کر سکتا تھا تب مینڈک نے پانی سے باہر کودنے کی کوشش کی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور پانی کے ساتھ لوہے کا برتن بھی آگ ہو چکا تھا۔

مینڈک اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور جل کر ختم ہو گیا۔ہمارے حالات بھی اس مینڈک کی مانند ہیں۔ہم ہر روز لُٹتے ہیں اور حالات بد سے بد ترین ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہم وقت پر کوئی بھی قدم اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ہم ایک اپاہج قوم بن گئے ہیں۔ہم بہت بے رحم بھی ہو چکے ہیں،اپنے ذاتی فائدے اورمنافع کے لیے معاشرے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پٹرول کی قیمت بڑھتے ہی اکثر دکان داروں نے پہلے سے پڑی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔بھلا پہلے سے پڑی اشیاء پر پٹرول کی نئی قیمتیں کیسے اثر انداز ہو گئی ہیں۔ایسے برتاؤ سے ہم اپنے ہم وطنوں کی زندگی آسان بنا رہے ہیں یا پھر مجرمانہ طور پر اجیرن کر رہے ہیں۔

1950اور 1960کی دہائی میں پیدا ہونے والے میرے ہم وطنوں کو یاد ہو گا کہ سابق مرحوم صدر ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت چند آنے بڑھی تو مظاہرے شروع ہو گئے۔

راولپنڈی پولی ٹیکنک کالج میں سیاسی احتجاج کے دوران پولیس کے ہاتھوں صرف ایک طالبعلم کی ہلاکت نے پورے ملک میں آگ لگا دی اور ایسے مظاہرے شروع ہوئے کہ ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا ہی پڑا۔اگر پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ 70کی دہائی تک پاکستانی قوم زندہ تھی۔

اس کے اندر احتجاج کی صلاحیت بدرجہ اتم مو جود تھی لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قول و فعل کے تضاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کے اسلامی انقلاب کے کھوکھلے نعرے نے عوام کو اتنا مایوس کر دیا کہ اب پانی جتنا بھی گرم ہو جائے قوم کچھ بھی کرنے کی ہمت نہیں پکڑتی کیونکہ اس کے ساتھ بار بار دھوکا ہوا ہے،بار بار اس کے خوابوں کوچکنا چور کیا گیا ہے۔ضیاء الحق نے کوڑے مار مار کر اس قوم کی ہمت اور جرات کو زمین بوس کر دیا۔اب کوئی سر اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا۔


قارئین کو یاد ہو گا کہ واپڈا،ریلوے،پوسٹ اور دوسرے کئی اداروں کی ٹریڈ یونینز کتنی فعال ہوتی تھیں۔ کالج اور یونیورسٹیوں کی طلباء یونینز ملکی معاملات میں بہت دلچسپی لیتی تھیں۔ہمارے وکلائ، وکلاء گردی کے بجائے ملکی معاملات و حالات پر گہری نظر رکھتے تھے۔

مزدور اپنی دیہاڑی چھوڑ کر مظاہروں میں شامل ہوتے تھے تاکہ زیادتی کے خلاف آواز میں ان کا بھی حصہ ہو۔ ٹریڈ یونین ، اسٹوڈنٹس یونین اور وکلاء کے رہنماؤں کو سارا ملک جانتا تھا اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن اب سب چپ ہیں۔

ہر کوئی اپنے معاملات اور مفادات سے متعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ برازیل کے دارالحکومت میں ایک آدمی انڈے لینے کے لیے گراسری شاپ گیا۔اس نے انڈوں کا کارٹن اٹھایا تو دکان دار نے اسے آواز دے کر بتایا کہ انڈے مہنگے ہو گئے ہیں۔

یہ خریدار دیکھ رہا تھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے انڈوں کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا تھا۔اس نے انڈوں کا کارٹن واپس رکھ کر دکان دار سے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے انڈے نہیں خریدے گا۔

اس نے مزید کہا کہ اس کا انڈوں کے بغیر بھی گزارا ہو جائے گا۔دکاندار نے کندھے اچکتے ہوئے تاثر دیاکہ اسے پروا نہیں۔خریدار نے ایک مائیک حاصل کیا اور گلی گلی پیغام دیا کہ ہر روز بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انڈے نہیں خریدنے چاہیئیں۔

لوگوں نے ابتدا میں تو زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن چند دنوں کے بعد سب نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور انڈے خریدنے بند کر دیے۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا۔ پولٹری ڈسٹری بیوٹرز انڈوں کے کارٹنز لیکر آئے تو دکانداروں نے بتایا کہ انھیں انڈے نہیں لینے کیونکہ پہلے والے کارٹنز ابھی نہیں بکے۔غرضیکہ چند ہی ہفتوں میں پولٹری والے تنگ آ گئے۔

انھوں نے نہ صرف بڑھی ہوئی قیمت کو واپس لیا بلکہ انڈے پہلے سے کچھ سستے کر دیے تاکہ لوگ اپنا احتجاج ختم کر کے دوبارہ انڈے خریدیں ورنہ برازیل میں پولٹری کاروبار کا جنازہ نکل جائے گا۔

پاکستان میں سر اُٹھانے،احتجاج کرنے کا چلن ناپید ہو چکا ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔ احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے حکومتوں کو قیمتیں بڑھانے کی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

جو قوم آئے روز ڈالر کی قدر میں اضافے،پٹرول،بجلی گیس اور خورو نوش کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے پر احتجاج کرنے کے بجائے دھڑا دھڑ زیادہ سے زیادہ چیزوں کی خریداری کر کے گھروں میںاسٹور کرنے اور گاڑیوں ،موٹر سائیکلز کی ٹینکیاں فل کروانے کے لیے پٹرول پمپس پر لائنوں میں لگ جائے۔

جہاں پٹرول پمپ مالکان لوگوں کی جیبیں کاٹنے کے لیے تیل کی مصنوعات کی قلت پیدا کریں،جہاں ایک طرف ملک میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ مقدار میں زرِ مبادلہ دستیاب نہ ہو اور دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اپنی رپورٹ کے مطابق 13 بینکوں نے صرف تین ماہ میں ڈالر بلیک کر کے 100ارب روپے کما لیے ہوں اور ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہ ہو۔

جہاں پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں کم و بیش 10 ارب ڈالر چھپا رکھے ہوں،کیا ایسے معاشرے سے کوئی خیر کی توقع رکھی جانی چاہیے۔یہ سب کچھ کر کے اور ملک کے وجود کو داؤ پر لگا کر بھی ہم محبِِ وطن ہی ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فطرت میں رحم نہیں ہوتا۔ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ ہمارا ملک ٹھیک ہو جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
Load Next Story