یوم کشمیر

کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے


مزمل سہروردی February 03, 2023
[email protected]

مودی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے اقدمات کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔

ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ایک دفعہ آبادی کا تناسب تبدیل کر لیا جائے گا تو رائے شماری کرانے کا شور مچادیا جائے گا۔ اس لیے اس سازش کو سمجھنے اور اس پر دنیا کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر رَقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔58%رَقبہ لَداخ،26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے، جب کہ55%آبادی مقبوضہ وادی کشمیر،43%جموں اور2%لَداخ میں رہتی ہے۔ مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کر نا ہے۔

اسی سلسلے میں مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021 سے2026 تک ملتوی کردیا ہے۔ اسی عرصہ میں آبادی کے تناسب کی تبدیل کرنے کے منصوبہ کو مکمل کیا جائے گا۔ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کے مُسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہاہے۔

آرٹیکلز 370 اور35-Aغیر آئینی طریقے سے ختم کر کے مودی سرکار مسلم اکثریت ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن مودی سرکار ہٹ دھرمی سے یہ کام کر رہی ہے، جب کہ ہم پاکستان میں اپنی سیاسی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے کسی کے پاس اس پر بات کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا تھا۔

کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت 42لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا۔ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔ گورکھا کمیونٹی کے 6600ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا۔

ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو دے دیا گیا ہے۔ RSS بھارت کو ہندو راشٹرا بنانا چاہتی ہے ، اس کا سیاسی ونگ ر BJPکافی عرصے سے لاکھوں ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔5لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔

ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا گھناؤنا منصوبہ حرکت میں آچکا ہے۔ ادھر شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیاہے۔

آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے لیے اب زمین حاصل کرنے کے لیے خصوصی سر ٹیفکیٹ (NOC) کی شرط ختم کر دی گئی۔

اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کواسٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سیکڑوں ایکڑز پر محیط ہوں گے۔ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988 اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹومنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش بھی دُنیا کے سامنے ہے۔ محبوبہ مُفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سر مایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔ مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں۔

بھارتی حکومت 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی خرید رہی ہے ۔قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے۔ اگست 2019 کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیر ی معیشت کو5.3بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔جموں و کشمیر میں BJPکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں۔

سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی (JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ۔جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی کی جا رہی ہے۔نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونگ رچاکر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثرو رَسوخ کم کیا جا سکے۔مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل ہوں گے۔ادھر مقبوضہ کشمیر کی قبائلی گجر آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔

ان کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے۔ ایک لاکھ سے زائد گجر بکروال آبادی پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ہزاروں مسلم بکروا ل خاندانوں کو ان کی چراگاہوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے، حالانکہ انھیں انڈیا کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

بھارت کے اپنے اپوزیشن لیڈر آرٹیکل370کی منسوخی کو آئین پر حملہ، تباہ کُن اور بھارتی ریاستی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دے چکے ہیں۔ بھارتی اقدامات اقوامِ متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔

جموں وکشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آپ ایک خیال کو قید نہیں کر سکتے بلکہ ایک اچھے خیال کا مقابلہ صرف ایک بہتر خیال ہی کرسکتا ہے۔ جب اختلاف رائے کے حق کو زبردستی کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگوں کو دیوار سے لگائے جانے کا احساس ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مزید اختلاف اور بیگانگی بڑھتی ہے۔

محبوبہ مفتی اور کشمیری رہنماعمر عبداللہ نے کہا کہ مُودی کے اقدامات ہمارے وطن کو ہندو وطن ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہ بھارتی آئین کے سراسر منافی ہے۔ ہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کروائیں گے۔ اگست 2019سے اب تک عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدامات کی مذمت کرتا آرہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتو نیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے نتائج خطے اور دُنیا کے لیے بے حد تباہ کُن ہوں گے۔

اس کے علاوہ Genocide Watch اورHuman Rights Watchکی کشمیر میں جاری نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹس بھی ناقابلِ تردید دستاویزات ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارت نے کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کے کمزور وفاقی ڈھانچے کو کاری ضرب لگا دی ہے۔بی بی سی واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کوIndia's Dark Moment in Kashmirقرار دیا۔ دی گارڈین نے اسے کشمیر کو انڈین کالونی بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔

کشمیر 7دہائیوں سے مسلسل زیرِ عتاب ہے۔ بھارت اب تک96ہزارسے زائد کشمیریوں کو قتلِ عام کر چکا ہے۔ تقریباََ23ہزار عورتوں کو بیوہ،ایک لاکھ 7ہزار سے زائدبچوں کو یتیم جب کہ11ہزار سے زائد عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی۔

دنیا بارہا بھارت کے اس بے بنیاد دعوے کو مسترد کر چکی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندورنی معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان اور پاکستانیوں کی توجہ کا طالب ہے۔ ہم اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اب تو یوم کشمیرپر بھی وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں