اردو بولنے پر ہزیمت
والدین کو سوشل میڈیا کے بجائے متعلقہ اداروں کو شکایت درج کرانی چاہیے تھی
کراچی، نارتھ ناظم آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول میں اردو بولنے پر پانچویں جماعت کے ایک طالب علم کے منہ پر سیاہی لگا کر اس کی تذلیل کی گئی اور دیگر طلبا کے سامنے اس کا تماشا بنایا گیا۔
اس بچے کے والد نے اس واقعے پر ویڈیو بنائی اور اس بچے کے ساتھ پیش آنے والے اہانت آمیز رویے کی روداد بیان کی کہ ان کے بچے کے منہ پر سیاہی لگا کر دیگر بچوں کے سامنے کھڑا کر کے سب بچوں کو کہا گیا '' اس پر ہنسو۔'' بچے کے والد نے ٹیچر اور پرنسپل سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
اس واقعے کے خلاف شہریوں کی جانب سے اسکول انتظامیہ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر منور عباس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اساتذہ تو معاشرہ ساز ہوتے ہیں، بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں ، لیکن ذرا سی غلطی پر طالب علم کی عزت نفس کو مجروح کرنا ایک استاد کو زیب نہیں دیتا۔ ایسے شخص کو میں استاد ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ وہ روحانی باپ ہوتا ہے ، یہ کیسا روحانی باپ ہے جو ایک طالب علم کے منہ پر کالک ملے اور پھر اس کا تمسخر اڑایا جائے۔
اراکین اسمبلی نے بھی تضحیک کا نشانہ بننے والے طالب علم کے گھر جا کر ہمدردی کا اظہار کیا اور اس واقعے کو انتہائی شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی زبان کے استعمال پر ہرزہ سرائی کرنا والدین سے بدتمیزی کرنا ، اسکول انتظامیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے ؟ اس کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔
سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کا ایک واجبی سا بیان سامنے آیا ہے جس میں اس واقعے کی مذمت کرنے کے بجائے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ضروری ہے۔ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کا موقف بھی سامنے آنا چاہیے۔
والدین کو سوشل میڈیا کے بجائے متعلقہ اداروں کو شکایت درج کرانی چاہیے تھی۔ جلد بازی والدین اور اساتذہ کے باہمی تعلقات کو خراب کرتی ہے۔ تصدیق کے بعد ہی صحیح یا غلط کا پت ا چل سکتا ہے۔ انفرادی غلطی کو اسکول کی کارکردگی نہ سمجھا جائے۔
ہمارے روایتی نظام میں بڑی خوش کن خبر اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم نے اس واقعے کا نوٹس لینے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کی، فوری طور پر ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر اس سے 3 دن کے اندر رپورٹ طلب کرلی اور اس کمیٹی نے بھی چشم زدن میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی۔
اس رپورٹ میں طالب علم کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اقدام جذبہ حب الوطنی اور قومی زبان سے محبت کے برعکس ہے۔ اسکول انتظامیہ معاملے کو حل کرنے اور والدین کی شکایت کے مداوے میں ناکام رہی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ پر محکمہ تعلیم نے اس تعلیمی ادارے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے اس کا رجسٹریشن بھی معطل کردیا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں کردار سازی کا عمل تقریباً ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ بری طرح اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ کمائی اور ایک کیمپس کے بعد دوسرا کیمپس بنانا رہ گیا ہے۔ حکومت کے کنٹرولنگ ادارے ان کے خاموش تائیدی نظر آتے ہیں۔
ان کی تنظیمیں بھی دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرح ان کے ہر سیاہ و سفید پر ان کی پشت بان ہوتی ہیں۔ حالاں کہ تعلیم، صحت و انصاف وہ شعبہ جات ہیں جن کا تعلق انسانوں کے بنیادی حقوق سے ہوتا ہے۔ ان میں میرٹ، شفافیت، انسانیت اور احساس ذمے داری کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں مختلف حکومتیں تعلیمی خدمت کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے مختلف تجربات و نمائشی اقدامات بھی کیے لیکن نظام و نصاب میں معیاری و مثبت تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کے بجائے اس کا مزید حلیہ بگاڑ دیا۔
انگریزوں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا تعلیمی نصاب ختم کر کے انگریزی نظام رائج کیا جس سے معاشرتی تقسیم نے جنم لیا۔ اردو ذریعہ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ذہین ترین طلبا کی اکثریت اوپر نہیں آسکی۔ ایک ہی ملک میں کئی قسم کے تعلیمی نصاب بنائے گئے۔
عصری ضروریات کو نظرانداز اور طلبا کو اپنی زبان، اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف و اکابرین سے دور کردیا گیا، مگر ہم نے 75 سالوں میں کیا کیا؟
آج ہمارے نوجوان اردو زبان بولتے ہوئے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنی قابلیت کو منوانے کے لیے انگریزی کی بے ساکھیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض کھلاڑی محض اس وجہ سے ریکارڈ قائم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ انھیں انگریزی زبان میں انٹرویو دینا ہوگا۔
وہ انگریزی بول نہیں سکتے اور انھیں صحیح اردو بھی بولنا نہیں آتی ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے جس پر قوم اور اہل اختیار و اقتدار حلقوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اگر وہ ملک و قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
اس بچے کے والد نے اس واقعے پر ویڈیو بنائی اور اس بچے کے ساتھ پیش آنے والے اہانت آمیز رویے کی روداد بیان کی کہ ان کے بچے کے منہ پر سیاہی لگا کر دیگر بچوں کے سامنے کھڑا کر کے سب بچوں کو کہا گیا '' اس پر ہنسو۔'' بچے کے والد نے ٹیچر اور پرنسپل سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
اس واقعے کے خلاف شہریوں کی جانب سے اسکول انتظامیہ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ اسکول انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر منور عباس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اساتذہ تو معاشرہ ساز ہوتے ہیں، بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں ، لیکن ذرا سی غلطی پر طالب علم کی عزت نفس کو مجروح کرنا ایک استاد کو زیب نہیں دیتا۔ ایسے شخص کو میں استاد ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ وہ روحانی باپ ہوتا ہے ، یہ کیسا روحانی باپ ہے جو ایک طالب علم کے منہ پر کالک ملے اور پھر اس کا تمسخر اڑایا جائے۔
اراکین اسمبلی نے بھی تضحیک کا نشانہ بننے والے طالب علم کے گھر جا کر ہمدردی کا اظہار کیا اور اس واقعے کو انتہائی شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی زبان کے استعمال پر ہرزہ سرائی کرنا والدین سے بدتمیزی کرنا ، اسکول انتظامیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے ؟ اس کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔
سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کا ایک واجبی سا بیان سامنے آیا ہے جس میں اس واقعے کی مذمت کرنے کے بجائے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ضروری ہے۔ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کا موقف بھی سامنے آنا چاہیے۔
والدین کو سوشل میڈیا کے بجائے متعلقہ اداروں کو شکایت درج کرانی چاہیے تھی۔ جلد بازی والدین اور اساتذہ کے باہمی تعلقات کو خراب کرتی ہے۔ تصدیق کے بعد ہی صحیح یا غلط کا پت ا چل سکتا ہے۔ انفرادی غلطی کو اسکول کی کارکردگی نہ سمجھا جائے۔
ہمارے روایتی نظام میں بڑی خوش کن خبر اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم نے اس واقعے کا نوٹس لینے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کی، فوری طور پر ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر اس سے 3 دن کے اندر رپورٹ طلب کرلی اور اس کمیٹی نے بھی چشم زدن میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی۔
اس رپورٹ میں طالب علم کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اقدام جذبہ حب الوطنی اور قومی زبان سے محبت کے برعکس ہے۔ اسکول انتظامیہ معاملے کو حل کرنے اور والدین کی شکایت کے مداوے میں ناکام رہی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ پر محکمہ تعلیم نے اس تعلیمی ادارے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے اس کا رجسٹریشن بھی معطل کردیا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں کردار سازی کا عمل تقریباً ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ بری طرح اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ کمائی اور ایک کیمپس کے بعد دوسرا کیمپس بنانا رہ گیا ہے۔ حکومت کے کنٹرولنگ ادارے ان کے خاموش تائیدی نظر آتے ہیں۔
ان کی تنظیمیں بھی دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرح ان کے ہر سیاہ و سفید پر ان کی پشت بان ہوتی ہیں۔ حالاں کہ تعلیم، صحت و انصاف وہ شعبہ جات ہیں جن کا تعلق انسانوں کے بنیادی حقوق سے ہوتا ہے۔ ان میں میرٹ، شفافیت، انسانیت اور احساس ذمے داری کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں مختلف حکومتیں تعلیمی خدمت کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے مختلف تجربات و نمائشی اقدامات بھی کیے لیکن نظام و نصاب میں معیاری و مثبت تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کے بجائے اس کا مزید حلیہ بگاڑ دیا۔
انگریزوں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا تعلیمی نصاب ختم کر کے انگریزی نظام رائج کیا جس سے معاشرتی تقسیم نے جنم لیا۔ اردو ذریعہ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ذہین ترین طلبا کی اکثریت اوپر نہیں آسکی۔ ایک ہی ملک میں کئی قسم کے تعلیمی نصاب بنائے گئے۔
عصری ضروریات کو نظرانداز اور طلبا کو اپنی زبان، اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف و اکابرین سے دور کردیا گیا، مگر ہم نے 75 سالوں میں کیا کیا؟
آج ہمارے نوجوان اردو زبان بولتے ہوئے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنی قابلیت کو منوانے کے لیے انگریزی کی بے ساکھیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض کھلاڑی محض اس وجہ سے ریکارڈ قائم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ انھیں انگریزی زبان میں انٹرویو دینا ہوگا۔
وہ انگریزی بول نہیں سکتے اور انھیں صحیح اردو بھی بولنا نہیں آتی ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے جس پر قوم اور اہل اختیار و اقتدار حلقوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اگر وہ ملک و قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔