حُبّ ر سول کریم ﷺ
اے ﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں
مفہوم: ''جن لوگوں نے ﷲ اور رسولؐ کی اطاعت کی وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر ﷲ تعالی نے انعام فرمایا یعنی نبیوں کے ساتھ اور صدیقین کے ساتھ شہیدوں کے ساتھ اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے اور یہ بہترین ساتھی ہیں۔'' (النسائی)
اس آیات کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابیؓ رحمت عالمؐ کے پاس تشریف لائے اور عرض کرنے لگے: اے ﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔
جب گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپؐ کو یاد کرتا ہوں تو جب آپؐ کا رخ انور نہیں دیکھ لیتا مجھے قرار نہیں آتا تو میں اپنے بال بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپؐ کے پاس دوڑا آتا ہوں آپؐ کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے اور دل کو قرار آجاتا ہے۔
تب میں واپس جاتا ہوں لیکن جب میں اپنی اور آپؐ کی جدائی کو یاد کرتا ہوں تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپ ؐ جنت میں داخل ہوں گے تو آپؐ انبیاء کے ساتھ بڑے بڑے درجات میں ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہُوا بھی تو میں نہ آپؐ دیکھ سکوں گا اور نہ آپؐ تک پہنچ سکوں گا تو بڑی تکلیف ہوگی۔
اس پر ﷲ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو ﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنّت میں نبیوں کے ساتھ ہوگا۔ اطاعت سے محبت کو مشروط کرکے وہ واضح کیا گیا کہ بغیر اطاعت و فرماں برداری حب رسولؐ کسی کام نہیں آنے والی ہے اور اطاعت و فرماں برداری بغیر محبت ہو نہیں سکتی۔ یہ حبِ رسولؐ کی فضیلت ہے کہ محّب اگر مطیع ہوگا تو جنت میں بھی قرب رسول ؐ حاصل کر سکے گا۔
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابیؓ خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ یا رسول ﷲ ﷺ! قیامت کب آئے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا: قیامت کی تم نے کیا تیاری کررکھی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کرکے تیاری تو نہیں کی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبت رسول ﷺ کا سرمایہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جس کے ساتھ تم محبت رکھو اس کے ساتھ تم جنّت میں جاؤ گے۔ (ترمذی)
قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سچی محبت رسولؐ ناصرف جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے بلکہ رحمت عالمؐ کی دائمی رفاقت کے حصول کا بھی سبب ہے، یقیناً اس شخص سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہو سکتا ہے جسے جنت میں سید العالمین ﷺ کی قربت حاصل ہوجائے۔
مسند احمد میں ہے، مفہوم: رسول ﷲ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کی قسم میری محبت جو رسول ؐ کے ساتھ ہے اور سیدنا ابوبکرؓ، عمر فاروقؓ، کے ساتھ ہے مجھے امید ہے ﷲ تعالیٰ مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ہیں۔
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ترجمہ: ''سچ ہے یہی محبت معیار اور کوئی ہے حق اور ناحق کے لیے جنہیں ﷲ اور رسول ﷲ ﷺ سے محبت ہے وہی سچے مطیع و فرماں بردار ہیں اور جو ﷲ اور رسول ؐ کے فرماں بردار نہیں ہیں وہ محّب رسولؐ نہیں ہیں۔''
کسی نے کیا خوب کہا ہے: ''تم محمدؐ کی نافرمانی کے باوجود محبت ظاہر کرتے ہو۔ اﷲ کی قسم! یہ تو زمانے میں عجیب بات ہے اگر تمہیں اﷲ کے رسولؐ کے ساتھ سچی محبت ہوتی تو تم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے، کیوں کہ دوست اپنے دوست کا کہا مانتا ہے۔''
محبت ایک طبعی کشش کا نام ہے جو اپنے محبوب کی طرف کھینچ لے جاتی ہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی مصیبت برداشت کرنی پڑے۔ امام کائناتؐ کی محبت خویش واقارب، ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ رکھنا ایمان کا جزو اعظم ہے۔
خود امام الانبیاء ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور سب لوگو ں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔'' (بخاری)
قرآن مجید نے رسول رحمتؐ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دی ہے، چناں چہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے اہل ایمان! دوست نہ بناؤ اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو اگر وہ کفر کو اسلام سے زیادہ عزیز رکھیں تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا پس وہ پورا گناہ گار اور ظالم ہے، کہہ دیجے کہ تمہارے آباؤ و اجداد تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں (محلات) جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں ﷲ سے اور اس کے رسول ؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو تم ﷲ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو اور ﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔''
(سورۃ التوبہ) اس آیت مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ﷲ اور اس کے رسولؐ کی محبت ماں باپ خویش واقارب مال دولت تجارت غرض یہ کہ دنیاوی تمام تر نعمتوں رشتوں سے بڑھ کر ہو تب دعویٰ ایمانی صحیح ہو سکتا ہے اس کے برعکس اگر ہمیں اپنے رشتے داروں اور کمائے ہوئے مال و دولت دنیا کی زمینیں، جائیدادیں اور تجارت اور خوب صورت پسندیدہ محلات کوٹھیاں وغیرہ ﷲ اور رسول ﷲ ﷺ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہوجائیں تو پھر ﷲ کے عذابوں کے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو کیا یہ افسوس ناک صورت حال سامنے نہیں آتی کہ ہم بس دنیاوی عیش و عشرت اور ہوس زر میں مبتلا ہو کر ﷲ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔
ہم زبانی کلامی تو دعویٰ حب رسولؐ کا کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ذاتی خواہشات، برادری کے رسم و رواج اور غیروں کی نقالی تو ہمیں بہت محبوب ہیں لیکن اسلامی احکامات اور سنت نبویؐ کی اتباع و فرماں برداری ہماری طبع نازک پر انتہائی گراں گزرتی ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کا سب سے اہم سبب یہی ہے کہ ہم نے ﷲ اور اس کے رسول ؐ کی محبت کے بہ جائے دنیا کی محبت کو دلوں میں سما لیا ہے۔
ہم نے محض دکھاوے کے لیے حب رسولؐ کے دعوے کرتے ہیں حالاں کہ صحابہ کرامؓ کی رحمت عالم ﷺ کے ساتھ محبت و عقیدت صحیح معنوں میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، وہ اپنے محبوب ترین پیغمبرؐ سے سچی محبت رکھتے اور سب کچھ نثار کرنے پر خوشی محسوس کرتے تھے۔ غزوہ احد میں ایک صحابیہؓ کے شوہر، بھائی اور بیٹے شہید ہوگئے وہ مدینہ منورہ سے نکل کر میدان جنگ میں آئیں تو ان سے کہا گیا کہ تمہارے خاوند اور بھائی اور بیٹا شہید ہوچکے ہیں۔ اس عظیم خاتون نے سب کی شہادت کی خبر سن کر پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ نبی کریم ﷺ کیسے ہیں۔۔۔ ؟ لوگوں نے کہا: الحمدﷲ! وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔
اس صحابیہؓ نے کہا: مجھے لے جا کر دکھا دو۔ لوگ انہیں امام کائناتؐ کی خدمت اقدس میں لے گئے جب ان کی نظر محبوب کبریا ؐ کے چہرہ مبارک پر پڑی تو بے ساختہ ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا، مفہوم: ''جب آپ ؐ زندہ سلامت ہیں تو آپ ؐ کے بعد ہر ایک مصیبت آسان ہے۔'' (زرقانی)
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: یہ تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا، ایک یہ کہ ﷲ اور اس کے رسول ﷲ ﷺ کی محبت اس کے دل میں سب سے زیادہ ہو اور ﷲ کے رسولؐ پر تم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ جس سے بھی محبت رکھے صرف ﷲ ہی کے لیے رکھے۔
تیسرا یہ کہ اسلام لانے کے بعد دوبارہ کافر بننا اس قدر ناگوار ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناگوار ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ کی محبت ایمان کی تکمیل کے لیے اور دخول جنت کے لیے ضروری ہے اور حب رسول ﷲ ﷺ کی نشانی یہ ہے کہ آپؐ کی سنتوں پر عمل کیا جائے۔
جیسا کہ خود رحمت عالم ؐ نے فرمایا: ''جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (ترمذی) صحابہ کرامؓ کو رسول ﷲ ﷺ سے بلند درجے کی محبت تھی کہ کوئی کام آپؐ کے قول یا فعل کے خلاف نہیں کرتے تھے۔ تابعداری آپؐ کی محبت کی سچی پہچان ہے۔ رسول اکرم ؐ کی تعظیم و توقیر بھی محبت میں داخل ہے اسی لیے صحابہ کرامؓ آپؐ کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے کیوں نہ کرتے کہ ﷲ تعالیٰ نے انہیں یہی تعلیم دی کہ رسول ﷲ ﷺ کی تعظیم کرو ان کے سامنے اونچی آواز میں نہ بولو۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کی طرح رسول ﷲ ﷺ کی سچی محبت و اطاعت فرماں برداری نصیب فرمائے۔ آمین
اس آیات کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابیؓ رحمت عالمؐ کے پاس تشریف لائے اور عرض کرنے لگے: اے ﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔
جب گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپؐ کو یاد کرتا ہوں تو جب آپؐ کا رخ انور نہیں دیکھ لیتا مجھے قرار نہیں آتا تو میں اپنے بال بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپؐ کے پاس دوڑا آتا ہوں آپؐ کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے اور دل کو قرار آجاتا ہے۔
تب میں واپس جاتا ہوں لیکن جب میں اپنی اور آپؐ کی جدائی کو یاد کرتا ہوں تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپ ؐ جنت میں داخل ہوں گے تو آپؐ انبیاء کے ساتھ بڑے بڑے درجات میں ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہُوا بھی تو میں نہ آپؐ دیکھ سکوں گا اور نہ آپؐ تک پہنچ سکوں گا تو بڑی تکلیف ہوگی۔
اس پر ﷲ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو ﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنّت میں نبیوں کے ساتھ ہوگا۔ اطاعت سے محبت کو مشروط کرکے وہ واضح کیا گیا کہ بغیر اطاعت و فرماں برداری حب رسولؐ کسی کام نہیں آنے والی ہے اور اطاعت و فرماں برداری بغیر محبت ہو نہیں سکتی۔ یہ حبِ رسولؐ کی فضیلت ہے کہ محّب اگر مطیع ہوگا تو جنت میں بھی قرب رسول ؐ حاصل کر سکے گا۔
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابیؓ خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ یا رسول ﷲ ﷺ! قیامت کب آئے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا: قیامت کی تم نے کیا تیاری کررکھی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کرکے تیاری تو نہیں کی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبت رسول ﷺ کا سرمایہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جس کے ساتھ تم محبت رکھو اس کے ساتھ تم جنّت میں جاؤ گے۔ (ترمذی)
قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سچی محبت رسولؐ ناصرف جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے بلکہ رحمت عالمؐ کی دائمی رفاقت کے حصول کا بھی سبب ہے، یقیناً اس شخص سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہو سکتا ہے جسے جنت میں سید العالمین ﷺ کی قربت حاصل ہوجائے۔
مسند احمد میں ہے، مفہوم: رسول ﷲ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کی قسم میری محبت جو رسول ؐ کے ساتھ ہے اور سیدنا ابوبکرؓ، عمر فاروقؓ، کے ساتھ ہے مجھے امید ہے ﷲ تعالیٰ مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ہیں۔
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ترجمہ: ''سچ ہے یہی محبت معیار اور کوئی ہے حق اور ناحق کے لیے جنہیں ﷲ اور رسول ﷲ ﷺ سے محبت ہے وہی سچے مطیع و فرماں بردار ہیں اور جو ﷲ اور رسول ؐ کے فرماں بردار نہیں ہیں وہ محّب رسولؐ نہیں ہیں۔''
کسی نے کیا خوب کہا ہے: ''تم محمدؐ کی نافرمانی کے باوجود محبت ظاہر کرتے ہو۔ اﷲ کی قسم! یہ تو زمانے میں عجیب بات ہے اگر تمہیں اﷲ کے رسولؐ کے ساتھ سچی محبت ہوتی تو تم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے، کیوں کہ دوست اپنے دوست کا کہا مانتا ہے۔''
محبت ایک طبعی کشش کا نام ہے جو اپنے محبوب کی طرف کھینچ لے جاتی ہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی مصیبت برداشت کرنی پڑے۔ امام کائناتؐ کی محبت خویش واقارب، ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ رکھنا ایمان کا جزو اعظم ہے۔
خود امام الانبیاء ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور سب لوگو ں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔'' (بخاری)
قرآن مجید نے رسول رحمتؐ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دی ہے، چناں چہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے اہل ایمان! دوست نہ بناؤ اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو اگر وہ کفر کو اسلام سے زیادہ عزیز رکھیں تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا پس وہ پورا گناہ گار اور ظالم ہے، کہہ دیجے کہ تمہارے آباؤ و اجداد تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں (محلات) جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں ﷲ سے اور اس کے رسول ؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو تم ﷲ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو اور ﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔''
(سورۃ التوبہ) اس آیت مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ﷲ اور اس کے رسولؐ کی محبت ماں باپ خویش واقارب مال دولت تجارت غرض یہ کہ دنیاوی تمام تر نعمتوں رشتوں سے بڑھ کر ہو تب دعویٰ ایمانی صحیح ہو سکتا ہے اس کے برعکس اگر ہمیں اپنے رشتے داروں اور کمائے ہوئے مال و دولت دنیا کی زمینیں، جائیدادیں اور تجارت اور خوب صورت پسندیدہ محلات کوٹھیاں وغیرہ ﷲ اور رسول ﷲ ﷺ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہوجائیں تو پھر ﷲ کے عذابوں کے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو کیا یہ افسوس ناک صورت حال سامنے نہیں آتی کہ ہم بس دنیاوی عیش و عشرت اور ہوس زر میں مبتلا ہو کر ﷲ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔
ہم زبانی کلامی تو دعویٰ حب رسولؐ کا کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ذاتی خواہشات، برادری کے رسم و رواج اور غیروں کی نقالی تو ہمیں بہت محبوب ہیں لیکن اسلامی احکامات اور سنت نبویؐ کی اتباع و فرماں برداری ہماری طبع نازک پر انتہائی گراں گزرتی ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کا سب سے اہم سبب یہی ہے کہ ہم نے ﷲ اور اس کے رسول ؐ کی محبت کے بہ جائے دنیا کی محبت کو دلوں میں سما لیا ہے۔
ہم نے محض دکھاوے کے لیے حب رسولؐ کے دعوے کرتے ہیں حالاں کہ صحابہ کرامؓ کی رحمت عالم ﷺ کے ساتھ محبت و عقیدت صحیح معنوں میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، وہ اپنے محبوب ترین پیغمبرؐ سے سچی محبت رکھتے اور سب کچھ نثار کرنے پر خوشی محسوس کرتے تھے۔ غزوہ احد میں ایک صحابیہؓ کے شوہر، بھائی اور بیٹے شہید ہوگئے وہ مدینہ منورہ سے نکل کر میدان جنگ میں آئیں تو ان سے کہا گیا کہ تمہارے خاوند اور بھائی اور بیٹا شہید ہوچکے ہیں۔ اس عظیم خاتون نے سب کی شہادت کی خبر سن کر پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ نبی کریم ﷺ کیسے ہیں۔۔۔ ؟ لوگوں نے کہا: الحمدﷲ! وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔
اس صحابیہؓ نے کہا: مجھے لے جا کر دکھا دو۔ لوگ انہیں امام کائناتؐ کی خدمت اقدس میں لے گئے جب ان کی نظر محبوب کبریا ؐ کے چہرہ مبارک پر پڑی تو بے ساختہ ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا، مفہوم: ''جب آپ ؐ زندہ سلامت ہیں تو آپ ؐ کے بعد ہر ایک مصیبت آسان ہے۔'' (زرقانی)
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: یہ تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا، ایک یہ کہ ﷲ اور اس کے رسول ﷲ ﷺ کی محبت اس کے دل میں سب سے زیادہ ہو اور ﷲ کے رسولؐ پر تم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ جس سے بھی محبت رکھے صرف ﷲ ہی کے لیے رکھے۔
تیسرا یہ کہ اسلام لانے کے بعد دوبارہ کافر بننا اس قدر ناگوار ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناگوار ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ کی محبت ایمان کی تکمیل کے لیے اور دخول جنت کے لیے ضروری ہے اور حب رسول ﷲ ﷺ کی نشانی یہ ہے کہ آپؐ کی سنتوں پر عمل کیا جائے۔
جیسا کہ خود رحمت عالم ؐ نے فرمایا: ''جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (ترمذی) صحابہ کرامؓ کو رسول ﷲ ﷺ سے بلند درجے کی محبت تھی کہ کوئی کام آپؐ کے قول یا فعل کے خلاف نہیں کرتے تھے۔ تابعداری آپؐ کی محبت کی سچی پہچان ہے۔ رسول اکرم ؐ کی تعظیم و توقیر بھی محبت میں داخل ہے اسی لیے صحابہ کرامؓ آپؐ کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے کیوں نہ کرتے کہ ﷲ تعالیٰ نے انہیں یہی تعلیم دی کہ رسول ﷲ ﷺ کی تعظیم کرو ان کے سامنے اونچی آواز میں نہ بولو۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کی طرح رسول ﷲ ﷺ کی سچی محبت و اطاعت فرماں برداری نصیب فرمائے۔ آمین