قرضوں کا بوجھ اور مشکل فیصلے

مشکل فیصلے کرنے ہی ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی فہرست کیوں تیار نہیں کرتے جو ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں


محمد عارف میمن February 03, 2023
معیشت کو سنبھالنے کےلیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان ڈیفالٹ ہونے کی خبریں اب روز کا معمول بنتی جارہی ہیں۔ ڈالر روزانہ اوپر ہی جارہا ہے، قرضے بڑھتے جارہے ہیں، معیشت تباہ ہوچکی ہے، ہزاروں کنٹینرز پورٹ پر محض اس لیے پھنسے ہوئے ہیں کہ ڈالرز ختم ہوچکے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہوگیا، مزید مہنگا ہونے کی خبر بھی سنائی دے رہی ہے۔ اخراجات روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ کوئی ایسی امید باقی نہیں رہی جس پر یہ کہا جاسکے کہ پاکستان جلد بہتر نہ سہی اپنی سابق حالت میں ہی واپس آجائے گا۔

معیشت کو سنبھالنے کےلیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی باتیں کی جارہی ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قرضوں سے ہمیں کیا ملا؟ ہم عوام کیوں مزید قرض تلے دب گئے؟ ہم نے تو کبھی بینکوں کا رخ بھی نہیں کیا، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ قرض کب اور کیوں لیا گیا، کس کی اجازت سے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے پاس گئے؟ ہم تو روزانہ مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ ہمارے نام پر اگر کسی نے قرض لیا تو اس قرض سے ہمیں ریلیف کیوں نہیں ملا؟

اگر یہ قرض تعلیم کے نام پر لیا گیا تو ہمیں بتایا جائے کہ آج ہمارے بچے پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں کیوں تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ اگر یہ قرض صحت کےلیے لیا گیا تو ہمیں بتایا جائے کہ کیوں ہم پرائیوٹ اسپتالوں میں پریشان ہورہے ہیں؟ اگر یہ قرض سڑکوں کی تعمیر کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے ہم کیوں آج بھی کھنڈرات پر چل رہے ہیں؟ اگر یہ قرض تعمیر و ترقی کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے کہ ہم کیوں پھر تنزلی کا شکار ہیں۔ کیوں ہم اس قرض کی بدولت ترقی کے بجائے آج ڈیفالٹ کی حالت پر پہنچ گئے؟

اگر یہ قرض بچوں کی دیکھ بھال کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے کہ ملک میں غریب کا بچہ کیوں پیدا ہوتے ہی مررہا ہے؟ اگر یہ قرض یوٹیلٹی اسٹورز پر دی جانے والی سسبڈی کےلیے لیا گیا تو بھی ہمیں یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ وہ کون سی اشیا ہیں جن پر سسبڈی دی گئی، جو ہمیں آج تک نہیں ملی؟ اگر یہ قرض سرکاری عمارتوں کی تزئین و آرائش پر خرچ کیا گیا تو بھی ہمیں بتایا جائے کہ کس ادارے کو کتنا نوازا گیا؟ دنیا سے ملنے والی بھیک اور قرض کہاں خرچ ہوا، یہ جاننا عوام کا حق ہے اور یہ عوام سوال کرتے ہیں کہ یہ قرض جنہوں نے لیا وہ کیوں مالدار ہوگئے؟ ان لوگوں کے ہاتھوں میں کون سا قارون کا خزانہ لگ گیا جس سے یہ لوگ راتوں رات امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔

یہ قرض محض عوام کو بے وقوف بنانے کےلیے لیے گئے۔ یہ قرض اشرافیہ پر خرچ کیے گئے۔ یہ قرض حکمرانوں نے اپنی ذات پر خرچ کیے۔ اس قرض سے ان کی اولاد مستفید ہوتی رہی، اور یہ قرض اتارنے کی ذمے داری ہمیشہ عوام کے کمزور کاندھوں پر رکھی گئی۔ ہمیں گروی رکھ کر قرض لیے جاتے رہے اور آج یہ حال ہے کہ ملک ڈیفالٹ کی حالت پر پہنچا ہوا ہے۔ دودھ 200 روپے لیٹر، پیاز چھ ماہ سے 250 روپے کلو بک رہی ہے، آٹا عوام کی دسترس سے باہر ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے چاول کے نرخ بھی آسمان پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن حکومت بار بار یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہی ہے کہ سب ٹھیک ہے، ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ فلاں ملک نے اتنا قرض دیا، فلاں بینک نے اتنا قرض دیا۔ اور بدلے میں یہ شرطیں ہم نے زہر کا گھونٹ پی کر مان لی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ زہر حکمرانوں نے نہیں بلکہ عوام پی رہے ہیں اور یہ زہر آج سے نہیں برسوں سے پیتے آرہے ہیں سکسک سکسک کر مررہے ہیں۔ لیکن اشرافیہ اور حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں۔

آج ایک عام آدمی اپنے دو بچوں کو پالنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ وہ صبح گھر سے نکلتا ہے تو رات کو گھر لوٹتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے کنبے کا بہتر طریقے سے خیال نہیں رکھ پارہا۔ 8 گھنٹے کی نوکری کرنے والا شخض 18 گھنٹے کام کررہا ہے، مگر حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں نظر آنے والے عوام دراصل بے روزگاروں کی ایک فوج ہوتی ہے، جسے یہ لوگ اپنے فالورز کہتے ہیں۔ یہ روزگار اور چند ٹکوں کی خاطر گھر سے اس امید پر نکلتے ہیں کہ شام کو جب جائیں گے تو بچوں کےلیے کچھ خرید سکیں گے۔ مگر وہ حکمرانوں کی جھوٹی و فریبی باتوں کے سوا کچھ نہیں لے جاتے۔

حکومت سمجھتی ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے سے دو فیصد طبقے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور ان کی نظر میں یہ دو فیصد ہی کل آبادی ہے۔ جب کہ 98فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے آچکی ہے۔ جہاں انہیں دو وقت کی روٹی بھی سکون سے میسر نہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ادارے بند ہورہے ہیں، لوگ بے روزگار ہورہے ہیں، جو ادارے چل رہے ہیں وہاں تنخواہیں کئی سال سے بڑھی ہی نہیں، جو جتنی تنخواہ پر کام کررہا تھا آج بھی اسی تنخواہ پر موجود ہے۔ مگر یہ سب حکومت کو نظر نہیں آتا۔ ایک مزدور کی تنخواہ پچیس ہزار کرنے کا اعلان آج بھی اعلان کی حد تک ہی ہے۔ جب کہ اسے تنخواہ اٹھارہ سے بیس ہزار روپے ہی مل رہی ہے۔ لیکن وہ مجبور ہے کہ چھوڑ کرکہیں جا بھی نہیں سکتا۔ اپنی عزت نفس کا سودا کرکے جب وہ تنخواہ ہاتھ میں لیتا ہے تو اس تنخواہ پر بھی حکومت کی نظر ہوتی ہے اور جو راشن وہ خریدے گا اس پر اسے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

ملک ڈیفالٹ ہورہا ہے مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بدستور ہر سال مسلسل اضافہ لازم ہے۔ ملک ڈیفالٹ ہورہا ہے مگر حکومت کی عیاشی آج بھی ویسی ہے جیسی کل تھی۔ ملک ڈیفالٹ ہورہا ہے مگر رشوت آج بھی عام ہے۔ ملک ڈیفالٹ ہورہا ہے مگر اس کے باوجود سرکاری دفاتروں کی رونقیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ لوگ روزگار کےلیے دربدر بھٹک رہے ہیں، اور سرکاری ملازمین آج بھی گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ اگر ان کی ایک ماہ کی تنخواہ صرف چند دن لیٹ کردی جائے تو یہ سرکاری ملازمین جنہوں نے ملک وقوم کی خدمت کا عہد کیا ہوا ہے، وہ سڑکوں پر نکل کر اسی ملک وقوم کی بینڈ بجادیتے ہیں۔ انہیں ہر طرح کی سہولیات مہیا کرتے کرتے عوام مرچکے ہیں، لیکن ان کے پیٹ آج بھی بھرنے کا نام نہیں لے رہے۔

274 بلین ڈالرز کا قرض ہم اپنے اوپر چڑھا چکے ہیں مگر آج بھی ہمیں تعلیم، صحت، روزگار، ترقی اور سکون میسر نہیں۔ اتنے قرضوں کے باوجود بھی ہم بھوکے کیوں ہیں؟ اتنا قرض لینے کے باوجود بھی ہم دنیا میں آگے کے بجائے پیچھے کیوں جارہے ہیں۔ اور اتنا قرض لینے کے بعد بھی ہم مزید قرضوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ اور اگر یہ قرض اتنا ہی ضروری ہے تو پھر ہم ایسے متبادل ذرائع کی طرف کیوں نہیں جاتے جس کی بدولت ہمیں قرض کی طرف جانا ہی نہ پڑے؟ ہم کیوں امدادی خیراتی پروگرام بند نہیں کرتے اوراس کے بدلے کارخانے کیوں نہیں لگاتے، جس سے ایک نہیں بلکہ دس گھروں کی کفالت ہوسکتی ہے؟ ہم کیوں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی نہیں کرتے؟ ہم کیوں اشرافیہ کی لوٹ مار کو لگام نہیں دیتے؟ ہم کیوں پارلیمنٹرین اور وزرا کی تعداد کم کرنے کے ساتھ ان کی تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے بند نہیں کرتے؟ ہم کیوں ان کا فیول، بجلی کے یونٹ، گیس اور میڈیکل بند نہیں کرتے؟

مشکل فیصلے کرنے ہی ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی فہرست کیوں تیار نہیں کرتے جو ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں؟ ایسے ادارے کیوں بند نہیں کرتے جس سے عوام کو ایک پائی کا بھی فائدہ حاصل نہیں ہورہا؟ کچھ وقت کےلیے 15 گریڈ سے اوپر کے تمام افسران سے گھر، گاڑی، بجلی، صحت اور تعلیم کے پیسے کیوں چارج نہیں کرتے؟ مشکل وقت میں وزیراعظم ہاؤس اورصدر ہاؤس کے اخراجات کو کیوں کنٹرول نہیں کرتے؟ فری ٹکٹس اور فری سروس کیوں بند نہیں کرتے؟ کچھ وقت کےلیے ہی سہی مگر کچھ فیصلے اپنے اوپر بھی اپلائی کریں ہر مشکل فیصلے غریب کے سرپر مت تھوپیے۔ یہ غریب ہی ملک کی اصل طاقت ہیں اور ہم اس اصل طاقت کو مارنے پر تلے ہیں۔ ہمارے بچے آج قلم کی جگہ چاقو اور پستول اٹھانے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس کا نشانہ آج عوام ہیں تو کل آپ کی اولاد بھی ہوسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، کچھ مشکل فیصلے خود پر بھی کرکے دیکھ لیجیے تاکہ آپ کو بھی احساس ہو کہ عوام کیسے جی رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں