انتخابی مہم اضافی رعنائی ہے
محاذ آرائی ،الزام تراشی اور طعن و دشنام کے تیروں سے میدان سیاست میں گھمسان کا جو رن پڑتا...
صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا کر دم لیں گے۔
پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا جیالا ہوگا، وزیراعلیٰ ہائوس میں بھی جئے بھٹو کے نعرے گونجیں گے، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں چاروں صوبوں سے یکساں سلوک ہو گا۔
یہ باتیں صدر زرداری نے گورنر ہائوس لاہور میں پیپلزپارٹی کے ارکان سے ملاقات کے موقع پر کہیں۔مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ دہرا بلدیاتی نظام سندھ کی تقسیم کی سازش ہے ۔
چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر معقول شخص کے بیٹھنے کے بعد حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کا شوشہ چھوڑنا عام انتخابات ملتوی کرنے کی سوچ کی عکاسی ہے ، مجھے یقین ہے کہ ایک دن ملک کے حالات بدلیں گے اور دہشت گردی ختم ہوگی ۔
کراچی میں پریس کانفرنس ، ائیرپورٹ آمد اور آتشزدگی سے متاثرہ فیکٹری کے دورے کے موقع پر گفتگو میں انھوں نے کہا کہ سندھ پر صرف دواتحادی جماعتیں فیصلہ نہیں کرسکتیں ، یہ صوبہ صرف دو جماعتوں کا نہیں ہے ۔ بلدیاتی نظام پر بات چیت وفاقی سطح پر ہونی چاہیے ، ملک میں یکساں نظام ہوگا تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔
سندھ میں دو بلدیاتی نظام پاکستان کی یکجہتی کے لیے خطرناک ہیں ۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بیانات سے صاف پیغام مل رہا ہے کہ ملکی سیاست نئے انتخابا ت کی طرف سرگرم سفر ہے اور تمام سیاسی رہنما اپنی سٹریٹجی اور انتخابی لائحہ عمل کے مطابق رفتہ رفتہ خاموش انتخابی مہم چلارہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جمہوریت کا حسن انتخابات اور اس کی اضافی رعنائی انتخابی مہم ہوتی ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں انتخابات کا انتخابی مہم کے بغیر تو تصور بھی محال ہے، چنانچہ اس وقت امریکی انتخابی مہم عروج پر ہے ، بارک اوباما اور مٹ رومنی کے مابین ایک اوپن،جارحانہ اور قومی و بین الاقوامی امور کا احاطہ کرتے ہوئے دلچسپ و سنجیدہ مکالمے کا تسلسل جاری ہے، ووٹرز سے رابطہ اور قومی ایشوز پر گرما گرم بحثیں ہورہی ہیں، ووٹرز کو اتنی آزادی اور ذہنی سکون بھی حاصل ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے قیمتی ووٹ کااستعمال یقینی بناسکتے ہیں۔
معاشی اور سماجی طور پر معاشرہ پر سکون اور انسانی قدروں سے ہم آہنگ ہے۔ یہی جمہوریت کامعیار اور اس کی شناخت ہے۔تاہم پاکستان میں پر شورانتخابی سرگرمیوں پر مبنی کلچر کی نئی ایک شکل سامنے ابھری ہے ، عوام ناراض سیاسی رہنمائوں کے ٹی وی ٹاک شو دیکھنے پر مجبور ہیں۔ بظاہر کسی جماعت کا جامع انتخابی منشور قوم کے سامنے نہیں، چند جذباتی نعرے اور صوبوں کی تشکیل کے دعوے ہیں۔
انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کا ڈھول ڈالنے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے، میڈیا پر حساس امور پر قوم کو مثبت پیغام دینے کے بجائے ذہنی انتشار کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے جب کہ الیکشن قومی مفاہمت ، سماجی و پارلیمانی روایات اور انسانی اقدار کے نظام کو استحکام اور تہذیبی تشخص عطا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
یہ مینڈیٹ قوم اپنے منتخب نمایندوں کو دیتی ہے۔ حقیقت میں تو ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے جو عام انتخابات کے شفاف اور پر امن اختتامپر قوم کو خوش حالی اور اتفاق رائے کی ایک عظیم خوشخبری دے ۔ علاوہ ازیں ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں جوسیاسی افراط وتفریط جاری ہے۔
محاذ آرائی ،الزام تراشی اور طعن و دشنام کے تیروں سے میدان سیاست میں گھمسان کا جو رن پڑتا دکھائی دیتا ہے اس سے عوام کے دکھوں کا تو کسی طور ازالہ نہیں ہورہا ،نہ مہنگائی کم ہوتی دکھائی دیتی ہے ،نہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹنے کی کوئی نوید ملی ہے اور نہ قومی اداروں کے مابین تعلقات کار اور اشتراک عمل کی کوئی مثالی صورت نظر آتی ہے ۔
اس لیے صدر مملکت سمیت تمام سیاست دانوں کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان کے نعرے قومی مفادات سے ہم آہنگ اور زمینی حقائق سے جڑے رہنے چاہییں۔ کم از کم عوام کو اندوہ ناک اور اعصاب شکن مسائل کے الائو اور بھنور سے نکالنے کی ٹھوس کوشش ہونی چاہیے۔مسلمہ جمہوری اصول ہے کہ انتخابی منشور اور مہم اخلاقی کو عام طور پر عوام کی خواہشات اور عام آدمی کی فلاح وبہبود سے متصف ہونا چاہیے۔
کیا ایسا ہے؟ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ وہ پورے پنجاب میں جلسے کریں گے،کارکن الیکشن کی تیاری کریں ، انتخابی جلسے جلوسوں کا آغاز پنجاب سے کیا جائے گا اور قومی و پنجاب اسمبلی کی قراد دادوں کی روشنی میں الیکشن سے قبل نئے صوبے بنائے جائیں گے۔
صدر سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اورگورنر سردار لطیف خان کھوسہ نے ون ٹو ون ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ خصوصی طور پر پنجاب میں آیندہ انتخابات کی تیاریوں اور پارٹی کو مزید مضبوط بنانے کے حوالے سے مشاورت اور آیندہ کی حکمت عملی تیار کی ۔ادھرپنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی نے صدرآصف زرداری سے ملاقات میں۔
آیندہ انتخابات کے لیے 10، 10کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز اور وفاقی محکموں میں100،100سرکاری نوکریاں دینے کا مطالبہ کیا ، اجلاس میں شریک بعض ارکان اسمبلی کی جانب سے ان کے حلقوں میں مسلم لیگ (ق) کی مداخلت اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کیاگیا۔نواز شریف کے خیال میںسندھ میں دو بلدیاتی نظام پاکستان کی یکجہتی کے لیے خطرناک ہیں
اگر صرف دو جماعتیں اپنی مرضی سے آرڈیننس لائیں گی تو وہ چند روز کا مہمان ہوگا ۔بلاشبہ نئے صوبوں کا قیام گناہ نہیں ہے اسی طرح بلدیاتی الیکشن اگر عام انتخابات سے قبل ہوتے ہیں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں مگر بات اخلاص ،کشادہ نظری اور قومی دردمندی کی ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کو حکمرانی کا دورانیہ مکمل کرتے ہوئے پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں، یوں حکومت کے مینڈیٹری اوورز پورے ہونے جارہے ہیں اور اپوزیشن کو بھی خود احتسابی کا موقع مل رہا ہے،ساتھ ہی تمام اتحادی جماعتوں کو اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کے دیکھنا چاہیے کہ قوم ان کے دور حکومت میں خوش حالی کے کتنے سنگ میل عبور کرچکی ہے۔چنانچہ ضرورت ارباب اختیار کی عوام سے رابطے بڑھانے اورقومی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔
پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا جیالا ہوگا، وزیراعلیٰ ہائوس میں بھی جئے بھٹو کے نعرے گونجیں گے، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں چاروں صوبوں سے یکساں سلوک ہو گا۔
یہ باتیں صدر زرداری نے گورنر ہائوس لاہور میں پیپلزپارٹی کے ارکان سے ملاقات کے موقع پر کہیں۔مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ دہرا بلدیاتی نظام سندھ کی تقسیم کی سازش ہے ۔
چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر معقول شخص کے بیٹھنے کے بعد حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کا شوشہ چھوڑنا عام انتخابات ملتوی کرنے کی سوچ کی عکاسی ہے ، مجھے یقین ہے کہ ایک دن ملک کے حالات بدلیں گے اور دہشت گردی ختم ہوگی ۔
کراچی میں پریس کانفرنس ، ائیرپورٹ آمد اور آتشزدگی سے متاثرہ فیکٹری کے دورے کے موقع پر گفتگو میں انھوں نے کہا کہ سندھ پر صرف دواتحادی جماعتیں فیصلہ نہیں کرسکتیں ، یہ صوبہ صرف دو جماعتوں کا نہیں ہے ۔ بلدیاتی نظام پر بات چیت وفاقی سطح پر ہونی چاہیے ، ملک میں یکساں نظام ہوگا تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔
سندھ میں دو بلدیاتی نظام پاکستان کی یکجہتی کے لیے خطرناک ہیں ۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بیانات سے صاف پیغام مل رہا ہے کہ ملکی سیاست نئے انتخابا ت کی طرف سرگرم سفر ہے اور تمام سیاسی رہنما اپنی سٹریٹجی اور انتخابی لائحہ عمل کے مطابق رفتہ رفتہ خاموش انتخابی مہم چلارہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جمہوریت کا حسن انتخابات اور اس کی اضافی رعنائی انتخابی مہم ہوتی ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں انتخابات کا انتخابی مہم کے بغیر تو تصور بھی محال ہے، چنانچہ اس وقت امریکی انتخابی مہم عروج پر ہے ، بارک اوباما اور مٹ رومنی کے مابین ایک اوپن،جارحانہ اور قومی و بین الاقوامی امور کا احاطہ کرتے ہوئے دلچسپ و سنجیدہ مکالمے کا تسلسل جاری ہے، ووٹرز سے رابطہ اور قومی ایشوز پر گرما گرم بحثیں ہورہی ہیں، ووٹرز کو اتنی آزادی اور ذہنی سکون بھی حاصل ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے قیمتی ووٹ کااستعمال یقینی بناسکتے ہیں۔
معاشی اور سماجی طور پر معاشرہ پر سکون اور انسانی قدروں سے ہم آہنگ ہے۔ یہی جمہوریت کامعیار اور اس کی شناخت ہے۔تاہم پاکستان میں پر شورانتخابی سرگرمیوں پر مبنی کلچر کی نئی ایک شکل سامنے ابھری ہے ، عوام ناراض سیاسی رہنمائوں کے ٹی وی ٹاک شو دیکھنے پر مجبور ہیں۔ بظاہر کسی جماعت کا جامع انتخابی منشور قوم کے سامنے نہیں، چند جذباتی نعرے اور صوبوں کی تشکیل کے دعوے ہیں۔
انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کا ڈھول ڈالنے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے، میڈیا پر حساس امور پر قوم کو مثبت پیغام دینے کے بجائے ذہنی انتشار کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے جب کہ الیکشن قومی مفاہمت ، سماجی و پارلیمانی روایات اور انسانی اقدار کے نظام کو استحکام اور تہذیبی تشخص عطا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
یہ مینڈیٹ قوم اپنے منتخب نمایندوں کو دیتی ہے۔ حقیقت میں تو ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے جو عام انتخابات کے شفاف اور پر امن اختتامپر قوم کو خوش حالی اور اتفاق رائے کی ایک عظیم خوشخبری دے ۔ علاوہ ازیں ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں جوسیاسی افراط وتفریط جاری ہے۔
محاذ آرائی ،الزام تراشی اور طعن و دشنام کے تیروں سے میدان سیاست میں گھمسان کا جو رن پڑتا دکھائی دیتا ہے اس سے عوام کے دکھوں کا تو کسی طور ازالہ نہیں ہورہا ،نہ مہنگائی کم ہوتی دکھائی دیتی ہے ،نہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹنے کی کوئی نوید ملی ہے اور نہ قومی اداروں کے مابین تعلقات کار اور اشتراک عمل کی کوئی مثالی صورت نظر آتی ہے ۔
اس لیے صدر مملکت سمیت تمام سیاست دانوں کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان کے نعرے قومی مفادات سے ہم آہنگ اور زمینی حقائق سے جڑے رہنے چاہییں۔ کم از کم عوام کو اندوہ ناک اور اعصاب شکن مسائل کے الائو اور بھنور سے نکالنے کی ٹھوس کوشش ہونی چاہیے۔مسلمہ جمہوری اصول ہے کہ انتخابی منشور اور مہم اخلاقی کو عام طور پر عوام کی خواہشات اور عام آدمی کی فلاح وبہبود سے متصف ہونا چاہیے۔
کیا ایسا ہے؟ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ وہ پورے پنجاب میں جلسے کریں گے،کارکن الیکشن کی تیاری کریں ، انتخابی جلسے جلوسوں کا آغاز پنجاب سے کیا جائے گا اور قومی و پنجاب اسمبلی کی قراد دادوں کی روشنی میں الیکشن سے قبل نئے صوبے بنائے جائیں گے۔
صدر سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اورگورنر سردار لطیف خان کھوسہ نے ون ٹو ون ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ خصوصی طور پر پنجاب میں آیندہ انتخابات کی تیاریوں اور پارٹی کو مزید مضبوط بنانے کے حوالے سے مشاورت اور آیندہ کی حکمت عملی تیار کی ۔ادھرپنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی نے صدرآصف زرداری سے ملاقات میں۔
آیندہ انتخابات کے لیے 10، 10کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز اور وفاقی محکموں میں100،100سرکاری نوکریاں دینے کا مطالبہ کیا ، اجلاس میں شریک بعض ارکان اسمبلی کی جانب سے ان کے حلقوں میں مسلم لیگ (ق) کی مداخلت اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کیاگیا۔نواز شریف کے خیال میںسندھ میں دو بلدیاتی نظام پاکستان کی یکجہتی کے لیے خطرناک ہیں
اگر صرف دو جماعتیں اپنی مرضی سے آرڈیننس لائیں گی تو وہ چند روز کا مہمان ہوگا ۔بلاشبہ نئے صوبوں کا قیام گناہ نہیں ہے اسی طرح بلدیاتی الیکشن اگر عام انتخابات سے قبل ہوتے ہیں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں مگر بات اخلاص ،کشادہ نظری اور قومی دردمندی کی ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کو حکمرانی کا دورانیہ مکمل کرتے ہوئے پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں، یوں حکومت کے مینڈیٹری اوورز پورے ہونے جارہے ہیں اور اپوزیشن کو بھی خود احتسابی کا موقع مل رہا ہے،ساتھ ہی تمام اتحادی جماعتوں کو اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کے دیکھنا چاہیے کہ قوم ان کے دور حکومت میں خوش حالی کے کتنے سنگ میل عبور کرچکی ہے۔چنانچہ ضرورت ارباب اختیار کی عوام سے رابطے بڑھانے اورقومی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔