بُک شیلف سانحہ مشرقی پاکستان سے ملے سبق
ماضی کی غلطیوں سے عبرت پکڑ کر حال ومستقبل بہتر بنائیے…ایک تازہ کتاب کا معلومات افزا تعارف
14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ہونے کا اعزازحاصل ہوا۔
اس کے دونوں حصّوں، مشرقی اور مغربی پاکستان میں آباد باشندوں نے آزادی کی نعمت پا کر خوب خوشیاں منائیں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ دونوں حصّوں کے باشندے مل جل کر نوزائیدہ وطن کو ترقی یافتہ اور خوشحال بناتے ۔مگر خصوصاً مغربی پاکستانی حکمران طبقے کے غرور وتکبر، ناسمجھی اور ذاتی مفادات کو ترجیع دینے سے دونوں طرف لوگوں کے مابین ایسے اختلافات نے جنم لیا جو بڑھتے چلے گئے۔ان کے باعث آخرصرف چوبیس سال بعد ہی پاکستان ٹوٹ گیا۔
اس دلدوز المیّے کی تاریخ پہ سیکڑوں کتب تحریر کی جا چکیں۔ان میں تازہ کتاب''مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا'' عمدہ اضافہ ہے۔ کتاب میں تفصیل اور گہرائی وگیرائی سے سانحے پہ روشنی ڈالی گئی ہے جو اس کی خاصیت ہے۔
1406 صفحات پر محیط اس ضخیم دستاویز کے مصنف ممتاز صحافی وکالم نگار، الطاف حسن قریشی ہیں۔آپ نے 1964ء سے 2000ء تک مشرقی پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پہ پُرمغز، غیر جانب دار اور معلومات افروز مضامین لکھے جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں طبع ہوئے۔
زیرنظر کتاب میں یہی تحریریں یکجا کرد ی گئیں جو سقوط ڈھاکہ کو جنم دینے والے عوامل جامع انداز میں اجاگر کرتی ہیں۔الطاف صاحب نے بڑی دلسوزی، جذبہ حب الوطنی اور خلوص سے وہ وجوہ نمایاں کیں جو پاکستان ٹوٹنے کا سبب بنیں اور داغ ہائے دل دے گئیں۔ یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن، والٹن روڈ لاہور نے خوبصورتی سے شائع کی ہے۔
پہلا سبق: کتاب میں خاصے کی چیز آخری باب ہے ۔اس میں سانحہ مشرقی پاکستان سے ملے سبق بیان ہوئے ہیں۔ماضی پر نظر دوڑانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حال ومستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
راقم کے نزدیک اس سانحے سے ہمارے حکمران طبقے اور عوام کو سب سے پہلا سبق یہ ملا کہ کبھی غرور وتکبر نہیں کرنا چاہیے۔یہ منفی جذبہ جلد یا بدیر انسان کو ذلیل وخوار کرا دیتا ہے۔
مغل بادشاہوں کے دورحکومت میں بنگال امیر ترین صوبہ تھا۔حکومت کو بیشتر آمدن اسی صوبے سے ہوتی ۔یہی وجہ ہے، مکار انگریز نے اول اول اسی صوبے پر قبضہ کیا۔انھوں نے مسلم رعایا کو اپنا غلام بنا لیا۔ مسلمانوں سے زمینیں چھین کر ہندوؤں میں بانٹ دیں۔
اس طرح بنگالی مسلمان غربت و جہالت کا شکار ہو گئے۔جبکہ ہندو انگریزوں کی آشیر باد سے زراعت ہی نہیں صنعت وتجارت اور سرکاری ملازمتوں پر چھا گئے۔یہی وجہ ہے، جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستانی بیوروکریسی میں بنگالی مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔اسی لیے مغربی پاکستان سے کثیر سرکاری افسر اور ملٹری افسر مشرقی پاکستان لے جائے گئے تاکہ وہ وہاں نظم ونسق اور انتظام حکومت سنبھال سکیں۔
ان مغربی پاکستانی افسروں کی کثیر تعداد رنگ ، نسل اور امارت کے احساس برتری میں مبتلا تھی۔انھیں فاقہ زدہ ، سادگی پسند اور سیاہ رنگت والے ناخواندہ بنگالی مسلمان پسند نہیں آئے۔وہ غرور و تکبر کا شکار ہو کر انھیں حقارت سے دیکھنے لگے۔
ان کو یقین تھا کہ یہ پست قامت و فلاکت زدہ لوگ ملک چلانے کا بوتا نہیں رکھتے۔ اسی فرعونی سوچ کے زیراثر بنگالی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق بھی نہیں دئیے گئے حالانکہ پاکستان کی آبادی میں انہی کی تعداد زیادہ تھی۔
اہل مشرقی پاکستان کو اُمید تھی کہ ظالم انگریز وہندو سے چھٹکارا پا کر ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز ہو گا۔مگر مغربی پاکستانی افسروں کے ذلت آمیز سلوک نے انھیں باور کرا دیا کہ دیسی نوآبادیاتی حاکم ان پہ مسلط ہو چکے۔یہ نئے حاکم بھی مشرقی پاکستان کے وسائل سے استفادہ کرنے لگے مگر بدلے میں انگریز کی طرح اسے کم ہی فوائد دیتے۔
گویا اب بھی وہاں کے باشندوں کو مکمل آزادی نصیب نہ ہوئی۔اس دوران حکمران طبقے نے خواہ مخواہ اردو بنگالی کا تنازع پیدا کر دیا جس سے خصوصاً نوجوان بنگالی نسل پاکستان سے متنفرہو گئی۔
خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی،مولانا اکرم خان، مولوی فضل الحق، مولانا بھاشانی وغیرہ مشرقی پاکستان کے اہم رہنما تھے مگر مغربی پاکستانی حکمران طبقے نے کبھی انھیں درخوراعتنا نہیں سمجھا بلکہ سازشیں کرتا اور چالیں چلتا رہا کہ یہ راہنما اقتدار میں نہ آنے پائیں۔انھیں اقتدار مل جاتا تو کوششیں کی جاتیں کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے رہیں۔
ان سے حقارت آمیز سلوک کیا جاتا۔غرض غرور و تکبر کے نشے میں چور ہو کر اہل مشرقی پاکستان کی عزت نفس کو بار بار ضرب پہنچائی گئی۔انھیں مجبور کر دیا کہ وہ نہ صرف وفاق پاکستان پر کڑی تنقید کرنے لگیں بلکہ ملک دشمن قوتوں سے بھی روابط استوار کر لیں۔
آج دیکھیے، بنگلہ دیش معیشت ، سیاست اور معاشرت کے بنیادی انسانی شعبوں میں پاکستان سے آگے نکل چکا۔مغرور پاکستانی حکمران طبقہ جن بنگالی راہنماؤں کی تضحیک واستہزا کرتا تھا، آج وہ کامیابی سے بنگلہ دیش کا نظام حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔
پاکستان ڈالر نہ ہونے سے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا مگر بنگلہ دیش 33 ارب ڈالر کے ذخائر رکھتا ہے۔پاکستانی روپیہ بنگلہ دیشی ٹکے کے مقابلے میں بھی اپنی قدر کھو چکا کہ ایک ٹکے کے بدلے ڈھائی پاکستانی روپے ملتے ہیں۔
پے در پے کوتاہیوں اور مفاداتی سیاست کرنے کے باعث پاکستانی حکمران طبقے کی عالمی سطح پہ عزت خاک میں مل چکی مگر اس کے بعض ارکان پہ آج بھی غرور وتکبر کا نشہ سوار ہے۔یہ لوگ عام آدمی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔
دوسرا سبق: سانحے سے ہمیں دوسرا سبق یہ ملا کہ کسی بھی گروہ کی زبان، تہذیب، ثقافت، روایات ، تمدن اور مقامی اقدار کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ہر گروہ انھیں عزیز سمجھتا اور ان کی بے عزتی گوارا نہیں کرتا۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالی مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کو گھٹیا و پست گردانتا تھا۔
انھیں طرح طرح کے گھٹیا القابات سے نوازا گیا مثلاً ماس کھانے والے، دھوتی پوش وغیرہ۔ان باتوں کی وجہ اہل مشرقی پاکستان دوسرے حصّے کے باشندوں کو ناپسند کرنے لگے۔دونوں کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئیں۔
مشرقی پاکستان میں رنگ، نسل ، زبان اور معاشرتی درجہ بندی کے مسائل نے سر ابھارا تو بھارتی حکومت کے ایجنٹ حرکت میں آ گئے۔
انھوں نے ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا تاکہ پاکستان کے دونوں حصّے دور ہو جائیں اور آخرکار پاکستان کو توڑا جا سکے۔یہ المیّہ جنم دینے میں بھارتی ایجنٹوں نے بھی کردار ادا کیا مگر اسے انجام دینے والے اصل لوگ پاکستانی حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج پاکستان میں رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم و تخریب کافی کم ہو چکی مگر میرٹ اور قانون کا بول بالا پھر بھی نہیں ہوا۔اسی لیے خصوصاً الیکشن کے وقت برادری ازم کارفرما رہتا ہے۔
لوگ امیدوار کی اہلیت، دیانت داری اور قابلیت دیکھ کر نہیں بلکہ برادری ، اثرورسوخ اور امارات کے مطابق اسے ووٹ ڈالتے ہیں۔اس باعث حکمران طبقے کا سارا زور خود کو طاقتور بنانے پر لگا ہے جبکہ عوام کو دو وقت کی روٹی میسّر آ جائے تو اسے کافی سمجھا جاتا ہے۔
تیسرا سبق: ہمیں تیسرا سبق یہ حاصل ہوا کہ معاشرے میں معاشی عدم مساوات انتشار و بے چینی پیدا کرتا ہے۔پاکستان کے حکمران طبقے کی توجہ مغربی حصے پر زیادہ رہی۔وہاں ڈیم بن گئے۔نئی شاہراہیں تعمیر ہوئیں۔نئے کارخانے قائم ہوئے۔
مشرقی پاکستان میں بھی ترقیاتی منصوبے انجام پائے مگر ان کی تعداد کم تھی۔اس لیے مغربی حصے کے باشندے خوشحال ہو گئے جبکہ مشرقی حصے میں غربت کا دور دورہ رہا۔مشرقی پاکستان میں صرف انہی بااثر بنگالیوں کو نوازا گیا جو حکمران طبقے کے قریب تھے اور ان کے مفادات کی تکمیل میں مصروف رہتے۔۔معاشی عدم مساوات کے باعث مشرقی پاکستان میں حکمران طبقے کے خلاف غم وغصّہ پھیل گیا۔مقامی لوگ چاہتے تھے کہ اس حصّے کے وسائل سے وہی فائدہ اٹھائیں۔
انھیں یقین تھا کہ حکمران طبقہ وسائل کی دولت مغربی حصے میں استعمال کر رہا ہے۔مشرقی حصے میں پھیلی غربت اور احساس محرومی نے بھی لوگوں کو علحیدگی پسند بنا دیا۔
چوتھا سبق: سانحے سے چوتھا سبق یہ نمایاں ہوا کہ حکومت وقت کو آزادی اظہار اور تحریر وتقریر کی آزادیوں پہ پابندیاں نہیں لگانی چاہیں۔فکر وسوچ پر پہرے نہ بٹھائے جائیں۔
ان ہتھکنڈوں سے بھی عوام میں حکمران طبقے کے خلاف غم وغصّہ بڑھتا ہے ۔حکومت میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ تنقید برداشت کر سکے۔تنقید کے ذریعے ہی ہر ایک اپنا قول وفعل بہتر بنا سکتا ہے۔
صرف ''سب اچھا ہے ''کی رپورٹ تو تباہی اور زوال کا پیغام ہے۔جب مشرقی پاکستان کے راہنما مغربی پاکستان کے حکمران طبقے پہ تنقید کرنے لگے تو انھیں مختلف طریقوں سے تنگ کیا جانے لگا۔ان پہ غداری کے مقدمے قائم ہو گئے۔ان کی روزی روٹی بند کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
ان منفی اقدامات سے مشرقی حصے میں انتشار مزید بڑھا گیا اور ریاست کے باشندوں میں اتحاد ویک جہتی نہ رہی۔ حکمران طبقہ ہر قیمت پر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا تھا۔اس خواہش نے مگر مملکت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
پانچواں سبق: چوتھے سبق سے وابستہ پانچواں سبق یہ اجاگر ہوا کہ ملک میں قومی و مقامی سطح کے مسائل پر تمام گروہوں کے درمیان تبادلہ خیال ہوتا رہنا چاہیے۔
اس طرح ایک دوسرے کی غلطیاں نمایاں ہوتی ہیں اور اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔اگر مسائل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر قیمتی قالینوں کے نیچے دبا دئیے جائیں تو وہ مسلسل سلگتے رہتے ہیں۔
ایک دن پھر چنگاریاں شعلے بن کر ہر چیز خاکستر کر ڈالتی ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان اسی لیے رونما ہوا کہ دونوں حصوں کے مابین سیاسی،انتظامی، معاشی اور معاشرتی اختلافات پیدا ہوتے چلے گئے۔ہمارے سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں نے اختلافات دور کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں ۔چناں چہ حالات آخر اس نہج پر پنچ گئے کہ مفاہمت کا راستہ مسائل کی دلدل میں کھو گیا۔
چھٹا سبق: ہمیں سقوط ڈھاکہ سے چھٹا اہم سبق یہ ملا کہ حکمران طبقے کو آئین و قانون توڑنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔کسی ملک میں قانون توڑنا معمول بن جائے تو وہ زیادہ عرصے برقرار نہیں رہ سکتا۔وہاں بے انصافی کا دور دورہ ہونے سے عوام میں انتشار بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اور جب پانی سر سے گذر جائے تو سری لنکا کی طرح عام آدمی حکمران طبقے کے محلات پہ حملہ کر دیتا ہے تاکہ اپنے حقوق حاصل کر سکے۔پاکستان میں مشرقی حصّے کے باشندوں کی تعداد زیادہ تھی مگر ان کو آئین وقانون کی رو سے حق نہیں دئیے گئے۔
مغربی حصے کے ایلیٹ طبقے نے حکومت پہ قبضہ کر لیا اور بھرپور کوششیں کیں کہ مشرقی حصے کے راہنماؤں کو اقتدار نہ ملنے پائے۔اس روش سے مشرقی حصے میں عوام وخواص میں احساس محرمی بڑھا اور وہ وفاق پاکستان سے متنفر ہو گئے۔
مثال کے طور پر جنرل ایوب خان نے جو آئین تشکیل دیا تھا، اس میں یہ دفعات شامل تھیں کہ اگر صدر کسی بیماری یا بیرون ملک ہونے سے اپنے فرائض ادا نہ کر سکے تو اسپیکر قومی اسمبلی اس کی جگہ قائم مقام صدر بن جائیں گے۔
جنوری 1968ء میں ایوبی خان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ تین ہفتے تک اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کر سکے۔اس دوران مگر اسپیکر قومی اسمبلی کو قائم مقام صدر نہیں بنایا گیا کیونکہ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔اسی طرح ایوب خان نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ازروئے آئین وقانون انھیں حکومت اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنا تھی۔انھوں نے لیکن اقتدار آرمی چیف جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا۔
ساتواں سبق: ایک اہم سبق یہ ملا کہ حکمران طبقے کو عوام سے براہ راست تعلق رکھنا چاہیے۔1947ء میں مسلم لیگی قیادت مشرقی پاکستان کے عوام کی خواہشات اور امنگوں سے ناواقف تھی۔
اسی لیے اس نے ان پہ غلط فیصلے تھوپ دیئے جن کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔عوام سے تعلق رکھنے پر انتظام حکومت چلانے میں بہت مدد ملتی ہے۔نیز حکمران طبقے کو عوامی مسائل سے آگاہی رہتی ہے۔
آٹھواں سبق: سقوط ڈھاکہ سے یہ سبق بھی ملا کہ ایک مملکت میں بستے مختلف نسلوں، رنگوں اور متفرق زبانیں بولنے والے لوگوں کو جمہوری سیاسی جماعتیں متحد رکھ سکتی ہیں۔طاقت کے بل پہ انھیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔
عوام بھی ان سیاسی جماعتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انھیں اپنی صفوں میں جگہ دیں اور وہ باقاعدگی سے الیکشن کراتی رہیں۔اس طرح سیاسی سرگرمیوں میں عوام کی سرگرم شمولیت رہتی ہے اور وہ ملک وقوم کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔
اس کے دونوں حصّوں، مشرقی اور مغربی پاکستان میں آباد باشندوں نے آزادی کی نعمت پا کر خوب خوشیاں منائیں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ دونوں حصّوں کے باشندے مل جل کر نوزائیدہ وطن کو ترقی یافتہ اور خوشحال بناتے ۔مگر خصوصاً مغربی پاکستانی حکمران طبقے کے غرور وتکبر، ناسمجھی اور ذاتی مفادات کو ترجیع دینے سے دونوں طرف لوگوں کے مابین ایسے اختلافات نے جنم لیا جو بڑھتے چلے گئے۔ان کے باعث آخرصرف چوبیس سال بعد ہی پاکستان ٹوٹ گیا۔
اس دلدوز المیّے کی تاریخ پہ سیکڑوں کتب تحریر کی جا چکیں۔ان میں تازہ کتاب''مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا'' عمدہ اضافہ ہے۔ کتاب میں تفصیل اور گہرائی وگیرائی سے سانحے پہ روشنی ڈالی گئی ہے جو اس کی خاصیت ہے۔
1406 صفحات پر محیط اس ضخیم دستاویز کے مصنف ممتاز صحافی وکالم نگار، الطاف حسن قریشی ہیں۔آپ نے 1964ء سے 2000ء تک مشرقی پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پہ پُرمغز، غیر جانب دار اور معلومات افروز مضامین لکھے جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں طبع ہوئے۔
زیرنظر کتاب میں یہی تحریریں یکجا کرد ی گئیں جو سقوط ڈھاکہ کو جنم دینے والے عوامل جامع انداز میں اجاگر کرتی ہیں۔الطاف صاحب نے بڑی دلسوزی، جذبہ حب الوطنی اور خلوص سے وہ وجوہ نمایاں کیں جو پاکستان ٹوٹنے کا سبب بنیں اور داغ ہائے دل دے گئیں۔ یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن، والٹن روڈ لاہور نے خوبصورتی سے شائع کی ہے۔
پہلا سبق: کتاب میں خاصے کی چیز آخری باب ہے ۔اس میں سانحہ مشرقی پاکستان سے ملے سبق بیان ہوئے ہیں۔ماضی پر نظر دوڑانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حال ومستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
راقم کے نزدیک اس سانحے سے ہمارے حکمران طبقے اور عوام کو سب سے پہلا سبق یہ ملا کہ کبھی غرور وتکبر نہیں کرنا چاہیے۔یہ منفی جذبہ جلد یا بدیر انسان کو ذلیل وخوار کرا دیتا ہے۔
مغل بادشاہوں کے دورحکومت میں بنگال امیر ترین صوبہ تھا۔حکومت کو بیشتر آمدن اسی صوبے سے ہوتی ۔یہی وجہ ہے، مکار انگریز نے اول اول اسی صوبے پر قبضہ کیا۔انھوں نے مسلم رعایا کو اپنا غلام بنا لیا۔ مسلمانوں سے زمینیں چھین کر ہندوؤں میں بانٹ دیں۔
اس طرح بنگالی مسلمان غربت و جہالت کا شکار ہو گئے۔جبکہ ہندو انگریزوں کی آشیر باد سے زراعت ہی نہیں صنعت وتجارت اور سرکاری ملازمتوں پر چھا گئے۔یہی وجہ ہے، جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستانی بیوروکریسی میں بنگالی مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔اسی لیے مغربی پاکستان سے کثیر سرکاری افسر اور ملٹری افسر مشرقی پاکستان لے جائے گئے تاکہ وہ وہاں نظم ونسق اور انتظام حکومت سنبھال سکیں۔
ان مغربی پاکستانی افسروں کی کثیر تعداد رنگ ، نسل اور امارت کے احساس برتری میں مبتلا تھی۔انھیں فاقہ زدہ ، سادگی پسند اور سیاہ رنگت والے ناخواندہ بنگالی مسلمان پسند نہیں آئے۔وہ غرور و تکبر کا شکار ہو کر انھیں حقارت سے دیکھنے لگے۔
ان کو یقین تھا کہ یہ پست قامت و فلاکت زدہ لوگ ملک چلانے کا بوتا نہیں رکھتے۔ اسی فرعونی سوچ کے زیراثر بنگالی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق بھی نہیں دئیے گئے حالانکہ پاکستان کی آبادی میں انہی کی تعداد زیادہ تھی۔
اہل مشرقی پاکستان کو اُمید تھی کہ ظالم انگریز وہندو سے چھٹکارا پا کر ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز ہو گا۔مگر مغربی پاکستانی افسروں کے ذلت آمیز سلوک نے انھیں باور کرا دیا کہ دیسی نوآبادیاتی حاکم ان پہ مسلط ہو چکے۔یہ نئے حاکم بھی مشرقی پاکستان کے وسائل سے استفادہ کرنے لگے مگر بدلے میں انگریز کی طرح اسے کم ہی فوائد دیتے۔
گویا اب بھی وہاں کے باشندوں کو مکمل آزادی نصیب نہ ہوئی۔اس دوران حکمران طبقے نے خواہ مخواہ اردو بنگالی کا تنازع پیدا کر دیا جس سے خصوصاً نوجوان بنگالی نسل پاکستان سے متنفرہو گئی۔
خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی،مولانا اکرم خان، مولوی فضل الحق، مولانا بھاشانی وغیرہ مشرقی پاکستان کے اہم رہنما تھے مگر مغربی پاکستانی حکمران طبقے نے کبھی انھیں درخوراعتنا نہیں سمجھا بلکہ سازشیں کرتا اور چالیں چلتا رہا کہ یہ راہنما اقتدار میں نہ آنے پائیں۔انھیں اقتدار مل جاتا تو کوششیں کی جاتیں کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے رہیں۔
ان سے حقارت آمیز سلوک کیا جاتا۔غرض غرور و تکبر کے نشے میں چور ہو کر اہل مشرقی پاکستان کی عزت نفس کو بار بار ضرب پہنچائی گئی۔انھیں مجبور کر دیا کہ وہ نہ صرف وفاق پاکستان پر کڑی تنقید کرنے لگیں بلکہ ملک دشمن قوتوں سے بھی روابط استوار کر لیں۔
آج دیکھیے، بنگلہ دیش معیشت ، سیاست اور معاشرت کے بنیادی انسانی شعبوں میں پاکستان سے آگے نکل چکا۔مغرور پاکستانی حکمران طبقہ جن بنگالی راہنماؤں کی تضحیک واستہزا کرتا تھا، آج وہ کامیابی سے بنگلہ دیش کا نظام حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔
پاکستان ڈالر نہ ہونے سے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا مگر بنگلہ دیش 33 ارب ڈالر کے ذخائر رکھتا ہے۔پاکستانی روپیہ بنگلہ دیشی ٹکے کے مقابلے میں بھی اپنی قدر کھو چکا کہ ایک ٹکے کے بدلے ڈھائی پاکستانی روپے ملتے ہیں۔
پے در پے کوتاہیوں اور مفاداتی سیاست کرنے کے باعث پاکستانی حکمران طبقے کی عالمی سطح پہ عزت خاک میں مل چکی مگر اس کے بعض ارکان پہ آج بھی غرور وتکبر کا نشہ سوار ہے۔یہ لوگ عام آدمی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔
دوسرا سبق: سانحے سے ہمیں دوسرا سبق یہ ملا کہ کسی بھی گروہ کی زبان، تہذیب، ثقافت، روایات ، تمدن اور مقامی اقدار کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ہر گروہ انھیں عزیز سمجھتا اور ان کی بے عزتی گوارا نہیں کرتا۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالی مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کو گھٹیا و پست گردانتا تھا۔
انھیں طرح طرح کے گھٹیا القابات سے نوازا گیا مثلاً ماس کھانے والے، دھوتی پوش وغیرہ۔ان باتوں کی وجہ اہل مشرقی پاکستان دوسرے حصّے کے باشندوں کو ناپسند کرنے لگے۔دونوں کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئیں۔
مشرقی پاکستان میں رنگ، نسل ، زبان اور معاشرتی درجہ بندی کے مسائل نے سر ابھارا تو بھارتی حکومت کے ایجنٹ حرکت میں آ گئے۔
انھوں نے ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا تاکہ پاکستان کے دونوں حصّے دور ہو جائیں اور آخرکار پاکستان کو توڑا جا سکے۔یہ المیّہ جنم دینے میں بھارتی ایجنٹوں نے بھی کردار ادا کیا مگر اسے انجام دینے والے اصل لوگ پاکستانی حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج پاکستان میں رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم و تخریب کافی کم ہو چکی مگر میرٹ اور قانون کا بول بالا پھر بھی نہیں ہوا۔اسی لیے خصوصاً الیکشن کے وقت برادری ازم کارفرما رہتا ہے۔
لوگ امیدوار کی اہلیت، دیانت داری اور قابلیت دیکھ کر نہیں بلکہ برادری ، اثرورسوخ اور امارات کے مطابق اسے ووٹ ڈالتے ہیں۔اس باعث حکمران طبقے کا سارا زور خود کو طاقتور بنانے پر لگا ہے جبکہ عوام کو دو وقت کی روٹی میسّر آ جائے تو اسے کافی سمجھا جاتا ہے۔
تیسرا سبق: ہمیں تیسرا سبق یہ حاصل ہوا کہ معاشرے میں معاشی عدم مساوات انتشار و بے چینی پیدا کرتا ہے۔پاکستان کے حکمران طبقے کی توجہ مغربی حصے پر زیادہ رہی۔وہاں ڈیم بن گئے۔نئی شاہراہیں تعمیر ہوئیں۔نئے کارخانے قائم ہوئے۔
مشرقی پاکستان میں بھی ترقیاتی منصوبے انجام پائے مگر ان کی تعداد کم تھی۔اس لیے مغربی حصے کے باشندے خوشحال ہو گئے جبکہ مشرقی حصے میں غربت کا دور دورہ رہا۔مشرقی پاکستان میں صرف انہی بااثر بنگالیوں کو نوازا گیا جو حکمران طبقے کے قریب تھے اور ان کے مفادات کی تکمیل میں مصروف رہتے۔۔معاشی عدم مساوات کے باعث مشرقی پاکستان میں حکمران طبقے کے خلاف غم وغصّہ پھیل گیا۔مقامی لوگ چاہتے تھے کہ اس حصّے کے وسائل سے وہی فائدہ اٹھائیں۔
انھیں یقین تھا کہ حکمران طبقہ وسائل کی دولت مغربی حصے میں استعمال کر رہا ہے۔مشرقی حصے میں پھیلی غربت اور احساس محرومی نے بھی لوگوں کو علحیدگی پسند بنا دیا۔
چوتھا سبق: سانحے سے چوتھا سبق یہ نمایاں ہوا کہ حکومت وقت کو آزادی اظہار اور تحریر وتقریر کی آزادیوں پہ پابندیاں نہیں لگانی چاہیں۔فکر وسوچ پر پہرے نہ بٹھائے جائیں۔
ان ہتھکنڈوں سے بھی عوام میں حکمران طبقے کے خلاف غم وغصّہ بڑھتا ہے ۔حکومت میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ تنقید برداشت کر سکے۔تنقید کے ذریعے ہی ہر ایک اپنا قول وفعل بہتر بنا سکتا ہے۔
صرف ''سب اچھا ہے ''کی رپورٹ تو تباہی اور زوال کا پیغام ہے۔جب مشرقی پاکستان کے راہنما مغربی پاکستان کے حکمران طبقے پہ تنقید کرنے لگے تو انھیں مختلف طریقوں سے تنگ کیا جانے لگا۔ان پہ غداری کے مقدمے قائم ہو گئے۔ان کی روزی روٹی بند کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
ان منفی اقدامات سے مشرقی حصے میں انتشار مزید بڑھا گیا اور ریاست کے باشندوں میں اتحاد ویک جہتی نہ رہی۔ حکمران طبقہ ہر قیمت پر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا تھا۔اس خواہش نے مگر مملکت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
پانچواں سبق: چوتھے سبق سے وابستہ پانچواں سبق یہ اجاگر ہوا کہ ملک میں قومی و مقامی سطح کے مسائل پر تمام گروہوں کے درمیان تبادلہ خیال ہوتا رہنا چاہیے۔
اس طرح ایک دوسرے کی غلطیاں نمایاں ہوتی ہیں اور اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔اگر مسائل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر قیمتی قالینوں کے نیچے دبا دئیے جائیں تو وہ مسلسل سلگتے رہتے ہیں۔
ایک دن پھر چنگاریاں شعلے بن کر ہر چیز خاکستر کر ڈالتی ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان اسی لیے رونما ہوا کہ دونوں حصوں کے مابین سیاسی،انتظامی، معاشی اور معاشرتی اختلافات پیدا ہوتے چلے گئے۔ہمارے سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں نے اختلافات دور کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں ۔چناں چہ حالات آخر اس نہج پر پنچ گئے کہ مفاہمت کا راستہ مسائل کی دلدل میں کھو گیا۔
چھٹا سبق: ہمیں سقوط ڈھاکہ سے چھٹا اہم سبق یہ ملا کہ حکمران طبقے کو آئین و قانون توڑنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔کسی ملک میں قانون توڑنا معمول بن جائے تو وہ زیادہ عرصے برقرار نہیں رہ سکتا۔وہاں بے انصافی کا دور دورہ ہونے سے عوام میں انتشار بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اور جب پانی سر سے گذر جائے تو سری لنکا کی طرح عام آدمی حکمران طبقے کے محلات پہ حملہ کر دیتا ہے تاکہ اپنے حقوق حاصل کر سکے۔پاکستان میں مشرقی حصّے کے باشندوں کی تعداد زیادہ تھی مگر ان کو آئین وقانون کی رو سے حق نہیں دئیے گئے۔
مغربی حصے کے ایلیٹ طبقے نے حکومت پہ قبضہ کر لیا اور بھرپور کوششیں کیں کہ مشرقی حصے کے راہنماؤں کو اقتدار نہ ملنے پائے۔اس روش سے مشرقی حصے میں عوام وخواص میں احساس محرمی بڑھا اور وہ وفاق پاکستان سے متنفر ہو گئے۔
مثال کے طور پر جنرل ایوب خان نے جو آئین تشکیل دیا تھا، اس میں یہ دفعات شامل تھیں کہ اگر صدر کسی بیماری یا بیرون ملک ہونے سے اپنے فرائض ادا نہ کر سکے تو اسپیکر قومی اسمبلی اس کی جگہ قائم مقام صدر بن جائیں گے۔
جنوری 1968ء میں ایوبی خان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ تین ہفتے تک اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کر سکے۔اس دوران مگر اسپیکر قومی اسمبلی کو قائم مقام صدر نہیں بنایا گیا کیونکہ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔اسی طرح ایوب خان نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ازروئے آئین وقانون انھیں حکومت اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنا تھی۔انھوں نے لیکن اقتدار آرمی چیف جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا۔
ساتواں سبق: ایک اہم سبق یہ ملا کہ حکمران طبقے کو عوام سے براہ راست تعلق رکھنا چاہیے۔1947ء میں مسلم لیگی قیادت مشرقی پاکستان کے عوام کی خواہشات اور امنگوں سے ناواقف تھی۔
اسی لیے اس نے ان پہ غلط فیصلے تھوپ دیئے جن کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔عوام سے تعلق رکھنے پر انتظام حکومت چلانے میں بہت مدد ملتی ہے۔نیز حکمران طبقے کو عوامی مسائل سے آگاہی رہتی ہے۔
آٹھواں سبق: سقوط ڈھاکہ سے یہ سبق بھی ملا کہ ایک مملکت میں بستے مختلف نسلوں، رنگوں اور متفرق زبانیں بولنے والے لوگوں کو جمہوری سیاسی جماعتیں متحد رکھ سکتی ہیں۔طاقت کے بل پہ انھیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔
عوام بھی ان سیاسی جماعتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انھیں اپنی صفوں میں جگہ دیں اور وہ باقاعدگی سے الیکشن کراتی رہیں۔اس طرح سیاسی سرگرمیوں میں عوام کی سرگرم شمولیت رہتی ہے اور وہ ملک وقوم کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔