جوہری بجلی آئی ایم ایف اور زرعی منصوبہ بندی

حالیہ شدید ترین سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے اب نیوکلیئر پاور پلانٹ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے

نیوکلیئر پاور پلانٹ جسے ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے۔ کم قیمت بجلی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان نے اس جانب 60 کی دہائی میں توجہ دینی شروع کردی تھی۔

اس وقت توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلہ اور فیول کا استعمال خاصے مہنگے ہونے کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کا ذریعہ بھی ہیں۔

عالمی موسمیاتی تبدیلی کے باعث اور حالیہ شدید ترین سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے اب نیوکلیئر پاور پلانٹ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ کراچی میں پہلے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر جب 1972 میں مکمل ہوئی تو ساتھ ہی شہر کو بجلی کی سپلائی بھی شروع کر دی گئی تھی۔

اس وقت مکمل ہونے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ (K-3) کا افتتاح بدست وزیر اعظم پاکستان کردیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس پاور پلانٹ کے بعد ملک میں جوہری ایندھن سے بجلی کی پیداوار تقریباً 3600 میگاواٹ ہوجائے گی۔

پاکستان کو اپنے ان تمام ذرایع سے جن کے ذریعے سستی اور ماحول دوست بجلی کا حصول ممکن ہو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے زمانے میں جب ہم پر آئی ایم ایف نے اپنا شکنجہ کس دیا ہے اور بجلی سے متعلق تمام سبسڈیز کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ 41 سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی واپسی کا پلان مانگ لیا ہے۔

آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنے کے نتیجے میں جولائی تک بجلی 6 روپے فی یونٹ مہنگی ہو جائے گی۔

اب ہمیں جلد یا بہ دیر کوئلہ گیس تیل پر بجلی کی پیداوار کا انحصار کم سے کم کرنا پڑے گا ، کیونکہ یہ تینوں اجزا انتہائی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کی درآمدی لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سردست نیوکلیئر پاور پلانٹ کے افتتاح کے علاوہ فوری طور پر کوئی اور منصوبہ پائپ لائن میں موجود نظر نہیں آ رہا ہے ، لہٰذا بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ بجلی مہنگی بھی ہوگی اور حکومت صارفین صنعتکاروں کو مہنگی ترین بجلی فراہم کرنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ آئی ایم ایف کی تلوار لٹکی رہے گی۔

اس وقت آئی ایم ایف سے جو معاہدہ تقریباً طے ہے ، اس کے مطابق پٹرول پر سیلز ٹیکس 11 سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کا مطالبہ ہے جس کے باعث جلد ہی پٹرولیم مصنوعات کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا اعلان متوقع ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز پر دودھ، گھی، مسالہ جات سمیت کئی اشیا مہنگی ہو چکی ہیں۔ ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے ہیں، لیکن مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔


27.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے بعد مزید 8 یا 10 فیصد کا اضافہ ہو کر 35 فیصد سے زائد ہو چکا ہوگا ، کیونکہ چند روز قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافے کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ریلوے کی تمام ٹرینوں کے کرایوں میں 8 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ 15 فیصد اضافے سے پاکستان ریلوے پر یومیہ تقریباً 12 ملین روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ 15 فیصد اضافے کے باوجود 8 فیصد اضافہ کرنا اسے اچھا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ دوسری طرف ٹرانسپورٹرز نے اس سے بھی4 گنا زائد کرایہ بڑھا دیا ہے اور یہ اضافہ 25 سے 35 فیصد تک نظر آ رہا ہے ۔

اب آپ ملاحظہ فرمائیں چند ہفتے قبل ٹماٹر 200 روپے اور کبھی 300 اور 400 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچے تھے اور آج کل 60 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔

اب ان دنوں جب کاشتکاروں کو غالباً 10 سے 15 روپے فی کلو کے ہی مل رہے ہوں تو وہ بھلا کرایہ جوکہ اب ہزاروں روپے فی ٹرک پہنچ چکا ہے کھیت سے منڈی تک آج مجبوراً آ جائے گا تو آیندہ کے لیے وہ یہ فیصلہ کرلے گا کہ اب اس سیزن میں ٹماٹر نہیں بونے ہیں۔

لہٰذا اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ٹماٹر کی ملکی پیداوار کم ہوگی اور درآمدی ٹماٹر پر انحصار کرنا ہوگا۔ جیسا آج کل پیازکی قیمتوں کا معاملہ ہے۔

دو سو روپے فی کلو سے ڈھائی سو روپے فی کلو تک درآمدی پیاز دستیاب ہے پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ 10 یا 20 روپے فی کلو پیاز ملنے لگ جاتی ہے ، یہاں آ کر کاشتکار پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی پیداوار فی لاگت بھی نہیں مل رہی ہے۔

لہٰذا راقم اس سے قبل بھی عرض کرتا رہا ہے کہ کم ازکم ہر صوبائی حکومت ایسی زرعی منصوبہ بندی پر توجہ دے جس سے کاشتکار کو نقصان بھی اٹھانا نہ پڑے اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف زرعی پیداوار کا ہدف مقرر کیا جائے۔ایسے حالات میں جب کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے باعث صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ لانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔

پٹرول مزید مہنگا اور بجلی گیس مہنگی ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں ہم اپنی زراعت و صنعت کی ایسی منصوبہ بندی کریں تاکہ زرعی پیداوار ان کی طلب ان کی کھپت اور اچانک قلت پر قابو پایا جاسکے۔

اسی طرح مصنوعات کی پیداوار ان کی برآمد ان کی لاگت اور دیگر امور کی خاطر صنعتی شعبے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسی طرح افرادی قوت کی برآمد کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پھندے میں آچکے ہیں۔

اب اس سے نکلنا کیسے ہے؟ اور یہ عین ممکن ہے۔ بس پوری پاکستانی قوم اس سے نکلنے کا عزم و ارادہ کرلے۔
Load Next Story