خود شناسی لیڈرشپ کی سب سے اہم اور بنیادی خوبی
دُنیا بھر میں ہائبرڈ لیڈرشپ کے لیے خود آگاہی کو سب سے اہم ہنر تصور کیا جاتا ہے
لیڈرشپ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا موضوع ہے جہاں لوگ، ادارے اور آرگنائزیشن اس بات پر گفتگو کر رہے ہیں کہ قیادت خوبی کے ساتھ ساتھ ایک ذمے داری ہے۔
اس لیے ہر وہ انسان جس کے ذمہ کوئی ذمے داری لگائی جاتی ہے وہ قائدانہ ادا کرتا ہے۔ ذمے داری ہمیشہ کسی ذمہ دار شخص کوہی سونپی جاتی ہے اس لیے
جتنی بڑی ذمے داری ہوگئی اتنا ہی زیادہ لیڈرشپ کا کردار اہم ہو گا۔
قیادت کی صلاحیتوں سے مال مالا افراد کے لیے زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے دوسروں سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
ایک کام یاب اور مؤثر لیڈر میں بے شمار اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن اُن سب میں بنیادی اور اہم خوبی خودشناسی، یعنی خودآگاہی ہے۔
Self Awareness زندگی کے امتحانوں میں سب سے اہم امتحان ہے۔ جو قدرے آسان لگتا ہے لیکن یہ عمر بھر کا سفر ہے، کسی کو اس کی سمجھ آٹھ کی عمر سال میں آسکتی ہے اور کسی کو ساٹھ سال میں بھی آسکتی ہے۔
یہ اندر کا سفر ہے جتنا اندر جائیں گے اتنا ہی وسیع اور گہرا ہوتا جائے گا۔ جو لوگ اس Inward Journey کے سفر پر جتنی جلدی نکل جاتے ہیں اور اتنی ہی جلدی نکھر جاتے ہیں۔ آج کے اس آرٹیکل میں لیڈرشپ کے لیے خود آگاہی کی اہمیت پر گفتگو کریں گے۔
گذشتہ دنوں فوربس میگزین میں شائع ہو نے والے پرسنل برانڈنگ کے گرو ولیم اروڈا William Arruda کے ایک مضمون میں اس دل چسپ اور منفرد موضوع کو نہایت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کے اہم اور بنیادی نکات کو اس مضمون میں شیئر کررہا ہوں۔
ولیم اروڈا نے بڑی خوب صورتی سے لیڈرشپ کے لیے خود آگاہی کی افادیت کو اُجاگر کیا ہے جو متنوع قسم کی لیڈرشپ کے لیے ایک اہم ہنر اور مہارت ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ سو لیڈرشپ کے ماہرین سے پوچھیں کہ اُن کی نظر میں نئے ہائبرڈ کام کی جگہ کے لیے سب سے اہم قائدانہ مہارت کیا ہیں؟ تو آپ کو اس طرح کے جوابات مل سکتے ہیں: دوسروں کو سننا، قابل اعتبار ہونا، جذباتی ذہانت، عاجزی اور کوچنگ کی مہارت وغیرہ ۔ علاوہ ازیں ان راہ نماؤں میں سوفٹ اسکلز کو اہم قرار دیا جاتا ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم قابلیت واقعی ایک اہم وصف پر مبنی ہوتی ہے جو زندگی کے بیشتر پہلوؤں میں ہماری ترقی کے عمل کو تیز کرتی ہے، وہ خودآگاہی کی صلاحیت اور خوبی ہے۔
خودآگاہی آپ کے جذبات، اقدار، عقائد، طرزعمل، جذبات، زندگی کے مقصد اور حقیقت کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ خود آگاہی کی صلاحیت کا ہونا، ہڈینیل گولمین کے جذباتی ذہانت (EQ) ماڈل کا پہلا جزو اور جوہری ونڈو کا ایک اہم عنصر ہے۔
آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ خود سے آگاہ ہونا بھی مؤثر ذاتی برانڈنگ کے لیے پہلا قدم ہے۔ میں یہ اکثر کہتا ہوں کہ آج کے دُور میں بہت سارے لوگوں کو دُنیا جہاں کی معلومات اور چیزوں کا پتا ہے لیکن وہ اپنی ذات سے آگاہ نہیں ہیں۔ آج ہماری دُنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔
آج، کام کی ہائبرڈ دُنیا میں، خود آگاہی اور بھی اہم ہنر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتماد اور دیانت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے دوران انسانی تعلق ختم ہو رہا ہے کیوںکہ ایک لیڈر اور اس کے لوگوں (اور ٹیم کے ارکان کے درمیان) کے درمیان حقیقی دُنیا کا تعامل کم ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں 8 وجوہات پیش کی جاری ہیں جن کی وجہ سے آج کے راہنماؤں کے لیے خود آگاہی کا عمل نہایت اہم ہوتا جارہا ہے۔
آپ کسی بھی لیڈرشپ پوزیشن پر ہیں آپ کے پاس ایک ذمے داری ہے جس کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے آپ اپنی ذات اور صلاحیتوں سے واقف ہونا لازم ہے اور آپ کے بارے میںآپ کو آگاہی آپ سے بہتر اور کوئی نہیں دے سکتا، دوسرے آپ کی مدد اور معاونت کر سکتے ہیں، جو میں نے اس مضمون میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
1: خود آگاہی راہ نماؤں کو شمولیت اور قبولیت کا ماحول پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
اپنے احساسات، صفات اور چیلینجوں کے بارے میں کھلے اور ایمان دار ہونے سے ایک لیڈر اپنے اعمال کے ذریعے یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ٹیم کے اراکین کے لیے ایک محفوظ جگہ بنائی ہے۔ وہ ملازمین جو جانتے ہیں کہ ان کی انفرادیت، تن درستی اور دماغی صحت کی حمایت کی جائے گی اور اُن کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا ، وہ اپنے کام کی جگہ پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے، اس لیے ایسے ملازم کو برقرار رکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
درحقیقت، APA کے مطابق، کمپنیوں کے 89% کارکن جو فلاح و بہبود کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، ان کی جانب سے کمپنی کو کام کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ کے طور پر تجویز کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
2:خودآگاہی راہ نماؤں کو اپنی سپرپاور کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے۔
خود آگاہی انہیں یہ تسلیم کرنے کے قابل بناتی ہے کہ وہ دوسروں پر کس بات سے سبقت لے جاتے ہیں اور اپنے مشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو کیسے بروئے کار لاتے ہیں۔
وہ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ طاقتیں کس طرح توقعات پر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ وہ اپنی اپنی اور اپنے لوگوں کی توقعات سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ شفافیت ٹیموں کو ایک دوسرے کی طاقتوں کو تسلیم کرنے اور نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ سیکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
3:خود آگاہی راہ نماؤں کو ان کے تعصبات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
خودآگاہی کے ذریعے راہ نما اس بارے میں واضح ہوتے ہیں کہ یہ عوامل ان کے فیصلوں اور اعمال کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔ خود آگاہ ہونا انہیں دوسروں کی ضروریات، احساسات اور تجربات سے بھی زیادہ ہم آہنگ ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
وہ حالات اور اس میں شامل افراد کو پورا کرنے کے لیے اپنے قائدانہ انداز کو اپنانے کے لیے زیادہ پرعزم ہوتے ہیں اور اپنی محدود رائے اور تعصبات کو دُور کرسکتے ہیں۔
4:خودآگاہی راہ نماؤں کو دوسروں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
خودآگاہی کی بدولت راہ نماؤں اپنے اردگرد کے لوگوں پر ان کے اعمال کے اثرات سے زیادہ آگاہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ وہ زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور دوسروں کی ضروریات اور نقطہ نظر پر غور کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔
ایسی صورت حال سے راہ نماؤں کی قیادت کا موثر اثر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اجتماعی فلاح کو مدنظر رکھتے ہیں۔
5:خودآگاہی راہ نماؤں کے لیے فیصلہ سازی کو بہتر بناتی ہے۔
خود آگاہ راہ نما فیصلے کرتے وقت اپنے جذبات اور تعصبات پر غور کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان حالات میں اہم ہے جہاں ان کے انتخاب کا ملازمین، ٹیم اور تنظیم پر اہم اثر ڈال سکتا ہے۔
خودآگاہی راہ نماؤں کو یہ سوچ اور قوت دیتی ہے کہ وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں کا استعمال کرکے باہمی مفاد کے لیے فیصلہ سازی کریں۔ راہ نماؤں کے فیصلے اُن کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ اُن کا اثر اُن کے زیراثر لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے۔
6:خودآگاہی راہ نماؤں کو آگے بڑھنے کے قابل بناتی ہے۔
خودآگاہ راہ نما واضح رائے حاصل کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ متحرک اور پُرجوش رہتے ہیں۔ جرنل آف اپلائیڈ سائیکالوجی نے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ خودآگاہ راہ نما دوسروں سے رائے لینے کے لیے زیادہ اوپن ہوتے ہیں اور اپنی ٹیم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے قائدانہ انداز کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔
جب وہ اپنی حدود کے بارے میں اوپن ہوتے ہیں، تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے، مائنڈ سیٹ کو بدلنے اور طرزعمل کو تبدیل کرنے کا عہد کر سکتے ہیں۔
وہ اپنی کم زوری کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں اور دوسروں سے راہ نمائی اور تعاون طلب کر تے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے زیادہ قابل اعتماد بن جاتے ہیں۔ اپنی کم زوری ظاہر کرنے کا مقصد اپنے انسان ہونے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ہوتا ہے۔
7: خودآگاہی راہ نماؤں کو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے میں مدد کرتی ہے۔
وہ راہ نما جو خودآگاہ ہوتے ہیں وہ اپنے جذبات کو پہچاننے اور ان کا نظم کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جو انہیں مشکل حالات اور تنازعات کا زیادہ مؤثر طریقے سے جواب دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ یہ دوسروں کی راہ نمائی اور نظم و نسق کرنے کی ان کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتا ہے کیوںکہ وہ چیلینجوں پر ردعمل ظاہر کرنے یا مثبت، کم خلل ڈالنے والے طریقوں سے بہتر طریقے سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
8:خود آگاہی راہ نماؤں میں اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ہارورڈ بزنس ریویو کی ایک ریسرچ کے مطابق، خودآگاہ راہ نماؤں کو ان کے ملازمین کے ذریعے مستند، منصفانہ، قابل اعتماد اور قابل اعتماد سمجھا جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور حدود کو پہچاننے کے قابل ہوتے ہیں اور انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
یہ ایمان داری ان کی ٹیم اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ دُنیا بھر میں لیڈرشپ ڈویلپمنٹ پروگراموں کے ابتدائی مراحل میں خودآگاہی کو شامل کرنے سے کام یابی سے چلنے والے ٹیلنٹ کو ضروری بنیاد فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے جس پر ان کا منفرد پلیٹ فارم بنایا جا سکتا ہے۔ ان پروگراموں میں ذہن سازی، 360 ریچ فیڈ بیک سروے، خودعکاسی اور کوچنگ کے مواقع جیسی سرگرمیاں شامل ہو سکتی ہیں۔
لیڈرشپ ایک ہی موضوع جس پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ہمارے ہاں لیڈرشپ کو صرف سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں تک محدود کردیا جاتا ہے جب کہ دُنیا بھر میں لیڈرشپ کا آغاز خاندان سے ہوتا ہے جہاں خاندان کا سربراہ ایک راہ نما ہوتے ہوئے اپنی ذمے داری سرانجام دیتا ہے۔
لیڈرشپ ایکسپرٹ جون سی میکسویل اپنے کام اور مہارت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ جون سی میکسویل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی لیڈرشپ کے موضوع پر ہی کام کیا ہے۔ جون سی میکسویل کہتے ہیں کہ لیڈرشپ میری زندگی کی محبت ہے، یہ میرا عشق ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جب لوگ بہتر طور پر لیڈ کرنا سیکھتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔
یہ زندگیاں بدلنے والا عمل ہوتا ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ قوموں، ملکوں اور اداروں کی ترقی، عروج و زوال کا انحصار لیڈرشپ کے کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ جون سی میکسویل The Law of the Lidکو بیان کرتے ہیں کہ آپ کی لیڈرشپ کی کام یابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ خود کیسے لیڈ کرتے ہیں۔ اس لیے جون سی میکسویل کہتے ہیں کہ اپنی لیڈرشپ کی صلاحیتوں اور capacity کو بڑھائیں تاکہ آپ کام یابی کو حاصل کر سکیں۔
ہم سب کے اندر قدرتی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، یہ ہر فرد کے لیے مختلف ہوسکتی ہیں اس لیے ان کی پہچان اور بہتر استعمال ہی کام یابی کی کنجی ہے۔
اپنی خودآگاہی کی خوبی کو نکھاریں، اسے اپنے بچوں، طالب عملوں، ساتھیوں اور ٹیم کے ساتھ شیئر کریں۔ یہ ایک خوبی ہے جو آپ کو منفرد بناتی ہے۔ خود سے آگاہ راہ نما اپنی اور دوسروں کی زندگی بدلنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ آئیں اس اندر کے سفر کو آج سے ہی شروع کریں اور نئی منزلوں کی جانب گام زن ہوجائیں۔
اس لیے ہر وہ انسان جس کے ذمہ کوئی ذمے داری لگائی جاتی ہے وہ قائدانہ ادا کرتا ہے۔ ذمے داری ہمیشہ کسی ذمہ دار شخص کوہی سونپی جاتی ہے اس لیے
جتنی بڑی ذمے داری ہوگئی اتنا ہی زیادہ لیڈرشپ کا کردار اہم ہو گا۔
قیادت کی صلاحیتوں سے مال مالا افراد کے لیے زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے دوسروں سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
ایک کام یاب اور مؤثر لیڈر میں بے شمار اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن اُن سب میں بنیادی اور اہم خوبی خودشناسی، یعنی خودآگاہی ہے۔
Self Awareness زندگی کے امتحانوں میں سب سے اہم امتحان ہے۔ جو قدرے آسان لگتا ہے لیکن یہ عمر بھر کا سفر ہے، کسی کو اس کی سمجھ آٹھ کی عمر سال میں آسکتی ہے اور کسی کو ساٹھ سال میں بھی آسکتی ہے۔
یہ اندر کا سفر ہے جتنا اندر جائیں گے اتنا ہی وسیع اور گہرا ہوتا جائے گا۔ جو لوگ اس Inward Journey کے سفر پر جتنی جلدی نکل جاتے ہیں اور اتنی ہی جلدی نکھر جاتے ہیں۔ آج کے اس آرٹیکل میں لیڈرشپ کے لیے خود آگاہی کی اہمیت پر گفتگو کریں گے۔
گذشتہ دنوں فوربس میگزین میں شائع ہو نے والے پرسنل برانڈنگ کے گرو ولیم اروڈا William Arruda کے ایک مضمون میں اس دل چسپ اور منفرد موضوع کو نہایت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کے اہم اور بنیادی نکات کو اس مضمون میں شیئر کررہا ہوں۔
ولیم اروڈا نے بڑی خوب صورتی سے لیڈرشپ کے لیے خود آگاہی کی افادیت کو اُجاگر کیا ہے جو متنوع قسم کی لیڈرشپ کے لیے ایک اہم ہنر اور مہارت ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ سو لیڈرشپ کے ماہرین سے پوچھیں کہ اُن کی نظر میں نئے ہائبرڈ کام کی جگہ کے لیے سب سے اہم قائدانہ مہارت کیا ہیں؟ تو آپ کو اس طرح کے جوابات مل سکتے ہیں: دوسروں کو سننا، قابل اعتبار ہونا، جذباتی ذہانت، عاجزی اور کوچنگ کی مہارت وغیرہ ۔ علاوہ ازیں ان راہ نماؤں میں سوفٹ اسکلز کو اہم قرار دیا جاتا ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم قابلیت واقعی ایک اہم وصف پر مبنی ہوتی ہے جو زندگی کے بیشتر پہلوؤں میں ہماری ترقی کے عمل کو تیز کرتی ہے، وہ خودآگاہی کی صلاحیت اور خوبی ہے۔
خودآگاہی آپ کے جذبات، اقدار، عقائد، طرزعمل، جذبات، زندگی کے مقصد اور حقیقت کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ خود آگاہی کی صلاحیت کا ہونا، ہڈینیل گولمین کے جذباتی ذہانت (EQ) ماڈل کا پہلا جزو اور جوہری ونڈو کا ایک اہم عنصر ہے۔
آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ خود سے آگاہ ہونا بھی مؤثر ذاتی برانڈنگ کے لیے پہلا قدم ہے۔ میں یہ اکثر کہتا ہوں کہ آج کے دُور میں بہت سارے لوگوں کو دُنیا جہاں کی معلومات اور چیزوں کا پتا ہے لیکن وہ اپنی ذات سے آگاہ نہیں ہیں۔ آج ہماری دُنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔
آج، کام کی ہائبرڈ دُنیا میں، خود آگاہی اور بھی اہم ہنر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتماد اور دیانت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے دوران انسانی تعلق ختم ہو رہا ہے کیوںکہ ایک لیڈر اور اس کے لوگوں (اور ٹیم کے ارکان کے درمیان) کے درمیان حقیقی دُنیا کا تعامل کم ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں 8 وجوہات پیش کی جاری ہیں جن کی وجہ سے آج کے راہنماؤں کے لیے خود آگاہی کا عمل نہایت اہم ہوتا جارہا ہے۔
آپ کسی بھی لیڈرشپ پوزیشن پر ہیں آپ کے پاس ایک ذمے داری ہے جس کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے آپ اپنی ذات اور صلاحیتوں سے واقف ہونا لازم ہے اور آپ کے بارے میںآپ کو آگاہی آپ سے بہتر اور کوئی نہیں دے سکتا، دوسرے آپ کی مدد اور معاونت کر سکتے ہیں، جو میں نے اس مضمون میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
1: خود آگاہی راہ نماؤں کو شمولیت اور قبولیت کا ماحول پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
اپنے احساسات، صفات اور چیلینجوں کے بارے میں کھلے اور ایمان دار ہونے سے ایک لیڈر اپنے اعمال کے ذریعے یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ٹیم کے اراکین کے لیے ایک محفوظ جگہ بنائی ہے۔ وہ ملازمین جو جانتے ہیں کہ ان کی انفرادیت، تن درستی اور دماغی صحت کی حمایت کی جائے گی اور اُن کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا ، وہ اپنے کام کی جگہ پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے، اس لیے ایسے ملازم کو برقرار رکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
درحقیقت، APA کے مطابق، کمپنیوں کے 89% کارکن جو فلاح و بہبود کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، ان کی جانب سے کمپنی کو کام کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ کے طور پر تجویز کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
2:خودآگاہی راہ نماؤں کو اپنی سپرپاور کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے۔
خود آگاہی انہیں یہ تسلیم کرنے کے قابل بناتی ہے کہ وہ دوسروں پر کس بات سے سبقت لے جاتے ہیں اور اپنے مشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو کیسے بروئے کار لاتے ہیں۔
وہ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ طاقتیں کس طرح توقعات پر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ وہ اپنی اپنی اور اپنے لوگوں کی توقعات سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ شفافیت ٹیموں کو ایک دوسرے کی طاقتوں کو تسلیم کرنے اور نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ سیکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
3:خود آگاہی راہ نماؤں کو ان کے تعصبات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
خودآگاہی کے ذریعے راہ نما اس بارے میں واضح ہوتے ہیں کہ یہ عوامل ان کے فیصلوں اور اعمال کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔ خود آگاہ ہونا انہیں دوسروں کی ضروریات، احساسات اور تجربات سے بھی زیادہ ہم آہنگ ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
وہ حالات اور اس میں شامل افراد کو پورا کرنے کے لیے اپنے قائدانہ انداز کو اپنانے کے لیے زیادہ پرعزم ہوتے ہیں اور اپنی محدود رائے اور تعصبات کو دُور کرسکتے ہیں۔
4:خودآگاہی راہ نماؤں کو دوسروں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
خودآگاہی کی بدولت راہ نماؤں اپنے اردگرد کے لوگوں پر ان کے اعمال کے اثرات سے زیادہ آگاہ ہونے میں مدد ملتی ہے۔ وہ زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور دوسروں کی ضروریات اور نقطہ نظر پر غور کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔
ایسی صورت حال سے راہ نماؤں کی قیادت کا موثر اثر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اجتماعی فلاح کو مدنظر رکھتے ہیں۔
5:خودآگاہی راہ نماؤں کے لیے فیصلہ سازی کو بہتر بناتی ہے۔
خود آگاہ راہ نما فیصلے کرتے وقت اپنے جذبات اور تعصبات پر غور کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان حالات میں اہم ہے جہاں ان کے انتخاب کا ملازمین، ٹیم اور تنظیم پر اہم اثر ڈال سکتا ہے۔
خودآگاہی راہ نماؤں کو یہ سوچ اور قوت دیتی ہے کہ وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں کا استعمال کرکے باہمی مفاد کے لیے فیصلہ سازی کریں۔ راہ نماؤں کے فیصلے اُن کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ اُن کا اثر اُن کے زیراثر لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے۔
6:خودآگاہی راہ نماؤں کو آگے بڑھنے کے قابل بناتی ہے۔
خودآگاہ راہ نما واضح رائے حاصل کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ متحرک اور پُرجوش رہتے ہیں۔ جرنل آف اپلائیڈ سائیکالوجی نے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ خودآگاہ راہ نما دوسروں سے رائے لینے کے لیے زیادہ اوپن ہوتے ہیں اور اپنی ٹیم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے قائدانہ انداز کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔
جب وہ اپنی حدود کے بارے میں اوپن ہوتے ہیں، تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے، مائنڈ سیٹ کو بدلنے اور طرزعمل کو تبدیل کرنے کا عہد کر سکتے ہیں۔
وہ اپنی کم زوری کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں اور دوسروں سے راہ نمائی اور تعاون طلب کر تے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے زیادہ قابل اعتماد بن جاتے ہیں۔ اپنی کم زوری ظاہر کرنے کا مقصد اپنے انسان ہونے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ہوتا ہے۔
7: خودآگاہی راہ نماؤں کو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے میں مدد کرتی ہے۔
وہ راہ نما جو خودآگاہ ہوتے ہیں وہ اپنے جذبات کو پہچاننے اور ان کا نظم کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جو انہیں مشکل حالات اور تنازعات کا زیادہ مؤثر طریقے سے جواب دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ یہ دوسروں کی راہ نمائی اور نظم و نسق کرنے کی ان کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتا ہے کیوںکہ وہ چیلینجوں پر ردعمل ظاہر کرنے یا مثبت، کم خلل ڈالنے والے طریقوں سے بہتر طریقے سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
8:خود آگاہی راہ نماؤں میں اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ہارورڈ بزنس ریویو کی ایک ریسرچ کے مطابق، خودآگاہ راہ نماؤں کو ان کے ملازمین کے ذریعے مستند، منصفانہ، قابل اعتماد اور قابل اعتماد سمجھا جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور حدود کو پہچاننے کے قابل ہوتے ہیں اور انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
یہ ایمان داری ان کی ٹیم اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ دُنیا بھر میں لیڈرشپ ڈویلپمنٹ پروگراموں کے ابتدائی مراحل میں خودآگاہی کو شامل کرنے سے کام یابی سے چلنے والے ٹیلنٹ کو ضروری بنیاد فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے جس پر ان کا منفرد پلیٹ فارم بنایا جا سکتا ہے۔ ان پروگراموں میں ذہن سازی، 360 ریچ فیڈ بیک سروے، خودعکاسی اور کوچنگ کے مواقع جیسی سرگرمیاں شامل ہو سکتی ہیں۔
لیڈرشپ ایک ہی موضوع جس پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ہمارے ہاں لیڈرشپ کو صرف سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں تک محدود کردیا جاتا ہے جب کہ دُنیا بھر میں لیڈرشپ کا آغاز خاندان سے ہوتا ہے جہاں خاندان کا سربراہ ایک راہ نما ہوتے ہوئے اپنی ذمے داری سرانجام دیتا ہے۔
لیڈرشپ ایکسپرٹ جون سی میکسویل اپنے کام اور مہارت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ جون سی میکسویل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی لیڈرشپ کے موضوع پر ہی کام کیا ہے۔ جون سی میکسویل کہتے ہیں کہ لیڈرشپ میری زندگی کی محبت ہے، یہ میرا عشق ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جب لوگ بہتر طور پر لیڈ کرنا سیکھتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔
یہ زندگیاں بدلنے والا عمل ہوتا ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ قوموں، ملکوں اور اداروں کی ترقی، عروج و زوال کا انحصار لیڈرشپ کے کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ جون سی میکسویل The Law of the Lidکو بیان کرتے ہیں کہ آپ کی لیڈرشپ کی کام یابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ خود کیسے لیڈ کرتے ہیں۔ اس لیے جون سی میکسویل کہتے ہیں کہ اپنی لیڈرشپ کی صلاحیتوں اور capacity کو بڑھائیں تاکہ آپ کام یابی کو حاصل کر سکیں۔
ہم سب کے اندر قدرتی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، یہ ہر فرد کے لیے مختلف ہوسکتی ہیں اس لیے ان کی پہچان اور بہتر استعمال ہی کام یابی کی کنجی ہے۔
اپنی خودآگاہی کی خوبی کو نکھاریں، اسے اپنے بچوں، طالب عملوں، ساتھیوں اور ٹیم کے ساتھ شیئر کریں۔ یہ ایک خوبی ہے جو آپ کو منفرد بناتی ہے۔ خود سے آگاہ راہ نما اپنی اور دوسروں کی زندگی بدلنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ آئیں اس اندر کے سفر کو آج سے ہی شروع کریں اور نئی منزلوں کی جانب گام زن ہوجائیں۔