بھارتی جبر کی چکی میں پستی محکوم کشمیری خواتین
حقوق نسواں کے علمبردار ممالک اور عالمی اداروں کو کشمیر کی خواتین پر ہونے والا بدترین ظلم و جبر کیوں نظر نہیں آتا؟
مقبوضہ وادی کشمیر میں بسنے والی عورت اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ غیر محفوظ اور مجروح عورت ہے۔
بھارت کے 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے اقدام نے کشمیری خواتین کو بھارتی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں رائج تمام قانون ختم ہوچکے ہیں اور وہاں ہندوستان کا قانون مکمل طور پر نافذالعمل ہو چکا ہے یعنی ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 360 کا اطلاق جموں و کشمیر اور لداخ پر ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ 35 اے جو کشمیریوں کو خصوصی شہریت کے حقوق دیتا تھا ،ختم ہوچکا ہے۔ اس کے تحت غیر کشمیری (ہندو) جموں و کشمیر میں جائیداد خرید نے اور سرکاری نوکریاں کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کے مجاز بن چکے ہیں۔
اس وقت کشمیری خواتین کی نہ صرف عصمت غیر محفوظ ہے بلکہ شوہر، بھائیوں اور جوان بیٹوں کی شہادتوں اور لاپتہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی پرورش اور اہل خانہ کی کفالت کا سارا بوجھ بھی انھی کے نازک کاندھوں پر ہے۔ اس وقت ہزاروں کشمیری غائب کر دیئے گئے ہیں۔ آسیہ اندرابی ہوں، فہمیدہ صوفی یا ناہیدہ نسرین سینکڑوں خواتین تحریک آزادی سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی کی وجہ سے جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔
بھارتی مظالم سے تنگ آکر خواتین بھی گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئی ہیں اور باقاعدہ تحریک کا حصہ بن رہی ہیں ۔ وہ جنسی ہراسگی کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف خاندان کی کفالت کر رہی ہیں بلکہ تحریک آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیری طالبات قابض بھارتی فوج پر پتھر برساتی ہوئی نظر آتی ہیں اور بزدل فوج کی پیلٹ گنز کا ہدف بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ انشاء مشتاق اور افراء شکور سمیت 70 سے زائد بچیاں اور بچے پیلٹ گنز کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔
ویانا ڈیکلریشن کے مطابق '' خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہیں۔'' حیرت ہے کہ عالمی برادری نے ابھی تک کشمیری خواتین کے خلاف ریا ستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاس کیے گئے خواتین کے حقوق کے عالمی بل سیڈا (CEDAW) کے تحت عورتوں کو معاشرتی، سیاسی اور زندگی کے ہر شعبے میں بنیادی حقوق و آزادی حاصل ہے جبکہ کشمیری خواتین کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سارے ظلم کی بنیادی وجہ انڈیا کا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کے عوام سے کیا تھا۔
عالم اسلام کا المیہ ہے کہ اس نے کبھی کشمیر اور فلسطین کے لیے اپنے پورے وسائل استعمال ہی نہیں کیے۔ مسلمان ممالک کے پاس ایسے وسائل ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو یورپ کی مشینری کو جام کر سکتے ہیں، تاہم انہوں نے اپنے مفادات اور باہمی اختلافات کی وجہ سے ایک آواز ہو کر نہ فلسطین اور نہ ہی کشمیر کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ان کی عدم توجہی کا محض نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 1989 سے 30 جون 2022 تک 23 ہزار 234 کشمیری خواتین بیوہ ہو چکی ہیں کیونکہ ان کے شوہروں کو حق خودارادیت کے جرم میں بھارتی قابض فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور پیراملٹری نے بے دردی سے سر عام شہید کیا اور صرف جنوری 2001 سے اب تک کم ازکم 681 خواتین کو آبروریزی کرکے شہید کیا گیا۔
1989 سے اب تک 95 ہزار 747 کشمیری شہید ہو چکے ہیںجبکہ 12 ہزار 121 سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1989 سے لے کر 2022 تک 8 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ہے ۔ یہ وہ افراد ہیں جن کی خواتین کو نیم بیوہ کہا جاتا ہے اور جن کے اوپر گھر کی کفالت کی ذمہ داری بھی آ پڑی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہادتوں، عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات کی اصل تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے جو منظر عام پر آتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر 100میں سے 70 خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔ اس کے علاوہ اس عدم تحفظ کے باعث خواتین میں خودکشیوں کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے ' مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال' میں موجود ریکارڈ کے مطابق خوف، صدمہ اور معاشی بحران کے باعث اپریل 2020 ء سے مارچ 2021 ء تک مقبوضہ کشمیر میں 515 خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 343 خواتین تھیں۔
کنن پورہ میں 100خواتین کے ساتھ قابض بھارتی فوجیوں کی زیادتی، شوپیاں میں اجتماعی عصمت دری اور دہرا قتل،کھٹوعہ میں کمسن بچی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل جیسے واقعات بھارتی فورسز کے ظالمانہ اور مکروہ چہرے کی عکاسی کرتے ہیں،جس کے باعث خواتین خوف کا شکار اور صدمے سے دوچار ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے کھٹوعہ میں 9 سالہ آصفہ کے ساتھ مندر میں انتہا پسند ہندوؤں کی اجتماعی زیادتی کا واقعہ انتہائی دردناک ہے۔ 6 روز تک معصوم بچی کے ساتھ کئی افراد زیادتی کرتے رہے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے پہلے بھی درندگی کی گئی۔ پھر سر پر پتھر مار کر اور گلا گھونٹ کر ننھی آصفہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
آصفہ کو اغوا کرکے '' دیوی استھان '' مندر میں رکھا گیا۔ قتل کے بعد بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی گئی۔ پولیس افسروں نے درندگی کے مجرم سنجی رام سے چار لاکھ روپے لے کر قتل اور زیادتی کے اہم شواہد ضائع کر دیے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹوئٹر پر سرگرم رہنے والے نریندر مودی نے کشمیر میں آصفہ سمیت دیگر معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی پر خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن جب دنیا میں اس پر احتجاج ہوا تو نریندر مودی نے کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ان واقعات کی دبے الفاظ میں صرف مذمت کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے آصفہ کے مجرموں کے حق میں بیانات بھی دیے اور جلوس بھی نکالے۔
بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ اسی طرح وادی میں سرچ آپریشن کے دوران نوبیاہتا دلہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں پروفیسر ولیم بیکر نے رپورٹ دی تھی کہ کشمیر میں عصمت دری کو سکیورٹی فورسز ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ بناؤ سنگھار اور خوبصورت نظر آنا ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے لیکن کشمیر میں اس وقت اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔' دی انڈیپینڈنٹ ' کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین باہر نکلتے وقت خود کو بدصورت دکھانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ فوجیوں کی درندگی سے بچ سکیں۔
اب مائیں اپنے شہید بیٹوں کے جلوس کی قیادت کرتی ہیں، جنازے میں شریک ہوتی ہیں اور قبرستان تک جاتی ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈاکٹر برہان کی ساٹھ سالہ والدہ ہیں۔
ڈاکٹر برہان کی والدہ نے ان کے لاپتہ ہونے کے گیارہ ماہ بعد جب اپنے بیٹے کی میت دیکھی تو سوگواروں کے ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ '' کوئی ان کی شہادت پر ماتم نہیں کرے گا ۔ برہان نے اپنے لیے جنت کا جو راستہ منتخب کیا تھا ، وہ اس پر ثابت قدم رہا ۔ انجانے میں اگر اس نے کسی کو گزند پہنچائی ہو تو اللہ کے واسطے اس کو معاف کر دیں۔'' حالانکہ اس دکھی ماں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا جو ڈگری ملنے کے بعد اچانک لاپتہ ہو گیا تھا جب واپس ملا تو گولیوں سے چھلنی لاش کی صورت میں۔
اب جبکہ اکیسویں صدی میں دنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لئے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور خواتین پر تشدد کو ان کی ترقی اور پیشرفت میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے تو جنگ زدہ علاقوں خصوصاً کشمیر میں خواتین کے حقوق کی پامالی دنیا کے لیے بہت بڑا المیہ اور چیلنج ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کب مظلوم کشمیروں کی دادرسی کے لئے کھڑا ہو گا۔
کشمیر یوم یکجہتی
ٹْو ٹے گی ظلم و جور کی زنجیر ایک دن
آزاد ہوگی وادیِ کشمیر ایک دن
"مقبوضہ" پھر کوئی اْسے کہنے نہ پائے گا
کشمیر کی یوں بدلے گی تقدیر ایک دن
ظلم و ستم سے، درد سے، خوں سے بھری ہے آج
خوشیوں سے بدلی جائے گی تصویر ایک دن
آزاد ہوگی وادی، نہ ہوگا کوئی ستم
گائے گی گیت ارضِ گْلوگیر ایک دن
"یوم نجات" آیا، شبِ ظلم ختم ہے
ہر جا خبر بنے گی یہ تحریر ایک دن
ارتھی اٹھے گی ظلم کی اک روز دیکھنا
"جشنِ فتح " منائے گا کشمیر ایک دن
مودی کا ظلم ہارے گا، آصف یقین ہے
سچ کو ملے گی دیکھنا تاثیر ایک دن
(آصف زیدی)
بھارت کے 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے اقدام نے کشمیری خواتین کو بھارتی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں رائج تمام قانون ختم ہوچکے ہیں اور وہاں ہندوستان کا قانون مکمل طور پر نافذالعمل ہو چکا ہے یعنی ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 360 کا اطلاق جموں و کشمیر اور لداخ پر ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ 35 اے جو کشمیریوں کو خصوصی شہریت کے حقوق دیتا تھا ،ختم ہوچکا ہے۔ اس کے تحت غیر کشمیری (ہندو) جموں و کشمیر میں جائیداد خرید نے اور سرکاری نوکریاں کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کے مجاز بن چکے ہیں۔
اس وقت کشمیری خواتین کی نہ صرف عصمت غیر محفوظ ہے بلکہ شوہر، بھائیوں اور جوان بیٹوں کی شہادتوں اور لاپتہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی پرورش اور اہل خانہ کی کفالت کا سارا بوجھ بھی انھی کے نازک کاندھوں پر ہے۔ اس وقت ہزاروں کشمیری غائب کر دیئے گئے ہیں۔ آسیہ اندرابی ہوں، فہمیدہ صوفی یا ناہیدہ نسرین سینکڑوں خواتین تحریک آزادی سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی کی وجہ سے جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔
بھارتی مظالم سے تنگ آکر خواتین بھی گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئی ہیں اور باقاعدہ تحریک کا حصہ بن رہی ہیں ۔ وہ جنسی ہراسگی کے لرزہ خیز واقعات کے باوجود نہ صرف خاندان کی کفالت کر رہی ہیں بلکہ تحریک آزادی کو بھی تقویت پہنچا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیری طالبات قابض بھارتی فوج پر پتھر برساتی ہوئی نظر آتی ہیں اور بزدل فوج کی پیلٹ گنز کا ہدف بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ انشاء مشتاق اور افراء شکور سمیت 70 سے زائد بچیاں اور بچے پیلٹ گنز کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔
ویانا ڈیکلریشن کے مطابق '' خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہیں۔'' حیرت ہے کہ عالمی برادری نے ابھی تک کشمیری خواتین کے خلاف ریا ستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاس کیے گئے خواتین کے حقوق کے عالمی بل سیڈا (CEDAW) کے تحت عورتوں کو معاشرتی، سیاسی اور زندگی کے ہر شعبے میں بنیادی حقوق و آزادی حاصل ہے جبکہ کشمیری خواتین کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سارے ظلم کی بنیادی وجہ انڈیا کا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کے عوام سے کیا تھا۔
عالم اسلام کا المیہ ہے کہ اس نے کبھی کشمیر اور فلسطین کے لیے اپنے پورے وسائل استعمال ہی نہیں کیے۔ مسلمان ممالک کے پاس ایسے وسائل ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو یورپ کی مشینری کو جام کر سکتے ہیں، تاہم انہوں نے اپنے مفادات اور باہمی اختلافات کی وجہ سے ایک آواز ہو کر نہ فلسطین اور نہ ہی کشمیر کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ان کی عدم توجہی کا محض نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 1989 سے 30 جون 2022 تک 23 ہزار 234 کشمیری خواتین بیوہ ہو چکی ہیں کیونکہ ان کے شوہروں کو حق خودارادیت کے جرم میں بھارتی قابض فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور پیراملٹری نے بے دردی سے سر عام شہید کیا اور صرف جنوری 2001 سے اب تک کم ازکم 681 خواتین کو آبروریزی کرکے شہید کیا گیا۔
1989 سے اب تک 95 ہزار 747 کشمیری شہید ہو چکے ہیںجبکہ 12 ہزار 121 سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1989 سے لے کر 2022 تک 8 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ہے ۔ یہ وہ افراد ہیں جن کی خواتین کو نیم بیوہ کہا جاتا ہے اور جن کے اوپر گھر کی کفالت کی ذمہ داری بھی آ پڑی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہادتوں، عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات کی اصل تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے جو منظر عام پر آتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر 100میں سے 70 خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔ اس کے علاوہ اس عدم تحفظ کے باعث خواتین میں خودکشیوں کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے ' مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال' میں موجود ریکارڈ کے مطابق خوف، صدمہ اور معاشی بحران کے باعث اپریل 2020 ء سے مارچ 2021 ء تک مقبوضہ کشمیر میں 515 خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 343 خواتین تھیں۔
کنن پورہ میں 100خواتین کے ساتھ قابض بھارتی فوجیوں کی زیادتی، شوپیاں میں اجتماعی عصمت دری اور دہرا قتل،کھٹوعہ میں کمسن بچی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل جیسے واقعات بھارتی فورسز کے ظالمانہ اور مکروہ چہرے کی عکاسی کرتے ہیں،جس کے باعث خواتین خوف کا شکار اور صدمے سے دوچار ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے کھٹوعہ میں 9 سالہ آصفہ کے ساتھ مندر میں انتہا پسند ہندوؤں کی اجتماعی زیادتی کا واقعہ انتہائی دردناک ہے۔ 6 روز تک معصوم بچی کے ساتھ کئی افراد زیادتی کرتے رہے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے پہلے بھی درندگی کی گئی۔ پھر سر پر پتھر مار کر اور گلا گھونٹ کر ننھی آصفہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
آصفہ کو اغوا کرکے '' دیوی استھان '' مندر میں رکھا گیا۔ قتل کے بعد بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی گئی۔ پولیس افسروں نے درندگی کے مجرم سنجی رام سے چار لاکھ روپے لے کر قتل اور زیادتی کے اہم شواہد ضائع کر دیے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹوئٹر پر سرگرم رہنے والے نریندر مودی نے کشمیر میں آصفہ سمیت دیگر معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی پر خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن جب دنیا میں اس پر احتجاج ہوا تو نریندر مودی نے کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ان واقعات کی دبے الفاظ میں صرف مذمت کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے آصفہ کے مجرموں کے حق میں بیانات بھی دیے اور جلوس بھی نکالے۔
بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ اسی طرح وادی میں سرچ آپریشن کے دوران نوبیاہتا دلہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں پروفیسر ولیم بیکر نے رپورٹ دی تھی کہ کشمیر میں عصمت دری کو سکیورٹی فورسز ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ بناؤ سنگھار اور خوبصورت نظر آنا ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے لیکن کشمیر میں اس وقت اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔' دی انڈیپینڈنٹ ' کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین باہر نکلتے وقت خود کو بدصورت دکھانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ فوجیوں کی درندگی سے بچ سکیں۔
اب مائیں اپنے شہید بیٹوں کے جلوس کی قیادت کرتی ہیں، جنازے میں شریک ہوتی ہیں اور قبرستان تک جاتی ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈاکٹر برہان کی ساٹھ سالہ والدہ ہیں۔
ڈاکٹر برہان کی والدہ نے ان کے لاپتہ ہونے کے گیارہ ماہ بعد جب اپنے بیٹے کی میت دیکھی تو سوگواروں کے ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ '' کوئی ان کی شہادت پر ماتم نہیں کرے گا ۔ برہان نے اپنے لیے جنت کا جو راستہ منتخب کیا تھا ، وہ اس پر ثابت قدم رہا ۔ انجانے میں اگر اس نے کسی کو گزند پہنچائی ہو تو اللہ کے واسطے اس کو معاف کر دیں۔'' حالانکہ اس دکھی ماں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا جو ڈگری ملنے کے بعد اچانک لاپتہ ہو گیا تھا جب واپس ملا تو گولیوں سے چھلنی لاش کی صورت میں۔
اب جبکہ اکیسویں صدی میں دنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لئے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور خواتین پر تشدد کو ان کی ترقی اور پیشرفت میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے تو جنگ زدہ علاقوں خصوصاً کشمیر میں خواتین کے حقوق کی پامالی دنیا کے لیے بہت بڑا المیہ اور چیلنج ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کب مظلوم کشمیروں کی دادرسی کے لئے کھڑا ہو گا۔
کشمیر یوم یکجہتی
ٹْو ٹے گی ظلم و جور کی زنجیر ایک دن
آزاد ہوگی وادیِ کشمیر ایک دن
"مقبوضہ" پھر کوئی اْسے کہنے نہ پائے گا
کشمیر کی یوں بدلے گی تقدیر ایک دن
ظلم و ستم سے، درد سے، خوں سے بھری ہے آج
خوشیوں سے بدلی جائے گی تصویر ایک دن
آزاد ہوگی وادی، نہ ہوگا کوئی ستم
گائے گی گیت ارضِ گْلوگیر ایک دن
"یوم نجات" آیا، شبِ ظلم ختم ہے
ہر جا خبر بنے گی یہ تحریر ایک دن
ارتھی اٹھے گی ظلم کی اک روز دیکھنا
"جشنِ فتح " منائے گا کشمیر ایک دن
مودی کا ظلم ہارے گا، آصف یقین ہے
سچ کو ملے گی دیکھنا تاثیر ایک دن
(آصف زیدی)