دہشت گردی… پس منظر اور پیش منظر

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کے لیے صورت حال زیادہ سنگین ہو گئی ہے

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کے لیے صورت حال زیادہ سنگین ہو گئی ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں اپیکس کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ شہداء کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

قوم کی امیدوں اور اعتماد پر پورا اتریں گے، ہر قیمت پر جان ومال کا تحفظ یقینی بنائیں گے، بے گناہوں کا خون بہانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔7گھنٹوں پرمحیط اجلاس نے دہشت گردی کے واقعات خاص طور پر 30 جنوری 2023کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش حملے اور اس کے بعد کی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا۔

کمیٹی نے نیکٹا، سی ٹی ڈی اور پولیس کی اپ گریڈیشن، تربیت، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور دیگر ضروری سازوسامان کی فراہمی کے حوالے سے تجاویز کی اصولی منظوری دی۔

خیبرپختونخوا میں اسلام آباد اور لاہور کی طرح سیف سٹی منصوبہ شروع ہوگا، صوبہ میں فوری طور پر سی، ٹی، ڈی ہیڈ کوارٹرز تعمیر اور صوبہ پنجاب کی طرز پر جدید فارنزک لیبارٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اپیکس کمیٹی اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش حملے اور اس کے بعدکی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ حساس اداروں کے نمایندوں نے سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر بریفنگ دی۔

خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری نے پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے کی اب تک کی تحقیقات اور ہونے والی پیش رفت سے اجلاس کو آگاہ کیا۔ اجلاس کو بتایا کیا کہ حملہ آور کی آمدکے طریقہ کار اور جس راستے سے وہ آیا، وڈیوز کے ذریعے اِس کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔

اجلاس نے متاثرہ خاندانوں کو یقین دلایا کہ ان کے پیاروں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا، حکومت اور قوم شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ اجلاس نے قوم کو یقین دلایا کہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ معصوم پاکستانیوں پر حملہ کرنے والے ہر صورت سزا پائیں گے۔

اجلاس نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر افواج پاکستان، رینجرز، ایف سی، سی ٹی ڈی، پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سلام پیش کیا۔ اجلاس نے تمام طبقات خاص طور پر میڈیا سے اپیل کی کہ دہشت گردی کے واقعات سے متعلق جس طرح پہلے قومی ذمے داری کا رویہ اپنایا اسی ذمے داری کے ساتھ بے بنیاد قیاس آرائیاں خاص طورپر سوشل میڈیا پر پھیلانے کا حصہ نہ بنیں۔یہ طرزعمل قومی سلامتی کے تقاضوں، قومی یک جہتی، اتحاد کے لیے نقصان دہ ہے۔

اجلاس نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔اجلاس میں بارڈر مینجمنٹ کنٹرول اور امیگریشن کے نظام کا جائزہ لیا گیا۔دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات، پراسیکیوشن اور سزا دلانے کے مراحل پر بھی غور کیاگیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے ریاست کے تمام عناصر کو کامل یکسوئی، اشتراک عمل اور مشترکہ قومی اہداف کے حصول کے جذبے سے کام کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔

اجلاس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک سوچ، ایک حکمت عملی اپنانے پر اصولی اتفاق کیا اور اس ضمن میں مؤثر حکمت عملی کی تیاری کی ہدایت کی۔اجلاس نے ملک کے اندر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے تمام ذرایع ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔اجلاس نے یہ بھی طے کیا کہ دہشت گردی کی ہر قسم اور ہر شکل کے لیے زیروٹالرنس کا رویہ قومی نصب العین ہوگا۔


اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو متحد ہونا ہو گا۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ اور پولیس کو مضبوط بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون کرے گی۔انھوں نے کہا پشاور دہشت گردی اور سیکیورٹی میں غفلت کی تحقیقات ہونی چاہیے۔چند سال قبل ختم کی گئی دہشت گردی کے بعد یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟

سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کو دیے گئے417 ارب روپے کہاں گئے؟ اس کا آڈٹ اور احتساب ہونا چاہیے۔ یہ پیسہ سیکیورٹی کی مد میں تھا۔ اگر اس پیسے کا آدھا بھی اس مد میں خرچ کیا جاتا تو صوبے کے عوام سکون کی نیند سوتے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے حوالے سے جو بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا وہ بھی قابل مذمت ہے۔ یہ وقت کی ضررورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت اور مذہبی زعما اپنے تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں، اس کی ذمے داری لیں اوراس کا مقابلہ کریں۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم مل کر دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور انشاء اللہ ہم دیرپا امن کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور پولیس لائنز دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا۔ آرمی چیف نے پولیس افسران اور جوانوں سے ملاقات کی۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کے پی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور شراکت کو سراہا۔

آرمی چیف نے کہا کہ کے پی پولیس سب سے بہادر ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن فورس کے طور پر جنگ لڑی ہے۔ انھوں نے کے پی پولیس کے بلند حوصلے کو بھی سراہا اور مادر وطن کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پولیس کے شہداء کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں نئی نہیں ہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہے۔ اس کے ڈانڈے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے بھی ملتے ہیں اور افغانستان تک جاتے ہیں۔

افغانستان میں سوشلسٹوں اور کیپٹلسٹوں کے درمیان سرد جنگ کا آخری راؤنڈ کھیلا گیا۔ اس فائنل راؤنڈ میں سوشلسٹوں کو شکست ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی سوویت یونین کا زوال ہو گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک فتح یاب ہو گئے۔ اس جنگ کی تیاری 1950 کی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھی۔

عالمی سرمایہ داری نظام کی قیادت برطانیہ سے شفٹ ہو کر امریکا منتقل ہو گئی جب کہ سوویت یونین سوشلسٹ بلاک کی قیادت کر رہا تھا۔ 50 سے 80 کی دہائی تک امریکی بلاک اور سوویت بلاک کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر رہی۔ امریکا اور یورپین طاقتوں نے معاہدہ کر لیا تھا کہ سرد جنگ کو یورپ سے باہر لڑا جائے گا۔ یوں کولڈ وار کا میدان لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے ممالک کو بنایا گیا۔

افغانستان وسط ایشیا سے جنوبی ایشیا اور بحیرۂ عرب تک پہنچنے کی راہداری تھی لہٰذا یہاں سرد جنگ کا فائنل راؤنڈ کھیلا گیا۔ افغانستان کی شہری، دیہی، قبائلی اور مذہبی اشرافیہ نے اس لڑائی میں بے پناہ مالی فوائد سمیٹے۔ اس جنگ میں بلینز آف ڈالرز جھونکے گئے۔ افغان جہادی تنظیموں نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جب کہ پاکستان میں ایسا طبقہ برسراقتدار آ گیا، جس نے پاکستان کو افغان جنگ کے لیے مجاہدین کا لانچنگ پیڈ بنا دیا۔ یوں افغانستان میں افغان جہادی گروہوں نے سوویت یونین اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افغانوں کے خلاف لڑائی شروع کر دی۔

اب سرد جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن افغانستان آج بھی بے امن اور بدحال ہے۔ سرد جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ ملک چھوڑنے والے افغانوں میں تاجک بھی تھے، ازبک بھی، ہزارہ منگول اور پشتون بھی شامل تھے۔ جو پڑھے لکھے اور خوش حال تھے، انھوں نے امریکا اور یورپ کا رخ کیا، بائیں بازو کے حامی وسط ایشیائی ریاستوں اور روس میں قیام پذیر ہو گئے اور ایک بڑی تعداد بھارت میں آ گئی۔

پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی لیکن ان مہاجرین کی مالی حالت افغانستان میں بھی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے ملک میں جو افغان دولت مند تھے، انھوں نے پاکستانی پاسپورٹ بنوا کر اپنے کاروبار خلیجی ریاستوں میں بطور پاکستانی سیٹ کر لیے۔ اب پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کے لیے صورت حال زیادہ سنگین ہو گئی ہے تاہم اچھے اور برے طالبان کا بیانیہ بھی اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہا ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا ایجنڈا اور اسٹرٹیجی ایک ہی ہے لیکن یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی بات ہے کہ اس قسم کی تنظیموں کی قیادت کا کوئی اصول یا ضابطہ نہیں ہوتا۔ ان کے لیے اپنی ہی بات سے مکر جانا روٹین کا کام ہے۔ پاکستان نے اگر دہشت گردی کی جنگ جیتنی ہے تو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ انھی کی زبان میں بات کرنا ہو گی۔
Load Next Story