اقتدار نہیں ملک اہم ہے
جوغیرمقبولیت عوام میں انھیں حاصل ہے وہ لازمی عمران خان کے گلے پڑجائے گی اورپھرانھیں پچھتانے کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا
حکومت نے بڑے دھڑلے سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ اس سے پہلے بھی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں اور اب پھر بڑھا دی گئی ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ لگتا ہے حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کا بجٹ ضرور فیل ہوگیا ہے مگر عوام کا بجٹ تگڑا ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کو ناکامی سے بچانے کے لیے جوکارروائیاں کرے عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ حکومت کو جاننا چاہیے کہ عوام کا بجٹ تو بہت پہلے سے ہی فیل ہے وہ کس کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں وہ وہی جانتے ہیں۔ یہ عوامی بجٹ کے فیل ہونے کا معاملہ دراصل سابقہ حکومت کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
عوام سراسر سابقہ حکومتی کارروائی سے نالاں تھے اور لگ رہا تھا کہ سابقہ حکومت اگر وقت سے پہلے گئی یا اپنے وقت پر گئی تو پھر کبھی واپس نہیں آسکے گی۔ عمران حکومت خود اس صورت حال اور اپنی کارکردگی سے واقف تھی چنانچہ اس نے پٹرول ، ڈیزل کی قیمتیں ضرور بڑھائی تھیں مگر بعد میں قیمتوں میں کمی بھی کردی تھی جو آئی ایم ایف کی شرائط کی صریح خلاف ورزی تھی۔
قیمتوں میں کمی کرنے کا ویسے تو کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ آئی ایم ایف سے جو اس نے معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کرنا ضروری تھا ، مگر کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومت کو پہلے سے پتا چل گیا تھا کہ اس کی چھٹی ہونے والی ہے۔ اس قسم کی خبر دینے والے لوگ موجود تھے وہ عمران حکومت کو لانے اور چلانے میں بھی اس کے ممد و معاون رہے تھے ۔
عمران خان پہلے امریکی سائفر کو الزام دے رہے تھے کہ اس نے انھیں اقتدار سے محروم کیا ہے۔ اس الزام کی بنیاد ایک وجہ قرار دے رہے تھے جسے وہ ایک جلسے میں عوام کو لہرا لہرا کر دکھا رہے تھے ، جسے عوام نے سچ بھی مان لیا تھا۔ اسی بنیاد پر شہباز حکومت کو اب بھی امپورٹڈ حکومت کہا جا رہا ہے ، تاہم یہ معاملہ بڑا سنگین تھا کہ امریکا کیوں پاکستان کی حکومت کو گرانے کے درپے تھا ، آخر اس سے اس کا کیا فائدہ تھا؟
اس سلسلے میں خود امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے کئی مرتبہ تردید کی گئی اور واضح طور پرکہا گیا کہ اس نے پاکستانی سابقہ حکومت کے گرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے مگر یہاں تو میں نہ مانوں والی بات تھی۔ قابل غور بات یہ تھی ایک طرف امریکی حکومت کو بدنام کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف امریکا میں ایک لابنگ فرم کو ہائر کرکے اس کے ذریعے امریکی حکومت سے تعلقات استوار کرنے کے لیے مہنگے داموں کوشش کی جا رہی تھی۔
اس فرم کو کروڑوں روپے کے معاوضے پر ہائر کیا گیا تھا یہ بات عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ ایک طرف تو امریکی حکومت کو ملک میں پورے زور و شور سے بد نام کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف اس کی آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ بات عوام کی سمجھ سے تو باہر تھی ہی تاہم کئی تجزیہ کار واضح طور پر اسے سابقہ حکومت کا پراسرار گیم قرار دے رہے تھے جس کا واضح طور پر نقصان پاکستان کو پہنچا تھا کیونکہ امریکا جیسے ملک سے بگاڑ کر ہمارا ملک کسی طور بھی نہیں چل سکتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی امداد پر ہمارا ملک شروع سے چل رہا ہے۔ امریکا نے لیاقت علی خان کے زمانے سے پاکستان کی امداد جاری کی جو اب تک جاری ہے۔ البتہ افغان جنگ کے دوران بھارت نے ٹرمپ کو اپنے جال میں پھانس کر پاکستان کی مالی امداد بند کرا دی تھی مگر پھر بھی دوسرے شعبوں میں اس کا تعاون حاصل رہا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکی حربی امداد کی وجہ سے ہی پاکستان نے بھارت جیسے زیادہ طاقت والے ملک سے تین دفعہ ٹکر لی۔ یہ عوام کے لیے عجیب کھیل تھا۔
اب عوام پریشان ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، آخر وہ کسے ان کی حکومت کے گرانے کا ذمے دار سمجھیں؟ اس وقت ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں تو دوسری جانب اس سے رسم و راہ استوار کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اب انھیں اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنا ہوگا کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور اس کا مظاہرہ ویسے گزشتہ ضمنی انتخابات میں بھی ہو چکا ہے مگر عوام کا کیا بھروسہ ، وہ کب کس طرف چلے جائیں۔
عمران خان کے متضاد بیانات نے تو عوام کیا بڑے بڑے دانشوروں کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔ تاہم اس وقت شہباز حکومت عوامی عدالت میں ایک گنہگار کی طرح پیش ہے۔ اس نے عوام کو سکون مہیا کرنے کے بجائے بے سکونی اور بے چینی کا تحفہ دیا ہے جس نے ان کی زندگی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ عوام اسی وجہ سے عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر کیا ان کے حکومت میں آنے کے بعد عوامی مشکلات دور ہو جائیں گی؟ مہنگائی ختم ہو جائے گی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا؟ تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
ملک کی معاشی بد حالی دور ہونے اور اس کے پٹری پر آنے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔ چنانچہ لگتا ہے وہ صرف حکومت کے مزے لینے کے لیے فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انھیں تو چاہیے کہ وہ موجودہ حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دیں پھر الیکشن کی بات کریں تاکہ موجودہ بدحال معیشت میں کچھ بہتری آجائے اور ان کے لیے حالات سازگار ہو جائیں تاہم شہباز شریف نہ جانے کیوں اپنی حکومت کی مدت دراز کر رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر وہ عمران خان کو اس وقت حکومت سونپ دیں تو جو غیر مقبولیت عوام میں انھیں حاصل ہے وہ لازمی عمران خان کے گلے پڑ جائے گی اور پھر انھیں پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کو ناکامی سے بچانے کے لیے جوکارروائیاں کرے عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ حکومت کو جاننا چاہیے کہ عوام کا بجٹ تو بہت پہلے سے ہی فیل ہے وہ کس کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں وہ وہی جانتے ہیں۔ یہ عوامی بجٹ کے فیل ہونے کا معاملہ دراصل سابقہ حکومت کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
عوام سراسر سابقہ حکومتی کارروائی سے نالاں تھے اور لگ رہا تھا کہ سابقہ حکومت اگر وقت سے پہلے گئی یا اپنے وقت پر گئی تو پھر کبھی واپس نہیں آسکے گی۔ عمران حکومت خود اس صورت حال اور اپنی کارکردگی سے واقف تھی چنانچہ اس نے پٹرول ، ڈیزل کی قیمتیں ضرور بڑھائی تھیں مگر بعد میں قیمتوں میں کمی بھی کردی تھی جو آئی ایم ایف کی شرائط کی صریح خلاف ورزی تھی۔
قیمتوں میں کمی کرنے کا ویسے تو کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ آئی ایم ایف سے جو اس نے معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کرنا ضروری تھا ، مگر کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومت کو پہلے سے پتا چل گیا تھا کہ اس کی چھٹی ہونے والی ہے۔ اس قسم کی خبر دینے والے لوگ موجود تھے وہ عمران حکومت کو لانے اور چلانے میں بھی اس کے ممد و معاون رہے تھے ۔
عمران خان پہلے امریکی سائفر کو الزام دے رہے تھے کہ اس نے انھیں اقتدار سے محروم کیا ہے۔ اس الزام کی بنیاد ایک وجہ قرار دے رہے تھے جسے وہ ایک جلسے میں عوام کو لہرا لہرا کر دکھا رہے تھے ، جسے عوام نے سچ بھی مان لیا تھا۔ اسی بنیاد پر شہباز حکومت کو اب بھی امپورٹڈ حکومت کہا جا رہا ہے ، تاہم یہ معاملہ بڑا سنگین تھا کہ امریکا کیوں پاکستان کی حکومت کو گرانے کے درپے تھا ، آخر اس سے اس کا کیا فائدہ تھا؟
اس سلسلے میں خود امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے کئی مرتبہ تردید کی گئی اور واضح طور پرکہا گیا کہ اس نے پاکستانی سابقہ حکومت کے گرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے مگر یہاں تو میں نہ مانوں والی بات تھی۔ قابل غور بات یہ تھی ایک طرف امریکی حکومت کو بدنام کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف امریکا میں ایک لابنگ فرم کو ہائر کرکے اس کے ذریعے امریکی حکومت سے تعلقات استوار کرنے کے لیے مہنگے داموں کوشش کی جا رہی تھی۔
اس فرم کو کروڑوں روپے کے معاوضے پر ہائر کیا گیا تھا یہ بات عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ ایک طرف تو امریکی حکومت کو ملک میں پورے زور و شور سے بد نام کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف اس کی آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ بات عوام کی سمجھ سے تو باہر تھی ہی تاہم کئی تجزیہ کار واضح طور پر اسے سابقہ حکومت کا پراسرار گیم قرار دے رہے تھے جس کا واضح طور پر نقصان پاکستان کو پہنچا تھا کیونکہ امریکا جیسے ملک سے بگاڑ کر ہمارا ملک کسی طور بھی نہیں چل سکتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی امداد پر ہمارا ملک شروع سے چل رہا ہے۔ امریکا نے لیاقت علی خان کے زمانے سے پاکستان کی امداد جاری کی جو اب تک جاری ہے۔ البتہ افغان جنگ کے دوران بھارت نے ٹرمپ کو اپنے جال میں پھانس کر پاکستان کی مالی امداد بند کرا دی تھی مگر پھر بھی دوسرے شعبوں میں اس کا تعاون حاصل رہا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکی حربی امداد کی وجہ سے ہی پاکستان نے بھارت جیسے زیادہ طاقت والے ملک سے تین دفعہ ٹکر لی۔ یہ عوام کے لیے عجیب کھیل تھا۔
اب عوام پریشان ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، آخر وہ کسے ان کی حکومت کے گرانے کا ذمے دار سمجھیں؟ اس وقت ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں تو دوسری جانب اس سے رسم و راہ استوار کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اب انھیں اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنا ہوگا کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور اس کا مظاہرہ ویسے گزشتہ ضمنی انتخابات میں بھی ہو چکا ہے مگر عوام کا کیا بھروسہ ، وہ کب کس طرف چلے جائیں۔
عمران خان کے متضاد بیانات نے تو عوام کیا بڑے بڑے دانشوروں کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔ تاہم اس وقت شہباز حکومت عوامی عدالت میں ایک گنہگار کی طرح پیش ہے۔ اس نے عوام کو سکون مہیا کرنے کے بجائے بے سکونی اور بے چینی کا تحفہ دیا ہے جس نے ان کی زندگی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ عوام اسی وجہ سے عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر کیا ان کے حکومت میں آنے کے بعد عوامی مشکلات دور ہو جائیں گی؟ مہنگائی ختم ہو جائے گی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا؟ تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
ملک کی معاشی بد حالی دور ہونے اور اس کے پٹری پر آنے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔ چنانچہ لگتا ہے وہ صرف حکومت کے مزے لینے کے لیے فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انھیں تو چاہیے کہ وہ موجودہ حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دیں پھر الیکشن کی بات کریں تاکہ موجودہ بدحال معیشت میں کچھ بہتری آجائے اور ان کے لیے حالات سازگار ہو جائیں تاہم شہباز شریف نہ جانے کیوں اپنی حکومت کی مدت دراز کر رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر وہ عمران خان کو اس وقت حکومت سونپ دیں تو جو غیر مقبولیت عوام میں انھیں حاصل ہے وہ لازمی عمران خان کے گلے پڑ جائے گی اور پھر انھیں پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔