فلسطین کا مسئلہ اور دنیا کی حماقت

دنیا خوش ہے لیکن اس نمود و نمائش کے چہرے کے پیچھے ایک بھیانک چہرہ بھی مستقل نظر آتا رہتا ہے

فلسطین کے اس تیرہ چودہ سالہ بچے کی شہادت پر دنیا ابھی تک خاموش ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک مہذب دنیا کے سامنے ایک وڈیو آتی ہے جس میں ایک طاقتور انسان (اسرائیلی فوجی) ایک چھوٹے سے لڑکے کو یوں اپنے شکنجے میں دبوچے اس پر سوار رہے کہ اس سے سانس لینا بھی محال ہے۔

وہ اپنی شہادت کی انگلی فضا میں اٹھائے اپنی زندگی کا اہم اور آخری حق ادا کر رہا ہے گواہی دے رہا ہے اس پاک پروردگار کی کہ جو انسان کی ایک ایک سانس پر قادر ہے۔ کلمہ پڑھتے وہ یقینا اپنے رب سے ہی مخاطب ہوگا، پر کیا اس ماڈرن اور لبرل دنیا والوں کے دلوں میں کوئی درد نہ اٹھا ہوگا ، آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا ہوگا ؟

یہ دنیا بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو براہ راست برقیاتی تاروں سے نشر کرتی ہے۔ سیاست دانوں کے بیانات ریکارڈ کرتی ہے، سیاسی اونچ نیچ کے عمل اور ردعمل پر غور و فکر کرتی ہے لیکن فلسطین کا وہ معصوم بچہ۔۔۔!

مسلمانوں کی تاریخ باہمی خانہ جنگیوں سے بھری نظر آتی ہے ، ان میں سے ایک گہرا زخم فلسطین کی سرزمین کا نشان ہے۔ یہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف و انتشار ہی تھا کہ جس نے مخالفین کو اس جانب سرکوبی کے لیے اکسایا۔ عربوں کے بعد فلسطین پر ترکمانوں کے ایک خاندان نے قبضہ کرلیا تھا۔ عیسائیوں کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا بخوبی علم تھا۔ وہ بیت المقدس زیارت کے لیے آتے تو ان کے انداز قابل اعتراض ہوتے، دراصل یہ چھوٹ انھیں ماضی میں نرم رویوں کے سبب ملتی گئی، بے باکی جب حد سے بڑھ جائے تو اسے سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے۔

ترکمانوں نے اس بے باکی پر اعتراض اٹھایا ، انھیں روکا کہ بلا اجازت بیت المقدس زیارت کے لیے نہ آئے اور یوں مبالغہ آرائی سے کام لیتے بہت سے شرپسندوں کو ایک ذریعہ مل گیا ، یوں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ ایسا ہرگز نہ تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر کوئی عیسائی نہ بستا تھا۔ سب آرام اور سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اس جوش میں سب بہتے گئے، یوں ان جنگوں نے ارض فلسطین کو لہولہان کر دیا ، سب تباہ و برباد ہوگیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلم دنیا کی بے ترتیبی اور مخالفتوں کو تھام کر پہلے مصر، عرب اور پھر عراق عجم کو اپنے قبضے میں لیا، اس کے بعد یروشلم کی جانب رخ کیا۔ سلطان نے بلاشبہ ایک شان دار فاتح کا نمونہ پیش کیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ان کا ایک بڑا مقام ہے۔ اسی دور میں صلح کرلی گئی جو انگلستان کے Richard the Lionheart نے کی تھی یوں جنگی خون ریزی کا ایک باب تھما تھا۔

تاریخ ایک اور باب میں داخل ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کی وسیع حدیں فلسطین میں بھی قائم تھیں، لیکن پہلی جنگ عظیم میں جس طرح سلطنت عثمانیہ کے ساتھ سلوک ہوا، گو اس میں مسلمانوں کی اپنی اندرونی شکستگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پھر بھی اس سے ایک عظیم نقصان ابھر کر سامنے آیا، جو آج تک مسئلہ فلسطین کا تنازع لیے کھڑا ہے۔


کون کس سے جا کر ملا، کس نے کیا کچھ کیا لیکن اپنے آپ کو روح سے علیحدہ کر دینا آسان نہیں ہوتا۔ بعد کے ترکی نے اپنی روح علیحدہ کرکے ویسے تو بہت کچھ پالیا تھا لیکن فلسطین کھو دیا تھا۔ ترکمانوں اور عربوں کی اس اندرونی چپقلش نے آج کے فلسطین کی کیا شکل نکالی ہے۔

نازی فوجوں سے بچتے ہولو کاسٹ سے خوفزدہ یہودیوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین کو کسی کا بھی ارض نہ سمجھ کر اپنی مذہبی سوچ اور بیت المقدس سے عقیدت کے باعث یہاں پناہ لینی شروع کردی تھی۔ یہ دور ہی ایسا تھا کہ اس وقت ترکمانوں کی اپنی حالت خستہ تھی۔ ان کی فکر کون کرتا، پہلے بھی یہاں یہودی آباد تھے لیکن عرب اکثریت میں تھے۔

برطانیہ کا تسلط ہوا تو رچرڈ کی ماضی میں کی گئی صلح کا بدلہ پورا کیا گیا۔ عالمی برادری کا دباؤ اور برطانیہ کی ذمے داری کچھ اس طرح سے پوری ہوئی کہ یہودیوں کو بھی یہاں باقاعدہ رہنے کا اجازت نامہ مل ہی گیا۔ دونوں قوموں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں اور آخر 1947 میں فلسطین کے دو ٹکڑے کرنے کا حکم سنائی دیا ، جسے یہودیوں نے تو مان لیا لیکن عربوں نے نہ مانا۔ 1948کو انگریز بھی اس ادھورے مسئلے کو چھوڑ کر چل دیے اور تب ہی یہودیوں کا اسرائیل کی ریاست کا قیام سنائی دیا۔

جنگوں کا سلسلہ رکا نہیں چلتا رہا۔ یہودیوں نے دنیا بھر میں اپنے سرمائے کو ایک مربوط و منظم طریقے سے بڑھانا شروع کردیا۔ اب یہودی بے سروپا ، بے وطن نہ تھے۔ انھیں اسرائیل کی صورت میں ان کے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی، اب انھیں اس کی حدود وسیع کرنے کی فکر تھی۔ اپنے ہم وطنوں کو ایک پرآسائش لیکن مسلمانوں کے ماضی میں کی گئی احمقانہ پالیسیوں سے بچ کر زندگی مہیا کرنے کی آرزو تھی اور انھوں نے اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔

دنیا بھر میں بینکوں میں سودی نظام رائج ہے اور اس کام میں یہودیوں کی بھی سرمایہ کاری بدرجہ اتم موجود ہے لیکن وہ خود اس سودکاری سے احتراز برتتے ہیں کیوں کہ مذہباً ان کے لیے یہ حرام ہے۔ وہ دنیا بھر کے لیے وہ اشیا بناتے ہیں اور فراہم کرتے ہیں جو آسائشوں سے مزین ہو، لیکن وہ اپنے لوگوں، بچوں اور نوجوانوں کو ان کے استعمال سے دور رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کی گھٹی میں اپنی زمین یعنی ارض مقدس بیت المقدس کی محبت اور اسرائیل سے وفاداری ڈالتے ہیں۔

وہ اپنے ملک اسرائیل میں دنیا کی فلاح کے لیے سائنسی تحقیقات کے مراکز قائم کرتے ہیں جہاں دنیا بھر کے سائنس دان ریسرچ کرکے دنیا کی بہبود کے لیے اپنی سائنسی ایجادات سے دنیا کے چہرے پر گڈ اسرائیل کا اسٹیکر لگاتے ہیں۔

دنیا خوش ہے لیکن اس نمود و نمائش کے چہرے کے پیچھے ایک بھیانک چہرہ بھی مستقل نظر آتا رہتا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ، ان پر گولیاں برسا کر ، بارود بھڑکا کر وہ باور کراتے رہتے ہیں کہ دراصل ہم تو ایسے ہی ہیں اور ہم پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بار بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی استعماری کوششوں کے باوجود ان کے اصل سے پھر وہی مجرمانہ کارروائی سرزد ہو ہی جاتی ہے کہ جو دنیا بھر کے دانش وروں ، سیاستدانوں ، منصفوں اور عام لوگوں کو جگاتی ہے کہ آپ سب بہت عقل مند بے وقوف ہیں۔ ان چند برسوں میں جن چند سرمایہ کاروں نے دنیا کے بہت سے کاموں میں مداخلت کرکے ایک الگ سکہ بٹھایا ہے وہ دراصل پوری دنیا پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ پرانا دور تو نہیں کہ گھوڑے اور تلواریں چلیں ، یہاں تو برقی طلسماتی تاروں کا کمال چلتا ہے ، یہ ایک بڑا سوال اور المیہ ہے۔
Load Next Story