تیری میری کہانی
وہ کئی ماہ سے بے روزگار تھا، بھلا اس کے دوست گامے کا، جس نے اپنی ملازمت اس کے حوالے کردی اور خود سیاست میں چلا گیا
23 اے کم 23، 23 دونا 46 اور 46 دونا 92 اور اس میں23 اور جمع کر لوں تو کل رقم بنے گی، ایک سو پندرہ، 100 اور ملا لوں تو دو سو پندرہ، اور اگر بیس نکال لوں تو بنیں گے دو سو پانچ ، پر 100 کی ضرورت، اب بھی پڑے گی۔
وہ جمع ، تفریق کے سوالوں میں الجھا اور اپنے خیالوں میں گم تھا۔ بار بار جیب پر ہاتھ رکھ لیتا، وہ اپنی بھاری بھرکم جیب کو کئی لمحوں تک تھامے رکھتا ، کبھی انگلیوں کی پوروں کی مدد سے دباؤ ڈالتا، جب تک اسے تسلی نہ ہو جاتی کہ سب ٹھیک ہی ہے۔ اس وقت تک وہ اس عمل کو بار بار دہراتا۔
قطار مشکل میں تھی کہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہی تھی، کام کرنے والے مشکل میں تھے، دوسروں کی طرح وہ بھی مشکل میں تھا اور اس کے گھر والے بھی، اسے ننھے کا بلکتا ہوا چہرہ اور شیر خوار مینا کی دودھ کے لیے دہائی تڑپا رہی تھی، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس پتھر جیسی قطار کو توڑ ڈالے، ریزہ ریزہ کر دے اور خود سب سے آگے پہنچ جائے اور ان پتھر کے آدمیوں کو ہلانے جلانے کی کوشش کرے کہ بھائی کچھ خیال کرو ، لیکن خیال کرنا ان کے بس میں نہیں تھا، اور جب کسی کے بس میں کچھ رہا ہی نہیں ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا، ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ ہم سب اس کشتی کے سوار ہیں جس میں سوراخ ہیں، جوں ہی پانی داخل ہونا شروع ہوگا، کشتی ڈوب جائے گی۔
اس نے دکھ سے سوچا اور پھر اپنے سر کو کھجاتے ہوئے ایک بار پھر گنتی گننے لگا۔ 23 اے کم 23 اور 23 دونا 46۔ اس نے اپنے آگے کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک بار پھر گننا شروع کردیا، اس کا انیسواں نمبر تھا اور وہ تقریباً ایک گھنٹے سے کھڑا تھا۔ قطار آگے بڑھتی تو اس کا نمبر قریب آجاتا۔
وہ کئی ماہ سے بے روزگار تھا، بھلا اس کے دوست گامے کا، جس نے اپنی ملازمت اس کے حوالے کردی اور خود سیاست میں چلا گیا، اور ایک بڑے آدمی کی جگہ اسے مل گئی۔ وہ باتیں کرنے کے فن سے اچھی طرح واقف تھا، ذرا سی دیر میں سامنے والے کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔ گاما اس کا ہم جماعت اور بچپن کا دوست تھا، اور وہ غریب ہاری کا بیٹا جس نے دس جماعتیں پاس کی تھیں اور بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا پر مہنگائی کی وجہ سے اس کا ٹیوشن سینٹر بند ہو گیا، والدین کے پاس پیسے ہی نہیں تھے، کس طرح فیس ادا کرتے؟
اور گاما ساہوکار کا فرزند، اس کے باپ کے پاس تھوڑی بہت زمینیں تھیں، پیسہ بھی تھا، جو اس نے اپنے سیٹھ کے مال و زر میں غبن کرکے ہتھیا لیا تھا اور پھر وہ بھی سیاست میں آگیا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے نمبردار بنا دیا، پشت در پشت انھوں نے کالے اور گولے دونوں کی غلامی کی تھی۔ اچانک ہی گامے کے گاؤں میں موذی مرض آگیا۔ علاج معالجے میں دھن دولت خرچ ہو گیا، اس نے اپنے بڑے بیٹے کو علاج کے لیے امریکا بھیج دیا، امریکا کیا بھیجا کہ اس کے گھر میں غربت نے قبضہ جما لیا۔ ماں باپ بھی اسی بیماری کی لپیٹ میں آگئے۔ ہیضہ ، ڈنگی بخار اور نہ جانے کون کون سی بیماریوں نے گاؤں میں اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔
گامے نے مجبوراً مستری کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا اور جب ذرا حالات بہتر ہوئے تو اس نے اپنی جگہ قطار میں کھڑے آدمی کو دے دی اور خود شہر سدھار گیا۔ گاما اب وہ بڑا آدمی بن گیا تھا، اس نے گاؤں کے لچے لفنگے لڑکوں کو بھی بلا لیا، انھیں دو چار روز ہی ٹریننگ دی تھی کہ دھن برسنے لگا، چوری ڈکیتی کی وارداتیں صبح و شام ہو رہی تھیں، نوجوانوں کے خون سے سڑکیں اور گلیاں سرخ ہو چکی تھیں، ڈکیت مال و اسباب بھی لوٹتے اور احتجاج کرنے والوں کو فوراً قتل کردیتے، شہر میں قانون تو تھا لیکن جنگل کے قانون سے بدتر۔ جانوروں کے بھی اصول ہوتے ہیں لیکن یہاں اصول و ضوابط کی بات کرنا گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔
اچانک ہی زوردار آواز اور پھر بہت سی آوازیں گونجیں، گیس آگئی، گیس آگئی، تندور جلنے لگا اور روٹیاں پکانے کی تیاری زوروں پر آگئی۔ قطار بڑھنے لگی، مٹی کے لوگوں میں جان آگئی تھی، اس نے ایک بار پھر 23 اے کم 23 کی گردان شروع کردی اور بھاری جیب پر ہاتھ رکھ لیا اور سوچنے لگا کہ شکر ہے اس کا نمبر بھی قریب آگیا اور آج پورے بیس روپے بچا لیے ورنہ دوسرے ہوٹلوں پر روٹی 25، 26 روپے سے کم نہیں ہے۔
اس نے سکھ کا سانس لیا اور منہ ہی منہ میں بدبدایا کہ شکر ہے 500 دیہاڑی کی رقم اس کی جیب میں موجود ہے، اللہ نے چاہا تو سب کام ہو جائیں گے، دودھ، سبزی، سالن، روٹی۔ رہا باقی خرچہ تو بس اس کا اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن گیس تو ہے ہی نہیں ہم اور ہمارے ساتھی سخت سردی میں روٹی کے باسی ٹکڑوں پر ہی گزارا کرتے ہیں، پٹرول بھی مہنگا ہے، رکشہ اور چنگ چی بھی چلانے سے محروم کر دیا ہے۔
اس آدمی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ہمارے سارے خواب چھین لیے، بچوں کی تعلیم، ان کا مستقبل سب کچھ برباد ہو گیا۔ پاکستان کے دشمن یہی چاہتے تھے کہ قوم، پانی، گیس اور روٹی کے لیے دربدر ہو جائے ، لیکن ہمارے حکمرانوں کو کیا ہو گیا کہ انھوں نے اپنے ہی ملک کو داؤ پر لگا دیا۔ ہمارا ملک تو زرعی تھا، قدرتی وسائل سے مالا مال، ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تھے۔ انھوں نے اپنی ذہانت سے بہت سی چیزیں ایجاد کیں لیکن حکمرانوں اور قدر دانوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔
ہم کس مقام پر آگئے، جہاں جھولیاں پھیلی ہیں، بھیک دینے والے راہ خدا میں بھیک تو دے رہے ہیں لیکن حکومت اور امرا غربا اور و فقرا کو روزگار مہیا نہیں کر رہے ہیں، وہ ساندہ کا محمد سہیل جو یوٹیلیٹی اسٹور پر گھر کا سودا سلف لینے آیا تھا اور دل کا دورہ پڑ گیا۔ کسی نے آواز لگائی، ماسٹر صاحب! سوچوں کی کھچڑی گھر پکانا، آپ کا نمبر آگیا ہے آگے بڑھو۔ اس نے جیب سے رقم نکالی، روٹیوں پر اس کی گرفت مضبوط تھی، اسی دوران ڈکیت آگئے، پوری قطار خاموشی کے ساتھ اپنی جیب خالی کر رہی تھی، اب اس کا نمبر تھا۔
اس نے مزاحمت کی، ساری عمر رزق حلال کمایا ہے، بچے 24 گھنٹوں کے بھوکے ہیں، اس کی دلیری کے بدلے میں فائر بھی اس پر ہی ہوا تھا۔ یہ ایک کہانی نہیں ہے کراچی کے محلے، گلی اور کوچوں میں ہر روز یہ کہانی جنم لیتی ہے۔ صاحب اقتدار دولت کے نشے میں مست ہیں اور مکافات عامل سے بے خبر۔
وہ جمع ، تفریق کے سوالوں میں الجھا اور اپنے خیالوں میں گم تھا۔ بار بار جیب پر ہاتھ رکھ لیتا، وہ اپنی بھاری بھرکم جیب کو کئی لمحوں تک تھامے رکھتا ، کبھی انگلیوں کی پوروں کی مدد سے دباؤ ڈالتا، جب تک اسے تسلی نہ ہو جاتی کہ سب ٹھیک ہی ہے۔ اس وقت تک وہ اس عمل کو بار بار دہراتا۔
قطار مشکل میں تھی کہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہی تھی، کام کرنے والے مشکل میں تھے، دوسروں کی طرح وہ بھی مشکل میں تھا اور اس کے گھر والے بھی، اسے ننھے کا بلکتا ہوا چہرہ اور شیر خوار مینا کی دودھ کے لیے دہائی تڑپا رہی تھی، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس پتھر جیسی قطار کو توڑ ڈالے، ریزہ ریزہ کر دے اور خود سب سے آگے پہنچ جائے اور ان پتھر کے آدمیوں کو ہلانے جلانے کی کوشش کرے کہ بھائی کچھ خیال کرو ، لیکن خیال کرنا ان کے بس میں نہیں تھا، اور جب کسی کے بس میں کچھ رہا ہی نہیں ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا، ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ ہم سب اس کشتی کے سوار ہیں جس میں سوراخ ہیں، جوں ہی پانی داخل ہونا شروع ہوگا، کشتی ڈوب جائے گی۔
اس نے دکھ سے سوچا اور پھر اپنے سر کو کھجاتے ہوئے ایک بار پھر گنتی گننے لگا۔ 23 اے کم 23 اور 23 دونا 46۔ اس نے اپنے آگے کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک بار پھر گننا شروع کردیا، اس کا انیسواں نمبر تھا اور وہ تقریباً ایک گھنٹے سے کھڑا تھا۔ قطار آگے بڑھتی تو اس کا نمبر قریب آجاتا۔
وہ کئی ماہ سے بے روزگار تھا، بھلا اس کے دوست گامے کا، جس نے اپنی ملازمت اس کے حوالے کردی اور خود سیاست میں چلا گیا، اور ایک بڑے آدمی کی جگہ اسے مل گئی۔ وہ باتیں کرنے کے فن سے اچھی طرح واقف تھا، ذرا سی دیر میں سامنے والے کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔ گاما اس کا ہم جماعت اور بچپن کا دوست تھا، اور وہ غریب ہاری کا بیٹا جس نے دس جماعتیں پاس کی تھیں اور بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا پر مہنگائی کی وجہ سے اس کا ٹیوشن سینٹر بند ہو گیا، والدین کے پاس پیسے ہی نہیں تھے، کس طرح فیس ادا کرتے؟
اور گاما ساہوکار کا فرزند، اس کے باپ کے پاس تھوڑی بہت زمینیں تھیں، پیسہ بھی تھا، جو اس نے اپنے سیٹھ کے مال و زر میں غبن کرکے ہتھیا لیا تھا اور پھر وہ بھی سیاست میں آگیا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے نمبردار بنا دیا، پشت در پشت انھوں نے کالے اور گولے دونوں کی غلامی کی تھی۔ اچانک ہی گامے کے گاؤں میں موذی مرض آگیا۔ علاج معالجے میں دھن دولت خرچ ہو گیا، اس نے اپنے بڑے بیٹے کو علاج کے لیے امریکا بھیج دیا، امریکا کیا بھیجا کہ اس کے گھر میں غربت نے قبضہ جما لیا۔ ماں باپ بھی اسی بیماری کی لپیٹ میں آگئے۔ ہیضہ ، ڈنگی بخار اور نہ جانے کون کون سی بیماریوں نے گاؤں میں اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔
گامے نے مجبوراً مستری کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا اور جب ذرا حالات بہتر ہوئے تو اس نے اپنی جگہ قطار میں کھڑے آدمی کو دے دی اور خود شہر سدھار گیا۔ گاما اب وہ بڑا آدمی بن گیا تھا، اس نے گاؤں کے لچے لفنگے لڑکوں کو بھی بلا لیا، انھیں دو چار روز ہی ٹریننگ دی تھی کہ دھن برسنے لگا، چوری ڈکیتی کی وارداتیں صبح و شام ہو رہی تھیں، نوجوانوں کے خون سے سڑکیں اور گلیاں سرخ ہو چکی تھیں، ڈکیت مال و اسباب بھی لوٹتے اور احتجاج کرنے والوں کو فوراً قتل کردیتے، شہر میں قانون تو تھا لیکن جنگل کے قانون سے بدتر۔ جانوروں کے بھی اصول ہوتے ہیں لیکن یہاں اصول و ضوابط کی بات کرنا گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔
اچانک ہی زوردار آواز اور پھر بہت سی آوازیں گونجیں، گیس آگئی، گیس آگئی، تندور جلنے لگا اور روٹیاں پکانے کی تیاری زوروں پر آگئی۔ قطار بڑھنے لگی، مٹی کے لوگوں میں جان آگئی تھی، اس نے ایک بار پھر 23 اے کم 23 کی گردان شروع کردی اور بھاری جیب پر ہاتھ رکھ لیا اور سوچنے لگا کہ شکر ہے اس کا نمبر بھی قریب آگیا اور آج پورے بیس روپے بچا لیے ورنہ دوسرے ہوٹلوں پر روٹی 25، 26 روپے سے کم نہیں ہے۔
اس نے سکھ کا سانس لیا اور منہ ہی منہ میں بدبدایا کہ شکر ہے 500 دیہاڑی کی رقم اس کی جیب میں موجود ہے، اللہ نے چاہا تو سب کام ہو جائیں گے، دودھ، سبزی، سالن، روٹی۔ رہا باقی خرچہ تو بس اس کا اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن گیس تو ہے ہی نہیں ہم اور ہمارے ساتھی سخت سردی میں روٹی کے باسی ٹکڑوں پر ہی گزارا کرتے ہیں، پٹرول بھی مہنگا ہے، رکشہ اور چنگ چی بھی چلانے سے محروم کر دیا ہے۔
اس آدمی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ہمارے سارے خواب چھین لیے، بچوں کی تعلیم، ان کا مستقبل سب کچھ برباد ہو گیا۔ پاکستان کے دشمن یہی چاہتے تھے کہ قوم، پانی، گیس اور روٹی کے لیے دربدر ہو جائے ، لیکن ہمارے حکمرانوں کو کیا ہو گیا کہ انھوں نے اپنے ہی ملک کو داؤ پر لگا دیا۔ ہمارا ملک تو زرعی تھا، قدرتی وسائل سے مالا مال، ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تھے۔ انھوں نے اپنی ذہانت سے بہت سی چیزیں ایجاد کیں لیکن حکمرانوں اور قدر دانوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔
ہم کس مقام پر آگئے، جہاں جھولیاں پھیلی ہیں، بھیک دینے والے راہ خدا میں بھیک تو دے رہے ہیں لیکن حکومت اور امرا غربا اور و فقرا کو روزگار مہیا نہیں کر رہے ہیں، وہ ساندہ کا محمد سہیل جو یوٹیلیٹی اسٹور پر گھر کا سودا سلف لینے آیا تھا اور دل کا دورہ پڑ گیا۔ کسی نے آواز لگائی، ماسٹر صاحب! سوچوں کی کھچڑی گھر پکانا، آپ کا نمبر آگیا ہے آگے بڑھو۔ اس نے جیب سے رقم نکالی، روٹیوں پر اس کی گرفت مضبوط تھی، اسی دوران ڈکیت آگئے، پوری قطار خاموشی کے ساتھ اپنی جیب خالی کر رہی تھی، اب اس کا نمبر تھا۔
اس نے مزاحمت کی، ساری عمر رزق حلال کمایا ہے، بچے 24 گھنٹوں کے بھوکے ہیں، اس کی دلیری کے بدلے میں فائر بھی اس پر ہی ہوا تھا۔ یہ ایک کہانی نہیں ہے کراچی کے محلے، گلی اور کوچوں میں ہر روز یہ کہانی جنم لیتی ہے۔ صاحب اقتدار دولت کے نشے میں مست ہیں اور مکافات عامل سے بے خبر۔