یوم یکجہتی کشمیر اور بھارتی طرز عمل
ہمیں سیاسی، سفارتی، عسکری ڈپلومیسی یا سول سوسائٹی سمیت میڈیا کی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی عوام کی آواز کو سننا بھی چاہیے
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خرابی، تحفظات اور بداعتمادی کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر کا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ڈیڈلاک کا ماحول غالب ہے۔
کئی برسوں سے پاکستان و بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے ۔اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مقدمہ بہت پرانا ہے۔ کئی عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی برملا اپنی رپورٹس میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی رپورٹس شایع کرچکی ہیں۔
مودی حکومت او ربھار ت میں موجود انتہا پسند تنظیمیں ہر صورت مقبوضہ کشمیر کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔تاکہ بھارت وہاں پر کسی بھی قسم کی رائے شماری کی بنیاد پر اپنی برتری کو ثابت کرسکے ۔۔ بھارت او رمودی حکومت کی سیاسی فکر اور سوچ نے کافی غور وفکر کے بعد 370اور 35-Aکو بنیاد بنا کر مسلم اکثریتی علاقوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا کھیل شروع کیا اور یہ جنیوا کنونشن چار کے آرٹیکل 49کی بھی خلاف ورزی ہے۔
لیکن بڑی طاقتیں مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کی سنگینی پر روائتی بیان بازی تو ضرور کرتے ہیں مگر عملاً مودی حکومت پر کوئی دباؤ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کو سیاہ قدم قرار دیا ہے ۔جب کہ دی گارڈین نے اسے بھارتی کالونی بنانے سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح Genocide Watchاور انسانی حقوق واچ کی کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی بڑی پامالیوں پر مبنی رپورٹس بھی ناقابل تردید دستاویزات ہیں۔
بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی اٹھارویں قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ہیومین رائٹس واچ رپورٹ2021اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق 20180-19میں ڈاکومنٹ کیا ہے ۔2019سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حالات کافی خراب ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں بدترین محاصرہ 1279دنوں سے جاری ہے۔
اس پر ہمیں ہر سطح پر برطانوی پارلیمان سمیت دیگر یورپی پارلیمنٹ میں ہم کو بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مختلف قرارداد سننے یا دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ان کے بقول ستر برسوں سے کشمیر ی عوام خاص طور پر عورتوں او ربچوں کے خلاف جنسی تشدد او رجنسی جرائم نمایاں ہیں ۔عملا ایک اندازے کے مطابق بھارت اب تک 96ہزار کشمیریوں کا قتل عام کرچکا ہے ۔جو توجہ طلب پہلو ہے ۔
بھارت کئی بار کہہ چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر یا کشمیر کا مسئلہ اس کا داخلی مسئلہ ہے او رکوئی بھی ملک پاکستان سمیت عالمی ممالک یا طاقتوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کریں ۔ایک بار جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان او ربھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر یا کشمیر کے مسئلہ کے حل میں ثالثی کے کردار ادا کرنے کی بات کی تو بھارت کا ردعمل مثبت نہیں بلکہ کافی سخت تھا ۔ ان کے بقول کسی کو بھی مداخلت کا سیاسی ثالثی کا اختیار نہیں۔
بھارت کو بخوبی اس بات کا اندازہ ہے کہ اس کی ریاست عالمی دنیا کی سیاسی اور معاشی طو رپر عملا ضرورت ہے ۔ بھارت سمجھتا ہے کہ ایک حد تک تو عالمی طاقت ور ممالک ہمارے کردار پر تنقید یا ثالثی پر زور دیں گے مگر وہ کسی بھی شکل میں ہمارے خلاف کوئی ریڈ لائن کراس نہیں کریں گے ۔اس کا ایک نتیجہ تسلسل کے ساتھ پاک بھارت کشیدگی کی صورت میں سامنے آرہا ہے اور ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود بھار ت ہم سے کسی بھی سطح پر مزاکرات کا حامی نہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت مودی حکومت جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں کررہی ہے اس کی حمایت اسے ان مقامی لیڈروں سے بھی حاصل نہیں جو کل تک دہلی کی حمایت میں پیش پیش ہوتے تھے ۔ ان میں فاروق عبداللہ ، عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے اہم راہنما بھی شامل ہیں ۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ سمجھتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر داخلی سطح پر ایک بڑا مقبوضہ کشمیر کا گروہ بھارت کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور ان کے ساتھ رہنے سے انکاری بھی ہے او رعالمی حمایت کا طلب گار بھی ۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے بھارت کا داخلی مسئلہ ہوسکتا ہے او ربہت سے اہم عالمی تھنک ٹینک بھارت کے اس داخلی موقف کو چیلنج کرچکے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قومی سلامتی یا سیکیورٹی پالیسی کو دیکھیں تو اس میں بھی مقبوضہ کشمیر کو ایک مسئلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں بہت سے سکہ بند لیڈرز یا دانشوریہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر مزاکرات اور اس کے نتیجے میں تجارت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے ۔ لیکن وہ اس پورے عمل میں بھارت کے کردار پر تنقید نہیں کرتے کہ وہ کیونکر سیاسی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی حکومت کا اپنی داخلی سیاست میں مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کمزور ہے اور دن بدن اس پر تنقید بڑھتی جارہی ہے ۔اصل مسئلہ ہماری سفارت کاری یا سفارتی یا سیاسی سطح پر ڈپلومیسی کا ہے ۔ ہم کیونکہ اپنی داخلی سیاست میں بہت حد تک الجھ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ ہماری سیاست میں مسئلہ کشمیر پر کمزوری کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
مسئلہ محض کشمیر کا دن منانا نہیں بلکہ اس مسئلہ کو سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کی سطح پر عالمی دنیا، طاقت ور ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مختلف عالمی سطح کی مضبوط پارلیمنٹ میں اپنے مقدمہ کو پیش کرنا ہے ۔ہمیں یہ بنیادی سوچ اور فکر کو اجاگر کرنا ہے کہ جو کچھ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں اس پر کسی بھی سطح پر کوئی سمجھوتے کو تقویت دینا کشمیری عوام کے ساتھ ظلم ہوگا۔
ہمیں سیاسی، سفارتی، عسکری ڈپلومیسی یا سول سوسائٹی سمیت میڈیا کی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی عوام کی آواز کو سننا بھی چاہیے اور ان کی آواز کے ساتھ عملی بنیادو ں پر کھڑا ہونا او ران کی موقف پر بھارتی طرز عمل پر مزاحمت کرنا بھی ہمارا حق بھی ہے او رفرض بھی ۔