جناح سے ضیاء الحق تک کا سفر
یہ الجھی ہوئی ڈوریں اور الجھ گئیں، موصوف مارے گئے راولپنڈی کی تاریک راہوں میں
اب تو کھل کے سامنے آگئے ہیں ، سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے۔ پشاور میں مسجد دھماکے کے پیچھے کون تھے، کس طرح زبردستی دھونس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاری ہے، یہ گورکھ دھندا مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے، قاتل اورمقتول دونوں مسلمان تھے۔
جناح نے پاکستان بنایا، ابھی چودہ اگست آئی نہیں تھی تو تین دن پہلے گیارہ اگست کو آئین ساز اسمبلی میں یہ واضح کردیا تھا کہ ریاست اور مذہب الگ الگ مگر بدنصیبی یہ ٹھہری کہ بانی پاکستان دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کرے ، فورا کہا پاکستان ایک قوم، ایک نظریہ، ایک مذہب، ایک زبان اور دو سال بعد قرار داد مقاصد دے کے آئین بنانے سے بھاگ گئے۔
یہ الجھی ہوئی ڈوریں اور الجھ گئیں، موصوف مارے گئے راولپنڈی کی تاریک راہوں میں۔ اور قاتل بھی ادھر ہی مارا گیا ، بلکہ اسی طرح ، جس طرح بے نظیر قتل کے شواہد پر پانی پھیر دیا گیا تھا۔
افغانستان کے چارکروڑ عوام کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے وہ کس راہ ،کس راستے اور کس طرح دنیا کی افق پر ایک مہذب اور ذمے دار ملک بن کے ابھرے گا۔ یہی وہ افغانستان ہے جہاں امریکا نے ہمیں اور افغان جہاد لیڈروں کو استعمال کر کے سوویت یونین کو بھگایا تھا۔ اس سے قبل بھی افغانستان کے لیڈر روس اور برطانیہ کے کٹھ پتلی بنے رہے،۔ یہ وہ خطہ تھا جو امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جیسے پانی پت کا میدان ہو۔
سرد جنگ کے زمانے میں پانی پت افغانستان ٹھہرا۔ دہلی سیکولر ہندوستان کا دارلحکومت بن گیا اورپاکستان وسط ایشیا اور افغانستان کا ہمسایہ بن گیا۔ شورش ہے کہ تھمتی نہیں، ایک گریٹ گیم ہے اور لہو ہے کہ تھمتا نہیں۔کئی مائیں اپنے جوان بیٹوں سے بچھڑگئیں،کئی بچے اپنے والد گنوا بیٹھے، کئی والد اپنے بچے گنوا بیٹھے، کئی بچیاں گھروں میں بند کی گئیں، ان کے اسکول بند ہوئے،کتاب و قلم چھین لیے گئے۔
عورتوں سے نوکری کرنے کا حق لے لیا گیا ، چار کروڑ افغانستان کے عوام الگ پھنسے، اس بھنور میں مگر ان چار کروڑ میں دو کروڑ عورتیں دیوار سے لگا دی گئیں۔ شاید ہی کوئی ایسی ریاست ہو دنیا میں جہاں عورت اتنی ابتر ہوگئی ہو۔
ہمارا اس بھنور سے تعلق جنرل ضیاء الحق نے خوب بنایا۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس سے جناح کے پاکستان کو مکمل قفل لگانا تھا۔ یہ وہ پاکستان ہے ، اب کے جہاں جناح اجنبی ٹھہرا۔ یہ ہے جناح کے پاکستان سے جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کا سفر۔ کل ہم کارخانے لگاتے تھے ،کپڑا بناتے تھے اتنی گندم کہ دنیا کو دیتے تھے، اتنا دودھ کہ دنیا حیران رہ جاتی تھی۔
ہمارے پاس ایک اسٹیل مل بھی تھی، کراچی کا ایئرپورٹ جس کے سامنے دبئی کا ایئرپورٹ کچھ بھی نہیں تھا۔ نوری آباد میں صنعتوں کا جال بچھانے کے لیے بہت ساری زمین دی گئی۔ آج اس نوری آباد تک کئی رہائشی اسکیمیں آگئی ہیں مگر کارخانہ کوئی نہیں، ضیاء الحق کے پاکستان میں ہمارے پاس بیچنے کے لیے بندوقیں تھیں، بارود تھے دہشت گردی تھی ، ہیروئن اور چرس تھی اور جناح کے پاکستان میں ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔
بنیاد وہی ہے کہ کس طرح جمہوری ٹرین کو پٹڑی سے اتارا جائے ، کس طرح لوگوں سے حق حکومت چھینا جائے ، کبھی مذہب کے نام پر،کبھی غداری کے لیبل لگا کہ یہاں پر لوگوں کے لیڈروں کو مارا گیا،کبھی راولپنڈی کی شاہراہوں پر تو کبھی راولپنڈی جیل کے تخت دار پر چڑھایا گیا۔ جلاوطنی تو بہت چھوٹی سی سزا تھی پھر نیب کا کاروبار بنایا گیا، ایک سلیکٹیڈ احتساب تھا سب کا نہیں۔
ضیاء الحق نے جو اتنے خوبصورت شعلہ بیان ، با ضمیر طلبہ سیاست سے ابھر کے جو ملک کے سیاست دان بنتے تھے وہ ڈگر ہی بند کردی ، طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کراچی کو شورش کے حوالے کردیا گیا۔ دیہی اور اربن سندھ میں تضادات پیدا کیے گئے۔ یہ وہ کراچی تھا جس نے ایوب خان کا جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ یہ وہ کراچی تھا جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا۔
اس کراچی کو ایک ایسے بیانیہ کے حوالے کیا گیا جس کا جمہوریت سے کوئی لین دین نہ تھا۔یہ جو جنگ پانی پت پر ہونی تھی واہگہ بارڈر سے آگے اب کے جا نہیں سکتی، اس لیے یہ جنگ اب اسی طرح ہوتی ہے ، کبھی آرمی پبلک اسکول میں قتل عام کر کے تو کبھی مسجد تو کبھی اما م بارگاہوںمیں خود کش دھماکے کر کے۔ غرض کہ کون سی جگہ ہے جو اب محفوظ ہے ان دھماکوں سے۔
پشاور میں خان صاحب کی حکومت جیسے ہی ختم ہوئی م دوسرے دن دھماکے ہوگئے۔ سیکڑوں لوگ مارے گئے۔ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تو گجرات کے قریب خان صاحب کو گولیاں لگیں۔ کسی بھی آزاد ، خود مختار ڈاکٹر نے خان صاحب کی ٹانگ کا معائنہ نہیں کیا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی خان صاحب کی ٹانگ اب بھی ٹھیک نہیں ہوسکی۔
ہم کس سے پوچھیں پشاور کے اس سانحے میں کن کن کے ہاتھوں میں بے گناہوںکا لہو ہے، کون ہے جو اب تک جنرل ضیا الحق کے اس تسلسل سے جڑا ہوا ہے اور کیوں ہے کہ سارے کا سارے کالا کاروبار ، نان ڈاکیومنٹڈ ، ٹیکس چور اور بہت بڑے شرفاء اس گھنائونے کام سے جڑے ہوئے ہیں جن کے قدم اسی طرف جاتے ہیں جس شخص نے پولیس وردی پہن کے ، دھوکا دے کے پشاورکی اس مسجد میں خودکش حملہ کیا تھا۔
2018 سے پہلے جو ہماری اسحاق ڈار پر تنقید تھی اس کی نوعیت وہ خدوخال الگ تھے ، وہ بحث ہی الگ تھی۔ سو روپے پر جو ڈالر کھڑا تھا ، بیس ارب ڈالر زر مبادلہ تھا ، ہم اگر اس معیشت کی تنقید اس طرح کرتے کرتے چلتے تو یقیننا ڈالر کا سوکا نہیں تو ڈیرہ سوکا ہوتا اور ہمارے زرمبادلہ بیس ارب ڈالر سے تیس ارب ڈالر کے ہوسکتے تھے مگر ہمارے پہلوانوں نے جو ہائبرڈ جمہوریت لا کے اس ملک کی نئی راہیں متعین کیں اور پھر ساتھ ساتھ افغانستان میں جو حکومت تبدیل ہوئی اور یہ جو نئی راہیں تھی اور جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو یہ لوگ بہت خوش تھے.
اب تو ہماری معاشی اعتبار سے ایک اور ہی بحث ہوگئی کہ ہم اس وقت معاشی طور پر melt down ہورہے ہیں اور عین اس وقت دہشت گردی بھی بڑھ رہی ہے اور اس پر جو ہائبرڈ جمہوریت سے مستفید ہوئے وہ اسٹیبلشمنٹ کا گلہ پکڑ کے اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حکومت واپس دو تاکہ ہم اس ملک کو اور تباہی کی طرف لے کر جائیں اور دوسری طرف یہ حکومت ہے جن کے لیے اتنی بڑی بد حال معیشت وہ چھوڑ گئے ہیں جو یہ سنبھال نہیں سکتے۔
ڈالر 270 پر کھڑا ہے اور افراط زر تیس فیصد کے قریب گھوم رہی ہے اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں اور میں اس وقت جناح کے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہوں ، اس کی گیارہ اگست کی تقریر کی طرف دیکھ رہا ہوں ۔ کتنی دور نکل گیا ہے جناح سے یہ پاکستان ، کتنا ضروری ہے اب کہ ہم جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کی طرف واپس لوٹ چلیں۔ ہمیں جناح کا پاکستان چاہیے، ہمیں فاطمہ جناح کا پاکستان چاہیے، جنرل ایوب ، جنرل ضیاء ، جنرل یحیٰی، جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کا پاکستان نہیں چاہیے۔
جناح نے پاکستان بنایا، ابھی چودہ اگست آئی نہیں تھی تو تین دن پہلے گیارہ اگست کو آئین ساز اسمبلی میں یہ واضح کردیا تھا کہ ریاست اور مذہب الگ الگ مگر بدنصیبی یہ ٹھہری کہ بانی پاکستان دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کرے ، فورا کہا پاکستان ایک قوم، ایک نظریہ، ایک مذہب، ایک زبان اور دو سال بعد قرار داد مقاصد دے کے آئین بنانے سے بھاگ گئے۔
یہ الجھی ہوئی ڈوریں اور الجھ گئیں، موصوف مارے گئے راولپنڈی کی تاریک راہوں میں۔ اور قاتل بھی ادھر ہی مارا گیا ، بلکہ اسی طرح ، جس طرح بے نظیر قتل کے شواہد پر پانی پھیر دیا گیا تھا۔
افغانستان کے چارکروڑ عوام کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے وہ کس راہ ،کس راستے اور کس طرح دنیا کی افق پر ایک مہذب اور ذمے دار ملک بن کے ابھرے گا۔ یہی وہ افغانستان ہے جہاں امریکا نے ہمیں اور افغان جہاد لیڈروں کو استعمال کر کے سوویت یونین کو بھگایا تھا۔ اس سے قبل بھی افغانستان کے لیڈر روس اور برطانیہ کے کٹھ پتلی بنے رہے،۔ یہ وہ خطہ تھا جو امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جیسے پانی پت کا میدان ہو۔
سرد جنگ کے زمانے میں پانی پت افغانستان ٹھہرا۔ دہلی سیکولر ہندوستان کا دارلحکومت بن گیا اورپاکستان وسط ایشیا اور افغانستان کا ہمسایہ بن گیا۔ شورش ہے کہ تھمتی نہیں، ایک گریٹ گیم ہے اور لہو ہے کہ تھمتا نہیں۔کئی مائیں اپنے جوان بیٹوں سے بچھڑگئیں،کئی بچے اپنے والد گنوا بیٹھے، کئی والد اپنے بچے گنوا بیٹھے، کئی بچیاں گھروں میں بند کی گئیں، ان کے اسکول بند ہوئے،کتاب و قلم چھین لیے گئے۔
عورتوں سے نوکری کرنے کا حق لے لیا گیا ، چار کروڑ افغانستان کے عوام الگ پھنسے، اس بھنور میں مگر ان چار کروڑ میں دو کروڑ عورتیں دیوار سے لگا دی گئیں۔ شاید ہی کوئی ایسی ریاست ہو دنیا میں جہاں عورت اتنی ابتر ہوگئی ہو۔
ہمارا اس بھنور سے تعلق جنرل ضیاء الحق نے خوب بنایا۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس سے جناح کے پاکستان کو مکمل قفل لگانا تھا۔ یہ وہ پاکستان ہے ، اب کے جہاں جناح اجنبی ٹھہرا۔ یہ ہے جناح کے پاکستان سے جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کا سفر۔ کل ہم کارخانے لگاتے تھے ،کپڑا بناتے تھے اتنی گندم کہ دنیا کو دیتے تھے، اتنا دودھ کہ دنیا حیران رہ جاتی تھی۔
ہمارے پاس ایک اسٹیل مل بھی تھی، کراچی کا ایئرپورٹ جس کے سامنے دبئی کا ایئرپورٹ کچھ بھی نہیں تھا۔ نوری آباد میں صنعتوں کا جال بچھانے کے لیے بہت ساری زمین دی گئی۔ آج اس نوری آباد تک کئی رہائشی اسکیمیں آگئی ہیں مگر کارخانہ کوئی نہیں، ضیاء الحق کے پاکستان میں ہمارے پاس بیچنے کے لیے بندوقیں تھیں، بارود تھے دہشت گردی تھی ، ہیروئن اور چرس تھی اور جناح کے پاکستان میں ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔
بنیاد وہی ہے کہ کس طرح جمہوری ٹرین کو پٹڑی سے اتارا جائے ، کس طرح لوگوں سے حق حکومت چھینا جائے ، کبھی مذہب کے نام پر،کبھی غداری کے لیبل لگا کہ یہاں پر لوگوں کے لیڈروں کو مارا گیا،کبھی راولپنڈی کی شاہراہوں پر تو کبھی راولپنڈی جیل کے تخت دار پر چڑھایا گیا۔ جلاوطنی تو بہت چھوٹی سی سزا تھی پھر نیب کا کاروبار بنایا گیا، ایک سلیکٹیڈ احتساب تھا سب کا نہیں۔
ضیاء الحق نے جو اتنے خوبصورت شعلہ بیان ، با ضمیر طلبہ سیاست سے ابھر کے جو ملک کے سیاست دان بنتے تھے وہ ڈگر ہی بند کردی ، طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کراچی کو شورش کے حوالے کردیا گیا۔ دیہی اور اربن سندھ میں تضادات پیدا کیے گئے۔ یہ وہ کراچی تھا جس نے ایوب خان کا جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ یہ وہ کراچی تھا جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا۔
اس کراچی کو ایک ایسے بیانیہ کے حوالے کیا گیا جس کا جمہوریت سے کوئی لین دین نہ تھا۔یہ جو جنگ پانی پت پر ہونی تھی واہگہ بارڈر سے آگے اب کے جا نہیں سکتی، اس لیے یہ جنگ اب اسی طرح ہوتی ہے ، کبھی آرمی پبلک اسکول میں قتل عام کر کے تو کبھی مسجد تو کبھی اما م بارگاہوںمیں خود کش دھماکے کر کے۔ غرض کہ کون سی جگہ ہے جو اب محفوظ ہے ان دھماکوں سے۔
پشاور میں خان صاحب کی حکومت جیسے ہی ختم ہوئی م دوسرے دن دھماکے ہوگئے۔ سیکڑوں لوگ مارے گئے۔ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تو گجرات کے قریب خان صاحب کو گولیاں لگیں۔ کسی بھی آزاد ، خود مختار ڈاکٹر نے خان صاحب کی ٹانگ کا معائنہ نہیں کیا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی خان صاحب کی ٹانگ اب بھی ٹھیک نہیں ہوسکی۔
ہم کس سے پوچھیں پشاور کے اس سانحے میں کن کن کے ہاتھوں میں بے گناہوںکا لہو ہے، کون ہے جو اب تک جنرل ضیا الحق کے اس تسلسل سے جڑا ہوا ہے اور کیوں ہے کہ سارے کا سارے کالا کاروبار ، نان ڈاکیومنٹڈ ، ٹیکس چور اور بہت بڑے شرفاء اس گھنائونے کام سے جڑے ہوئے ہیں جن کے قدم اسی طرف جاتے ہیں جس شخص نے پولیس وردی پہن کے ، دھوکا دے کے پشاورکی اس مسجد میں خودکش حملہ کیا تھا۔
2018 سے پہلے جو ہماری اسحاق ڈار پر تنقید تھی اس کی نوعیت وہ خدوخال الگ تھے ، وہ بحث ہی الگ تھی۔ سو روپے پر جو ڈالر کھڑا تھا ، بیس ارب ڈالر زر مبادلہ تھا ، ہم اگر اس معیشت کی تنقید اس طرح کرتے کرتے چلتے تو یقیننا ڈالر کا سوکا نہیں تو ڈیرہ سوکا ہوتا اور ہمارے زرمبادلہ بیس ارب ڈالر سے تیس ارب ڈالر کے ہوسکتے تھے مگر ہمارے پہلوانوں نے جو ہائبرڈ جمہوریت لا کے اس ملک کی نئی راہیں متعین کیں اور پھر ساتھ ساتھ افغانستان میں جو حکومت تبدیل ہوئی اور یہ جو نئی راہیں تھی اور جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو یہ لوگ بہت خوش تھے.
اب تو ہماری معاشی اعتبار سے ایک اور ہی بحث ہوگئی کہ ہم اس وقت معاشی طور پر melt down ہورہے ہیں اور عین اس وقت دہشت گردی بھی بڑھ رہی ہے اور اس پر جو ہائبرڈ جمہوریت سے مستفید ہوئے وہ اسٹیبلشمنٹ کا گلہ پکڑ کے اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حکومت واپس دو تاکہ ہم اس ملک کو اور تباہی کی طرف لے کر جائیں اور دوسری طرف یہ حکومت ہے جن کے لیے اتنی بڑی بد حال معیشت وہ چھوڑ گئے ہیں جو یہ سنبھال نہیں سکتے۔
ڈالر 270 پر کھڑا ہے اور افراط زر تیس فیصد کے قریب گھوم رہی ہے اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں اور میں اس وقت جناح کے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہوں ، اس کی گیارہ اگست کی تقریر کی طرف دیکھ رہا ہوں ۔ کتنی دور نکل گیا ہے جناح سے یہ پاکستان ، کتنا ضروری ہے اب کہ ہم جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کی طرف واپس لوٹ چلیں۔ ہمیں جناح کا پاکستان چاہیے، ہمیں فاطمہ جناح کا پاکستان چاہیے، جنرل ایوب ، جنرل ضیاء ، جنرل یحیٰی، جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کا پاکستان نہیں چاہیے۔