مکہ سے مدینہ تک

ہم سب کا ایک ساتھ سارے فرائض کو ادا کرنا میری اس وقتی مگر عملی مجبوری کی وجہ سے بہت مشکل ہو گا

Amjadislam@gmail.com

ہمارے قافلے کے تین مسافر یعنی میں، میری بیگم فردوس اور بیٹا علی ذی شان امجد اس سے قبل بھی کم یا زیادہ بار اس سعادت سے بہرہ مند ہو چکے تھے لیکن میری بہو رابعہ اور پوتوں ابراہیم اور موسیٰ کے لیے یہ پہلا موقع تھا۔

مجھے رش دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم سب کا ایک ساتھ سارے فرائض کو ادا کرنا میری اس وقتی مگر عملی مجبوری کی وجہ سے بہت مشکل ہو گا کہ میری وجہ سے باقی سب لوگوں کو بھی مختلف طرح کے مسائل سے گزرنا پڑے گا۔

سو، میں نے کوشش کی کہ ویل چیئر کے ذریعے ہی طواف اور سعی کی منازل طے کی جائیں تاکہ بچے ان بابرکت لمحوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں لیکن مدینہ روانگی سے ایک رات قبل طریقہ کار میں تبدیلی پیدا کی گئی کہ علی اور رابعہ ایک مزید عمرہ کرنا چاہتے تھے۔

سو، طے ہوا کہ وہ ہم لوگوں کو اس دوسری منزل پر جہاں سے ویل چیئرز کو گزارا جاتا تھا، ایک ایسی جگہ چھوڑ دیں جہاں سے خانہ کعبہ بالکل اور پورے کا پورا سامنے ہو۔ میں ویل چیئر پر اور بچے میرے ساتھ وہاں موجود اسٹولز پر بیٹھ کر عبادت کر سکیں۔

سو، ایسا ہی ہوا اور عبادات اور دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے لیے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے یہ توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں کے لیے بھی اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کر سکوں جنھوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل میں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمہارا حق ہے لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔

مجھے یاد آیا کہ سب سے پہلے عمرے کے موقع پر عمرے اور تہجد سے فراغت کے بعد ہم لوگ فجر کی نماز کے انتظار میں تھے اور اس چھوٹے سے وقفے میں قرۃ العین حیدر، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور میں نے رب کریم کی عظمت اور خانہ کعبہ سے اس کی تمثالی نسبت کے بارے میں ایسی عمدہ اور انوکھی گفتگو کی تھی جس کو کبھی دہرانے کا موقع نہیں ملا۔

اس بار پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ حرم کے صحن میں صرف احرام میں ملبوس زائرین عمرہ کو داخل ہونے کی اجازت تھی، باقی سب مقامی یا عام کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو نماز کے لیے دوسری منزل پر جانا پڑتا تھا۔ یہ اصول غالباً اس لیے وضع کیا گیا کہ اب سارا سال عمرے والوں کا رش لگا رہتا ہے اور انھیں صحن حرم میں طواف کے لیے جانے کا رستہ بہت مشکل سے ملتا تھا، خواتین البتہ بوجوہ اس شرط سے آزاد تھیں۔


ہمارا ہوٹل Fairmont ہر اعتبار سے اچھا اور حرم سے قریب تر تھا مگر لفٹوں کا نظام اچھے بھلے پڑھے لکھے آدمی کو چکرا دیتا تھا کہ آپ کو اپنے کمرے تک پہنچنے کے لیے دو دو لفٹیں بدلنا پڑتی تھیں اور اس پہلی لفٹ تک رسائی اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی کہ وہاں لفٹوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کم پڑھے لکھے یا فائیواسٹار ہوٹلوں کے آداب اور طریقوں سے ناواقف لوگ کیسے اس صورت حال سے نباہ کرتے ہیں۔

''میزاب'' کے نمایندے عزیزی احمد نے اپنی نوکری سے بھی زیادہ ہمارا خیال رکھا اور آمد کے لمحے سے لے کر وہاں سے رخصت کی گھڑی تک ایک کال پر موجود رہا۔ 31 جنوری کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہم نے اپنی کمپنی کی بھجوائی ہوئی گاڑی پر اپنا سامان رکھا اور احمد کو خداحافظ کہہ کر دیارِ نبی کی طرف روانہ ہوئے۔

ڈرائیور ذوالفقار نے بتایا کہ سفر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گا۔ سابقہ تجربات کی نسبت اس بار راستے میں کوئی کچاپکا پٹھان ہوٹل نہیں ملا بلکہ ہماری موٹروے کی طرح مختلف طرح کے سروس ایریاز میں تمام مطلوبہ سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں البتہ غالباً کرایوں کی زیادتی اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے وہ پرانے ہوٹل کہیں نظر نہیں آئے۔ مدینہ منورہ میں ہوٹل Movin Pick کے دروازے پر وہاں کا نمایندہ عزیزی علی عباس ہمارا منتظر تھا۔

بکنگ کے مراحل ایڈوانس میں مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے اچھا کام اس نے یہ کیا کہ دونوں کمرے ساتھ ساتھ کے لیے جو اندر سے ایک بھی کیے جا سکتے تھے۔ معلوم ہوا کہ مسجد نبوی میں بھی اس بار کچھ قوانین بنا لیے گئے ہیں کہ ''ریاض الجنہ'' میں داخلے اور مختصر قیام کے لیے آپ کو موبائل App پر بکنگ کرانا پڑتی ہے جو پاکستانیوں کو خاص طور پر اس لیے بہت کم مل پاتی ہے کہ زیادہ تر ملکوں کے زائرین ویزے کے ساتھ ہی یہ بکنگ کرا لیتے ہیں اور کئی ہفتے ایڈوانس ہونے کی وجہ سے یہ انھیں مل بھی جاتی ہے جب کہ ہم سفر سے ایک دو دن قبل اس کے لیے کوشش کرتے ہیں اور چونکہ ہمارے زیادہ تر زائرین موبائل App سے آشنا بھی نہیں ہوتے اس لیے بمشکل پانچ فیصد لوگ اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں جب کہ خواتین کا تناسب تقریباً صفر ہے۔

سو، میں اور علی تو ہو آئے مگر فردوس اور رابعہ کو داخلہ نہ مل سکا۔ فردوس تو چار پانچ دفعہ اس سعادت سے بہرہ ور ہو چکی ہے اس لیے اس کے لیے تو صبر کرنا ممکن تھا مگر رابعہ بے چاری تو پہلی بار آئی تھی اور وہ بھی یوں کہ پتہ نہیں دوبارہ موقع ملے یا نہ ملے۔ ظاہر ہے یہ المیہ اور بھی بہت سی خواتین کا ہو گا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اگر عورتوں کو مردوں کے برابر بھی موقع دیا جائے تب بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دو ہزار خواتین ''ریاض الجنہ'' کی زیارت کر سکتی ہیں۔

جب ایک محتاط اندازے کے مطابق عام دنوں میں روزانہ تقریباً بیس ہزار خواتین ایک طرح کے روحانی صدمے سے گزرتی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی حل فی الحال سمجھ میں نہیں آ رہا مگر ہونا ضرور چاہیے کہ ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے زائرین کے لیے یہ محرومی بہت ہی دل شکن ہے۔

مدینہ منورہ میں حسب معمول برادرم ڈاکٹر خالد عباس اسدی سے خوب ملاقات رہی۔ ان کی فیملی کے ساتھ ہم سب نے لنچ بھی کیا اور ریاض الجنہ کی زیارت کے موقع پر بھی وہ میرے اور علی کے ساتھ تھے۔ ان سے مل کر ہمیشہ دلی خوشی ہوتی ہے کہ وہ 40 برس سے اس بابرکت شہر کے مکین ہیں اور دل وجان سے اپنی اور اپنے اہل وطن کی خدمت کرتے ہیں۔
Load Next Story