تمام شرائط قبول آئی ایم ایف کو مطمئن کر دیا گیا
آئی ایم ایف پاکستان کو مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات تقریباً طے پا گئے ہیں۔میڈیا کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے معاشی اصلاحات میں تاخیر، قرضے، مہنگائی میں اضافہ، زرمبادلہ ذخائرمیں کمی کو پاکستانی معیشت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ حکومت ریونیو بڑھائے گی،گردشی قرضہ میں کمی لائی جائے گا، معاشی اصلاحات لائی جائیں گی، انرجی کنزرویشن اور مالی کفایت شعاری کے ذریعے سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔ ایف بی آر نے تقریباً 300 ارب روپے کے نئے ٹیکسیشن اقدامات کی تجاویز سے بھی آگاہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے سیلاب کے نقصانات،گردشی قرضے اور دیگر نقصانات کے باعث پانچ سے ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے اضافی ریونیو اور نان ٹیکس ریونیو اقدامات کی تجویز دی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں اقتصادی جائزے پر مذاکرات جاری رہے، اگلے ہفتے پالیسی سطح کے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کو آیندہ ہفتے ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس میں سگریٹس، مشروبات اور فضائی ٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے، بینکوں کی آمدن پر لیوی لگانے سے مجموعی طور پر تین سو ارب روپے کے لگ بھگ کے اضافی ریونیو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ جتنے اقدامات پر اتفاق ہوگا، اس کے مطابق ریونیو اقدامات شامل کیے جائیں گے۔
مذاکرات میں ایف بی آر کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منی بجٹ کے اقدامات، پاور سیکٹر کے گردشی قرضے میں کمی کے لیے نظر ثانی شدہ ڈیبٹ مینجمنٹ پلان،بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئے۔
آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ نظرثانی شدہ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان، پاور ہولڈنگ کمپنی کو مارک اپ کی ادائیگی اور 285ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے ری فنانسنگ کی سمری بھی ای سی سی کو بھجوائی جاچکی ہے جب کہ گریڈ سترہ تا بائیس کے سول سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے حوالے سے پہلے ہی رولز کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔
مذاکرات میں بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات سے 10روپے فی یونٹ تک اضافے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق بجلی ٹیرف میں مارچ تک 3 روپے فی یونٹ، جب کہ مئی تک مزید 70 پیسے اضافے کی تجویز ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ تو تشکیل پا جائے گا لیکن جب اس معاہدہ کی شرائط پر عملدآمد کیا جائے تو عوام خصوصاً مڈل کلاس پر مالی بوجھ بہت بڑھ جائے گا۔چھوٹے کاروباری طبقے پر بھی مالی بوجھ اس کی مالی سکت سے زیادہ ہوجائے گا۔
اب تک تو حکومت کے معاشی حکمت کاروں کی توجہ صرف آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے پر ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح معاہدہ طے پا جائے۔لیکن اس معاہدے کے آفٹرایفکٹس سے کیسے عہدہ برا ہونا ہے،اس پر متبادل حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
سرکاری اخراجات میں کمی لانے کے حوالے سے بھی محتاط پالیسی اختیار کی جارہی ہے،افسرشاہی کی مراعات میں کمی لانا سرکار کے بس میں نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی کئی سیکٹر ایسے ہیں،جہاں ٹیکس عائد کرنا حکومت کے لیے مشکل ہے ،اس لیے آخر کار آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ ملک کے عام طبقوں پر ڈالا جاتا ہے۔
پاکستان کو معاشی بحالی اور ترقی کے لیے متبادل پلان کی ضرورت ہے۔ اب تو آئی ایم ایف راضی ہوگیا ہے لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔پاکستان کو اس موقع کو آخری موقع جان کر مستقبل کی معاشی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی ۔ ہمیں امپورٹ اکانومی کے بجائے ایکسپورٹ اکنامک کی طرف جانا ہوگا کیونکہ برآمدات زرمبادلہ کماتی ہیں جب کہ درآمدات زرمبادلہ باہر لے کر جاتی ہیں۔
پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے، کاروباری سرگرمیوں کی رفتار سست پڑتی ہے ، توانائی کے مختلف ذرایع کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین ہی نہیں کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ، زرعی شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ پیداواری اخرجات بڑھ جاتے ہیں۔
ماضی میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔ '' پائے رفتن ، نہ جائے ماندن '' کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں۔ ہماری ریاستی مشینری ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتی آرہی ہے لیکن ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے تناظر میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔
کیا ایک غریب اور بدحال ملک کی نوکر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہماری معیشت کے لیے ناسور ہے، افغانستان کالے دھن پر چل رہا ہے، وہاں حکومت کی جوابدہی کا نظام موجود نہیں ہے، معیشت کی کوئی سمت یا اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ٹیکس سسٹم موجود ہے، اس قسم کی معیشت جہاں بھی ہوگی ، وہ ہمسایہ معیشتوں کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کرے گی۔
افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ صومالیہ افریقہ کا افغانستان ہے ، اس کی وجہ سے کنییا، نائیجیریا اور دیگر ممالک کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے ۔یمن کی معیشت سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہی ہے ۔
آئی ایم ایف پاکستان کو مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ حکومت ریونیو بڑھائے گی،گردشی قرضہ میں کمی لائی جائے گا، معاشی اصلاحات لائی جائیں گی، انرجی کنزرویشن اور مالی کفایت شعاری کے ذریعے سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔ ایف بی آر نے تقریباً 300 ارب روپے کے نئے ٹیکسیشن اقدامات کی تجاویز سے بھی آگاہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے سیلاب کے نقصانات،گردشی قرضے اور دیگر نقصانات کے باعث پانچ سے ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے اضافی ریونیو اور نان ٹیکس ریونیو اقدامات کی تجویز دی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں اقتصادی جائزے پر مذاکرات جاری رہے، اگلے ہفتے پالیسی سطح کے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کو آیندہ ہفتے ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس میں سگریٹس، مشروبات اور فضائی ٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے، بینکوں کی آمدن پر لیوی لگانے سے مجموعی طور پر تین سو ارب روپے کے لگ بھگ کے اضافی ریونیو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ جتنے اقدامات پر اتفاق ہوگا، اس کے مطابق ریونیو اقدامات شامل کیے جائیں گے۔
مذاکرات میں ایف بی آر کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منی بجٹ کے اقدامات، پاور سیکٹر کے گردشی قرضے میں کمی کے لیے نظر ثانی شدہ ڈیبٹ مینجمنٹ پلان،بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئے۔
آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ نظرثانی شدہ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان، پاور ہولڈنگ کمپنی کو مارک اپ کی ادائیگی اور 285ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے ری فنانسنگ کی سمری بھی ای سی سی کو بھجوائی جاچکی ہے جب کہ گریڈ سترہ تا بائیس کے سول سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے حوالے سے پہلے ہی رولز کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔
مذاکرات میں بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات سے 10روپے فی یونٹ تک اضافے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق بجلی ٹیرف میں مارچ تک 3 روپے فی یونٹ، جب کہ مئی تک مزید 70 پیسے اضافے کی تجویز ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ تو تشکیل پا جائے گا لیکن جب اس معاہدہ کی شرائط پر عملدآمد کیا جائے تو عوام خصوصاً مڈل کلاس پر مالی بوجھ بہت بڑھ جائے گا۔چھوٹے کاروباری طبقے پر بھی مالی بوجھ اس کی مالی سکت سے زیادہ ہوجائے گا۔
اب تک تو حکومت کے معاشی حکمت کاروں کی توجہ صرف آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے پر ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح معاہدہ طے پا جائے۔لیکن اس معاہدے کے آفٹرایفکٹس سے کیسے عہدہ برا ہونا ہے،اس پر متبادل حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
سرکاری اخراجات میں کمی لانے کے حوالے سے بھی محتاط پالیسی اختیار کی جارہی ہے،افسرشاہی کی مراعات میں کمی لانا سرکار کے بس میں نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی کئی سیکٹر ایسے ہیں،جہاں ٹیکس عائد کرنا حکومت کے لیے مشکل ہے ،اس لیے آخر کار آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ ملک کے عام طبقوں پر ڈالا جاتا ہے۔
پاکستان کو معاشی بحالی اور ترقی کے لیے متبادل پلان کی ضرورت ہے۔ اب تو آئی ایم ایف راضی ہوگیا ہے لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔پاکستان کو اس موقع کو آخری موقع جان کر مستقبل کی معاشی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی ۔ ہمیں امپورٹ اکانومی کے بجائے ایکسپورٹ اکنامک کی طرف جانا ہوگا کیونکہ برآمدات زرمبادلہ کماتی ہیں جب کہ درآمدات زرمبادلہ باہر لے کر جاتی ہیں۔
پاکستان میں شرح سود پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے، کاروباری سرگرمیوں کی رفتار سست پڑتی ہے ، توانائی کے مختلف ذرایع کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین ہی نہیں کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ، زرعی شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ پیداواری اخرجات بڑھ جاتے ہیں۔
ماضی میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔ '' پائے رفتن ، نہ جائے ماندن '' کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں۔ ہماری ریاستی مشینری ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتی آرہی ہے لیکن ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے تناظر میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔
کیا ایک غریب اور بدحال ملک کی نوکر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہماری معیشت کے لیے ناسور ہے، افغانستان کالے دھن پر چل رہا ہے، وہاں حکومت کی جوابدہی کا نظام موجود نہیں ہے، معیشت کی کوئی سمت یا اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ٹیکس سسٹم موجود ہے، اس قسم کی معیشت جہاں بھی ہوگی ، وہ ہمسایہ معیشتوں کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کرے گی۔
افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ صومالیہ افریقہ کا افغانستان ہے ، اس کی وجہ سے کنییا، نائیجیریا اور دیگر ممالک کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے ۔یمن کی معیشت سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہی ہے ۔
آئی ایم ایف پاکستان کو مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدے کا چیلنج تو پورا کر لیا ہے لیکن حکومت کے اصل چیلنجز تو ابھی شروع ہونے ہیں۔