مریم نواز کے دَورے مخالفتیں اور مہنگی روٹی
مریم نواز شریف پارٹی کو اِس صحرائے تیہ سے نکال کر منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں
سفاک اور نامہربان موسم میں محترمہ مریم نواز شریف کی لندن سے واپسی ہُوئی ہے۔ جس دن انھوں نے لندن سے لاہورمیں قدم رنجہ فرمایا،اُسی روز پٹرول کی قیمت میں 35 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا۔ یوں اُن کے سیاسی حریفوں نے طنز کیا:'' بی بی مریم نواز کو لندن سے پاکستان واپسی پر35توپوں کی سلامی دی گئی ہے۔''
عجب اتفاق ہے کہ اسی روز ہی پاکستان میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا۔ اوردوسرے روز پشاور میں ایک سفاک خود کش حملہ آور نے 100سے زائد افراد کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔اُسی دن یو اے ای کے صدر، جناب محمد بن زید النہیان، کا 2 روزہ دَورۂ اسلام آباد ملتوی ہو گیا۔ اِس دَورے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی اونچی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔
وزٹ کی تنسیخ سے مگر حکومت کی پیشانی پر ندامت اور ناکامی کا داغ لگا ہے۔ کبھی عمران خان کے دھرنوں کے کارن چینی صدر دَورۂ پاکستان منسوخ کر دیتے ہیںاور کبھی کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب متحدہ عرب امارات کے صدر صاحب اپنا دَورۂ پاکستان پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔کیسے کیسے سیاستدان اور حالات ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں!
حیرت ہے کہ اِس بار پٹرول کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے پر مریم نواز شریف نے کوئی احتجاج کیا نہ کسی پر ناراضی کا اظہار کیا ہے، حالانکہ جب پچھلی بار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا تو مریم نواز شریف ناراض بھی ہوئی تھیں اور یہ بھی کہا تھا کہ لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی اس اضافے پر مضطرب ہو کر مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے ہیں۔ مگر اب وہ خاموش ہیں۔ کیوں؟
غریب عوام پر اسحاق ڈار کے پٹرول بم گرائے جانے پر مریم نواز شریف کی یہ خاموشی جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ ڈالر اب پونے تین سو روپے کی تباہ کن سطح کو چھو رہا ہے اور اتحادی حکومت اسحاق ڈار کو پوچھنے کے بجائے عمران خان کو کوسنے دے رہی ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ مریم نواز شریف نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اسحاق ڈار کی تمام مالی پالیسیوؤں کی حمایت کی ہے۔ایسے میں پھر عوام مریم نواز شریف کے حق میں نعرے کیونکر بلند کر سکتے ہیں؟ اُن کی آواز میں اپنی آواز کیسے ملا سکتے ہیں؟
مریم نواز صاحبہ نے پارٹی سیکریٹریٹ میں اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے تفصیلی میٹنگ کی ہے لیکن اُن کی سوشل میڈیا ٹیم میں کوئی خاص توانائی نظر آتی ہے نہ کوئی خاص کمٹمنٹ۔ اس میٹنگ کے بعد مریم نواز صاحبہ، بطور پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر، تنظیمی و طوفانی دَوروں پر نکل چکی ہیں۔ اعلان شدہ شیڈول کے مطابق: وفاقی دارالحکومت کے ساتھ وہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور پنجاب کے 10 بڑے شہروں کا دَورہ کریں گی۔
یکم فروری کو اُن کا بہاولپور میں اوّلین وزٹ ہو چکا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف نے بہاولپور کا شاید سب سے پہلے اس لیے انتخاب کیا کہ پنجاب کے گورنر ، جناب بلیغ الرحمن، کا تعلق اِسی شہر سے ہے۔ 5فروری کو محترمہ ملتان کا دَورہ بھی کر چکی ہیں۔کچھ بدنظمیوں کے باوجود بہاولپور اور ملتان کے دَورے کامیاب رہے ہیں۔اب وہ بالترتیب ایبٹ آباد، اسلام آباد،ڈی جی خان، راولپنڈی،سرگودھا،ساہیوال، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد کے دَورے کریں گی۔
مریم نواز شریف کو عوام سے رابطہ مہم میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ قدم قدم پر انھیں وہ کانٹے چُننے پڑ رہے ہیں جو معاشی و مالیاتی حکمت کاروں نے اُن کے راستے میں بچھا دیے ہیں۔پنجاب کے ان تنظیمی دَوروں میں عوام مریم نواز شریف سے ضرور بار بار پوچھیں گے کہ روٹی 25روپے اور نان 30 روپے کا کیوں ہے؟ بجلی اور گیس نے عوام کی کمر کیوں توڑ رکھی ہے؟
پٹرول مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کے کمر توڑ کرایوں نے تو عوام کی کمر ہی توڑ کررکھ دی ہے۔ شومئی قسمت سے اب تو مریم نواز نے بھی کہہ دیا ہے کہ ''آئی ایم ایف معاہدے کے باعث ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔
جب تک جناب محمد نواز شریف واپس پاکستان نہیں آتے،مریم نواز شریف صاحبہ ہی نون لیگ کے لیے تقویت اور اُمید کی کرن ہیں ۔ اُن کی توانا آواز نون لیگی ووٹروں اور سپورٹروں کے لیے پُر کشش ہے۔ وہ مقامی اور عالمی میڈیا کو بآسانی فیس کر سکتی ہیں۔ غیرملکی میڈیا میں اُن کا امیج بھی، فی الحال، بہتر ہے۔ انھیں مگر اپنے میڈیا معاونین اور سوشل میڈیا واریئرز کے انتخاب میں بے حد احتیاط برتنا ہو گی۔
مریم نواز سوشل میڈیا کی سائنس اور طاقت سے خوب واقف ہیں؛ چنانچہ وہ اس ہتھیار کو اپنے لیے اور پارٹی کے استحکام کے لیے مناسب اسلوب میں بروئے کار لا سکتی ہیں۔ اگر محمد زبیر ایسے کمزور لوگ اُن کے مسلسل ترجمان رہیں گے تو پھر ہم وقت سے پہلے نتیجہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
مریم نواز کو ایسی شخصیات سے بچنا ہوگا جو کل تک عمران خان کی پارٹی میں شامل تھے اور نون لیگی قیادت بارے تبرّا کرتے تھے اور اب وہ پی ٹی آئی سے نکال باہر کی گئی ہیں تو وہ مریم نواز شریف کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔عظمیٰ کاردار اس کی ایک مثال ہے۔
مریم نواز شریف کے پنجاب کے دَورے انھیں سیاسی و انتخابی طور پر مضبوط و مستحکم کریں گے۔ پارٹی پر اُن کی گرفت بھی مضبوط ہو گی اور وہ براہِ راست پنجاب بھر کے الیکٹ ایبلز سے متعارف بھی ہو سکیں گی۔ مریم نواز شریف کے پنجاب بھر کے یہ دَورے اس لیے بھی نون لیگ کے لیے ناگزیر اور اہم ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے پنجاب میں صرف عمران خان کی آواز ہر جگہ سنی جا رہی ہے۔
عمران خان کو للکارنے اور جواب دینے والا کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ حمزہ شہباز تو منظر سے بالکل ہی غائب ہو چکے ہیں ۔ وہ چند دنوں کے لیے وزیر اعلیٰ تو بنے مگر پھر اوجھل ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی میں بطورِ اپوزیشن لیڈر بھی وہ اپنا کوئی امپیکٹ پیدا نہ کر سکے ۔ عمران خان کے مقابلے میںحمزہ شہباز ہر لحاظ سے کمزور ثابت ہُوئے ہیں۔ یوں پنجاب میں نون لیگ بیابان میں سرگرداں نظر آتی رہی۔
مریم نواز شریف پارٹی کو اِس صحرائے تیہ سے نکال کر منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ اگرچہ وہ ابھی تک پوری طرح صحتیاب بھی نہیں ہیں اور اندر سے بھی انھیں مبینہ طور پر کئی رُخی مخالفتوں کا سامنا ہے۔ اِن مبینہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود مریم نواز شریف کو آگے بڑھ کر اپنی اہلیت اور قابلیت کا نقش جمانا ہے۔انھیں دوسری جانب APCکے نتائج پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی جو کل 7فروری کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے۔
عجب اتفاق ہے کہ اسی روز ہی پاکستان میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا۔ اوردوسرے روز پشاور میں ایک سفاک خود کش حملہ آور نے 100سے زائد افراد کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔اُسی دن یو اے ای کے صدر، جناب محمد بن زید النہیان، کا 2 روزہ دَورۂ اسلام آباد ملتوی ہو گیا۔ اِس دَورے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی اونچی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔
وزٹ کی تنسیخ سے مگر حکومت کی پیشانی پر ندامت اور ناکامی کا داغ لگا ہے۔ کبھی عمران خان کے دھرنوں کے کارن چینی صدر دَورۂ پاکستان منسوخ کر دیتے ہیںاور کبھی کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب متحدہ عرب امارات کے صدر صاحب اپنا دَورۂ پاکستان پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔کیسے کیسے سیاستدان اور حالات ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں!
حیرت ہے کہ اِس بار پٹرول کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے پر مریم نواز شریف نے کوئی احتجاج کیا نہ کسی پر ناراضی کا اظہار کیا ہے، حالانکہ جب پچھلی بار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا تو مریم نواز شریف ناراض بھی ہوئی تھیں اور یہ بھی کہا تھا کہ لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی اس اضافے پر مضطرب ہو کر مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے ہیں۔ مگر اب وہ خاموش ہیں۔ کیوں؟
غریب عوام پر اسحاق ڈار کے پٹرول بم گرائے جانے پر مریم نواز شریف کی یہ خاموشی جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ ڈالر اب پونے تین سو روپے کی تباہ کن سطح کو چھو رہا ہے اور اتحادی حکومت اسحاق ڈار کو پوچھنے کے بجائے عمران خان کو کوسنے دے رہی ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ مریم نواز شریف نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اسحاق ڈار کی تمام مالی پالیسیوؤں کی حمایت کی ہے۔ایسے میں پھر عوام مریم نواز شریف کے حق میں نعرے کیونکر بلند کر سکتے ہیں؟ اُن کی آواز میں اپنی آواز کیسے ملا سکتے ہیں؟
مریم نواز صاحبہ نے پارٹی سیکریٹریٹ میں اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے تفصیلی میٹنگ کی ہے لیکن اُن کی سوشل میڈیا ٹیم میں کوئی خاص توانائی نظر آتی ہے نہ کوئی خاص کمٹمنٹ۔ اس میٹنگ کے بعد مریم نواز صاحبہ، بطور پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر، تنظیمی و طوفانی دَوروں پر نکل چکی ہیں۔ اعلان شدہ شیڈول کے مطابق: وفاقی دارالحکومت کے ساتھ وہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور پنجاب کے 10 بڑے شہروں کا دَورہ کریں گی۔
یکم فروری کو اُن کا بہاولپور میں اوّلین وزٹ ہو چکا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف نے بہاولپور کا شاید سب سے پہلے اس لیے انتخاب کیا کہ پنجاب کے گورنر ، جناب بلیغ الرحمن، کا تعلق اِسی شہر سے ہے۔ 5فروری کو محترمہ ملتان کا دَورہ بھی کر چکی ہیں۔کچھ بدنظمیوں کے باوجود بہاولپور اور ملتان کے دَورے کامیاب رہے ہیں۔اب وہ بالترتیب ایبٹ آباد، اسلام آباد،ڈی جی خان، راولپنڈی،سرگودھا،ساہیوال، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد کے دَورے کریں گی۔
مریم نواز شریف کو عوام سے رابطہ مہم میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ قدم قدم پر انھیں وہ کانٹے چُننے پڑ رہے ہیں جو معاشی و مالیاتی حکمت کاروں نے اُن کے راستے میں بچھا دیے ہیں۔پنجاب کے ان تنظیمی دَوروں میں عوام مریم نواز شریف سے ضرور بار بار پوچھیں گے کہ روٹی 25روپے اور نان 30 روپے کا کیوں ہے؟ بجلی اور گیس نے عوام کی کمر کیوں توڑ رکھی ہے؟
پٹرول مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کے کمر توڑ کرایوں نے تو عوام کی کمر ہی توڑ کررکھ دی ہے۔ شومئی قسمت سے اب تو مریم نواز نے بھی کہہ دیا ہے کہ ''آئی ایم ایف معاہدے کے باعث ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔
جب تک جناب محمد نواز شریف واپس پاکستان نہیں آتے،مریم نواز شریف صاحبہ ہی نون لیگ کے لیے تقویت اور اُمید کی کرن ہیں ۔ اُن کی توانا آواز نون لیگی ووٹروں اور سپورٹروں کے لیے پُر کشش ہے۔ وہ مقامی اور عالمی میڈیا کو بآسانی فیس کر سکتی ہیں۔ غیرملکی میڈیا میں اُن کا امیج بھی، فی الحال، بہتر ہے۔ انھیں مگر اپنے میڈیا معاونین اور سوشل میڈیا واریئرز کے انتخاب میں بے حد احتیاط برتنا ہو گی۔
مریم نواز سوشل میڈیا کی سائنس اور طاقت سے خوب واقف ہیں؛ چنانچہ وہ اس ہتھیار کو اپنے لیے اور پارٹی کے استحکام کے لیے مناسب اسلوب میں بروئے کار لا سکتی ہیں۔ اگر محمد زبیر ایسے کمزور لوگ اُن کے مسلسل ترجمان رہیں گے تو پھر ہم وقت سے پہلے نتیجہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
مریم نواز کو ایسی شخصیات سے بچنا ہوگا جو کل تک عمران خان کی پارٹی میں شامل تھے اور نون لیگی قیادت بارے تبرّا کرتے تھے اور اب وہ پی ٹی آئی سے نکال باہر کی گئی ہیں تو وہ مریم نواز شریف کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔عظمیٰ کاردار اس کی ایک مثال ہے۔
مریم نواز شریف کے پنجاب کے دَورے انھیں سیاسی و انتخابی طور پر مضبوط و مستحکم کریں گے۔ پارٹی پر اُن کی گرفت بھی مضبوط ہو گی اور وہ براہِ راست پنجاب بھر کے الیکٹ ایبلز سے متعارف بھی ہو سکیں گی۔ مریم نواز شریف کے پنجاب بھر کے یہ دَورے اس لیے بھی نون لیگ کے لیے ناگزیر اور اہم ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے پنجاب میں صرف عمران خان کی آواز ہر جگہ سنی جا رہی ہے۔
عمران خان کو للکارنے اور جواب دینے والا کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ حمزہ شہباز تو منظر سے بالکل ہی غائب ہو چکے ہیں ۔ وہ چند دنوں کے لیے وزیر اعلیٰ تو بنے مگر پھر اوجھل ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی میں بطورِ اپوزیشن لیڈر بھی وہ اپنا کوئی امپیکٹ پیدا نہ کر سکے ۔ عمران خان کے مقابلے میںحمزہ شہباز ہر لحاظ سے کمزور ثابت ہُوئے ہیں۔ یوں پنجاب میں نون لیگ بیابان میں سرگرداں نظر آتی رہی۔
مریم نواز شریف پارٹی کو اِس صحرائے تیہ سے نکال کر منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ اگرچہ وہ ابھی تک پوری طرح صحتیاب بھی نہیں ہیں اور اندر سے بھی انھیں مبینہ طور پر کئی رُخی مخالفتوں کا سامنا ہے۔ اِن مبینہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود مریم نواز شریف کو آگے بڑھ کر اپنی اہلیت اور قابلیت کا نقش جمانا ہے۔انھیں دوسری جانب APCکے نتائج پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی جو کل 7فروری کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے۔