جنگ پھیلنے کا خدشہ

لگتا ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ سرحد کے اس پار بھی لڑی جائے گی

عین اسی روز ایک ہفتہ قبل پشاور پولیس لائنز میں نماز ظہر کی اقامت ہو رہی تھی کہ ایک خود کش حملہ آور نے انتہائی سیکیورٹی زون میں واقع مسجد جس میں سیکڑوں کی تعداد میں پولیس والے نماز ادا کرتے ہیں دھماکا کر دیا جس سے مسجد کی چھت ہی بیٹھ گئی۔

پہلے پہل بتایا گیا کہ شہداء کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی لیکن ہفتے بعد شہداء کی تعداد کم ہو گئی کیونکہ کئی جگہوں پر دو دو دفعہ شہداء کا اندراج ہوا تھا۔ اس دھماکے نے پشاور کے شہریوں کو پھر سے 2009 اور 2014 کی یاد دلا دی۔ 2009 میں مینا بازار جو شہر کے اندرون اور انتہائی گنجان آباد تجارتی علاقے میں واقع ہے دھماکا کرکے سیکڑوں افراد کو زخمی اور شہید کیا۔ پھر ہر روز دھماکے ہونے لگے۔

انتہا اس کی آرمی پبلک اسکول کے دھماکے پر ہوئی جس میں 140 سے زائد پھول مسل دیے گئے۔ مجھے کسٹم کے اورنگزیب ابھی تک یاد آ رہے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے حسن زیب شہید کی جدائی کو گلے سے لگا لیا تھا وہ ہنس مکھ اورنگزیب ہر وقت غمگین رہتا تھا اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا بھی گیا۔ پشاور پولیس لائنز کے دھماکے نے بھی شہر پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

دھماکے کا مقصد بظاہر پولیس کے مورال کو پست کرنے اور سیکیورٹی اداروں کے مابین شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا۔ پولیس پچھلے ایک سال سے دہشت گردوں کا خصوصی ہدف ہے۔ بنوں جیل اس کی واضح مثال ہے۔ جب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت وفاق سے لڑائی اور اس سے پہلے عمران خان کی حکومت بچانے میں مصروف تھی صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہو گئی تھی۔

کابل پر طالبان کے اقتدار پر شادیانے بچانے والی تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت احساس نہیں تھا کہ افغانستان میں تبدیلیوں کے اثرات براہ راست پختونخوا پر ہوتے ہیں۔ جب کابل میں طالبان کا اقتدار قائم ہوا تو ہمارے اس وقت کے وزیراعظم نے تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی پیش کش کی اس پر عمل درآمد بھی کیا اور کئی بڑے طالبان لیڈروں سمیت ہزاروں پیادوں کو معافی ملی۔

ٹی ٹی پی کی پاکستان واپسی اسی معافی کی بدولت ممکن ہوئی۔ پھر جب ایک درجن سے زائد طالبان سوات میں نمودار ہوئے تو کہرام مچانے والوں میں تحریک انصاف سرفہرست تھی۔ ان کے جوان سال رہنما مراد سعید کی وہ جذباتی وڈیو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ مراد سعید نے گزشتہ روز بھی امن مارچ کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ یہ طالبان تو آپ کے دور میں واپس آئے آپ ان کی کسی کارروائی کی مذمت تک نہیں کرتے تو پھر یہ امن مارچ کس لیے اور کس کے خلاف ہے؟


جب وفاقی سطح پر حکومت طالبان کو واپس آنے اور معاف کرنے کی اجازت دیے جا رہی تھی تو ہر وقت عمران خان کے ساتھ ہونے والے مراد سعید کیوں خاموش تھے؟ کابل میں طالبان کی جیت کا جشن مناتے ہوئے یہ کیوں بھول گئے کہ تحریک طالبان افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے کافی ہمدردی رکھتی ہیں اور افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے تحریک طالبان بھی مضبوط ہوں گے؟

تحریک انصاف اور ان کے رہنماؤں سے یہ سوال بھی بنتا ہے جب پچھلے سال سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی تھی تو ان کی صوبائی حکومت سے کیوں کوئی پیش بندی نہیں کی؟ لیکن کیا کریں سارے صوبائی وزراء عمران خان کو خوش کرنے میں لگے ہوئے تھے انھیں صوبے کے حالات سے زیادہ عمران خان کی خوشنودی درکار تھی اسی لیے ہر وزیر روزانہ مرکزی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر بیان دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

پولیس لائنز دھماکے کا مقصد پولیس کا مورال پست کرنا اور اداروں کے مابین شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا جس کا ثبوت دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم ہے جس میں ایک سیاسی جماعت بطور خاص شامل رہی ہے اس خود کش دھماکے کو ڈرون بتایا گیا پھر کہا گیا کہ بم نصب شدہ تھا اور کسی ادارے کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔

پولیس کے جری آفیسر صفوت غیور شہید سے جھوٹ منسوب کیا گیا اور ایک ایسی فضاء قائم کی گئی جیسے خدانخواستہ پولیس یا اداروں نے خود اپنے ان جوانوں کو شہید کروایا ہے۔ لیکن داد کے مستحق ہیں انسپکٹر جنرل آف پولیس پختونخوا جنھوں نے میڈیا کے سامنے آ کر انتہائی جذباتی انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا اور اس پروپیگنڈے کا توڑ کیا۔ خود وزیراعظم اور آرمی چیف نے اس دن دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی جس سے شکوک و شبہات پیدا کرنے والی مہم کو جواب ملا۔

پولیس کے افسروں اور جوانوں نے بھی اس پروپیگنڈے کے خلاف اپنی یکجہتی دکھائی۔ تمام پولیس لائنز میں پولیس افسروں اور اہلکاروں نے وطن سے محبت کے جذبے کا اظہار کیا اور اپنے اندر کسی بھی اختلاف یا شک کی تردید کی۔ دھماکے کے بعد وزیراعظم کی سربراہی میں ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں آرمی چیف دیگر صوبوں کے وزاء اعلیٰ سمیت ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت اعلیٰ عہداروں نے شرکت کی۔

پی ٹی آئی دعوت کے باوجود شریک نہیں ہوئی اگرچہ سرکاری سطح پر دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن ہر سطح پر لینے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن واقف کاروں کا خیال ہے کہ اس بار دہشت گردی کے خلاف کارروائی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی کیونکہ اس وقت تحریک طالبان پاکستان بعض علاقوں میں موجود تو ضرور ہے لیکن ان کی ماضی والی حکومت موجود نہیں جب کہ اب ان کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں تو لازمی ہے کہ وہاں پر بھی ان کے خلاف کارروائی ہو اور امریکا کی جانب سے حالیہ بیانات جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے۔ لگتا ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ سرحد کے اس پار بھی لڑی جائے گی۔
Load Next Story