زاہد مسعود میرے دریا کا دوسرا کنارہ
میری دعا ہے کہ ہمارے زاہد مسعود جس سفر پر نکلے ہوئے ہیں ، وہ اس میں آسودہ ء منزل ہو کے لوٹیں
ہمارے درمیان دریائے چناب بہتا ہے، جس کے ایک کنارے پر شاعر خوش نوا زاہد مسعود کا آبائی شہر ہے اور دوسرے کنارے پر میرا آبائی شہر بستا ہے۔
لیکن برسوں پہلے اس شہر جاہ پرستاں اور اس کی چمکدار زندگی کے فریب میں، جس میں اب ہم اپنے آپ کو ڈھونڈتے اور بھٹکتے پھرتے ہیں، ہم دونوں نے اپنے دریا اور اس کے کنارے آباد اپنی آبائی بستیوں کو الوداع کہہ دیا تھا اور اب اس شہر نا پرساں کی بناوٹی زندگی میں اس طرح جکڑے جا چکے ہیں کہ لاکھ چاہیں تو بھی اپنے آبائی گھروں میں لوٹ نہیں سکتے، اب وہ گھر بھی کہاں رہے ہیں، صرف دھندلے دھندلے کچھ منظر اور مٹے مٹے کچھ چہرے ہیں جو یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں جھلملاتے ہیں۔
لیکن ہم دونوں کیا،کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ 'عمر کے آدھے سال ہم اپنے لیے چند اچھے دنوں کے خوابوں میں اور باقی آدھے سال اپنے بچوں کے دکھ کم کرنے کے خیالوں میں بسر کر دیتے ہیں'۔
زاہد مسعود سے میری پہلی ملاقات1983 میں پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں ہوئی۔ وہ ان دنوں ہوسٹل نمبر18 میں رہ رہے تھے۔ میں ہیلی کالج آف کامرس بی کام پارٹ فرسٹ میں پڑھتا تھا اور ہوسٹل نمبر14کمرہ نمبر38 میں رہتا تھا۔ میرے ساتھ احسن اختر ناز جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے سربراہ بھی رہے، اپنے کسی دوست کی الاٹمنٹ پر رہتے تھے، وہ منشی فاضل کا امتحان پاس کر چکے تھے اور اب انگریزی ساتھ ملا کے بی اے کرنے کی تگ و دو میں تھے۔
زاہد مسعود تعلیم مکمل کرکے کار سرکار سے وابستہ ہو چکے تھے لیکن ہوسٹل لائف کے رومان میں ابھی تک گرفتار تھے اور بدستور ہوسٹل میں ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ ہوسٹلوں میں یہ اس زمانے میں عام سی بات سمجھی جاتی تھی اور کم وبیش سب کمروں میں کوئی نہ کوئی سابق طالب علم رہ رہا ہوتا تھا۔
یہ اتوار کا دن تھا۔ ہفتہ کی رات کو شدید بارش ہوئی تھی جو اب تھم چکی تھی لیکن بوندا باندی جاری تھی۔ بارش کے باعث سردی میں پھر اضافہ ہو گیا تھا ۔ ناز صاحب نے صبح اٹھتے ہی حکم صادر کیا کہ آج ناشتہ کینٹین میں کریں گے، پھر ہوسٹل نمبر18میں زاہد مسعود کی طرف چلیں گے۔ میں زاہد مسعودکو نہیں جانتا تھا۔ کہنے لگے، ' یہ نوجوان شاعر، ہے تو مخالف نظریے کا، لیکن شاعری کمال کی کرتا ہے'۔ پھر انھوں نے زاہد مسعود کی اس زمانے کی غزل کا یہ مشہور شعر پڑھا ؎
رتوں کے ساتھ کبھی بھی مصالحت نہ ہوئی
انا پرست رہے اور بے ثمر ٹھہرے
زاہد مسعود جیسا کہ اس زمانہ میں نوجوان شعرا میں کریز تھا، برنگ فیضؔ طبع آزمانی کرتے تھے۔ اپنے حقیقی رنگ میں جس کا اظہار ان کے شعری مجموعہ '' آدھے راستے میں'' میں ہوا، وہ بہت بعد میں آئے ہیں۔ بہرحال اس روز کینٹین میں ناشتہ کرنے کے بعد ہم زاہد مسعود کے کمرے میں پہنچے۔ ہوسٹل کی اصطلاح میں یہ کمرہ ڈار میٹری کہلاتا ہے، یعنی کم ازکم تین طالب علموں کو مشترکہ طور پر الاٹ ہوتا تھا لیکن زاہد مسعود اکیلے رہتے تھے۔ ناز صاحب اور زاہد مسعود کے درمیان کوئی خاص بے تکلفی نہ تھی۔
زاہد مسعود کی شہرت ترقی پسند شاعر کی تھی، جب کہ ناز صاحب جمعیت کے رکن بلکہ اس کے اشاعتی ادارے کے انچارج بھی تھے۔ بہرحال یہ ملاقات اب تک میرے حافظے پر نقش ہے۔ ناز صاحب اور زاہدمسعود کچھ دیر تک گفتگو کرتے رہے، جس میں میری حیثیت محض ایک خاموش سامع کی تھی۔ یہ جان کے خوشی ہوئی کہ زاہد بہت ہنس مکھ اور خوش طبع آدمی ہیں۔ اس ایک ملاقات کے بعد نیوکیمپس میں زاہد سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
لگ بھگ پندرہ برس بیت جاتے ہیںکہ ایک روز پھر زاہد میری زندگی میں داخل ہوتے ہیں، اس طرح کہ عباس نجمی مرحوم، جو میرے لیے بڑے بھائیوں جیسے تھے اور اب بھی یاد آتے ہیں تو سینہ سلگ اٹھتا ہے، ان کی زاہد مسعود سے گہری دوستی تھی۔ چنانچہ اب جس روز نجمی صاحب سے ملنا ہوتا، تو کہیں نہ کہیں زاہد سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ زاہد مسعود اب بھی ویسے ہی تھے، جیسے پندرہ برس پہلے میں نے ان کو ہوسٹل نمبر 18 میں دیکھا تھا، ویسے ہی خوش مزاج اور ہنس مکھ، کبھی کبھی تو ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں میں پانی چمکنے لگتا تھا۔
نجمی صاحب نے 'سنگت' کے نام سے پنجابی ادارہ قائم کیا تو لوئر مال پر اس کے دفتر میں وہ باقاعدگی سے آتے تھے۔ نجمی صاحب پلاک کے سربراہ بنے تو یہاں بھی ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ مزنگ روڈ پر رانا عبدالرحمن کا ڈیرہ ہمارا مستقل میٹنگ پوائنٹ تھا۔ لیکن پھر ایک روز یہ منڈلی بھی اجڑ گئی۔
نجمی صاحب کو برین ہیمرج ہوا اور اسی عالم فراموشی میں موت انھیں ہمارے بیچ میں سے اچک کر لے گئی۔ پہلی بار میں نے زاہد مسعود کو بہت آزردہ خاطر دیکھا۔ مجھے یاد ہے جنازے کے بعد جب نجمی صاحب کا جسد خاکی ان کے آبائی گائوں لے جانے کے لیے وین میں رکھا گیا، اور وین چلنے لگی تو میرے ساتھ کھڑے زاہد نے سرد آہ بھر کے کہا،'' لو جی نجمی صاحب وی ٹرگئے''۔
2007 میں زاہد مسعود کا شعری مجموعہ '' آدھے راستے میں''میں شایع ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی ان کا ایک مجموعہ شایع ہوچکا تھا اور اس کے بعد بھی تین مجموعے آ چکے ہیں، لیکن حقیقتاً صرف '' آدھے راستے میں'' ہی میں زاہد اپنے پورے شعری وجود اور پورے ادبی قدکے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
زاہد مسعود کی شاعری ایک ایسے شخص کے داخلی المیے کی عکاسی کرتی ہے، جو بہت دور اپنی بستی سے چل کے شہر جاہ پرستاں کے مہکتے ہوئے باغوں میں سستانے کے لیے آتا ہے، اس کی روشنیوں میں رات دیر تک بھٹکنے کی تمنا کرتا ہے، لیکن ایک روز اس پر منکشف ہوتا ہے کہ وہ تو دھوئیں اور شور میں ڈوبے اور دوپہر کے اخباروں کی ردی میں جلتے ہوئے اور گندے پانی کی سڑانڈ میں بسے ہوئے اور لٹیروں کی کراس فائرنگ سے گونجتے ہوئے اس شہر ناپرساں میں ایک بیکار سی زندگی کا سودا کرتا رہا ہے۔
جیسے ہی یہ حقیقت اس پر منکشف ہوتی ہے، اسے اپنے اندر ایک خوفناک خلا کی گونج سنائی دیتی ہے، '' مجھے گھر جانے دو، میں لکڑی کی سیڑھی پر بیٹھ کر رنگ برنگی پتنگوں اور سفید کبوتروں کو دیکھنا چاہتا ہوں، میرے گھر کی پچھلی گلی میں سرسراتی ٹھنڈی ہوا ایک دھانی آنچل اور کھڑکیوں میں سجے پھول میرے منتظر ہیں، شیشم کے تنے پر کھدا ہوا آدھا دن اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کی صندوقچی اور مٹی کے آب خورے میں پڑا واپسی کا تعویز میں وہیں بھول آیا ہوں، مجھے گھر جانے دو''۔
زاہد مسعودسے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں کیونکہ عباس نجمی اب بھی ہمارے درمیان کہیں نہ کہیں موجود ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم اکھٹے نیوکیمپس اپنے ہوسٹل بھی گئے۔ چند سال پہلے پاک ٹی ہاوس گئے لیکن دونوں ہی وہاں سے بوجھل دل کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ اب یہ کمرشل پاک ٹی ہائوس ہے۔ پھر انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ سمن آباد سے ڈی ایچ اے کے 'آباد ویرانے' میں منتقل ہوگئے ہیں۔
اور اب ان کے دوست شرجیل بتا رہے تھے کہ ان دنوں درون ِ ذات سفر پر نکلے ہوئے ہیں اور اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی جستجو میں ہیں اور ہنسنا تو جیسے بھول ہی چکے ہیں ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے، اس سالک کی طرح جو دنیا سے دستکش ہو جاتا ہے اور راہ سلوک میں اپنی توجہ غیر ذات سے مکمل طو ر پر ہٹا لیتا ہے۔
میری دعا ہے کہ ہمارے زاہد مسعود جس سفر پر نکلے ہوئے ہیں ، وہ اس میں آسودہ ء منزل ہو کے لوٹیں، اور دریا ، جو ہمارے درمیان بہتا ہے، جس کے ایک کنارے پر اس کا آبائی شہر آباد ہے ،اور دوسرے کنارے پر میرا آبائی شہر بستا ہے، میں اس کے دوسرے کنارے پر ان کی خوش وخرم واپسی کا منتظر ہوں ؎
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش