پاکستان ’’بی پی او‘‘ کی مدد سے معاشی بحران سے نکل سکتا ہے
’’بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ‘‘ڈالرلانے،روپے کی بے قدری روکنے کاموقع فراہم کرتی ہے
پاکستان ''بی پی او'' کی مدد سے معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔
25 جنوری بروز بدھ کو پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ گراوٹ نے 16 ستمبر 1992 (بروز بدھ) کو برطانیہ میں پاؤنڈ اسٹرلنگ کے بحران کی یاد تازہ کرا دی، جسے مالیاتی منڈیوں میں 'سیاہ بدھ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس دن بینک آف انگلینڈ اپنے تمام وسائل کے ساتھ بھی گرتے ہوئے پاؤنڈ اسٹرلنگ کو بچانے کے لیے مارکیٹ فورسز سے لڑ نہیں سکا اور آخرکار ہار مان لی۔
اسی طرح جب اسحاق ڈار نے سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ لی تو انٹر بینک ریٹ کو کنٹرول کرکے امریکی ڈالر کو 200 روپے کی سطح سے نیچے لانے کے لیے ان کا اصرار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کو اچھا نہیں لگا۔
تاہم خبردار کیے جانے کے باوجود ڈار نے اپنی غیرروایتی پالیسی کو جاری رکھا، جس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں کمی، غیرقانونی حوالہ/ہنڈی نیٹ ورک کی دوبارہ تشکیل، ڈالربلیک مارکیٹ کی ترقی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے جیسے اثرات دیکھنے کو ملے کیونکہ درآمدی سامان لانے والے کنٹینرز بندرگاہ پر پھنس گئے۔
درآمدات کو روکنے کی پالیسی مختصر مدت میں کام کر سکتی ہے لیکن بہت سے غیر ارادی نتائج کے ساتھ جیسے غیرمحفوظ مغربی سرحدوں سے سامان کی اسمگلنگ میں اضافہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ گرتی ہوئی درآمدات کا مطلب محصولات میں کمی بھی ہے،جسے اب آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے منی بجٹ کے ذریعے دوبارہ بڑھانا ہوگا۔
پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہے اور درآمدات کو روکنے سے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پائیدار طریقے سے برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کیے جائیں۔
پاکستان کے لیے بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ (BPO) یعنی خدمات کو برآمد کرنا معاشی نمو کو بہتر بنانے کے علاوہ ڈالر ملک میں لانے کا منفرد موقع بھی فراہم کرسکتا ہے۔ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ''بی پی او'' ان کارکنوں کو ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں قیمتی تجربہ اور تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
یہاں تک کہ مقامی کمپنیاں بھی BPO کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آپریشنل اخراجات کو کم کر سکتی ہیں اور اپنی بنیادی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔ اس سے انہیں عالمی مارکیٹ میں زیادہ مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے اور اپنی برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
اب جب کہ حکومت وقتی طور پر ڈیفالٹ کے خطرے سے بچنے کی کوشش میں آئی ایم ایف کے ساتھ میز پر واپس آگئی ہے، اسے برآمدات کو بڑھانے کے لیے متوازی طور پر کچھ درمیانی اور طویل مدتی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے اور ''بی پی او'' اس کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
حکومت ''بی پی او'' انڈسٹری اور غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے پاکستان کو عالمی بی پی او مارکیٹ میں ایک بڑے کھلاڑی کی پوزیشن دلانے میں مدد کر سکتی ہے، اس کے علاوہ برآمدات کو بڑھانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بھی اس سے مدد لے سکتی ہے۔
25 جنوری بروز بدھ کو پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ گراوٹ نے 16 ستمبر 1992 (بروز بدھ) کو برطانیہ میں پاؤنڈ اسٹرلنگ کے بحران کی یاد تازہ کرا دی، جسے مالیاتی منڈیوں میں 'سیاہ بدھ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس دن بینک آف انگلینڈ اپنے تمام وسائل کے ساتھ بھی گرتے ہوئے پاؤنڈ اسٹرلنگ کو بچانے کے لیے مارکیٹ فورسز سے لڑ نہیں سکا اور آخرکار ہار مان لی۔
اسی طرح جب اسحاق ڈار نے سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ لی تو انٹر بینک ریٹ کو کنٹرول کرکے امریکی ڈالر کو 200 روپے کی سطح سے نیچے لانے کے لیے ان کا اصرار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کو اچھا نہیں لگا۔
تاہم خبردار کیے جانے کے باوجود ڈار نے اپنی غیرروایتی پالیسی کو جاری رکھا، جس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں کمی، غیرقانونی حوالہ/ہنڈی نیٹ ورک کی دوبارہ تشکیل، ڈالربلیک مارکیٹ کی ترقی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے جیسے اثرات دیکھنے کو ملے کیونکہ درآمدی سامان لانے والے کنٹینرز بندرگاہ پر پھنس گئے۔
درآمدات کو روکنے کی پالیسی مختصر مدت میں کام کر سکتی ہے لیکن بہت سے غیر ارادی نتائج کے ساتھ جیسے غیرمحفوظ مغربی سرحدوں سے سامان کی اسمگلنگ میں اضافہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ گرتی ہوئی درآمدات کا مطلب محصولات میں کمی بھی ہے،جسے اب آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے منی بجٹ کے ذریعے دوبارہ بڑھانا ہوگا۔
پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہے اور درآمدات کو روکنے سے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پائیدار طریقے سے برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کیے جائیں۔
پاکستان کے لیے بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ (BPO) یعنی خدمات کو برآمد کرنا معاشی نمو کو بہتر بنانے کے علاوہ ڈالر ملک میں لانے کا منفرد موقع بھی فراہم کرسکتا ہے۔ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ''بی پی او'' ان کارکنوں کو ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں قیمتی تجربہ اور تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
یہاں تک کہ مقامی کمپنیاں بھی BPO کا استعمال کرتے ہوئے اپنے آپریشنل اخراجات کو کم کر سکتی ہیں اور اپنی بنیادی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔ اس سے انہیں عالمی مارکیٹ میں زیادہ مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے اور اپنی برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
اب جب کہ حکومت وقتی طور پر ڈیفالٹ کے خطرے سے بچنے کی کوشش میں آئی ایم ایف کے ساتھ میز پر واپس آگئی ہے، اسے برآمدات کو بڑھانے کے لیے متوازی طور پر کچھ درمیانی اور طویل مدتی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے اور ''بی پی او'' اس کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
حکومت ''بی پی او'' انڈسٹری اور غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے پاکستان کو عالمی بی پی او مارکیٹ میں ایک بڑے کھلاڑی کی پوزیشن دلانے میں مدد کر سکتی ہے، اس کے علاوہ برآمدات کو بڑھانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بھی اس سے مدد لے سکتی ہے۔