صفائی کا عملہ اور معاشرتی دھتکار

ہمارے معاشرے میں صفائی کے عملے کو ’’نچلے درجے‘‘ کا انسان سمجھا جاتا ہے

صفائی کے عملے کو تضحیک اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

صفائی نصف ایمان ہے۔ صفائی کا خیال رکھنے والا اور صفائی کرنے والا یقیناً قابل تعظیم ہے لیکن ہمارے معاشرے میں صفائی کے عملے کو، چاہے وہ سرکاری ملازم ہوں یا پرائیویٹ، ناروا سلوک کا سامنا ہے۔


جاوید مسیح فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں بطور سینیٹری ورکر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ زندگی کے چالیس سے زیادہ قیمتی سال محکمہ صفائی کو دینے کے بعد جاوید مسیح اب مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوانی سے لے کر بڑھاپے تک گلیوں کی صفائی ستھرائی کرنے کے بدلے میں انہیں معاشرے کی جانب سے دھتکار کے سوا کچھ نہیں ملا۔


جاوید مسیح کی ایک بیٹی ایم بی اے کرچکی ہے جبکہ بیٹا گریجویٹ ہے مگر اس کے باوجود انہیں تاحال کسی سرکاری محکمے میں نوکری نہیں ملی۔ جاوید کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بڑا افسر ریٹائر ہوتا ہے تو اسے اعزاز و تکریم کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے، اس کی جگہ اس کے بچوں کو نوکری دی جاتی ہے مگر ہم جیسے لوگ جب نوکری سے فارغ ہوتے ہیں تو اگلے دن ان کےلیے محکمے کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ بچوں کےلیے روزگار تو دور کی بات سینیٹری ورکرز کے بچوں سے لوگ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔



صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی زبوں حالی


پنجاب میں صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے اتحاد لیبر اینڈ سٹاف یونین کے صدر ابرار سہوترہ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں صفائی سے وابستہ افراد کے حوالے سے درست اعداد و شمار ہی دستیاب نہیں۔ کچھ اضلاع میں عملہ صفائی ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے زیر انتظام ہے تو کچھ اضلاع میں میونسپل کارپوریشن اور ٹاؤن کمیٹیوں کے زیر انتظام ہیں، جس کی وجہ سے نہ تو ان کے لیے کبھی سروس اسٹرکچر تشکیل دینے پر غور کیا گیا اور نہ ہی فلاح و بہبود کے کسی منصوبے کا اعلان کیا گیا۔


ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ صفائی کے کام کےلیے زیادہ عملہ ڈیلی ویجز پر بھرتی کیا جائے تاکہ ان کو مراعات نہ دینا پڑیں۔ فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں 600 کے لگ بھگ ملازمین ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں۔ ڈیلی ویجز ملازم اگر اتوار کو بھی چھٹی کرلے تو اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ بیماری کی صورت میں بھی صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو چھٹی کا حق حاصل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے زیادہ تر افراد مجبوری میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی، بیماری ہو یا نامساعد حالات، صفائی کے کام سے وابستہ افراد ہر صورت میں کام کرتے نظر آتے ہیں مگر اس کے باوجود حکومت ان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔



تہواروں کے موقع پر تنخواہوں کی عدم ادائیگی


جمہوری ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری عامر رحمت کا کہنا ہے کہ صفائی کے کام سے وابستہ افراد درجہ چہارم میں بھرتی ہوتے ہیں اور ساری عمر کام کرنے کے بعد درجہ چہارم میں ہی ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ انہیں دیگر محکموں کی نسبت اجرت کم ملتی ہے۔ علاوہ ازیں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں صفائی کے کام کےلیے زیادہ تر ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے افراد کو ترجیح دیتی ہیں، جس کی وجہ سے بھی ان کو پیسے کم ملتے ہیں۔ ایف ڈبلیو ایم سی کے ملازمین مقبول گل اور روش مسیح کا کہنا ہے کہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کے باوجود انہیں تنخواہ وقت پر نہیں ملتی۔ جب سے وہ صفائی کا کام کر رہے ہیں ایسا شاذو نادر ہی ہوا ہوگا کہ مہینے کی پہلی تاریخ تو دور کی بات دس تاریخ تک ہی انہیں تنخواہ مل گئی ہو۔



عزت نفس اور معاشرتی رویہ


جب صفائی کو اسلام میں نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے تو صفائی کرنے والوں سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو صفائی کے پیشے سے وابستہ افراد اکثر پوچھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں صفائی کرنے والوں سے امتیازی برتاؤ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ دل شکنی بھی ہوتی ہے۔


حنیفاں بی بی بیس سال سے زائد عرصے سے بطور سینیٹری ورکر کام کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں شادیوں اور دیگر تقریبات میں صفائی کےلیے بلایا جاتا ہے، اس کے اضافی پیسے تو مل جاتے ہیں مگر جب کھانا دیا جاتا ہے تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ان کو کھانا برتنوں کے بجائے شاپر میں ڈال کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت دکھ ہوتا ہے۔ مگر کیا کریں اپنا اور بچوں کا پیٹ تو پالنا ہی ہے، اس لیے جو ملتا ہے اور جس طرح ملتا ہے اس پر صبر شکر ہی کرنا پڑتا ہے۔



صفائی کے کام سے وابستہ جاوید سندھو کا بھی معاشرے سے ایسا ہی شکوہ ہے۔ جاوید سندھو کا کہنا ہے کہ جب وہ کام پر ہوتے ہیں اور انہیں اگر پیاس لگ جائے تو پانی بھی گلاس میں نہیں ملتا۔ اگر کسی سے پانی مانگ لیا جائے تو وہ بوتل سے پانی گرا کر کہتے ہیں کہ ہاتھ نیچے کرکے پانی پی لو۔ ان رویوں کی وجہ سے ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔



عملہ صفائی کےلیے تضحیک آمیز القابات


صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو چوہڑا اور بھنگی جیسے القابات سے پکارا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ نفرت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے صحافی آصف عقیل کا کہنا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں طویل عرصہ تک ذات پات کا نظام رائج رہا ہے جس کی وجہ سے صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ان کےلیے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے سماجی حوالے سے ان کو کمتر ثابت کیا جاسکے۔ مگر وقت کے ساتھ اب اس میں بہتری آرہی ہے، اب عملہ صفائی کےلیے سینیٹری ورکرز اور ہیلتھ ورکرز جیسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں جبکہ معاشرتی رویے بھی کسی حد تک تبدیل ہورہے ہیں۔


سابق رکن پنجاب اسمبلی میری گل نے سینیٹری ورکرز اور سوئپرز کےلیے ''سوئپرز آر ہیرو'' (swepers are heros) کے نام سے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ میری گل کا کہنا ہے کہ یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وہ لوگ جو صفائی ستھرائی کرکے ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے بچاتے ہیں، ہم ان کے شکر گزار ہونے کے بجائے ان کو کمتر سمجھتے ہیں۔ جب یہ تحریک شروع کی گئی تھی تو وہ لوگ جو صفائی کے کام سے وابستہ ہیں ہمارا ساتھ دینے سے بھی کتراتے تھے اور اب وہ نہ صرف ہمارے ساتھ تحریک میں شریک ہیں بلکہ اپنی تصاویر بھی شیئر کرتے ہیں۔



عملہ صفائی کی بہتری کےلیے ناگزیر اقدامات


حکومت کو چاہیے کہ صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر ان کےلیے سروس اسٹرکچر تشکیل دے۔ پورے ملک میں صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو کسی ایک محکمہ یا اتھارٹی کے زیر انتظام کیا جانا چاہیے تاکہ انہیں ایک جیسی تنخواہ اور مراعات مل سکیں۔ صفائی کےلیے ڈیلی ویجز بھرتی پر پابندی عائد کی جائے۔ صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی ڈیوٹی کو اسپیشل سروس کا درجہ دے کر رسک الاؤنس اور ہیلتھ الاؤنس دیا جائے تو اس سے نہ صرف ان کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے بلکہ سماجی حوالے سے ان سے جو تفریق کی جاتی ہے وہ بھی ختم ہوسکتی ہے۔



سرکاری محکموں کی چشم پوشی


یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے کے پاس صفائی کے پیشے سے وابستہ افراد کے حوالے سے نہ تو درست معلومات موجود ہیں اور نہ ہی کوئی محکمہ اس حوالے سے ذمے داری لینے کو تیار ہے۔ اس حوالے سے معلومات کے حصول کےلیے جن محکموں سے بھی رابطہ کیا گیا، کسی بھی محکمے کی جانب سے درست معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ یہاں تک کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت پنجاب حکومت، محکمہ بلدیات، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ سمیت میونسپل کارپوریشنز کو معلومات کے حصول کےلیے بھجوائی گئی درخواستوں کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story